Showing posts with label taqlid. Show all posts
Showing posts with label taqlid. Show all posts

Din me dalil zaruri hai

☝🏽 *آپ نے کہا دین اسلام میں دلیل مانگنا کسی بھی عمل کا درست نہیں*
مجھے کوئی بھی نیک عمل کرنے کیلیے کیا اس عمل کی دلیل ثبوت کی ضرورت نہیں کہ آیا یہ عمل قرآن سے ثابت ہے یا نہیں؟
آیا یہ عمل اللہ کے نبی علیہ السلام کی زندگی سے ثابت ہے بھی یا نہیں؟
کیونکہ ہر وہ عمل جسکا ثبوت شریعت سے یعنی قرآن و صحیح حدیث سے نہیں ملتا تو وہ عمل مردود ہے گمراہی ہے
*اور اللہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 31 میں فرناتا ہے*
اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ﴿۳۱﴾

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور بزرگوں کو رب بنایا ہے
☝🏽☝🏽☝🏽☝🏽
یعنی انکی ہر بات کو بنا دلیل بنا ثبوت بنا قرآن و صحیح حدیث کے حوالے کے آنکھیں بند کر کے مانتے چلے جاتے ہیں،
☝🏾☝🏾☝🏾☝🏾
*اسکو اللہ نے گمراہی کہا ہے*
لوگ اپنے اپنے بزرگوں کی ہاتھ کی لکھی کتابوں کی پوجا کرتے ہیں انکو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ یہ بات قرآن میں موجود ہے یا نہیں📍
نبی علیہ السلام کی زندگی سے ثابت ہے بھی یا نہیں
بس آنکھیں بند کر کے مانتے چلے جانا۔📍

*آپ نے کہا کے دلیل بتانا واجب نہیں مجھ پر*
تو پھر آپ بنا دلیل کے بنا قرآن و صحیح حدیث کے مسئلہ کا شرعی حل کیسے بتا دیتے ہیں؟؟؟ ⚠️📍
اور بقول آپکے دلیل سے بات کرنا یا کسی بھی مسئلے کا ثبوت دینا جائز نہیں تو یہ بات آپکو کسنے بتائی❓

اللہ نے قرآن میں 51 جگہ فرمایا ہے کہ اے نبی علیہ السلام انکو دلیل پیش کر دو
اللہ کافروں سے مشرکوں سے انکے عمل کی انکی باتوں کی دلیل مانگتا ہے
اللہ اپنی بات کی دلیل دیتا ہے کہ اے نبی کریم انکو بتا دو
حوالہ، ثبوت، دلیل پیش خدمت ہے⤵️
البقرة :آیت نمبر: 111۔248
ال عمران: آیت نمبر: 51
النساء: آیت: 153۔174
الانعام : آیت: 57،81،143،144،148
الاعراف: آیت: 71،73،85،105
*یونس: آیت: 68،76*
ھود: آیت: 17
*اور بہت ساری آیت ہیں*

تو میرے محترم جب تک آپ کسی بھی نیک عمل کا ثبوت، حوالہ، دلیل کتاب اللہ اور نبی علیہ السلام کی زندگی سے نہیں دے گے تو مجھے ایسے عمل سے بچنا ہے دور رہنا ہے
*✿جـزاكـم ﷲ خـيرا کثـیـرا✿*

Shaikh saleh bin fauzan

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظ اللہ
شیخ الفوزان کا شمار سعودیہ کے کبار علماء میں ہوتا ہے، موصوف سعودیہ کی دائمی فتویٰ کمیٹی کے مستقل رکن ہیں اور کئی اہم کتابوں کے مولف ہیں شیخ تقلید کے متعلق لکھتے ہیں:
وكذلك يجب على أتباع المذاهب أن يردوا أقوال أئمتهم إلى الكتاب والسنة فما وافقها أخذوا به، وما خالفهاردوه دون تعصب أو تحيز (كتاب التوحيد ص 49)
”اور مذاہب کے پیروکاروں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اماموں کے اقوال کو کتاب و سنت کی روشنی میں پرکھیں، پس جو قول کتاب و سنت کے موافق ہو اسے لے لیں اور جو ان کے مخالف ہو اسے چھوڑ دیں۔“
اور اس کتاب کے آخر میں شیخ موصوف نے ظہورِ بدعات کے چند اسباب ذکر کئے ہیں، ان میں سے ایک سبب شیخ کے مندرجہ ذیل الفاظ میں ملاحظہ کیجئے :
التعصب للأراء والرجال : يحول بين المرء واتباع الدليل ومعرفة الحق، قال تعالى : وهذا هو الشأن فى المتعصبين اليوم من بعض أتباع المذاهب الصوفية والقبوريين إذا دعوا إلى اتباع الكتاب والسنة ونبذ ما هم عليه فما يخالفهما احتجوا بمذاهبهم ومشائخهم و آباء هم واجدادهم . ( كتاب التوحيد ص 110)
”آراء اور اشخاص کے لئے تعصب، جو کہ انسان کو اتباع دلیل اور حق کی معرفت سے روک دیتا ہے، ( بھی ظہورِ بدعات کے اسباب میں سے ایک ہے) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’ اور جب انہیں کہا جائے کہ اللہ نے جس چیز کو اتارا ہے اس کی پیروى کرو، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا“ اور یہی حال آج ان متعصب لوگوں کا ہے جن کا تعلق صوفیاء اور قبر پرستوں کے ساتھ ہے، اور وہ مذاہب کی پیروی کرتے ہیں، تو انہیں جب کتاب و سنت کی پیروی کی طرف دعوت دی جائے اور انہیں کہا جائے کہ تمہارے اندر کتاب و سنت سے ٹکرانے والی جو باتیں ہیں انہیں چھوڑ دو، تو یہ اس کے مقابلے میں اپنے مذاہب مشارئخ اور آباؤ اجداد کو دلیل بناتے ہیں۔ ‘‘

TAQLID PARSTO KE LIYE NASIHAT NAMAH

قاضی ابو زید الدبوسی حنفی کا تقلید پرستوں کے لئے نصیحت نامہ

تحریر: صاحبزادہ الطاف الرحمن الجوہر
جس تقلید کی آج بڑی دھوم دھام سے تبلیغ کی جاتی ہے اور اس کے مخالفین کو (مبتدعین کی طرف سے ) بد مذہب، گستاخ ائمہ، مشرک، کافر، بدعتی، قادیانی، مرزائی، بدبخت، وہابی، غیر مقلد جیسے القابات سے موسوم کیا جاتا ہے اس کی حقیقت حنفی پیشوا، حنفی امام قاضی عبیداللہ ابو زید الدبوسی حنفی( متوفی ۴۳۰ ھ) اپنی شہرہ آفاق کتاب‘‘ تقویم الأدلۃ في أصول الفقہ’’(ص۳۹۰) میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
‘‘فالمقلد فی حاصل أمرہ ملحق نفسہ بالبھائم فی اتباع الأولاد الأمھات علی مناھجھا بلا تمییز فإن ألحق نفسہ بھا لفقدہ آلۃ التمییز فمعذور فید اویٰ ولا یناظر، وإن ألحقہ بھا ومعہ آلۃ التمییز فالسیف أولیٰ بہ حتی یقبل علی الألۃ’’(تقسیم الأدلۃ، مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت ، لبنان)تقلید کا ما حاصل(نتیجہ) یہ ہے کہ مقلد اپنے آپ کو جانوروں (ڈنگروں ) کی لسٹ میں شامل کر لیتا ہے جس طرح جانوروں کے بچے اپنی ماؤوں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتے ہیں (اسی طرح مقلد اپنے خود مقرر کردہ پیشوا کے قول پر بغیر دلیل  کے آنکھیں بند کر کے عمل کرتا ہے)
مقلد دماغی مریض ہوتاہ ے: الدبوسی مزید لکھتے ہیں: اگر مقلد نے اپنے آپ کو جانور(ڈنگر) اس لئے بنا لیا ہے کہ وہ عقل و شعور سے پیدل ہے تو اس کا (دماغی ہسپتال میں ) علاج کرایا جائے۔
مقلد کو مناظرہ کی اجازت نہیں: ابو زید الدبوسی حنفی ان بدعتی تقلید پرستوں کو قیمتی مشورہ دیتے ہیں جو دن رات مناظروں کا ڈھونگ رچائے پھرتے رہتے ہیں کہ عقل کے اندھو:
‘‘ولا یناظر’’ کہ ایک دماغ خراب مقلد سے مناظرہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ تو عقل سے پیدل ہوتا ہے۔
[فائدہ : سیوطی لکھتے ہیں کہ غزالی نے کتاب التفرقہ میں کہاہے کہ : مقلد کا کام یہ ہے کہ وہ خاموش رہے (الحاوی للفتاوی ۱؍۱۱۶، الفتاوی الأصولیۃ الدینیۃ]
مقلد کا علاج تلوار ہے:وہ لکھتے ہیں اگر عقل و شعور کے باوجود اسے تقلید پرستی کا جنون ہے تو پھر اس (ہٹ دھرم، متعصب و غالی) مقلد کا علاج (اسلامی حکومت کی) تلوار ہے، یہاں تک کہ اس کی عقل ٹھکانے لگ جائے۔ کیونکہ انسانی شرف کو ترک کر کے تعصب و عناد کی بنیاد پر اپنے آپ کو جانور(ڈنگر) بنانا انسانی عظمت کو بغیر چھری کے ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ تقلید پرستی، امام پرستی اور مذہب پرستی کا ڈھونگ رچانے والے غالی و متعصب مقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے اصولی پیشوا اور حنفی امام کی نصیحت پر غور کر کے تقلید کے مرض سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کریں۔ ورنہ ساری زندگی ذلت و رسوائی کے علاوہ قیامت کے دن پچھتاوے کا (بھی ) سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی  ط’’(الفجر :۲۳) اور اس دن کا پچھتاوا کسی کام کا نہ ہوگا۔
وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ أجمعین

Kya abu hanifa muqallid the

کیا ابو حنیفہ مقلد تھے

ِإن الھدایۃ کالقرآن قد نسخت من قبلھا فی الشرع من کتب  (مقدمہ الھدایۃ )

ترجمہ: بالیقین ھدایہ قرآن کریم کی مانند ہے اور اس کے سوا شریعت کی تمام کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں ۔

فلعنۃ ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ  (رد المحتار ج۱ص۶۳)

ترجمہ : اس شخص پر ریت کے ذروں کے برابر ہمارے رب کی طرف سے لعنت ہو جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کر دے۔

آئیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کن کن حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کیا ہے جن پر احناف رات دن لعنت بھیجنے پر تلے ہوئے ہیں۔

امام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ)،امام محمد (۱۸۹ھ)، امام شافعی رحمہ اللہ (۲۰۴ھ)، اما م ابو یوسف رحمہ اللہ (۲۰۸ھ)، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۲۴۱ھ)، امام بخاری رحمہ اللہ (۲۵۶ھ)، امام نسائی (۳۰۳ھ)، امام طحاوی رحمہ اللہ (۳۲۱ھ)، امام ابن حزم (۴۵۶ھ)، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ)، امام نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ)، امام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ)

اور بھی بے شمار حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کئی اقوال کو رد کیا ہے قارئین کرام سلف صالحین پر لعنت بھیجنا ہی احناف کی بزرگی اور دینداری ہے۔

جب کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے

کہ جب میری امت میں پندرہ خصلتیں پائی جائیں گی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا اور ان میں سے ایک (اذا لعن آخر ھذہ الأمۃ أولھا) (ترمذی رقم حدیث۲۲۱۰، ابن ماجہ) جب اس امت کے آخر میں آنے والے لوگ پہلوں پر لعنت بھیجنے لگیں گے۔

ایک دوسری جگہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

(ومن لعن مؤمنا فھو کقتلہ) (بخاری کتاب الأدب باب ۴۴ رقم الحدیث۶۰۴۷)

جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی گویا کہ اس نے اس کو قتل کر دیا۔
’’ فَاسْئَلُوا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘

اسے تقلید ثابت ہوتی ہے تو آئیے دیکھیں اس آیت کے بارے میں حضرات احناف کا کیا خیال ہے۔

’’ فَاِنْ کُنْت فِیْ شَکِّ مِّمَّا أنْزَلْنَا اِلَیْکَ فَاسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقُرَأوْنَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ‘‘ (یونس۔۹۴)

ترجمہ: اے محمد ﷺ جو کچھ ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اس میں اگر آپ کو کسی قسم کا شک ہو تو آپ پوچھ لیجئے ان لوگوں سے جو کتاب ( تورات اور انجیل ) پڑھتے ہیں۔

کیا یہاں پر بھی احناف یہی کہیں گے کہ نبی کریم ﷺ کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے یہود و نصریٰ کی تقلید کا حکم کیا ہے اگر ایسا نہیں بلکہ یقینا ایسا نہیں تو

(فاسئل) کا معنی احناف (تقلید) نہیں لے سکتے اور ہر گز نہیں لے سکیں گے۔ القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن کی آیت ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہے تو پتہ چلا کہ یہاں پر (فَاسْئَلُوْا) کا معنی تحقیق ہے نہ کہ تقلید جس کا دعویٰ احناف اور دیگر مقلدین بھی کرتے ہیں ۔

اور یہ معنی ہم نے اپنی طرف سے نہیں گھڑا۔آیت کا ماقبل بتا رہا ہے۔

وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ ِالاَّ رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ ُکُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (النحل ۴۳)

ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے مردوں کے علاوہ کسی کو نبی بنا کر نہیںبھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے رہیں پس اس چیز کا اگر تم کو علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لو یعنی تحقیق کر لو۔

اور اگر یہاں پر (فاسئلوا) سے مراد تقلید لیں گے تو پھر معنی یہ بنے گا کہ اگر محمد ﷺ کے نبی ہونے میں تمہیں کوئی شک ہو تو اہل علم یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی تقلیدکرو۔حالانکہ آیت کا یہ مطلب کسی بھی مفسر نے نہیں لیا ۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو بھی قرآن کریم کی موجودگی میں تورات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللھم اھد قومي فانھم لا یعلمون۔

وقال ابن عباس رضی اﷲ عنہ یوشک ان تنزل علیکم حجارۃ من السماء أقول! قال رسول اللہ ﷺ وتقولون قال ابو بکر و عمر (زادالمعاد ج ۲، ص۱۹۵)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے۔

قال عبد اﷲ بن عمر: أرأیت ان کان أبی نھیٰ عنھا وصنعھا رسول اللہ ﷺ أأمرأبي یتبع أم أمر رسول ﷺ فقال الرجل بل أمر رسول اللہ فقال: لقد صنعھا رسول ﷺ (رواہ الترمذی فی باب ماجاء فی التمتع رقم الحدیث ۸۲۴)

ترجمہ : تومجھے بتا اگر اس کام سے میرے والد نے منع کیا ہو اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو کیا ہو بتا کس کی اتباع کرنی چاہئے؟ میرے والد کی یا اللہ کے رسول ﷺ کی ؟ تو اس نے کہا بیشک اللہ کے رسول ﷺکی اتباع کی جائے گی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو پھر سن لے اللہ کے رسول ﷺ نے اس کام کو کیا ہے۔

  اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی نبی کریم ﷺ کی حدیث کے سامنے کسی صحابی کا قول یا فعل حجت نہیں تھا۔

ان کی تقسیم عجیب ہے امام کی تقلید کو تو اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور جو صحابہ کرام علم اور تقویٰ میں امام سے کئی گنا بڑھ کر ہیں ان کی تقلید سے عوام کو منع کرتے ہیں۔’’ تِلْکَ اِذًاقِسْمَۃٌ ضِیْزٰی‘‘ یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔

ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں ۔

ان اﷲ لم یکلف أحداً أن یکون حنفیا أو مالکیا أو شافعیا أو حنبلیا بل کلفھم أن یعملوا بالسنۃ (شرح عین العلم ص ۳۲۶)

للہ تعالیٰ نے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ ـحنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے سب کو سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے کا مکلف بنایا ہے۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کیا خود اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی تقلید کا حکم دیا ہے یا نہیں ۔

سئل أبو حنیفۃ إذا قلت قولا وکتاب اللہ یخالفہ: قال أترکوا قولی بکتاب اللہ قال إذا قلت قولا وحدیث رسول اللہ ﷺ یخالفہ قال اترکوا قولی بخبر الرسول ( عقد الجید ص۴۵)

اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگرآپ کا کوئی قول اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف ہو تو کیا کریں فرمایا میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی کتاب کو لے لینا پھر کہا اگر آپ کا قول اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کے خلاف ہو تو ؟ فرمایا اسی طرح میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے فرمان کو لے لینا۔

اب دیکھتے *ہیں _کہ ~امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ~_*خود بھی کسی کی تقلید کرتے تھے یا نہیں *~_*اني لا اقلد التابعی لأنھم رجال ونحن رجال ولا یصح تقلیدہم ( نور الأنوار
*_~*
_~*ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتاکیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور انکی تقلید صحیح نہیں ہے۔
*~_
اسی طرح علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:۔

إذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذھب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذھبہ ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عن ابي حنیفۃ أنہ قال اذا صح الحدیث فھو مذھبی ۔ (شرح عقود رسم المفتی لا بن عابدین ص۱۹)

جب صحیح حدیث ملے اور وہ حدیث ہمارے مذہب کے خلاف ہو پھر حدیث ہی پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابو ـحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہو گا اور اس صحیح حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے کوئی ـحنفیت سے نہیں نکلے گا کیونکہ امام صاحب کا فرمان ہے کہ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہو گا۔

یہ تمام باتیں دلائل کے ساتھ پڑھنے کے بعد بھی اگر کسی مقلد کو تسلی نہ ہو اور اپنی اس تقلید سے توبہ نہ کرے تو پھر ہم اس کے بارے میں وہی کہیں گے جو کچھ علامہ عبد الحیی حنفی لکھنوی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔

قد تعصبوا فی الحنفیۃ تعصبا شدیدا ً والتزموا بما فی الفتاوی التزاماً شدیداً وان وجدو ا حدیثا صحیحا أو أثرا صریحاً علی خلافہ وزعموا أنہ لو کان ھذا الحدیث صحیحا لأخذ صاحب المذھب ولم یحکم بخلافہ وھذا جھل منھم (النفع الکبیر ص۱۴۵)

احناف کی ایک جماعت سخت تعصب میں مبتلاء ہے اور سختی سے کتب فتاویٰ کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اور اگر ان لوگوں کو کوئی صحیح حدیث یا کوئی صریح اثر مل جاتا ہے جو ان کے مذہب کے خلاف ہو تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو امام صاحب ضرور اس کے مطابق فتویٰ دیتے اور اس کے خلاف فیصلہ نہ دیتے اور یہ ان لوگوں کی جہالت ہے۔

آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو یہ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں ۔الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)

ترجمہ: علماء شوافع مثلاً قفال، شیخ ابن علی اور قاضی حسین رحمہ اللہ ان سب کا یہ کہنا ہے کہ ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے ۔( کہ وہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد نہیں تھے) مثلاً ابو یوسف رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ کیونکہ انہوں نے اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہے۔

اسی طرح امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔

قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)

*ترجمہ: اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔*

Radde taqlid ulmae dewban ki adalat me

رد تقليد علمائے(ديوبند) احناف كي عدالت ميں!
امام ابويوسف رحمه الله عليه كے مقام كو كون نهيں جانتا هے ــ
دليل نمبر1: إمام ابويوسف رحمه الله  فرماتے هيں:
لايحل لأحد أن يفتي بقولنا مالم يعلم من أين قلناه.[ ايقاظ ص/52].
ترجمه: كه كسي آدمي كے لئے جائز نهيں كه وه همارے قول كي دليل معلوم كئے بغير فتوى دے.
دليل نمبر2:امام محمد بن شيباني رحمة الله عليه بهي امام ابوحنيفه رحمه الله كے خاص شاگردوں ميں سے ايک هيں وه فرماتے هيں:
لوجازالتقليد كان من مضى من قبل أبي حنيفة مثل الحسن البصري،وإبراهيم النخعي رحمهما الله أحرى أن يقلدوا.[ مبسوط سرخسي ص:12،28].
ترجمه:اگرابوحنيفه كي تقليد جائز هوتي تو وه لوگ جو ابوحنيفه سے پهلے گذرے وه تقليد كے زياده حقدار تهے ، مثلا: حسن بصري، ابراهيم نخعي وغيرهم( نخعي امام ابوحنيفه كے استاذ تهے).
دليل نمبر3:امام زفررحمة الله عليه بهي امام ابوحنيفه كے شاگرد تهے فرماتے هيں:
إنّما نأخذ بالرأي إذالم نجد الأثرفإذا جاء الأثرتركنا الرأي وعملنا بالأثر.[ايقاظ صـــ52].
ترجمه: بے شک هم رائے پراسوقت عمل كرتے هيں جس وقت هميں كوئي حديث نهيں ملتي اورجب هميں حديث مل جاتي هے تو هم اپني رائے كو ترک كرديتے هيں اورحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم پرعمل كرتے هيں.
دليل نمبر4:عبد الله بن مبارک بهي امام ابوحنيفه كے ايک شاگرد تهے ، مگرحديث رسول صلى الله عليه وسلم پرسختي عمل كرتے تهے ايک دفعه كوفه ميں آپ نماز ميں امام ابوحنيفه كے ساته كهڑے هوگئے تو آپ نے نمازميں سنت كے مطابق عندالركوع اوربعد الركوع رف اليدين كينماز كے بعد امام ابوحنيفه نے كها اے عبدالله جب تونے رفع اليدين كي تو ميں سمجها كه شايد عبد الله بن مبارک اڑنے  لگا ابن مبارك نے فورا جواب ديا كه امام صاحب جب آپ  نے  افتتاح ميں رفع اليدين كي تهي تو آپ اڑنے لگے تهے؟
ايک دفعه آپ سفركے لئے روانه هوئے تو محمد بن خاقان كهتے هيں كه هم نے كها :
أوصنا فقال لاتتخذوا الرأي إماماً.[إعلام الموقعين 1/ص25].
ترجمه:كه هميں كوئي وصيت فرمائے تو آپ نے فرمايا كه رأئے كو امام نه بنانا بلكه كتاب وسنت پرعلمل كرناكيوں كه كتاب وسنت پرعمل كرنے كا حكم هے رأئے اور قياس پرعمل كرنے كا نهيں.
دليل نمبر5:ملا علي قاري حنفي جنهوں نے  مشكوة كي شرح بهي لكهي هے فرماتے هيں:
ومن المعلوم أنّ الله سبحانه وتعالى ماكلّف أحداً أن يكون حنفيّاً أو شافعيّاً أو مالكيّاً بل كلّفهم أن يعملوا بالكتاب والسنة إن كانوا علماء أو تقلدواإن كانوا جهلاء.[معيارالحق ص 97].
ترجمه:يه معلوم شده بات هے كه الله تعالى نے كسي آدمي كو اس بات كا مكلف نهيں بنايا كه وه حنفي ، شافعي، مالكي هو بلكه ان كو تو اس بات كا مكلف بنايا هے كه وه كتاب وسنت پرعمل كرے اگرمعلوم نه هوتوكسي عالم سے پوچه ليں.
دليل نمبر6:علامه ابن الهمام حنفي علماء ميں خاص مقام ركهتے هيں آپ فتح القدير كے نام فقه حنفي كي معتبركتاب هدايه كي شرح لكهي هے آپ فرماتے هيں:
فلا دليل على وجوب اتباع المجتهدالمعين بالزام نفسه ذلك قولاوشرعاً.[حقيقة الفقه:ص62].
ترجمه:كسي بهي خاص مجتهد كي تقليد پركوئي شرعي دليل نهيں هے.
دليل نمبر7: علامه ابن الحاج حنفي فرماتے هيں:
لم يوجب الله ورسوله على أحد أن يتمذهب رجل من الأئمة فيقلده في كل مايأتي ويزرغيره.[طريق محمدي ص92].
ترجمه:الله تعالى اوراسكے رسول صلى الله عليه وسلم نے كسي بهي آدمي پركسي ايک مذهب كي تقليدواجب نهيں كي كه وه ايک معين امام كي تقليد كرے اورباقي كے اقوال كو ترک كردے.
دليل نمبر8:ملا حسن شرنبالي حنفي نے ايک رساله بنام العقد الفريد لبيان الراجح من الخلاف في جواز التقليد لكهاهے جسميں آپ نے تقليد كي بحث كرتے هوئے آخرميں لكها هے:
مما ذكرنا أنّه ليس على الإنسان  التزام مذهب معين وأنّه يجوز له العمل بما يخالف ماعمله على مذهبه مقلّداًفيه غيرإمامه.[معيارالحق:ص124].
ترجمه:كه هماري مذكوره بالا بحث كا حاصل يه هے كه كسي انسان پرايک خاص مذهب كي تقليد جائز نهيں بلكه  اسكے لئے جائز هے كه وه اپنے امام مجتهد كے علاوه كسي دوسرے مجتهد كے قول پرعمل كرے.
دليل نمبر9:علامه عابد سندهي حنفي فرماتے هيں:
وجوب تقليد مجتهد معين لاحجة عليه لامن جهة الشرعية ولامن جهة العقل.[طريق محمدي ص93].
ترجمه: كسي بهي مجتهد مفتي كي تقليدپركوئي دليل نهيں هے نه شرعي لحاظ سے نه عقل كے لحاظ سے.
دليل نمبر10: امام طحاوي حنفي  رحمة الله عليه  فرماتے هيں:
أوكلّ ماقال به أبوحنيفة رحمه الله أقول به وهل  يقلد إلا عصبي أوغبيّ.[لسان الميزان 1/ص221].
ترجمه:كيا جوكچه ابوحنيفه رحمه الله نے كها ميں بهي وهي كهوں گا؟ نهيں نهيں هرگزنهيں كيوںکه تقليد تو متعصب اور كندذهن (نيم بے وقوف) كرتاهے.
دليل نمبر11:قاضي ثناء الله پاني پتي حنفي تقليد كا رد ان الفاظ ميں كرتے هيں:
فمن يتعصب بواحد معين غير رسول الله صلى الله عليه وسلم ويرى أنّ قوله هو الصواب الذي يجب اتباعه دون الأئمة لآخرين فهو ضال جاهل.[ بحواله: طريق محمدي 1/159].
جوشخص يه خيال كرے كه رسول الله عليه وسلم كے علاوه فلاں امام كي تمام باتيں درست اور واجب الاتباع هيں وه گمراه اورجاهل هے.
دليل نمبر12: علامه مرجاني حنفي فرماتے هيں:
إذا صحّ الحديث  وعارضه قول صاحب أو إمام فلا سبيل إلى العدول عن الحديث ويترك قول ذلك الإمام والصاحب للخيرثمّ قال لايجوزترك آية أو خبربقول صاحب أو إمام ومن يفعل ذلك فقد ضلّ ضلالاً وخرج عن دين الله.[ناظورة الحق بحواله: حقيقة الفقه ص79].
ترجمه: جب كسي امام يا صاحب كا قول صحيح حديث كے خلاف آجائے توحديث كوامام كے لئے نهيں چهوڑاجائے گا بلكه امام كے قول كوحديث كي وجه سے ترک كردياجائے گا پهرآپ نے فرماياكه كسي آيت ياحديث كوكسي امام صاحب كے قول كي وجه سے چهوڑنا جائز نهيں هے اوجس نے ايساكيا (تقليد كي  وجه سے آيت يا حديث كو چهوڑديا) وه گمراه هوگيا اورالله تعالى كے دين سے خارج هوگيا.
دليل نمبر13:عصام بن يوسف حنفي امام ابوحنيفه کے شاگرد تهے آپ سے پوچها گيا كه بهت سے مسائل ميں آپ امام صاحب كے خلاف هيں اس كي كيا وجه هے؟ تو آپ نے جواب ديا:
لأنّ أباحنيفة رحمه الله تعالى أوتي من الفهم مالم تؤت فادرك بفهمهمالم ندرك ولاأن نفتي بقوله مالم نفهم.[ أنظر:حجة الله البالغة1/ص158].
ترجمه: اسلئے كه امام ابوحنيفه رحمه الله تعالى  كو ايسا فهم دياگيا جو همكو نهيں دياگيا انهوں نے اپنے فهم(عقل) سے جوسمجها هم نهيں سمجه سكتے اورجب تک هم خود نه سمجه ليں همارے لئے ان كے قول پر فتوى دينا جائز نهيں هے. سؤال: كيا اسي كو تقليد كهتے هيں؟ (كوئي جواب دے)
دليل نمبر14: علامه محمد بن أمين المشهورابن عابدين شامي حنفي بهي سركرده احناف ميں سے هيں آپ نے تقليد پربحث كي هے اورآخرميں فيصله سنايا هے فرماتے هيں:
فتحصل مما ذكرناه أنّه ليس على الإنسان التزام مذهب معين.[ردالمختارعلىدرالمختار1/56].
ترجمه:هماري بحث سے يه بات ثابت هوئي كه كسي انسان پركسي خاص مذهب كي تقليدكرنا ضروري نهيں هے.
دليل نمبر15:حافظ الأصول والفقه أخوندحبيب الله قندهاري حنفي نے بهي حنفي هونے كے باوجود تقليدكي ترديد كي هے چنانچه  مغتنم الحصول ميں فرماتے  هيں:
فكان إجماعا على التزام مذهب معين غيرلازم.
ترجمه:يعني تقليد كے واجب نه هونے پراجماع هے.
مزيدفرماتے هيں:
وقال حنفي أوشافعيّ كان لغوا كقوله أنا فقيه أو نحويّ.[معيارالحق ج1/ص 119].
ترجمه:اگركوئي آدمي يه كهے كه ميں حنفي يا شافعي هوں تويه لغو(فضول بے هوده) بات هوگي جيساكه كه كوئي يه كهے كه ميں فقيه يا نحوي هوں.
غوركيجئے كه قندهاري صاحب تقليدي نسبت كو لغوقراردے رهے هيں.
يهاں مجهے ايک شعريادآيا:
                        مجهے ڈرهے دل زنده تو نه مرجائے 
                       زندگي عبارت هے تيرے جينے سے
دليل نمبر16:شيخ المعروف ملاجيون حنفي نے تفسيرأحمدي ميں لكهاهے:
يجوزله أن يعمل بمذهب ثمّ ينتقل إلى آخركمانقل عن كثيرمن الأولياء ،ويجوز له أن يعمل في مسئلة على مذهب وفي أخرى على آخركما هو مذهب الصوفية.[تفسيرأحمدي بحواله طريق محمدي ص 66]ز
ترجمه: مقلد كے لئےيه جائزهے كه پهلے كسي ايک مذهب پرعمل كرے پهردوسرے كي طرف منتقل هوجائے جيساكه بهت سے اولياء كرام سے منقول هے اوريه بهي جائز هے كه ايک مسئله پر ايک مذهب كي وجه سے عمل كرے اوردوسرے مسئله ميں كسي دوسرے مذهب كے مطابق جيساكه صوفياء كا مذهب هے.
دليل نمبر17:مولانا رشيداحمدگنگوهي حنفي كا جومقام احناف ميں هے وه كسي سے مخفي نهيں آپ نے تقليد كا رد كرتے هوئے لكها هےكه:
جومسئل خلاف نصوص كے هے وه باطل هے اورترک اسكا واجب هے.[ حواله ديكهيں:سبيل الرشاد بحواله طريق محمدي 160].
دليل نمبر18:مولانا أشرف علي تهانوي حنفي رحمه الله بهي حق لكهنے پر مجبورهوكرلكهتے هيں:
كسي حديث كي تاويل كركے ردكرنا اورامام صاحب كے قول كو ترک نه كرنا ايسي تقليد حرام اورمصداق قوله تعالى:{ اتخذوا أحبارهم ورهبانا أربابا من دون الله...} الأية اور خلاف وصيت أئمه مرحومين كے هيں.[بحواله طريق محمدي ص 160].
دليل نمبر19: شاه ولي الله  محدث دهلوي نے بهي تقليد كي ترديدكرتے هوئے لكها هے:
فإن شئت أن ترى أنموذج اليهود فانظر إلى علماء السوء من الذين يطلبون الدنيا وقد اعتادوا تقليد السلف وأعرضوا عن نصوص الكتاب والسنة وتمسكوا بتعمق عالم وتشدده استحسانه فأعرضوا عن كلام الشارع المعصوم وتمسكوا باحاديث موضوعة  وتاويلات فاسدة فإنّهم هم.[الفوزالكبيرص27ــ مطبوعه كراچي پاكستان].
ترجمه:اگرتم يهوديوں كا نمونه(هم مذهب) ديكهنا چاهتے هوتو ان علمائے سوء(بدترين علماء) كوكوديكه لو جنهوں نے دنيا كي طلب ميں كتاب وسنت كے دلائل چهوڑكراسلاف كي تقليد كو اپنا ليا اورايک هي عالم كے برے بهلے كلام كے پيچهے لگ  گئے هيں اورشارع معصوم كے كلام(حديث) كو چهوڑدياهے اوراپنے امام كے قول پرضعيف احاديث اورفاسد تاويلوں كي وجه سے مضبوطي سے عمل پيرا هيں  پس بے شک يه معلوم هوتاهے كه يه مقلد علماء سوء اوريهود بلكل برابرهم مذهب هيں.
مزيد شاه صاحب فرماتے هيں:
فإذابلغنا حديث من  الرسول المعصوم صلى الله عليه وسلم الذي فرض الله علينا طاعته بسند صالح يدلّ على خلاف مذهبه وتركنا حديثه واتبعنا ذلك التخميس فمن أظلم منّا وما عذرنا يوم يقوم الناس لرب العالمين.[حجة الله البالغة1/ص 156].
ترجمه:پس اگرهميں رسول الله صلى الله عليه وسلم كي صحيح حديث مل جائے جنكي اطاعت الله تعالى نے هم پرفرض كي هے سند اسكي درست هومگرامام  كے مذهب كے خلاف هو تو هم حديث كوچهوڑكرامام كے خودساخته قول كو اپناليں توهم سے بڑاظالم كون هوگا؟اورقيامت كے دن الله تعالى كي عدالت ميں كوئي عذرقابل قبول نه هوگا.
يه تمام اقوال صرف اور صرف علمائے احناف كے هيں جن اقوال ميں انهوں نے تقليد كا رد كياهے.
اب آپ سے سؤال كه اگرتقليد واجب يا فرض ، وضروري هوتي تو كيا اسكي مذمت علماء كرتے؟ كيا كوئي اسكا جواب دينا پسندكرے گا؟
هذاعندي وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
ــــــــــــــــــــــــــ