علم حاصل کرنے کی کوئی آخری عمر نہیں ہے۔ انسان آخری دم تک طفل مکتب ہوتا ہے اگرچہ وہ دنیا کے کسی بھی عہدے پر فائز رہ چکا ہو۔ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی علم کا راستہ مسدود نہیں ہوتا۔ علم ایک بحرِ بیکراں ہے۔ اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
علم کی بدولت قوموں نے عروج پایا۔ علم نے آدمیت کو انسانیت کے رنگ میں ڈھالاورنہ آدمی کھانے پینے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اپنا عروج سمجھتا تھا۔ زندگی گزارنے کا مقصد نفسانی خواہشات کی تکمیل کے سوا کچھ نہ تھا۔ انسان تہذیب وثقافت سے عاری تھا۔ نیکی اور بدی کی تمیز سے نابلد تھا۔ علم نے تہذیب سکھائی۔ اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی۔ علم کا مقصد سمجھ بوجھ اور فہم و فراست میں پاکی حاصل کرنا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں :
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
بے شک دنیا کی ترقی کا دارو مدار علم پر ہے۔ علم ہی دنیا اور آخرت میں عزت کا باعث بنتا ہے۔ اسی لیے مسلمان جب تک علم سے وابستہ رہے۔ دنیا میں نمایاں رہے۔ ایجادات میں پیش پیش رہے۔ تسخیرِ کائنات میں آگے رہے۔ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن جب مسلمانوں نے علم کے دامن سے اپنے آپ کو آزاد کیا اور میدانِ علم سے بھاگے تو ہر میدان میں پسپا ہوئے۔ اسی بات پر حیرت اور افسوس کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اظہار کیا:
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا