Showing posts with label khutba. Show all posts
Showing posts with label khutba. Show all posts

Jastis salah

بسم الله الرحمن الرحيم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح  بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 12-رجب – 1436 کا خطبہ جمعہ بعنوان "گناہ کا احساس،،، اور توبہ کی ترغیب" ارشاد فرمایا، جس کے اہم نکات یہ تھے: ٭ متقی کیلئے دو تاج ٭  نسب نامہ اور اعمال نامہ٭  گناہ کا احساس٭ سود سے بچیں، تقوی اختیار کریں٭  کسی کو حقیر مت سمجھیں ٭  توبہ کی ضرورت ٭ کب تک توبہ میں تاخیر۔۔۔٭ توبہ کا وقت ٭ حقوق العباد توبہ سے نہیں ادائیگی سے معاف ہونگے ٭ کامیاب لوگوں کی 9 صفات ٭ سعودی عرب کا اعزاز ٭ نعمت امن کا شکر ادا کریں ٭ ملکی قیادت کیساتھ  شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عزم۔

پہلا خطبہ:

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ لاَ أَبْغِي بِهِ بَدَلاَ

حَمْدًا يُبَلِّغُ مِنْ رِضْوَانِهِ الأَمَلَا

کسی معاوضے کے بغیر میں اللہ کی ایسی تعریفیں کرتا ہوں  جو مجھے میری تمنا کے مطابق رضائے الہی  تک پہنچا دے

وَبَعْدُ : إِنِّي بِالْيَقِينِ أَشْهَدُ

شَهَادَةَ الْإِخْلَاصِ أَنْ لَا يُعْبَدُ

حمد کے بعد: میں یقین و اخلاص کیساتھ  گواہی دیتا ہوں کہ

بِالْحَقِّ مَأْلُوهٌ سِوَى الرَّحْمَنِ

مَنْ جَلَّ عَنْ عَيْبٍ وَعَنْ نُقْصَانِ

رحمن کے سوا کسی حقیقی معبود کی  عبادت نہ کی جائے، وہی ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔

وَأَنَّ خَيْرَ خَلْقِهِ مُحَمَّدَا

مَنْ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى

اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ  خیر الخلق  محمد ﷺ ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے

صَلَّى عَلَيْهِ رَبُّنَا وَمَجَّدًا

وَالْآلِ وَالصَّحْبِ دَوَامًا سَرْمَدَا

اللہ تعالی ان پر آپکی آل و صحابہ کرام  پر دائمی و سرمدی رحمتیں نازل  ، اور انکی  شان بلند فرمائے

يا رَبِّ فَاجْمَعْنَا مَعاً وَنَبِيَّنا

فِي جَنَّةٍ تُثْنِي عُيُونَ الحُسَّدِ

پروردگار! ہمیں جنت میں اپنے نبی کا ساتھ نصیب فرما، جس سے حاسدوں کی آنکھیں  پھر جائیں

في جَنَّةِ الفِردَوسِ وَاكْتُبْهَا لَنَا

يَا ذَا الْجَلَالِ وَذَا الْعُلَا وَالسُؤْدُدِ

یا ذوالجلال ! بلندیوں والے اور کامل اختیارات والے بادشاہ! ہمارا یہ ساتھ جنت الفردوس میں ہمارے لیے لکھ  دے

مسلمانو!

تقوی الہی اختیار کرو، کیونکہ صرف متقی  با مراد ، جبکہ لاپرواہ  اور بد بخت  ہی نا مراد  ہونگے۔

وَعَلَى التَّقِيِّ إِذَا تَرَسَّخَ فِي التُّقَى

تَاجَانِ تَاجُ سَكِيْنَة ٍ وَجَلَالِ

متقی  اگر  تقوی کی انتہا تک پہنچ جائے تو  اس کے سر پر سکینت و جلال کے دو تاج ہونگے

وَإِذَا تَنَاسَبَتِ الرِّجَالُ، فَمَا أرَى

نَسَباً يَكُوْنُ كَصَالِحِ الأعْمالِ

اگر لوگ نسب نامے پر فخر کریں ، تو میرے نزدیک  نیک اعمال جیسا کوئی نسب نامہ نہیں ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ}اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ [التوبۃ : 119]

اللہ کے بندو!

ماضی میں گزرنے والوں سے سبق حاصل کرو،  قضا و قدر کے اچانک فیصلوں  سے ڈرو، اور دہکتی ہوئی آگ سے بچو۔

وابْكِ على ذَنْبٍ وقَلْبٍ قَدْ قَسَا

كالصَّخْرِ مِنْ هَوَاهُ لَمْ يَسْتَفِقِ

اپنے جرائم اور پتھر جیسے سنگ دل پر آنسو بہاؤ،  جسے اپنی  خواہش پرستی سے  ہوش ہی نہیں آتا

وَكُنْ خَمِيصَ البَطْنِ مِنْ زَادِ الرِّبَا

وخَمْرَةَ التَّقْوَى اصْطَبِحْ واغْتَبِقِ

سودی  زاد راہ سے اپنے پیٹ کو خالی رکھو، جبکہ تقوی کے  گھونٹ صبح و شام  پیا کرو

ولا تُنَقِّصْ أحَداً فَكُلُّنَا

مِنْ رَجُلٍ وأصْلُنَا مِنْ عَلَقِ

کسی کو حقیر مت سمجھو، کیونکہ ہم سب ایک مرد سے ہیں، اور خون کے لوتھڑے سے پیدا ہوئے ہیں

والْخُلْدُ قَدْ مَزَّقَ قَومَ سَبَا

وهَدَّ سَدّاً مُحْكَمَ التَّأَنُقِ

[کیونکہ]وقت نے قوم سبا کو  اور ان کے کمال مہارت سے بنائے گئے ڈیم کو تباہ کر کے رکھ دیا

اے نفس!  گناہوں سے توبہ کر، تمہیں کسی مقصد سے پیدا کیا گیا ہے،  اے نفس!  مٹی تلے دبنے سے پہلے توبہ کر لے،  اے نفس!  اس سے پہلے توبہ کر لے کہ تمہیں نا چاہتے ہوئے بھی قبر میں رہنا پڑے ۔

أَيَا نَفْسُ بِالْمأْثُورِ عَنْ خَيْرِ مُرْسَلٍ

وَأَصْحَابِهِ وَالتَّابِعِينَ تَمَسَّكِي

اے نفس! خیر الرسل  ﷺ، صحابہ و تابعین سے ثابت شدہ اعمال پر سختی سے کار بند رہو

وَخَافِي غَدًا يَوْمَ الْحِسَابِ جَهَنَّمًا

إِذَا نَفَحَتْ نِيرَانُهَا أَنْ تَمَسَّكِ

کل آنے والے یوم حساب سے  ڈرتے رہو، کہ کہیں جہنم کی آگ بھڑکے  تو تمہیں  اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔

اپنے مولا کی نافرمانی کرنے والے!  
اپنی خواہشات کو بھڑکا کر ان  کیلئے اندھے  بن جانے والے!
اپنی دنیا  کو آخرت پر ترجیح دینے والے!
کثرت سے  گناہ کرنے والے!
نمازوں کو ضائع کرنے والے!
حقوق اللہ اور زکاۃ کی ادائیگی  نہ کرنے والے!
مال کو جمع کر کے انہیں تجوریوں میں  محفوظ کرنے والے!
اے ظلم کے رسیا شخص!
اے وہ  شخص !  جس کی علامت لوگوں کو تکلیف دینا بن چکی ہے!

آخر کب تک  اپنی خواہش پرستی میں مگن رہو گے؟ آخر کب تک  نڈر رہو  گے، حالانکہ تم نے اس دنیا سے جانا ہی  ہے؟ جلد از جلد توبہ کر لو، زندگی ختم ہونے سے پہلے،  اچانک موت آنے سے قبل توبہ کر لو، کہیں بیماری  اور بڑھاپا توبہ کرنے میں حائل نہ ہو جائے۔

آنیوالے کل تک توبہ مؤخر کرنے والے شخص! تم کل کیسے توبہ کرو گے،  تم تو کل کے مالک ہی نہیں ہو!  تم کل کیسے توبہ کرو گے ہو سکتا ہے کل آنے سے پہلے تم  چلے جاؤ!

قَدِّمْ لنفسِـَك توبةً مَرجُوَّةً

قَبْلَ الْمَمَاتِ وَقَبْلَ حَبْسِ الْأَلْسُنِ

اپنے لیے پُر امید توبہ  کر لو، اس سے پہلے کہ موت آئے یا زبان  بند ہو جائے

بَادِرْ بِهَا غَلْقَ النُّفُوْسِ فَإِنَّهَا

ذُخْرٌ وَغُنْمٌ لِلْمُنِيْبِ الْمُحْسِنِ

روح قبض ہونے سے پہلے توبہ کر لو، کیونکہ یہی موقع رجوع اور  اچھے کام کرنے والے کیلئے غنیمت ہوتا ہے

فرمانِ باری تعالی ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا} اے ایمان والو! اللہ کی طرف سچی توبہ کرو[التحريم : 8]

سچی توبہ  ہی تمہیں گری ہوئی حرکتوں سے روکے گی، تمہیں گناہوں اور  برائیوں سے  منع کرے گی،  ساتھ میں  فرائض و واجبات کی ادائیگی کیلئے  رغبت بھی دلائے گی، اسی طرح  ماضی میں ہونے والی کمی کوتاہی کے تدارک کیلئے ہمت بھی باندھے گی۔

جس شخص نے کسی بھی مسلمان کیساتھ بدسلوکی کی ، اس پر ظلم کیا، تھپڑ مارا، گالی دی، اس کا مال ہڑپ کر گیا، یا اس کے حقوق   نہ دئیے اور محروم رکھا، تو اسے چاہیے کہ اپنی اس زیادتی  کا مداوا کر لے، اس کیلئے معافی مانگے یا حق ادا کر دے۔

کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں  کہ: (جس کسی شخص نے اپنے بھائی  پر ظلم کرتے ہوئے اس کی  ہتک عزت  کی ہو یا حق  ہڑپ کیا ہو، تو وہ اس کی معافی آج ہی مانگ لے،  اس سے پہلے کہ درہم و دینار ختم ہو جائیں ، پھر وہاں  [قیامت کے دن] ظلم کی مقدار کے برابر ظالم کی نیکیاں   مظلوم کو دے دی جائیں گی، اور اگر اس کی نیکیاں بھی ختم ہوگئیں تو  مظلوم کے گناہ لیکر ظالم پر ڈال دیے جائیں گے) بخاری

ایسا شخص  بہت ہی کامیاب ہے جس نے بس میں ہوتے ہوئے اپنے معاملات  سدھار لیے،  اور وقت نزع آنے سے پہلے توبہ بھی کر لی،  اور اپنی دنیاوی زندگی میں آخرت کیلئے مفید عمل بھی کیے۔

پھر اس کی وفات  ان نو صفات پر  ہوئی جو کہ سورہ توبہ کی ایک عظیم آیت میں مذکور ہیں: {التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ} توبہ کرنے والے، عبادت گزار، حمد خوانی کرنے والے، روزے رکھنے والے، رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم کرنے والے، برائی سے روکنے والے، اور حدودِ الہی کی پاسداری کرنے والے لوگوں کیساتھ مؤمنوں کو بھی خوشخبری دے دیں۔[التوبة : 112]

اللہ تعالی مجھے اور آپکو  توبہ و رجوع کرنے والوں میں شامل فرمائے،  اور اچھا اجر پانے والا بنائے ، ہمیں جنت میں بغیر حساب و عذاب کے داخل فرمائے ۔

میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے بخشش کا طلب گار ہوں، تم بھی اسی سے بخشش طلب کرو،  بیشک وہی توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

ہمہ قسم کی حمد اللہ کیلئے ہے، وہی ہمیں خزانے اور رزق سے نوازتا ہے،  اس کے بغیر ہمیں یہ دونوں نعمتیں  بالکل بھی  میسر نہیں ہو سکتی تھیں ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں  وہ یکتا و تنہا ہے، اسی نے متقین کیلئے جنت اور  سرکشوں کیلئے جہنم  بنائی، جو کہ جچا تلا بدلہ ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں  کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے محبت، رحمت، شفقت اور خشیت   کا عملی نمونہ بنتے ہوئے امت کی خیر خواہی فرمائی، اللہ تعالی آپ پر ، نیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی آپکی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو!

اللہ سے ڈرو، کہ تقویٰ الہی افضل ترین نیکی ہے، اور اسکی اطاعت سے ہی قدرو منزلت بڑھتی ہے {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔[آل عمران: 102[

مسلمانو!

آپ اس وقت ایک پاکیزہ ملک میں رہ رہے ہو، جو کہ امن و امان  کا گہوارہ  اور اس کی معیشت  مضبوط ہے،  حکمران کتاب و سنت   سے محبت  اور انکے نفاذ کو اپنا منشور سمجھتے ہیں ،  یہ ملک مضبوط ٹھوس بنیاد پر قائم ہے، جو کہ دین، عقیدہ توحید، ایمان، سنت نبوی، اسلامی شریعت، اتحاد، یگانگت، حکمت و قوت  پر مشتمل ہے۔

اس لیے  اس عظیم اور بے پناہ نعمت پر  اللہ کا شکر ادا کرو،  اس کیلئے صرف اللہ کی اطاعت  کرو، اور نافرمانی سے اجتناب کرو،  اپنے ملک  کے امن و اتحاد  کی حفاظت کرو، اپنے ملک کو بیوقوف  اور شر انگیز  لوگوں  سے محفوظ رکھو، بے دین خارجیوں  سے، اور گمراہ کن ، فتنہ پرور لوگوں سے اپنے ملک کو بچاؤ، یہ لوگ تمہارے  ملک میں  بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور تمہاری خوشحالی کو زبوں حالی میں بدلنا چاہتے ہیں۔

ہم اپنے  قائد اور حکمران  خادم حرمین شریفین  شاہ سلمان بن عبد العزیز  کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،  وہ عزم و ہمت اور ثابت قدمی  کے پیکر ہیں،  اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ  ہم   عہدِ دفاع، وفا اور ولاء  پر قائم ہیں ، ہم ہر مشکل گھڑی کا سامنا کرینگے، بلکہ اپنے وطن مملکت سعودی عرب کیلئے  جان نچھاور کرنے کیلئے بھی  تیار ہیں۔

ہم اپنی قیادت کو گمراہ  گروہ  کے خلاف کامیابیاں حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتے  ہیں۔

اسی طرح حکومت کو مضبوط ترین بنانے کیلئے صادر شدہ شاہی فرامین کیلئے بھی برکت کی دعا کرتے

Khutba

بسم الله الرحمن الرحيم

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 26 شوال   1435 کا خطبہ جمعہ  بعنوان " لوگوں میں صلح کروانا، اور سانحہ پشاور کی مذمت" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے  اصلاح اور مصالحت کی مفہوم ذکر کرتے ہوئے معاشرے کے مختلف طبقات میں اسکی ضرورت اور اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اسکے فوائد ذکر کئے، اور دوسرے خطبہ میں پرزور سانحہ پشاور کی مذمت کرتے ہوئے کہا: یہ المناک عمل سنگلاخ پہاڑ بھی نہیں کرسکتے۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی سب کا مالک، حق ، اور ہر چیز واضح کرنیوالا ہے، چاہے  مجرمین  کو اچھا نہ بھی لگے وہ اپنے کلمات کے ذریعے حق  کو غالب ، اور باطل کو مغلوب  کردیتا ہے ،  اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں  وہ یکتا ہے ، وہی اولین و آخرین سب کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول  محمد ، آپکی اولاد اور متقی صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے پسندیدہ اعمال  پر عمل اور حرام کردہ اعمال  سے دور رہ کر تقوی الہی اختیار کرو، متقی   تمام بھلائیوں  کیساتھ با مراد  ، اور خواہشات کے پیرو کار نامراد   ہونگے۔

مسلمانو!

یہ بات سمجھ لو ! اللہ کے ہاں محبوب ترین چیز اپنی  اصلاح اور دوسروں میں مصالحت کروانا ہے، اپنی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ خود کو وحی کے مطابق بنایا جائے، جو کہ تزکیہ و طہارتِ نفس کا باعث ہے، اور دوسروں میں  مصالحت یہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی دِگر گوں صورت حال کو درست کیا جائے، یا دو افراد یا دو گروپوں کے درمیان شرعی تقاضوں کے مطابق خراب تعلقات کو درست کیا جائے، چنانچہ دوسروں میں مصالحت متنفر دلوں کو قریب  ، متصادم آراء میں ہم آہنگی، اور اصلاح  کی غرض سے ثواب کی امید کرتے ہوئے حکمت و بصیرت کیساتھ واجب حقوق کی ادائیگی کرنے کا نام ہے۔

ناراض افراد  میں صلح کروانا  جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ، اور عام و خاص فتنوں  سے امان ،  اور ہر لحاظ سے مفید  ہے، اس  کے ذریعے شدید ضرر رساں اشیا  کا خاتمہ کیا جاتا سکتا ہے۔

اور مصالحت قائم کرنے سے شیطان کیلئے انسان  میں داخل ہونے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

فرد یا قوم  میں سے کسی کی تاریخ پرکھنے والا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ناراض افراد میں صلح نہ کروانے کی وجہ سے انکی زندگیوں میں نقصانات  کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا،  جبکہ باہمی صلح کی وجہ سے بہت سے نقصانات اور فتنے  دھول کی طرح اُڑگئے۔

بہت سے بڑے بڑے سانحے  چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں، اسی لئے ناراض لوگوں میں صلح کروانا اسلام کے عظیم مقاصد اور بہترین تعلیمات میں شامل ہے، فرمان باری تعالی ہے: { فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ}تم اللہ سے ڈرو، اور اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت  کرتے ہوئے آپس میں ناراض افراد  کی صلح کرواؤ۔[الأنفال : 1]

اور ناراض افراد میں صلح کروانے کی فضیلت  کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (کیا میں تمہیں [نفلی] نماز، روزہ، اور صدقہ سے بھی افضل درجات کے بارے میں نہ بتلاؤں؟ ) تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟   تو آپ نے فرمایا: (ناراض لوگوں میں صلح کروانا، کیونکہ باہمی ناچاقی  ہی "حالقہ" ہے)ابو داود، اور ترمذی نے اسے صحیح کہتے ہوئے ابو درداء رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ : "حالقہ" سے مراد یہ نہیں کہ سر کے بال مونڈ دیتی ہے، بلکہ دین کا صفایا کر دیتی ہے۔

فرمان باری تعالی ہے: {لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا} انکی بہت سی خفیہ باتوں میں کوئی خیر کی بات نہیں ہوتی، الّا کہ کوئی شخص صدقہ، نیکی، اور لوگوں کے مابین صلح کروانے کا حکم دے، جو شخص یہ کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کریگا، ہم جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازیں گے[النساء : 114]

ایسے ہی فرمایا : {وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ} اور جو لوگ کتاب پر مضبوطی سے کاربند ہوکر نمازیں قائم کرتے ہیں، [انکا صلہ یہ ہے کہ ]بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرینگے [الأعراف : 170]

ایک مقام پر فرمایا: {وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ} اصلاح کرو، اور فسادیوں کے راستے پر مت چلو[الأعراف : 142]

ایک جگہ اور فرمایا:  {يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} اے بنی آدم! اگر تمہارے پاس تمہی میں سے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کریں تو [انکی بات سننے کے بعد]جس شخص نے تقوی اختیار کیا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں  گے ۔[الأعراف : 35]

ایسے ہی فرمایا: {وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} اور ہم رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ لوگوں کو بشارت دیں اور ڈرائیں، چنانچہ جو کوئی ایمان لے آیا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے [الأنعام : 48]

میاں بیوی کے اختلافات  میں صلح ایسی بنیاد پر ہوگی جو دونوں کے حقوق کی ضامن ہو، فرمان الہی ہے: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا} اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی  تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ،  اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے گا،  اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے [النساء : 35]

اسی بارے میں یہ بھی فرمایا: {وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ } اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند سے بدسلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو اگر میاں بیوی آپس میں  سمجھوتہ کرلیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور صلح  بہرحال بہتر ہے۔[النساء : 128]

میاں بیوی کے درمیان صلح کی وجہ سے خاندان  کا وجود کٹنے پھٹنے سے محفوظ رہتا ہے، جسکی وجہ سے خاندانی  دیکھ بھال قائم رہتی ہے، اور میاں بیوی  کے تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں، اور اولاد کو  والدین کے متحد ہونے کی وجہ سے پر امن، اور مستحکم  تربیت گاہ میسر ہوتی ہے، ہر قسم کے انحراف سے محفوظ رہتے  ہوئے، والدین کی شفقت  حاصل کرتے ہیں اور اچھی تربیت پاتے ہیں۔

اور اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا  طول پکڑ جائے، اور کوئی صلح نہ کروائے تو خاندان سلامت نہیں رہتا، بچے بگڑ جاتے ہیں، اور طلاق کے بعد رشتہ داروں کے تعلقات میں دراڑیں پڑ جانے کی وجہ سے زندگی میں انہیں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور میاں بیوی دونوں نقصان اٹھاتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ: "شیطان  اپنے لشکروں کو کہتا ہے کہ: "آج تم میں سے کس نے مسلمان  کو گمراہ کیا ہے؟ میں اسے قریب کر کے تاج پہناؤں گا!  تو ایک آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے اپنے والدین کی نافرمانی کر لی" تو شیطان کہتا ہے: "ہو سکتا  وہ صلح کر لے"  دوسرا  آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے  چوری کر لی" تو شیطان کہتا ہے: "ممکن ہے وہ بھی توبہ کرلے" تیسرا آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ وہ زنا کر بیٹھا" تو شیطان کہتا ہے: "ہوسکتا ہے یہ بھی توبہ کر لے" ایک اور آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے  اپنی بیوی کو طلاق ہی دے دی"  تو اب کی بار ابلیس کہتا ہے کہ : "توں ہے تا ج کا مستحق!!" تو اسے اپنے قریب کرکے  تاج پہناتا ہے"مسلم

مصالحت  آپس میں ناراض رشتہ داروں کے درمیان بھی ضروری ہے، تاکہ صلہ رحمی قائم دائم رہے، اور قطع تعلقی  نہ ہو، کیونکہ صلہ رحمی باعث خیر و برکت ، اور جنت میں داخلے کا سبب ہے، اس کی وجہ سے دینی، دنیاوی بھلائیاں اور عمر میں برکت  حاصل ہوتی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (رشتہ داری عرش سے چمٹ کر کہتی ہے: جو مجھے جوڑے  گا اللہ اسے جوڑ دیگا، اور جو مجھے توڑے گا اللہ اسے توڑ دے گا)بخاری و مسلم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:  (جو شخص  یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اسکے رزق میں فراخی اور عمر میں درازی فرمائے تو وہ صلہ رحمی کرے)بخاری

عمرو بن سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (رشتہ داری جوڑنا مالی ثروت، خاندانی محبت، اور عمر میں طوالت کا باعث ہے)طبرانی، یہ حدیث صحیح ہے۔

بالکل اس کے برعکس  قطع رحمی، دنیا و آخرت میں بد بختی اور شر کا باعث ہے، چنانچہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:( قطع رحمی کرنے والا شخص جنت میں نہیں جائے گا) بخاری و مسلم

ابو بکرہ  رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بغاوت اور قطع رحمی  سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جسکی سزا دنیا میں اللہ کی طرف سے جلد از جلد دی جاسکتی ہو،  اور آخرت  میں بھی اسکے بدلے میں عذاب ہو )ابو داود، اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔

اس لئے آپس میں ناراض رشتہ داروں کے درمیان صلح کراونا عظیم نیکیوں میں سے ہے۔

مصالحت پڑوسی کیساتھ بھی ضروری ہے تا کہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ پڑوسی کا  حق ادا ہوسکے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (مجھے جبریل اتنی دیر تک پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث بھی بنائے گا)بخاری  و مسلم

دو آپس میں لڑنے والے مسلمانوں کے درمیان بھی صلح کروائی جائے، فرمان الہی ہے: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} بلاشبہ مؤمن آپس میں بھائی ، بھائی ہیں، تو تم اپنے بھائیوں کے مابین صلح کرواؤ، اور اللہ سے ڈرو، تا کہ تم پر رحم کیا جاسکے[الحجرات : 10]

اے مسلم!

لوگوں کے مابین مصالحت  مت ترک کرنا، اس میں بہت ہی خیر ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے صحابہ کرام کے درمیان صلح کروایا کرتے تھے، اور اس کام کیل