آریہ
سنسکرت زبان میں آریہ کے معنی بزرگ اور معزز کے ہیں۔ یہ اُس قوم کا نام ہے جو تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل مسیح وسط ایشیاء سے چراگاہوں کی تلاش میں نکلی اور ایران کو پامال کرتی ہوئی پاکستان میں وارد ہوئی اور یہاں کے قدیم مہذب قوموں دراوڑ کو جنوب کی طرف دھکیل کر خود ملک پر قبضہ کر لیا۔ آریاؤں کے کچھ قبیلوں نے یورپ کا رخ کیا اور وہاں جاکر آباد ہوگئے۔
آریہ سفید رنگت، دراز قد اور بہادر تھے کردار کی بلندی اور تنظیم کی صفات ان میں موجود تھیں۔ ابتداء میں ان کا پیشہ گلہ بانی تھا جو رفتہ رفتہ کھیتی باڑی میں تبدیل ہوگیا۔ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ دودھ، مکھن ، سبزیاں، اور اناج عام خوراک تھی۔ میلوں اور تہواروں میں مرد و عورتیں آزادانہ شریک ہوتے تھے۔ سورج، آگ ، پانی، بادل اور دیگر مظاہر قدرت کی پوجا یعنی عبادت کی جاتی تھی ۔ دیوتا کو خوش کرنے کے لیے جانوروں کی قربانی کا رواج تھا۔
حالاتِ زندگی
آریا کے حالات ان کی مذہبی کتاب ’رگ وید‘ میں بھجنوں یا مناجاتوں یا نظموں کی شکل میں ملتے ہیں۔ ان بھجنوں سے ان کی سماجی، مذہبی و سیاسی زندگی کا اندازا لگایا جاسکتا ہے[1]۔
لفظ آریا کا اطلاق ان اقوام پر ہوتا ہے جن کی جلدیں سفید اور بال سیاہ تھے[2] ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو آریای شریف النسل پکارتے تھے۔ جب کہ وہ مقامی لوگوں کو داس اور نشاد کے نام سے پکارتے تھے۔ ہندیورپی زبانوں کی تقابلی لسانیات سے برانڈو نسٹائین (Brand Nistan) جیسے ماہرین نے اندازا لگایا ہے کہ یہ لوگ اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس سے ایران ویورپ کی اقوام پیدا ہوئی ہیں، یا کم از کم اسی لسانی و معاشی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سنسکرت، قدیم فارسی، اوستا، یونانی اور لاطینی زبانوں کے باہمی مطالعہ سے ایسے بہت سے الفاط نکلیں گے جو مشترک ہیں۔ مثال کے طور پر سنسکرت میں پتا، پہلوی میں پدر، یونانی اور لاطینی میں پیٹر بمعنی باپ کے ہیں۔ اس طرح مادر مدر ماتا، میٹر وغیرہ ہیں[3] ۔ فیلپو ساسیٹی (Fileppo Sasitti) اور سر ولیم جونز (Sir William Jones) کے مطابق سنسکرت، فارسی، یونانی، لاطینی، گوتھک (Gothic) اور سلیٹک (Celtic) زبانوں کا سر چشمہ ایک ہی ہے[4]۔
قدیم وطن
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا قدیمی مشترکہ وطن روس کے جنوبی گھاس کے میدان Steep Land ہیں۔ لیکن اس سوال پر ماہرین میں بہت اختلافات ہیں اور اس سلسلے میں مختلف نظریات ہیں۔ اس سلسلے میں برصغیر، وسط ایشاء، یورپ میں ہنگری کے میدان، شمالی یورپ اور ایشیاء میں ٹنڈا کے میدان کا نام لیا جاتا ہے، لہذا اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
چونکہ ہند یورپی زبانوں کی بڑی تعداد یورپ میں پائی جاتی ہیں اور یورپ سے باہر بکھری حالت میں برصغیر و پاک و ہند تک ملتی ہیں، لہذا سرسری مطالعہ سے یہی نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ ہند یورپی (انڈویورپین) قوم کا قدیمی وطن یورپ میں تھا۔ تقابلی لسانیت کی رو سے لتھونیا Lathnia کی زبان Luwin کے بنیادی محاورات اور انڈو یورپین زبان کے مطالعہ سے تیار کردہ مشترکہ محاورات سے قریب ہیں۔ ان دو حقائق کے پیش نظر ہم برصغیر کو انڈویورپین قوم کو وطن قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈویورپین اگر برصغیر کے رہنے والے ہوتے تو وہ پہلے پورے برصغیر کو آریائی تمدن کے زیر اثر لے آتے۔ چونکہ آریائی تمذن برصغیر میں نہ ہونے کے برابر پایا جاتا ہے، اس لئے اس نظریہ میں کوئی وزن نہیں ہے۔
ہربرٹ Herbrett کے مطابق اندو ایرانی ایشیاء میں براہ کوہ کاف داخل ہوئے۔ ایڈورڈ نیروس Adward Nioris کا کہنا ہے کہ اندوایرانی گروہ نے پامیر پلیٹو سے مختلف سمتوں میں ہجرت کی۔ کہا جاتا ہے کہ ۰۵۹۱ ق م انڈویورپین کی شاخ جسے ہم فل حال اندویورپین کہیں گے، اپنے مشترکہ وطن پامیر پنہچی، اور حتی Hattianes جو انڈویورپین زبان بولنے والوں کی قدیم ترین قوم تھی تقریباً 1950 ق م میں اپنے نئے وطن کپادوشہ Copadishia پنہچے۔ لہذا ان دوباتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حتی اور اندوایرانی جو ہند یورپی (انڈویورپین) کی دو شاخیں ہیں، تقریباً ایک عرصہ میں اتنے دور افتادہ مقامات یعنی کپادوشہ اور پامیرسے یکساں فاصلے پر رہتی ہوں گی اور یہ مقام وسط ایشیاءکے سوا دوسرا نہیں ہوسکتا ہے۔ لیتھونیائی زبان کی یہ توجیہ پیش کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسی انڈویورپین گروہ کی زبان ہے، جو اصل قوم سے الگ ہوکر ایک ایسے علاقے میں آباد ہوگئے، جہاں عرصہ دراز تک اس پر خارجی عناصر اثرانداز نہیں ہو سکے۔ یورپ کی دوسری قدیم زبان یونانی ہے [5]۔ یک نسلی گروہ پر اعتراض
مثلاً پرفیسر مجیب لکھتے ہیں کہ یورپ میں سنسکرت کا مطالعہ شروع ہوا اور اس کا پتہ چلا کہ سنسکرت، ایرانی، لاطینی، یونانی اور جرمن ایک ہی اصل سے تعلق رکھتی ہیں، تو ہند جرمانی یا ہند یورپی زبان و تہذیب اور اس تہذیب کو پھیلانے والی آریائی نسل کا تصور قائم ہوا۔ اصل میں یہ تصور ہی بے بنیاد ہے اور آریائی نسل میں کوئی حقیقت میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وہ جسمانی خصوصیات جو آریائی نسل کی پہچان مانی جاتی ہیں اس کثرت سے نہیں پائی جاتی ہیں کہ ان جی آریائی دعویٰ کو تسلیم کرلیا جائے۔ لیکن قومیت کے پرستاروں نے اس عقیدت کے ساتھ آریانسل کے گن گائے کہ ایک دنیا دھوکا میں پڑھ گئی ہے۔ آریاکا لفظ اس قدر رائج ہوگیا ہے کہ غلط فہمی کے اندیشوں کے باوجود اسے ترک کرنا مشکل ہے۔ آریادراصل کسی نسل کا نام نہیں ہے۔ ہم یاد رکھیں کہ یہ سب لوگ گورے نہیں اور قد آور نہیں تھے۔ وہ آریاصرف اس لئے آریا کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے کو آریاکہتے تھے [6]۔ میکس ملر (Max Muller) کا کہنا ہے کہ کلمہ آریاصرف ان کی زبان کی ترجمانی کرتا ہے اس کاکسی نسل یاقوم سے تعلق نہیں ہے [4]۔
آریائی نسل کی وحدت پر اس طرح کے بہت سے اعتراضات کئے گئے ہیں۔ لیکن اس طرح کے کسی اعتراض کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آریائی اقوام کی ہجرت تقریباً چار ہزار سال پہلے ہوئی تھی اور ان اقوام نے ایک ہی گروہ کی شکل میں ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ یہ گروہ کی شکل میں مختلف وقفوں کے ساتھ تقریباََ ایک ہزار سال تک ان کی ہجرت جاری رہی تھی۔ چوں کہ انہوں نے مختلف سمتوں میں ہجرت کی، اس لئے آریا جہاں بھی گئے ان پر وہاں کے لسانی، جغرافیائی، معاشرتی، تہذیبی اور مذہبی حالات اثر انداز ہوئے ہیں اور ان پر مقامی اثر پذیر عناصر کے مطابق ان کی زبان، مذہب، معاشرت اور رنگ و روپ میں تبدیلیاں ہوتی رہیں ہیں، اس لئے بعد میں آنے والے گروہ ابتدا میں ہجرت کرنے والوں کے لئے اجنبی ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود پہلے پہل لسانیت اور بعد میں رسم و رواج اور دوسرے عوامل نے احساس دلایا کہ یہ کوئی واحد نسلی اور لسانی گروہ ہے، جو ایک ہی مسکن اور سرچشمہ سے تعلق رکھتے ہے۔ کلمہ آریاجو اس کی نسلی اور لسانی پہچان ہے اور یورپ سے لیکر برصغیر میں مختلف صورتوں میں رائج ہے۔
آریا کے معانی
آریاکے معانی سنسکرت میں بلند مرتبہ اور معزز کے آئے ہیں۔ یہ معنی غالباً آریوں نے برصغیر میں اپنائے ہیں۔ کیوں کہ وہ مقامی باشندوں کو پشیاجی یعنی کچاگوشت کھانے والے، داس یعنی غلام اور تشا یعنی حقیر کہتے تھے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں خود کو آریاکہتے تھے۔ [7]۔
میکس ملر (Max Muller) کا کہنا ہے کہ کلمہ آریاآر سے مشتق ہے جس کے معانی ہل جوتنے اور زمین کاشت کرنے والے کے ہیں۔ چنانچہ یہ کلمہ کاشتکاروں پر صادق آتا ہے۔ تاریخ میں اس سے مراد کاست کاروں کی وہ قوم جو تقریباََ وسط ایشیاء سے نکلی اوریورپ، ایشاء کوچک اور ہندوستان میں وارد ہوئی [8]۔ عبدالحئی حبیبی کا کہنا ہے کہ آریازراعت پیشہ تھے اور آریامرکب آر اور ہائے نسبتی کا۔ آر کہتے ہیں نوکدار چیز کو جس سے مراد ہل کی پھال کے ہیں، پس آریاکے معنی زراعت پیشہ یا کاشتکار کے ہیں۔ [9]
آریاکی اس تعریف سے بعض محقیقین نے اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آر اور دونوں منفرد نام ہیں۔ آر نوک دار چیز کو کہتے ہیں، جیسے نیزے کی انی، تیر کی نوک، میخ کا نوک دار سرا اور جانوروں کو ہاکنے ولی چھڑی یا لکڑی جس کے سرے پر لوہے کی چھوتی سے میخ لگی ہوتی ہے [10]۔
عبد الحئی حبیبی اور میکس ملر کہنا ہے کہ آریا زراعت پیشہ تھے، یہ کلیہ قدیم زمانے میں ہر قوم پر صادق آتا ہے اور ابتدائی تہذیبوں میں تین پیشہ یعنی، سپہ گری، زراعت اور غلہ بانی معزز ہوتے تھے۔ جبکہ دستکاری غلام یا عورتیں کرتی تھیں، کیوں کی انہیں حقیر پیشہ سمجھا جاتا تھا۔
کوئی بھی کلمہ جو منفرد ہو اکشر ابتدا میں مرکب ہوتا ہے، اس لئے اس میں کسی اختلاف کی ضرورت نہیں ہے، کلمہ آریا بھی اسی طرح آر اور ہائے نسبتی کا مرکب ہے۔ تاہم میں اس سے اختلاف کرتا ہوں کہ آریوں کے نزدیک آر کے معنی ہل یا نوک کے ہوتے تھے۔ اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
ول درراٹ (Will Durant) کے مطابق آریاکے ابتدائی معنی کسان کے ہیں [11] آریا اوئل سے ہی زراعت پیشہ اور گلہ بان تھے، جانوروں کا پالنا اور کھتی باڑی ان کے خاص پیشہ تھے، اسی پر ان کی دولت کا انحصار تھا، وہ گھوڑے اور بیل کے ذریعے زمین کو جوتنا اور نہروں کو سیراب کرنا جانتے تھے، یہ لوگ تجارت پیشہ نہیں تھے۔ یہ کلمے مختلف شکلوں میں ملتا ہے۔ مثلاَََ ایران، آئر، آریانہ، ارش، اور ارسطو وغیرہ، کے علاوہ یہ کلمہ آریا ورت Aryavartta، اریا Aria، آرکوشیہ Arcosia اور ارکوفہ وغیرہ مختلف علاقوں کے ناموں کی صورت میں یہ کلمہ ملتا ہے۔ اوستا میں آرت (Arata) جو رگ وید میں ورت (Varta) آیاہے جس کے معنی خداوند گیتی کے ہیں۔[12]
ایرانیوں کا خداوند گیتی ہی اس کلمہ کی اصل ہے، اس میں ار = زمین اور ت نسبتی ہے، بمعنی ملک زمین یا زمین کے ملک ہیں۔ بر صغیر میں کاشکاروں یا زراعت کا کام کرنے والوں کو ہاری کہاجاتا ہے، بمعنی زمین پر کام کرنے والے زراعت پیشہ۔ یہ کلمہ بھی ’ار‘ سے بنا ہے، غالباً اس کی ابتدائی شکل اری ہو گی۔ کیوں کہ بعض اوقات ’ا‘ ] ہ [ سے بدل جاتا تھا۔ مثلاً ہرات کو کتبہ بہستون میں اریا لکھا ہے۔ یہ قدیم زمانے میں ہریا (Harya)، پھر یہ ہری (Hari) اور یہ بعد میں اس نسبت سے ہرات کہلایا۔ [13]
برصغیر میں کاشتکاروں کی ایک قوم آرئیں ہے جو مسلمان ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ عربی نسل ہیں [14]۔ لیکن ہم ان کے رسوم رواج اور گو توں کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوتا ہے یہ پہلے ہندو تھے اور بعد میں مسلمان ہوئے ہیں۔ [15]۔ یہ بھی کاشکاری کا کام کرنے کی وجہ سے اری کہلاتے ہوں گے، یعنی زمین پر کام کرنے والے زراعت پیشہ اور بعد میں مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے یائے نسبتی ئے میں بدل گیا اور یہ آرئیں کہلانے لگے۔
بالاالذکر بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آریا ار سے نکلا ہے، جس کے معنی زمین کے ہیں اور اس میں یائے نسبتی لگانے سے اس کے معنی زمین والے یا زمین پر کاشت کرنے والے کے ہیں۔
ہجرت
کوئی چار ہزار پہلے آریائی اقوام اپنے مسکن سے نکلیں۔ ان کی دو بڑی شاخیں تھیں۔ ایک شاخ نے یورپ کا رخ کیا اور دوسری ایران کی طرف آئی۔ یورپ جانے ولی شاخ کو ہند یورپی اور ایران کی طرف جانے والی شاخ کو ہندآریائی کہا گیا۔ ہند یورپی شاخ اٹلی،کلٹ اور ٹیوٹان کی طرف بڑھ گئی، اس کا سفر خاصہ لمبا تھا۔ یورپ پہنچتے انہیں آریہ کو کئی صدیاں بیت گئیں۔ البتہ ہند آریائی تھوڑی مدت میں اپنے نئے وطن، جو آرمینا، صغدیہ، فارس اور برصغیر پر مشتمل تھا پہنچ گئے۔ ان ملکوں میں انہوں نے اپنا تمذن اور زبان چھوڑی، لیکن ان کے ساتھ شادی بیاہ نہیں کیا اور خود کو الگ ٹھلک رکھا [8]۔ پامیر کی طرف ہجرت کرنے ولے گروہ کو جو پامیر 1950 ق م پہنچے، ہم انہیں اندو ایرانی کہہ سکتے ہیں۔ پامیر پلیٹو سے ان کی ایک شاخ ایران مین داخل ہوئی، دوسری شاخ براہ افغانستان برصغیر میں داخل ہوئی۔ [16]۔
آبادکاری
ایران میں داخل ہونے والی شاخ کوہ البز و کردستان کی پہاڑیوں کے درمیان اسی سطح مرتفع میں بسی، جو اس کی طرف سے منسوب ہو کر ایرانہ یا ایران Aiyrana or Iran کے نام سے موسوم ہوا۔ ایرانی سطح مرتفع کے اندر آباد ہونے والے قبائل میں قبیلہ ماد (Madd) نے شمالی مغربی گوشہ میں، پارس (Farsa) نے جنوبی حصہ میں اور پارت (Parta) نے شمال مشرقی حصہ میں سکونت اختیار کی۔ یہی وجہ ہے اول الذکر خطہ میدیا Media، ثانی الذکر خطہ فارس (parsa or farsa) اور ثالث الذکر خطہ پارت یا پارتھیا (Partia or Parthia) کہلایا۔ آریوں کی دوسری شاخیں مغربی دروں کو غبور کرتی ہوئی پاک و ہند کی سرزمین میں داخل ہوئیں اور اسے آریہ ورت کے نام سے موسوم کیا۔ یہ گھڑ سوار گورے رنگ کے دراز قد لوگ تھے جو متھرا، ورنا اور اندرا کی جے جے نعرے لگاتے تھے، گوشت کھاتے اور سوم رس پیتے ہوئے اس ذیلی براعظم میں داخل ہونے سے پہلے صدیوں پہلے اپنے آبائی وطن کو چھور کر نئے وطن کی تلاش میں نکلے اور مختلف سمتوں میں پھیل گئے۔ [17]۔
آریاؤں کواپنے نئے وطن میں دو جماتوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ رگ وید میں ان کا داسو Dasyua اور داسا Dasa نام ملتا ہے، اور دوسرے کو نشاد Nishad کا لقب دیا گیا ہے۔ لفظ داسا ایران میں بھی ملتا ہے۔ دارا کے کتبہ میں ایک قوم بنام داہا (Daha) کا ذکر ہے، جو بحیرہ خزر کے ارد گرد آباد تھے۔ قدیم ایرانی میں داہا کے معنی دیہاتی کے ہیں اور اسی کلمہ سے بنا ہے، جس کے معنی دیہات کے ہیں۔ کیوں کہ قدیم ایرانی کا ’ہ‘ سنسکرت کے ’س‘ سے بدل جاتا ہے۔ مثلاً سنسکرت میں سورہ قدیم ایرانی میں ا ئہورہ آیا ہے۔ اس طرح سنسکرت کا داسا ایرانی میں داہا بن گیا۔ گو یہ اشارہ خفیف سا ہے مگر اس سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے، کہ آریاؤں کو ایک ایسی جماعت سے جنگ کرنی پڑی جو دیہات میں آباد تھی۔ یہ دیہات کے معنوں میں شاید حملہ آور تھے اور بعد میں اپنے معنی کھو کر ڈاکوں اور غلاموں کے لئے استعمال ہونے لگا۔ برصغیر کے قدیم ترین حالات رگ ویدکے ابتدائی بھجنوں میں ملتے ہیں۔ اسی دورمیں ہمیں آریاؤں کے ایرانی نژاد بھائیوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ غالباََ انہیں ہجرت کئے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا تھا کہ ان کی کوئی یاد باقی نہ رہی۔ اس لئے ہمیں اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندر سے دور کہیں آباد تھے اور مدنیت کے بعض اصولوں سے نہ واقف تھے۔ زراعت پیشہ اور جانوروں کو پالتے تھے اور مختلف دھاتوں کے استعمال سے بخوبی واقف تھے۔ اس طرح چند اشیاء و آثار اور نیز لسانی مماثلت کے ذریعے ان کے وطن تک پہچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ [18]۔
برصغیر میں آمد
برصغیر میں ہجرت کی تاریخ 1500 ق م بتائی جاتی ہے۔ یہاں اس سر زمین پر ان کی آباد کاری میں قدرتی اور معاشرتی عناصر کا بڑا ہاتھ تھا۔ آریابرصغیر میں فوج کی صورت میں نہیں حملہ آور ہوئے، بلکہ قبیلے اور خاندان ایک کے بعد ایک آتے رہے۔ گویا آریا سیلاب کی وہ لہریں تھیں جو ایک کے بعد ایک آرہی تھیں اور ان کا ترک وطن کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا، وہ گرہ در گروہ کی شکل میں مختلف اوقات میں مختلف سمتوں میں پھیل گئے۔ پاک وہند کی سرزمین پر ان کا ورد صدیوں تک جاری رہا اور ان کے مختلف قبیلے مختلف اوقات میں یہاں آباد ہوئے [19]۔
یہاں آباد ہونے والے چند قبایل کے نام رگ ویدمیں ملتے ہیں۔ ان سب سے مشہور قبیلہ بھارت (Bhart) ہے، جس کے نام پر اس ملک کا نام بھارت پڑا، جو سروتی اور جمنا کے کنارے آباد ہوا تھا۔ اس کا حلیف سریجنی Sirngaya تھا۔ اس کے علاوہ پورو (Puro)، یادو (Yado)، تروسا (Turvasa)، انو Anu اور درینیو (Drunyu) قبائل کے نام ملتے ہیں، جن کو قبائیلی اہمیت حاصل تھی۔ انہوں نے بھارت اور اس کے حلیف سرنجنی قبیلے سے خوفناک جنگ کی اور شکست کھائی۔ اس جنگ کی تفصیل رگ ویدمیں ملتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قبائل میں پرانی عداوت تھی، جو یہاں آنے کے بعد شدت اختیار کرگئی۔ یعنی وہ اوئل سے ہی دو مخالف گروہ میں بٹے ہوئے تھے اور آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے وہ یہاں کے باشندوں کو مغلوب کرنے کے بعد بھی سیاسی اتحاد قائم نہیں کرسکے اور ہمیشہ ٹولیوں اور جاتوں میں مستقیم رہے۔ اس باہمی کشمکش کے ساتھ انہیں یہاں کے باشندوں کے ساتھ مزید جنگیں کرنی پڑیں۔ جن کا سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہا، جس کی کچھ تفصیل ویدوں میں ملتی ہے۔ [20]۔
آریاترک وطن کرکے نئے وطن کی تلاش میں نکلے تھے، اس لئے وہ آباد شدہ لوگوں کی نسبت پرجوش اور بے باک تھے۔ آشوریوں کی طرح وہ بھی اپنے دشمنوں پر رحم کرنا نہیں جانتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو داسا یعنی چور و غلام، پشا یعنی کچا گوشت کھانے والے درندہ صفت، راکش یعنی دیو و بھوت، دھات (Dhatta) یعنی خبیث روح، آسورہ Asora یعنی بھوت پریت، جیسے توہین آمیز القاب سے پکارتے تھے اور ان سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ جنگ ختم ہوجانے کے بعد بھی ان سے معاشرتی تعلقات قائم کرنا پسند نہیں کرتے تھے [21]۔
رگ ویدمیں ایک ہزار سے زائد بھجن ہیں، جنہیں دس کتابوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ بھجن مختلف دیوتاؤں کی شان میں کہے گئے ہیں، یہ مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے تشکیل دیئے تھے۔ پھر بھی ان کے ذریعے آریاؤں کی زندگی کے بارے میں کافی معلومات ملتی ہیں۔ رگ ویدمیں جو جغرافیائی حوالے ملتے ہیں ان سے اندازا ہوتا ہے کہ یہ بھجن کن علاقوں میں تصنیف کئے گئے تھے۔ کابل، سوات، کرم، گومل اور پنجاب کے اہم دریاؤں کے تزکرے سے اندازا ہوتا ہے ان لوگوں نے افغانستان اور پنجاب پر قبضہ کرلیا تھا۔ چونکہ جمنا (یمنا) کا حوالہ صرف ایک بار اور گنگا کا تذکرہ تین بار ہے، لہذا کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کے سرحدی علاقے تھے اور وادی گنگا ان کے اقتدار سے باہر تھی [22]۔ دریا ئے کھیاد (کابل)، سواکتو (سوات)، ششوماں (سواہاں)، وناستا (جہلم)، وشکنی (چناب)، پرم شری (راوی)، ویاس (بیاس)، سوردی (ستلج)، کا ذکر رگ وید میں ملتا ہے [23]۔
آریاؤں نے پنجاب و شمالی مغربی علاقے کو رگ وید میں سندھو کہا ہے۔ جب کہ اوستا میں اس سر زمین کو ہپتہ ہندو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین پکارا گیا ہے۔ اسی نسبت سے ایرانی اس سرزمین کو ایرانی ہند پکارتے ہیں۔ سنسکرت کے س کو ایرانی ہ بولتے تھے[24]۔ قدیم آریائی دریاکو سین اور سون کہتے تھے اور آج بھی پاکستان اور شمالی مند وراجپوتانہ کے بہت سے دریا سندھ اور سون کے نام سے موسوم ہیں [25]۔
تنظیم و معاشرہ
آریاؤں میں خاندان اور معاشرے کی بنیاد تھی اور کوئی درمیانی تفریق فرد یا حکومت نہیں تھی۔ خاندان کے اوپر حکومت تھی اور خاندان کے نیچے کوئی اور چیز نہیں تھی۔ کیوں کہ اس وقت شخصی حکومت کا وجود نہیں تھا اور خاندان کا کوئی فرد اپنے آبااجداد سے جدا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ فرد کوئی چیز نہیں تھا، فرد کوئی خالص انسان نہیں تھا، بلکہ وہ ماں باپ کی اولاد اور اس کے پیچھے کی پشتیں، جن سے وہ پیدا ہوا ہے اور اس کے آگے کی وہ جھولیں جو اس کے بعد آنے والی ہیں۔ آریوں میں باپ کا احترام اس لئے نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ باپ ہے بلکہ اس احترام کے پیچھے وہ پرکھے بھی شامل ہیں، جن سے یہ خاندان وجود میں آیا [26]۔
آریاؤں میں مذہب سے مراد گویا قوم اور خاندان کی پرستش تھی۔ آبا اجداد دیوتاؤں کا درجہ رکھتے تھے۔ شادی اور توالد وتناسل مذہبی و متبرک افعال تھے۔ باپ کا ماں کے ذریعے بچے میں جانا، گویا اگنی یعنی پوتر آگ کا جو مادہ اخلاق اور عالم کا بنانے والا ہے۔ انسانی جسم سے گزر کر نسل کی بقا دائمی سے گزر نا ہے۔ اپنے آپ کو غیر قوم سے ملانا یا بلا بیٹا چھوڑے مر جانا آریوں میں مصیبت عظمیٰ سمجھا جاتی تھی۔ قوم سے بے قوم ہونا گویا سلسلہ آبا اجداد کو قطع کردینا، جو کل آریوں کو اگنی سے ملاتا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہوجاتا تھا اور دیوتا کبھی اس کی التجا نہیں سنتے ہیں۔ گویا دوسری قوم سے تعلق پیدا کرنا دائمی لعنت کا طوق اپنی گردن میں پہنا ہے [27]۔
آریوں میں وارث وہی بنتے ہیں جو نسلا ً درست ہوتے ہیں۔ بلا بیٹا چھوڑ ے مر جانا نہایت دردناک نتائج پیدا کرتا تھا۔ بیٹے کے ذریعے آبا و اجداد کی روح کو حیات جاویدانی ملتی تھی۔ کیوں کہ وہ ان کی پرستش کرتا تھا اور انہیں چڑھاوے چرھاتا تھا۔ اگر یہ پرستش نہ کی جائے اور چڑھاوے نہیں جرھائے جائیں، تو متروں یعنی مرنے والوں کی روح تلف ہوجاتی ہیں اور خاندان مٹ جاتا ہے۔ لڑکیاں تو دوسرے خاندانوں کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگتی ہیں، وہ جن پرکھوں کو مانتی ہیں وہ ان کے شوہر کے پرکھے ہوتے تھے اور ماں باپ کے خاندان کے قیام سے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتاہے۔ پس بیٹا چھوڑے مرجانا وہ نہ صرف حیات جاویدانی کھو دیتا ہے، بلکہ اپنے ساتھ پر کھوں کے دور دراز سلسلے کو لے مرتا ہے۔ یہ اتر اگنی جو خاندان کا خالق ہے اور قوم کا خالق ہے اور مرنے کے بعد بیٹا چھوڑنا جزا دینے کے لئے ضروری ہے [28]۔
آریوں کی سماجی تنظیم کی بنیاد گھرانوں پر قائم تھی، ہر خاندان مکان کے اندر آباد ہوتا تھا، جو عموماً بانس اور لکڑیوں کا بنا ہوتا تھا۔ مگر راجہ اور امراء کے لئے گھڑیاں بنی ہوتی تھیں خاندان کی سربراہی باپ کو نصیب تھی۔ بچے اسی سے منسوب سمجھے جاتے تھے۔ مرد عموماً ایک ہی بیاہ کرتے تھے۔ گو کثرت ازواج کی اجازت تھی۔ بیوی کو ہر طرح سے شوہر کا مطیع ہونا پڑتا تھا۔ شادی بیاہ پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ البتہ بھائی بہن کی شادی ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔ جہیز کی رسم بھی تھی اور بیویوں کی قیمت بھی دی جاتی تھی۔ کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو اسے جلدی شادی کرنی پڑتی تھی۔ گویا بیوا کی شادی ممنوع نہ تھی [29]۔
جو شخص خاندان کا سربراہ ہوتا تھا، وہی ملکیتوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ باپ کی زندگی میں بیٹے وارث نہیں سمجھے جاتے تھے۔ خاندانی امور بیوی کے متعلق تھے جو گھر کی ملکہ سمجھی جاتی تھی۔ اسے عموماً عزت سے دیکھا جاتا تھا۔ غلہ پیسنا، کھانا پکانا، برتن دھونا، مکان کو لیپنا اور صاف کرنا کھاتے وقت شوہر کے قریب بیٹھنا اس کی ذمہ داری تھی۔ بعض حالتوں میں خصوصاً اولاد نہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی مذہباً ضروری سمجھی جاتی تھی۔ مذہب نے اس کی اجازت دی ہوئی تھی۔ اگر مرد اس کا اہل نہ ہو تو عورت نیوگ کے ذریعے کسی دوسرے مرد سے اولاد پیدا کرلیتی تھی۔ بیک وقت کئی شوہروں کا رواج بھی تھا [30]۔
شادی عموماً باپ کی پسند سے کی جاتی تھی، وہی بیٹیوں کے رشتے طے کرتا تھا۔ مگر اونچے طبقے کی لڑکیوں کو شوہر کے انتخاب کی آزادی تھی، اور سوئمبر کے موقع پر اپنی پسند یدگی کے مطابق شوہر چن لیتی تھیں۔ شادی کے بالا طریقہ کو گندھردا شادی (Gandhra Marriage) کہتے تھے۔ شادی کے ذکر بالا طریقہ کے علاوہ چھ اور طریقے رائج تھے۔ (1) آسر (Asura) شادی بذریعہ خریداری، (2) راکشہ (Rajhsha) شادی بذریعہ گرفتاری، (3) دان (Diva) شادی بذریعہ بخشش، (4) آرشہ (Arsha) شادی بذریعہ بالجبر، (5) پراجا پتیہ (Prajaptia) شادی بغیر جہیز کے، (6) پسیاچہ (Paisacia) شادی بذریعہ اغوا۔ شادی کے یہ بالاالذکر طریقے رائج تھے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 284)
سیاسی و عسکری تنظیم
آریاخاندانی وحدت کو گراما (Grama) کہتے تھے، اور گھر کے بزرگ کو گرامنی (Gramini) پنجابی کا گرائیں اور اردو کا گھرانا اسی سے مشتق ہے۔ گراما سے بڑی وحدت ویش (Vasha) تھی، اس کے سربراہ کو ویش پتی (Vasha patti) کہا جاتا تھا، اس سے بڑی وحدت گنا یا جن (Gana) تھی، جس کا سربراہ گن پتی (Gana Pati) کہلاتا تھا۔ پورے قبیلے کا نظم و ضبط ایک سمتی (Samttia) کے سپردہوتے تھے۔جس میں قبیلے کے تمام بالغ مرد شریک ہوتے تھے۔ لیکن روزمرہ کے امور ایک سبھا Subha کے سپرد تھے، جس میں فقط گاؤں کے بزرگ شریک ہوتے تھے۔ گاؤں کا مکھیا بھی گرامنی Grameniکہلاتا تھا [31]۔
ان کی بنیادی تنظیم قبائیلی تھی، جو متعدد خاندانوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ اس کی سرداری مورثی تھی، جو کسی خاص خاندان کے افراد میں نسلاً سردار ہوتے تھے۔ ان سرداروں کو راجن (Rajan) کہا جاتا تھا۔ یہ راجن حیقیقتاً سیاسی تنظیم کے سربراہ نہیں تھے، بلکہ عسکری تنظیم کے سردار تھے اور اوائل میں ان سے مراد سپہ سالار ہوا کرتی تھی۔ مگر بعد میں انہواں نے اپنے حلقہ اختیارات کو وسیع کرکے اپنے مقبوضات کو ریاستوں میں تبدیل کردیا، تو وہ صحیح معنوں میں راجہ بن گئے۔ مگر وسعت کے لحاظ سے پھر بھی ان کی ریاستیں مختصر رہیں اور یہ مملکت کے درجہ کو نہیں پہنچ سکیں۔ ان راجاؤں کا پہلا فرض اپنے قبیلے کا تحفظ اور اس کے لئے خورد و نوش کا سامان مہیا کرنا تھا۔ قبیلے ان کی سرداری میں جنگ اور قتل غارت گری کیا کرتے تھے اور بیرونی حملے کی صورت میں ان کی زیر نگرانی اپنا دفاع کرتے تھے [32]۔
راجاؤں کے بعد پرہتوں (Purohits) کا طبقہ تھا، جو مذہبی امورکے علاوہ سیاسی امور بھی انجام دیتا تھا۔ راجاؤں پر پرہتوں کا کافی اثر ہوتا تھا۔ پھر بھی وہ سیاست پر چھائے ہوئے نہیں تھے۔ ان کے اثرات بعد کے برہمنوں کی نسبت بہت کم تھے۔ پروہت کے علاوہ آریوں کی سیاسی تنظیم کا دوسرا اہم سردار سنائی (Sinai) تھا، یعنی فوج (سینا Sina) کا سردار۔ جس کے ماتحت دوسرے عہدے دار تھے۔ فوج تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی، پیادہ، گھڑ سوار اور رتھ سوار۔ ان میں رتھ سواروں کا دستہ سب سے اہم اور کار آمد تھا۔ ان کے جنگی اسلحہ میں تیر کمان، بھالے، برچھے، کلہاڑے اور تلواریں شامل تھیں [33]۔
آریوں کی ابتدائی زندگی نہایت سادہ تھی، اس میں ذات پارت کے گنجلک کی گنجائش نہیں تھی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے قدیم باشندوں پر فاتحانہ انداز انتہائی اقتدار پرستی کا برتاؤ کیا۔ ان سے زمین چھین لی اور انہیں دربدر کردیا۔ لیکن شروع میں ان میں ذات پارت کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ لیکن جیسے جیسے وہ آباد ہوتے گئے ان کی زندگی پیچیدہ ہوتی گئی۔ سماجی تنظیم زیادہ سخت ہوتی گئی۔ پرش سکتا بھجن (Purshashakta) میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ رگ وید کے عہد میں چار ذاتیں ہوگئیں تھیں۔ (1) براہمن Brahman) (2) راجاتیہ Rajatia) (2) ویشہ Vysha) (3) شودر (Shudra)، مستقل ذات پات کے نظام کی بنیاد بن گئیں۔ لیکن سماج کی ابتدائی تنظیم معاشی تھی اور پیشوں پر مبنی تھی اور یہ بنیادی طور پر مستقل ذات پارت کے نظام سے مختلف تھیں، کیوں کہ یہ ذاتیں مورثی نہیں تھیں [34]۔
ذات کی سختیوں نے مدت تک مفتوح قوموں سے ملنے نہ دیا۔ یا اقلاً ان کے میل کو ست کردیا۔ لیکن میل کتنا ہی ست ہو بالآخر بہرو و زمان قوم فاتح کو مفتوح میں غائب کردیا۔ ایک مدت دراز سے ہرچند ہندوستان میں آریوں کا وجود ہی نہیں ہے اور جب ہم محض بیان کی آسانی کے مطابق کہتے ہیں، کہ کوئی قوم آریاہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ان کا رنگ سفید ہے اور یہ یورپیوں سے ملتے ہیں۔ مگر ان کی سفیدی یورپیوں تک نہیں پہنچتی ہے۔ آریوں کا رنگ سفید اور بال سیاہ ہوتے تھے۔ مگر ایک اقلیت سرخ بالوں کی پائی جاتی ہے، یہ سرخ بالوں والی اقلیت آریوں کے زمانے میں موجود تھی، کیوں کہ منو نے انہیں نیچ قوم اقرار دیا ہے اور ان کے ساتھ اعلیٰ طبقات کے ہنود کا شادی بیاہ ممنوع تھا۔ ([35])
آریائی زبان
ہند یورپی زبانیں
قدیم آریائی زبان اس وقت موجود نہیں ہے، تاہم اس کے بہت سے الفاظ موجودہ زبانوں میں مختلف صورتوں اور ہیت میں موجود ہیں۔ قدیم آریائی زبان جس کو ہند یورپی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ جب آریا مغربی اور جنوبی حصوں میں پھیل گئے، تو مختلف علاقوں میں جاکر ان کی زبانوں میں اختلاف ہوتا گیا۔ اب ان زبانوں کی شکل بہت حد تک مختلف ہے، تاہم اس کے الفاظ کی ملتی جلتی صورت سے ان ان کے ایک ہی زبان سے نکلنے کا اندازا لگایا جاتا سکتا ہے۔ آریائی زبان کے چند الفاظ اپنے معنوں کے ساتھ درج کئے جاتے ہیں، جن سے بخوبی اندازا لگایا جاسکتا ہے، کہ ان زبانوں کے ماخذ کیا ہیں۔
اردوسنسکرتفارسیلاطینییونانیجرمنروسیانگریزی
ماںماتامادرماترمیٹرمٹرمیتمدر
باپپترپدرماترپدرماترپیتفادر
بھائیبھراتربرادرفریٹرفریٹڑبرڈربریتبرادر
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مقصود شدہ آریائی زبان کی ایک چھوٹی سی دستاویز دریافت ہوگئی ہے۔ یہ عہد نامہ ہے جو ہتیوں کے بادشاہ مستنیّ کے دیوتا متر اندر اور ورن کا ذکر کیا تھا۔ یہ زبان نہ تو ہند آریائی ہے اور نہ ایرانی بلکہ دونوں کا ماخذ آریائی زبان تھی۔ یہ دستاویز پندھویں صدی قبل مسیح لکھی گئی تھی۔
گریسن کا کہنا ہے کہ آریا ڈھائی ہزار سال قبل مسیح یہ لوگ ایران کے شمالی مغربی علاقے میدیا میں آباد ہوئے۔ پھر کئی صدیوں کے بعد کچھ لوگ وہاں سے نکل کر ہند میں چلے آئے اور ان کی زبان قدیم آریائی سے الگ ہوکر ہند آریائی ہوگئی اور جو لوگ ایران میں رہے گئے ان کی زبان بدلتے ہوئے ایرانی بن گئی۔
قدیم آریائی زبان
قدیم ہند یورپی آریائی اور سنسکرت زبانوں میں اتنی مشابہت ہے کہ معلوم ہوتاہے دونوں زبانیں کسی زمانے میں ایک ہی مشترکہ زبان کی بولیاں تھیں۔ اس زبان کی اصل صورت اہل لسانیات کو براہ راست معلوم نہیں، اس معاملے میں ان کا علم محض استخراجی ہے۔ جو دونوں زبانوں کی مشابہت پر مبنی ہے۔ آریائی زبان کی اس اسختراجی تشکیل کی خصوصیتیں مندرجۂ ذیل تھیں۔
(1) قدیم ہند یورپی زبان میں ’أ، آ، اَے، ۱، او‘ مختلف حروف علت تھے۔ لیکن ان سب کا، حروف علت سنسکرت میں محض ’أ، آ‘ ہوگیا۔ ان حروف کا اختلاف یورپ کی اکثر یورپی زبانوں میں نمایاں ہے۔ مثلاً
حروف علتہند یورپییونانیسنسکرتاوستااردو
أےسیپتمہیپّتَسپتَہسپتَسات
(2) آریائی زبان میں ہند یورپی میں بے رنگ ’ا‘ جس کا تلفظ نہایت کمزور اور غیر واضح ہواکرتا تھا اس کی ’اِ‘ ہو گئی۔ مثلاً
ہند یورپییونانیسنسکرتقدیم فارسیاوستااردو
پترپَتیرپتاپتاپتباپ
(3) اس میں حروف علت ’ا اُ‘ کے بعد ’س‘ کی ’ش‘ ہوگئی تھی۔ مثلاً
لاطینی قدیمسنسکرتاوستا
پنسوِ (میں کچلتا ہوں)پنشبٹی (وہ کچلتا ہے)پنشتو (وہ کچلتا ہوا)
(4) ’اُ‘ کے بعد لفظ ہند یورپی آخری ’س‘ کی ’ح‘ ہوگئی تھی۔ (اس ’ح‘ کو سنسکرت میں ’وسرگَ‘ اخراج کہتے تھے۔) جو قدیم ہند آریائی میں تو برقرار رہی، لیکن اور ایرانی میں حذف ہوگئی، اور لفظ کا آخری ایرانی ’ا‘ یا ’او‘ میں تبدیل ہوگیا۔ مثلاً
ہند یورپییونانیسنسکرتاوستا
منیسیں (دل میں)منیوس (جوش)مسخَ (مَن، دل)مَنو (من، دل)
(5) لفظ کے آخر میں ’ن‘ کے بعد ’ت‘ حذف ہوگیا تھا۔ مثلاً
ہند یورپیسنسکرتاوستامعنی
بھرگنیتب رہنبرزدبڑا
(6) ہند یورپی ’دھ × ت‘ کا ’ز + د‘ بن گیا جو سنسکرت میں تو برقرار رہق لیکن قدیم ہند آریائی میں اپنے پہلے جز ’ز‘ کو بالکل کھو بیٹھا۔ مثلاً
ہند یورپیسنسکرتاوستا
’م۔ ن۔ دھ تا‘ (توجہ)’میدھا‘ (ذہن)’مزدا‘ (یاداشت)
(7) ہندیورپی میں حالت اضافی جمع کی علامت ’اوم‘ تھی۔ آریائی زبان میں ان الفاظ کے بعد جن کے آخر حروف علت تھے، لاحقے ’اوم‘ کا نام بن گیا۔ مثلاً
سنسکرتاوستااردو
’گری ٹرام‘گ اِ رِ کمپہاڑوں کا
(8) ہند یورپی زبان میں فعل مجہول کی علامت کوئی نہیں تھی۔ لیکن آریائی زبان میں مجہول کی تشکیل بذریعہ ’ی‘ بن گئی، جو دونوں زبانوں میں برقرار رہی۔ مثلاً
سنسکرتاوستااردو
’ک۔ رِ يَ۔ تے‘’کرِ یے اتِ‘کیا جاتا ہے
(9) اس زبان میں ’ساتھ، ستر، اسی اور نوے کو ظاہر کرنے کے لئے عدوی الفاظ کی تشکیل میں لاحقے ’تَ ی‘ کا استعمال ہوتا تھا، جو سنسکرت میں برقرار رہا لیکن ایرانی میں ’تی‘ میں تبدیل ہوگیا۔ مثلاً
’شسٹ یَخ’خ۔ ش۔وَشِیتِم‘ساٹھ
’نُوَتَ یَخ‘’نَوَ اتیِم‘نوے
(10) نحوی ترکیب میں حالت اخراجی کا علیت کے معنی میں حالت طرفی کا حالت اضافی معنی میں، حالت مقامی اور اضافی کا حالت مطلق کے معنی میں استعمال اس زبان میں ہوتا تھا۔ کیوں کہ یہ استعمال سنسکرت اور اوستا دونوں میں پایا جاتا ہے۔
سنسکرتاوستا،
حالت ظرفی انسانی کے معنی میں ’تس یائی گ رہِم(اس عورت کا گھر)’آہ راَئی یسینا‘ (خدا کی حمدو سنا کے گیت )
ماخذ (سدھیشورورما، آریائی زبانیں۔ ۸۸) [36]
آریائی مذہب
آریاؤں کے ابتدائی مذہب کی تفصیل نہیں ملتی ہے، پھر بھی ایسے ذرائع موجود ہیں جن سے ان کی مذہبی حالت کا اندازا ہوتا ہے اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا ابتدائی مذہب ایشیائے کوچک میں آباد ہونے ولے متیانیوں (Mittaniones)، میدیوں اور برصغیر میں آباد ہونے والے آریاؤں سے مختلف نہیں ہوگا [37]۔
برصغیر میں آباد ہونے والے آریاؤں کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ وہ اوائل میں مناظر فطرت یعنی آب، و آتش، خاک و باد اور مناظر قدرت آفتاب و ماہتاب، برق و رعد کی پرستش کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ برائیوں اور آلام کے دیوتاؤں کا تصور رکھتے تھے۔ متانیوں کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے، وہ یہی ہے کہ ان کے عقائد ہندی آریوں سے ملتے جلتے تھے۔ ایسی حالت میں ایرانیوں کے بھی متعلق یہی رائے ہے، کہ ان کا مذہب بھی اسی نوعیت کا تھا اور ساتھ ساتھ منتشر طور پر ایسے شواہد بھی ملتے ہیں، جن سے اس کی تصدیق بھی ہو تی ہے [38]۔
سوال یہ ہوتا ہے کہ ایرانی و ہندی ہم مذہب تھے تو ایرانیوں کے پاس وید ہونا چاہیے تھی، یا کم از اتنا حصہ ضرور ہونا چاہیے تھا، جو ان کے ذیلی براعظم میں ورد سے پہلے لکھا گیا تھا۔ مگر ایرانیوں کے پاس کسی وید کا نشان نہیں ملتا ہے۔ اس سے بہر حال یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ تمام ویدوں کی تصنیف اسی ذیلی براعظم میں ہوئی ہے، کیوں کہ ویدوں کا گو نشان ایران میں نہیں ملتا ہے، مگر ایرانیوں کا مذہب ہندیوں کے مذہب سے ملتا جلتا تھا، مگر ویدی دیوتاؤں کا پتہ چلتا ہے۔ ایسی صورت میں یہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایرانیوں کے پاس وید کا جو حصہ تھا وہ تلف ہوچکا ہے اور اس کی کوئی نقل باقی نہیں رہی ہے۔ [39]۔
برصغیر میں آریوں کے قدیم ترین حالات رگ وید کے ابتدائی بھجنوں میں ملتے ہیں۔ اس دور میں ہمیں آریاؤں کے اپنے ایرانی ساتھیوں کا کوئی حوالہ نہیں ملتا ہے یا تو ان لوگوں دانستہ اس عہد کو فراموش کردیا یا انہیں ہجرت کئے ہوئے اتنا عرسہ گزر چکا تھا کہ اس کی کوئی یاد باقی نہیں رہی۔ رگ وید میں جو جغرافیائی حوالے ملتے ہیں، اس سے ہمیں اندازا ہوتاہے کہ یہ بھجن پنجاب و کابل کے درمیانی علاقے میں ترتیب دیئے گئے ہیں۔ کابل، سوات، کرم گومل اور پنجاب کے اہم دریاؤں کے ناموں کا ذکر ہے۔ چونکہ جمنا (یمنا) کا حوالہ صرف تین بار اور گنگا کا تذکرہ ایک بار ہے، لہذا کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کے سرحدی علاقے تھے اور وادی گنگا ان کے اقتدار سے باہر تھی۔ [40]۔
=== کثرت پرستی ===
آریا ایک معبود پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بے انتہا دیوتا اور دیویاں تھیں جن کی وہ پوچا کرتے تھے۔ گو پوچا کا طریقہ ابتدا میں سادہ تھا، منتروں کا پڑھنا، دیوتا پر سوم رس چڑھانا اور قربانی کرنا عبادت تھیں۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ اس وقت نہ مندر تھے نہ اصنام پرستی رواج۔ بہرکیف ویدوں کے مطالعہ سے ان کے مذہب کے متعلق جو رائے قائم کی جاسکتی ہے وہ درج ذیل ہے۔ # وہ متعدد دیوتاؤں پر ایمان رکھتے تھے۔ # آبا و اجداد کی روحوں کو پوجتے تھے۔ # مناظر فطرت کی پوجا کرتے تھے اور انہیں دیوتا قرار دے کر ان کو مختلف ناموں سے یاد کرتے، ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے۔ # بعض حیوان بھی مقدس تھے، اس طرح پہاڑ دریا بھی مقدس سمجھے جاتے تھے۔ # کبھی کبھی وہ وحدانیت کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔
الغرض یہ بتانا مشکل ہے کہ معبود کے متعلق ان کا کیا عقیدہ تھا اور ان کی تعداد کیا تھی۔ چند دیوی دیوتاؤں کا نام کثرت سے رگ وید میں آیا ہے۔ تمام دیوتاؤں میں اندرا (indra) کو زیادہ قوی خیال کرتے تھے۔ دیومالا کے مطابق وہ ایک مثالی جنگو تھا، جو لڑائی کے رتھ پر سوار ہوکر برق و رعد سے مسلح اپنے پرستاروں کی مدد کے لئے داسیوں اکے خلاف ان جنگ میں شریک ہوتا تھا اور اپنے پرستاروں کے پیش کردی سوما رس کے پیالے چڑھاتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ درتا اژدہے کو ہلاک کرنا تھا۔ جس نے طوفانی بادلوں کو جو کھیتوں کو سیراب کرتے تھے، پہاڑ کی گپھاؤں میں بند کردیا تھا۔ یہ دیوتا ان کے خیال میں بارش عطا کرتا تھا [41]۔
دیاؤس (Dyaus) یعنی آسمان پرتھوی (Prithuis) یعنی زمین دونوں آریاؤں کے قدیم دیوتا تھے۔ جن کے درمیان انہوں نے زوجین کا رشتہ پیدا کردیا تھا اور یہ عقیدہ قائم کر لیا تھا کہ اختلاط سے تمام مخلوق پیدا ہوئی ہے۔ بعد میں ان کی عظمت کم کردی گئی اور دارونا یعنی فلک محیط اور اندرا یعنی کڑک بارش و جنگ اور مترا یعنی آفتاب یا نور کو ان پر فوقیت دے دی گئی [42]۔
ورانا جس کا لقب اسورا (Asura) تھا، یہ مادی و اخلاقی قوانین یا ریت کا نگران یا محافظ ہے۔ رگ وید میں اس کی مدح کی گئی ہے۔ یہ ایرانیوں کا متھرا (Mithra) ہے، جو اوستا میں مشرہ (Mithra) آیا ہے اور فارسی میں مہر (Sun) بن گیا اور ایرانی اسے چشم فلک کہتے تھے۔ رگ وید میں ان دونوں کو آدتیہ یا آدیتی (Aditya or Aditi) کا بیٹا بتایا گیا ہے۔ آدیتی (Adti) دیوی ازل کی دیوی ہے اور بعض مقامات پر اسے کرہ زمہر اور زمتقابیط کی دیوی کہا گیا ہے۔ دیوا (Dowa) قدیم آریائی دیوتا ہے، سنسکرت یا ویدی زبان میں یہ کلمہ دیاؤہ (Dyauh) آیا ہے، جس کے معنی خدا سماوات (God of Heavens) کے ہیں۔ آخری ویدی دور میں دیاوہ یا دیوا (Dyauh or Dowa) کو بہت طاقت ور مانا گیا اور اسورا (Asura) پر اس کی برتری دیکھائی گئی ہے۔ شایدیہی دیوتا ہندی دیوتا شیوا (Shiva) ہے، جس کو مہا دیوا کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کلمہ شوا بن گیا ہو۔ ایران میں اس کے برعکس دیوا (Dowa) برائیوں کا دیوتا سمجھا گیا ہے اور اسے اہورا سے سرپیکار بتایا جاتا ہے۔ یہ کلمہ فارسی میں دیو (Dowa) یعنی شیطان بن گیا۔ [43]۔
دوسرے اہم دیوتا
ان اہم دیوتاؤں کے علاوہ ایرانیوں کا آرت (Arta) سنسکرت کا ورت (Varta) یعنی خدائے گیتی، آذروان (Adervan) یا آذر، سنسکرت کا اوردان (Attervan) یعنی برق دیوتا، ایرانیوں کا اترگنی (Atragni) اور سنسکرت کا اگنی (Agni) یعنی آگ کی دیوی، ایرانیوں کا ایندراہ Andra سنسکرت کا اندرا (indra) یعنی کڑک دیوتا (God of Thunder) ہے۔ یہ وہ دیوتا ہے جو ایرانیوں اور ویدوں میں مشترک ہیں [44]۔
ویدوں کے دوسرے اہم دیوتا دایو (Vayu) یعنی ہوا، رودرا (Rudra) یعنی وبا و طوفان، اوشا (Usha) یعنی سپید و صبح، سوریا (Surya) یعنی سورج، پرجانیہ (Parjanya) یعنی بارش، یما (Yama) مالک ممات، ودسوت (Vivasvat) چمک وغیرہ ہیں، جو مختلف طاقتوں کے مالک ہیں اور مختلف فرائض ادا کرتے ہیں۔ مگر ان میں اندرا (indra) سب سے قوی ہے، جو ماروتوں (Maruts) یعنی طوفان و وبا کی روحوں کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے دوستوں کو غالب کرتا ہے۔ اس کو دشمنوں کو قتل کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ سیم و زر اور مویشوں کا مالک ہے [45]۔
اس کے علاوہ متعدد چھوٹے دیوتا ہیں، جو بڑے دیوتاؤں کے ماتحت ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں، جن کا اضافہ آخری ویدی دور میں بھی ہوا۔ ان میں ساوتر یا سوتیار (Savitr or Savitar) زندگی بخشنے والا، پوشن (Pushan) محافظ و رہنما، ربھو (Rbhu)، موسم کا دیوتا، برہمنپتی (Brahmanaspati) عبادت کا دیوتا، وشوا روپا (Vishvarupa) روپ عطا کرنے والا دیوتا، توشتار (Tvastar) صناعی کا دیوتا، اشوین (Ashvin) شفق صبح، ماروتا (Maruta) طوفان و وبا، اریامن (Aryaman) شادی کا دیوتا، گندھروا (Gandharva) ساز و ترنم کادیوتا اور سرسوستی (Sarasvati) فصاحت و روانی کی دیوی قابلِ ذکر ہے [46]۔
خیر وشر کی طاقتیں
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایران میں خیر و شر کی دو طاقتوں کا تصور پیدا ہوگیا، جس نے ان کے مذہبی عقائد پر گہرا اثر ڈالا۔ انگرامنو (Angra Mainyu) یا ہرمن (Ahriman) بدی کا دیوتا اور ہورا (Ahura) کے ساتھ ایک صفت مژدہ بمعنی عاقل کا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد ایرانیوں کے مذہبی تصورات انہی دو خداؤں یعنی خداون خیر و شر کے گرد چکر کھانے لگے۔ ہندی آریاؤں کی طرح ایرانیوں کے درمیان بھی پروہتوں کا ایک طبقہ موجود تھا، جو کو مغ (Muge) یا مجسوس کہتے تھے۔ مذہبی رسوم کی ادائیگی اسی طبقہ کے متعلق تھی۔ اس طبقہ نے بھی مذہب کے اندر بہت پیچیدگیاں پیدا کردیں تھیں۔ قربانی کے وقت ایک مقدس گھاس کا رس پینا عبادت میں شامل تھا۔ اس گھاس کا نام سوما (Soma) اور اوستا میں ہوما (Homa) بتایا گیا ہے۔ یہ غالباً بھنگ ہے جس کا عرق آج بھی پاک و ہند میں استعمال ہوتا ہے [47]۔
حوالہ جات
↑ عہد قدیم اور سلطنت دہلی از ڈاکٹر معین الدین۔ صفحہ 22
↑ ڈاکٹر لی بان کی کتاب تمدن ہند۔ صفحہ 209
↑ ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اورسلطنت دہلی۔ صفحہ 33، 34
^ 4.0 4.1 اکرام علی ملک۔ تاریخ پنجاب، 10
↑ ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 34، 35
↑ پرفیسر محمد مجیب۔ تمدن قدیم ہند، 19
↑ ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 33
^ 8.0 8.1 آریا۔ معلومات شہکار انسایئکلوپیڈیا
↑ پشتو۔ معارف اسلامیہ
↑ مولانا عبد القادر- پشتو، معارف اسلامیہ
↑ اکرام علی ملک۔ تاریخ پنجاب، 12
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دوم۔ 35، 139، 140
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دوم۔ 51
↑ چودہری علی اصغر۔ تاریخ ارئیاں ۵۰۱
↑ چودہری وہاب الدین، تاریخ کمبوہاں۔ 302 تا 305
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 39
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 21، 229
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 229
↑ ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 40
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 229 تا 233
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 281، 282
↑ ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ ۱۴، ۲۴
↑ مولانا اسمعیل ذبیح۔ اسلام آباد۔ ۱۶۶
↑ حمید اللہ ہاشمی، پنجابی زبان و ادب۔ 2
↑ جیمز ٹاڈ، تاریخ راجستان جلددوم۔ 328
↑ لی بان، تمدن ہند۔ 211،212
↑ لی بان، تمذن ہند۔ 212
↑ لی بان، تمدن ہند۔212
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 242، 284
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 284، 285
↑ سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء۔ 88، 92
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 279، 280
↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 280، 281
↑ ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 47
↑ لی بان، تمدن ہند۔ 210۔ 211
↑ شاہکار انسائکلوپیڈیا معلومات۔ آریا
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 133
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 133 تا 134
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 134
↑ ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 46
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 271۔ 273
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، ۲۷۳
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 134، 135، 272
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، ۵۳۱
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 272۔ 273
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 373
↑ ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 135، 126