Showing posts with label chand. Show all posts
Showing posts with label chand. Show all posts

RUYATE HILAL PE HADEES KARIB KA AEK MUTALAH

*رویت ہلال پہ حدیث کریب کا ایک مطالعہ*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*مقبول احمد سلفی*
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

رفتار زمانہ کے حساب سے مسائل واحکام میں بھی بسا اوقات تبدیلی واقع ہوتی ہے، آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں بعض کے نزدیک وحدت رویت کا مطالبہ وقت کی ضرورت اورحالات کا تقاضہ ہے۔یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے متقدمین میں سے بھی بعض علماء نے وحدت رویت پہ روشنی ڈال کر اسے اپنےموقف کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔جہاں تک مسئلہ امت کا ہےوہ سب کے سامنے ہے ، ہمیشہ سے امت کا تعامل وحدت رویت کے خلاف رہا ہے ۔ اپنے اپنے علاقہ کی رویت پہ انحصار کرکے روزہ رکھنے اور عید منانے کا دستور رہا ہے ۔
رمضان کے موقع سے رویت کے متعلق عوام میں شدید اختلاف کے باعث بعض علماء وحدت رویت پہ امت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ میں ایسے علماء کا اس وقت تک حامی نہیں ہوں جب تک امت کا وحدت رویت پر واضح اور قابل عمل اتفاق نہ ہوجائے خواہ عالمی سیمینار کرکے یا ملکی پیمانے پر اپنے اپنے علماء کے اتفاق رائے سے ۔
مختصر الفاظ میں اپنے موقف کو بیان کرنے کے بعد یہاں رویت ہلال کے سلسلے میں بہت ہی مشہور اور اہم دلیل حدیث کریب کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں تاکہ حالات کے تقاضہ سے ہٹ کر ہمیں رویت ہلال سے متعلق فہم سلف کی روشنی میں اسلام کا موقف معلوم ہوسکےکیونکہ کتاب وسنت کو ہمیں فہم سلف کی روشنی میں سمجھنا ہے ۔ اگر فہم قرآن وحدیث سے فہم سلف کو نکال دیا جائے تو پھر کوئی بھی نص کے مفہوم کو اپنے مسلک کی تائید میں موڑ سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں فہم سلف کا درجہ ویسے ہی ہےجیسے حدیث میں سند کا۔
*آئیے حدیث کریب کا ایک مطالعہ کرتے ہیں ۔*
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نےچاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
تخریج: (صحيح مسلم:1087، سنن أبي داود:2332، سنن النسائي:2111، سنن الترمذي:693، صحیح ابن خزیمہ:1916، السنن الکبری للبیہقی:8007،مسند أحمد:2785، سنن الدارقطني:2185 \21)
یہ حدیث مختلف کتب احادیث میں مروی ہے، یہ حدیث جن محدثین کے توسط سے ہم تک منقول ہوئی ہے انہوں نے اپنے اپنے اساتذہ سے کیا سمجھا ہے یہ جاننے کی اہم بات ہے۔ اس سے حدیث کا معنی ومفہوم متعین کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ حدیث اپنے معانی ومفاہیم کے ساتھ منتقل ہوتی آرہی ہے اس لئے ہمارے واسطے حدیث کی فہم وفراست میں سلف کی فہم ہی معیار ہے۔
*حدیث کریب پہ محدثین کے قائم کئے گئے ابواب :*
محدثین نے احادیث کو کتاب اور ابواب کے اعتبار سے جمع کیا ہے اس طرح محدثین نے حدیث سے کیا سمجھا ہے اس کا معنی متعین کرنے میں ہمارے لئے آسانی ہوگئی ہے۔
(1) مسلم شریف میں اس حدیث پر یوں باب باندھا گیا ہے :
’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دور کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔
(2) امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں مذکورہ حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے ’’باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟۔
(3) امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس طرح باب قائم کیا ہے ’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔ باب اس چیز کے بیان میں کہ ہر علاقہ والوں کے لئے اپنی اپنی رویت کا اعتبار ہوگا۔اور پھر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :"العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ "اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔
(4) امام نسائی نے کچھ اس طرح باب باندھا ہے: "باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ "باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشندے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں۔
(5) امام ابن خزیمہ نے یہ باب قائم کیا ہے: ’’ باب الدليل على أن الواجب على أهل كل بلدة صيام رمضان لرؤيتهم لا رؤية غيرهم‘‘ یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے ۔
(6) حدیث کریب کی روایت کو بیہقی نے اپنی السنن الکبری میں اس باب سے بیان کیا ہے" باب الهلال يرى في بلد ولا يرى في آخر" چاند کے بارے میں باب جسے ایک شہر والے نے دیکھا اور دوسرے شہر والے نے نہیں دیکھا۔
(7) دارقطنی نے اپنی سنن "باب الشهادة على رؤية الهلال" (چاند دیکھنے کے سلسلے میں گواہی کا باب )کے نام سے باب باندھا ہے۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ کتاب وسنت کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھنا ہے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول سے فہم سلف نکال دیا جائے تو نص کو جو چاہے گا اپنے مقصدوہدف کی طرف پھیر لے گا۔ یہ حدیث جن کتب احادیث میں آئی ہے ان کی تدوین وترتیب کرنے والوں نے اپنے اپنے اساتذہ سےرویت ہلال کا  یہی مذکورہ معنی معلوم کیا ہے اور انہوں نے اپنے اپنے شاگردوں کو بھی اسی معنی ومفہوم کی تعلیم دی ہوگی ۔ ان سارے شیوخ وتلامذہ کی تعداد دیکھی جائے تو ہزاروں میں ممکن ہے۔ ان کے علاوہ اسلاف کی ایک بڑی جماعت سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا اعتبار کرنا منقول ہے جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور آخر اسی پرچودہ صدیوں سے  امت کا تعامل بھی رہاہے جیساکہ امام ترمذی نےحدیث کریب پہ لکھا ہے کہ اہل علم کے درمیان اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہرعلاقہ کی رویت کا اعتبار ہوگااور امام بغوی نے بھی لکھا ہے کہ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ "ان لکل اھل بلد رویتھم" ۔ البتہ بعض اہل علم نے وحدت رویت ہلال کا ذکر کیا ہے وہ بہت تھوڑے ہیں انہیں شمار کرسکتے ہیں ۔
*حدیث کی شرح اور اس کا مفہوم :*
اس حدیث میں مذکور ہے کہ ام الفضل نے کریب کو شعبان کے اخیر میں معاویہ کے پاس کسی کام سے بھیجا تو وہاں انہوں نے اور اہل شام نے جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اور سبھوں نے روزہ رکھا۔ جب کریب کام مکمل کرکے دوران رمضان ہی مدینہ لوٹ آئے ۔ ابن عباس سے کریب کی رویت ہلال پہ گفتگو ہوئی تو کریب نے کہا کہ ہم لوگوں نے جمعہ کی شب چاند دیکھا ہے ، تاکیدا ابن عباس نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے بھی دیکھا اور اہل شام نے بھی دیکھا ۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے اور اسی دن سے روزہ شروع کیا ہے لہذا ہم روزہ رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم چاند دیکھ لیں تو عید منائیں گے یا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے مکمل کریں گے ۔گویا ابن عباس نے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہیں کیا۔ کریب نے اس بات پہ تعجب کا اظہار کیا کہ کیا امیرمعاویہ کی رویت آپ کے لئے کافی نہیں ہے ؟  تو ابن عباس نے جواب دیا کہ نہیں ہمارے لئے امیر معاویہ کی رویت کافی نہیں ہے کیونکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اس حدیث میں تین باتیں اہم ہیں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ شام اور مدینہ کے درمیان کتنی مسافت ہے ؟ 
دوسری بات یہ ہےکہ  ابن عباس نے معاویہ کی رویت کا اعتبار کیوں نہیں کیا؟
تیسری بات یہ ہے کہ ابن عباس کا کہنا ایسے ہی نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میپ زوم ڈاٹ کام کے اعتبار سے طریق(راستہ) کا اعتبار کرکے 1267 کیلو میٹر ہے اور خط مستقیم کا اعتبار کرکے 1045 کیلو میٹر ہے۔ صاحب سبل السلام تحریر فرما ہیں کہ اہل شام کی رویت کا اعتبار اہل حجاز کے لئے نہیں ہوگا اور کریب نے اکتیسواں روزہ رکھا جو کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں ہی تھا۔ (سبل السلام :ص156)
کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اگر شام ومدینہ کے درمیان 1045 یا 1267کیلو میٹر کا فرق ہے تو ہندوستان میں پندرہ کیلو میٹر یا دوسری جگہ اس سے کم اور زیادہ  کا اعتبار کیوں ہوتا ہے ؟ کرہ ارض کے نشیب وفراز سے مطلع کے فرق میں بعض مقامات کا بعض دوسرے مقامات سے فرق ہوسکتا ہے اس لئے اصلا مطلع کا فرق دیکھا جائے گا نہ کہ کیلو میٹر کا ۔ اس کا عمومی طریقہ یہ ہے کہ عموماجن علاقوں میں ایک ساتھ رویت ہوتی ہے ان تمام علاقوں کا مطلع ایک مانا جائے گاخواہ مسافت جو بھی ہو۔
دوسرے سوال کا جواب صحیح مسلم کی مشہور زمانہ شرح (شرح نووی) کی روشنی میں دو معانی کا امکان ہے ۔ پہلا معنی تو یہ ہوسکتا ہے کہ کریب کی خبر ،خبر واحد تھی اور یہاں شہادت کا معاملہ تھا جس کے لئے خبر واحد کافی نہیں ہوتی ۔  حدیث کا یہ معنی متعین کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ خود امام نووی نے کہا کہ یہ بات ظاہر حدیث کے خلاف ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ابن عباس نے کریب کی خبر اس لئے رد کردی کیونکہ رویت دور والوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتی۔ حدیث کے ظاہر سے یہی دوسرا معنی صحیح ہے۔
تیسری بات ابن عباس کا قول کہ اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے اس سے مراد ابوداؤد کی عمدہ شرح عون المعبود میں حدیث کریب کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ چیز یاد کررکھی تھی کہ ایک بلد کا دوسرے اہل بلد کی رویت پر عمل لازم نہیں ہے ۔
*حدیث کریب پر چند اعتراضات کا جواب :*
پہلا اعتراض : اگر حدیث کریب ہی اختلاف مطلع کے اعتبار میں دلیل ہے تو اس حدیث کے حساب سے شام وحجاز کے درمیان جو مسافت ہے اس مسافت کو ہرجگہ دلیل بنائی جائے پھر ہندوستان میں پندرہ سوکلومیٹر  یا اس سے زیادہ کی رویت کیوں معتبر ہے ؟
جواب :  حدیث کی شرح اور اس کامفہوم کے عنوان سے پہلی بات کے تحت اس کا جواب دیا جاچکا ہے ۔ اور ہاں اس کے بہت سارے دلائل ہیں حدیث میں اہل ستارہ کا مسئلہ دیکھیں اور عکرمہ کا قول لکل اھل بلد رویتھم  بھی دیکھ لیں ۔
دوسرا اعتراض : ابن عباس کا اہل شام کی رویت نہ تسلیم کرنا صحابی کا اجتہاد تھا جوکہ غلط بھی ہوسکتا ہے ۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ صحابی نے خود اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ہمیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے گویا کہ یہ ان کا اجتہاد نہیں تھا فرمان رسول پر عمل تھا۔
تیسرا اعتراض: افطار کے سلسلے میں خبر واحد کافی نہیں ہے اس وجہ سے ابن اعباس نے کریب کی خبر رد کردی کیونکہ انہیں رسول اللہ کا حکم معلوم تھا جیساکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا ہی رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے۔
جواب : اولا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر واحد کی وجہ سے کریب کی بات رد نہیں کی جیساکہ اوپر میں واضح کرچکا ہوں ۔ ثانیاحدیث کےاس ٹکڑے" أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ "سے جو بعض اہل علم نے خبر واحد کا احتمال ظاہر کیا ہے وہ حدیث کے ظاہر اوراکثر محدثین کی رائے کے خلاف ہے۔نیز کریب نے یہ نہیں کہا کہ صرف میں نے چاند دیکھا بلکہ کہامیں نے اور اہل شام نے چاند دیکھا ہے۔ اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ابن عبا س نے خبر واحد کی وجہ سے کریب کی خبر تسلیم نہیں کی تو آسانی سے اہل شام کے ذریعہ اس خبر کی تصدیق کرسکتے ہیں جبکہ ابن عباس نے ایسی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خبرواحد کا احتمال ظاہر کرنا بالکل صحیح نہیں ہے ۔
چوتھا اعتراض : یہ وہی ابن عباس ہیں جن سے عاشوراء کے روزہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا نو محرم کا روزہ رکھ  لے۔ سائل نے پوچھا کہ کیا اسی طرح رسول اللہ ﷺ روزہ رکھتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس جواب سے حدیث کریب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ ابن عباس کے کلام میں کس طرح خطا کا امکان ہوسکتا ہے؟
جواب : ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فیصلے کو کچھ لوگوں نے الگ رنگ دینے کی کوشش کی ہے جسے یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں ہے ۔ یہاں مسلم شریف کی حدیث نمبر 2664 میں ذکر عاشوراء کی بات کا جواب دینا ہے۔ یہ حدیث مسلم کے علاوہ ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن خزیمہ اور مسند احمد وغیرہ میں موجود ہے۔ اس حدیث کا شراح حدیث نے مختلف جواب دیا ہے اعتراض کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ مسلم شریف کی روایت ہے جس کی سند اور متن دونوں میں کہیں نکارت نہیں ہے۔
عون المعبود میں اس حدیث کے تحت مذکور ہے کہ نبی ﷺ اسی طرح روزہ رکھتے کا مطلب ہےکہ  رسول اللہ ﷺ نے آخرحیات میں نویں محرم کا روزہ رکھنے کا عزم کیا تھا گویا کہ آپ نے نویں کا روزہ رکھا۔ اور صاحب تحفہ الاحوذی نے امام شوکانی کے حوالے سے ایک قول ذکر کیا ہے کہ اسی طرح نبی ﷺ روزہ رکھتے تھے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی ﷺباحیات ہوتے تو اسی طرح روزہ رکھتے ۔
کتنی سیدھی بات ہے جسے غلط رنگ دیا جارہا ہے ۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع نہیں کیا ہے تاہم ارادہ ظاہر کیا کہ اگر قربانی کا جانور ساتھ نہیں لاتے تو میں بھی تمتع کرتا ۔ اس سے علماء نے تمتع کی افضلیت پر استدلال کیا ہے ۔
پانچواں اعتراض : حدیث کریب خاص ہے ۔
جواب : بالکل خاص نہیں ہے۔ خصوصیت کی دلیل چاہئے ۔
*حدیث کریب کے چند اہم مستفادات:*
حدیث کریب سے ایسے نکتے بھی نکلتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی اعتراض کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی مثلا
٭ کریب نے  شام میں شام کی رویت کا اعتبار کرکے روزہ رکھا اور مدینہ آئے تو اہل مدینہ کے حساب سے روزہ رکھا اور عید منائی جبکہ شام کے حساب سے انہوں نے اکتیس روزے رکھے۔
٭ کوئی صحابی اپنی جانب سے اجتہاد کرکے کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، سارے صحابہ عادل ہیں ۔
٭ رویت ہلال بہت ہی اہم معاملہ ہے ،اگر ایک جگہ کی رویت ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے معتبر ہوتی تو ابن عباس جیسےجلیل القدر صحابی رسول فورا  رویت اپنے لئے بھی معتبر گردانتے ۔ بھلا فرمان رسول کے سامنے صحابی اپنا اجتہاد چلا ئے،گیا گزرا مسلمان بھی ایسی بات نہیں سوچ سکتا۔
٭ رویت کے فرق سے اہل شام اور اہل مدینہ کے شب قدر میں فرق ہورہاہے اور رمضان کی اصل پونجی والی رات تو یہی ہے۔ کریب کی خبر نہ مان کر اپنےآپ کو اور اہل مدینہ کو شب قدر کی فضیلت سے کیسے محروم کرسکتے ہیں ؟
٭ رویت ہلال کا فرق تو بہر کیف زمانے میں موجود ہے ، مطلع کا واضح فرق ہے اور اس کااعتبار کرنا ہی دلائل سے قوی معلوم ہوتا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ کریب نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے حساب سے اپنا روزہ مکمل کیا اور اس طرح اکتیس روزے ہوگئے ۔ گویا ہر علاقے کی اپنی اپنی رویت ہے ۔ وہ اس طرح کہ اگر شام میں تیس دن رمضان کے مکمل ہوئے تو مدینہ میں بھی وہاں والوں کی رویت کے اعتبار سے تیس روزے ہوئے ۔ اس اہم نکتہ سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا معتبر ہونا معلوم ہوتا ہے۔
٭ وحدت رویت کو ماننے سے حدیث کریب کی روشنی میں اہل مدینہ کا ایک روزہ چھوٹ گیا جس کی قضا کرنی تھی ، اگر اس کی قضا کرلی جاتی تو اہل مدینہ کا روزہ کریب کی طرح اکتیس کا ہوجاتا جبکہ مہینہ اکتیس کا ہوتا ہی نہیں ہے۔ اہم سوال قضا کا ہے ۔ ابن عباس کا ایک روزہ قضا نہ کرنا اور اہل مدینہ کو قضا کا حکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دور والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
٭ کریب کی خبرسے جس طرح اہل شام اور اہل مدینہ کے روزہ میں فرق واقع ہورہا ہےاورشب قدر میں فرق ہوا، اسی طرح عیدمیں بھی فرق ہورہاہے جبکہ وحدت رویت والے کہتے ہیں عید اس دن ہے جس دن سب منائیں ۔ یہاں اس کی مخالفت ہورہی ہے۔
٭ کریب کی خبر کی تصدیق وتسلیم نہ کرنا اس کا بین ثبوت ہے کہ ہر علاقہ والے اپنے حساب سے رویت کا اعتبار کرتے تھے ورنہ اولا ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خبریں وصول کی جاتیں اور خلفاء وامراء کا باقاعدہ رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ایلچی کے ذریعہ کسی جگہ رویت ہوجائے تو دوسرےتمام علاقوں میں خبر دی جاتی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کام نہ عہد رسول میں ہو ا اور نہ ہی عہد خلافت میں جو سراسر رویت وحدت کے خلاف ہے۔
٭ رویت ہلال کو ہم رمضان کے ساتھ ہی خاص سمجھتے ہیں جبکہ یہ پورے سال کے ساتھ خاص ہے ، ہرماہ ایام بیض کے روزے تیرہ، چودہ اور پندرہ کو رکھنا ہے ۔ امت کی آسانی اسی میں ہے کہ اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کریں ۔ قریب وبعید کے علاقوں میں نہ صرف گھنٹوں اوقات کا فرق پایا جاتا ہے بلکہ رات ودن کا بھی فرق ہےجوکہ قدرتی نظام ہے اس میں ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ مجھے تو اس میں وحدت نظر نہیں آتی کہ  ایک مسلمان ایک جگہ عید منائے اور دوسری جگہ رات ہونے کے سبب ہمارے دوسرے مسلمان بھائی سورہے ہوں ۔
٭اللہ تعالی جس طرح سورج کو ایک وقت میں نکالتا اور ڈباتا ہے اسی طرح چاند کو بھی ایک وقت میں اگاتا اور ڈباتا ہےاور ان دونوں (شمس وقمر) کے طلوع وغروب ، صبح صادق اور اوقات زوال بلکہ پنچ وقتہ نمازوں کے اوقات مختلف ہیں حتی کے سارے مسلمانوں کا قبلہ ایک جہت میں نہیں ہے۔ جس طرح ہم نمازوں کے اوقات کے فرق کو امت کے اختلاف سے تعبیر نہیں کرتے اسی طرح علاقائی رویت کے حساب سے روزہ اور عید منانے کو امت کا اختلاف نہیں کہیں گے ۔ 
*ہر بلد والے کے لئے اپنی اپنی رویت پر اجماع:*
علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہوگیا ہےکہ جو ایک شہر ایک دوسرے سے دور واقع ہو اس کی رویت کا اعتبار نہیں ہوگا جیسے کہ خراسان اندلس سے دور ہےاس لئے کہ ہر شہر کے لئے ایک خاص حکم ہےجو اس شہر کے ساتھ ہی مخصوص ہےجیساکہ حدیث میں آیا ہےچنانچہ جو شہر آپس میں قریب ہوں ان کی رویت ایک دوسرے لئے معتبر ہوگی ۔ خبر خواہ حکومت کی جانب سے ہو یا دو عال گواہوں کی طرف سے یا جماعت مستفیضہ کی طرف سے بہر حال قریبی شہر والوں کو شامل ہوگی  اور جو شہر زیادہ دور واقع ہو اس کو شامل نہیں ہوگی ۔ ابن عرفہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر)
*وحدت رویت ہلال کا موقف اور آخری بات :*
علامہ ابن باز نے اچھی بات کہی ہے کہ اگر وحدت رویت میسر ہوسکے تو یہ احسن وافضل ہے ورنہ ہرہلد کی رویت ہی تمام اہل علم کے نزدیک راحج ہے ۔ اور علامہ ناصرالدین البانی نے لکھا ہے جب تک تمام ممالک اسلامیہ وحدت رویت پر متفق نہ ہوجائیں اس وقت تک ہر ملک کے باشندوں کو اپنے ملک اور حکومت کے ساتھ روزہ رکھنا چاہئے ۔اختلاف کرکے الگ الگ نہ ہوجائیں کہ کوئی اپنے ملک کے حساب سے اور کوئی دوسرے ملک کے حساب سے عمل کرنے لگے بلکہ اپنے ملک کی رویت پر روزہ رکھنا چاہئے خواہ ایک دودن آگے پیچھے ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ایک ہی ملک میں وسیع پیمانے پر اختلاف پھیلنے کا خطرہ ہے اور ایسا بعض عرب ممالک میں ہوبھی رہاہے۔
ان دونوں موقف کو سامنے رکھتے ہوئے میں بھی یہ کہتا ہوں کہ  اگروحدت رویت پہ امت اسلامیہ کا اتحاد ہوجائے اور اتحاد کا نقطہ نظر بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے واضح اور قابل عمل ہو تو مجھے اس سے اختلاف نہیں ہے صرف اس وجہ سے کہ رویت ہلال پہ امت مزید ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر اپنی طاقت ختم نہ کرے اور غیروں کو جگ ہنسائی کا موقع نہ دے ۔ وحدت رویت کے کسی واضح اور قابل عمل  نقطہ اتحاد پر جب تک امت اسلامیہ کا اجماع نہ ہوجائے اس وقت تک مسلمانوں کو اپنے اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کرنا چاہئے اور اسی حساب سے روزہ رکھنا چاہئے اور عید منانا چاہئے ۔
________________________
*تحقیقی مضامین اور اسلامی احکام و مسائل کی جانکاری کے لئے مقبول احمد ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام پر تشریف لائیں۔*

RUYATE HILAL

1۔رویت ہلال ۔ اہمیت اور تقاضے
2۔مسئلہ رویت ہلال سے متعلق چند احادیث
3۔احادیث کے قابل غور گوشے
4۔اختلاف مطالع۔ متقدمین و متاخرین کی نظر میں
5۔ رویت میں عدم و حدت کے قائلین اور ان کے دلائل
7۔جائزہ وترجیح
8۔ خلاصہ بحث اور اختتامی کلمات
اللہ تعالی مجھے ان پر اجزاء پر سنجیدہ و معروضی انداز میں بحث و نظر کی توفیق بخشے اور جذباتیت سے محفوظ رکھے (آمین)
1رویت ہلال ۔ اہمیت اور تقاضے :دنیا میں بہت سے ماہ و سال رائج ہیں انہیں میں سے شمسی عیسوی ماہ و سال اور ہجری قمری ماہ و سال بھی ہے ، مگر مسلمانوں اور عام انسانوں کی زندگی میں قمری ماہ وسال کی اہمیت زیادہ ہے ۔ اس لئے کہ وہ آسان اور فطری ہے اور اس میں انسانی نفسیات کی رعایت زیادہ ہے ۔چونکہ قمری ماہ و سال کا نظام رویت ہلال پر موقوف ہے اس لئے اس کی اہمیت بھی اظہر من الشمس ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔" يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۔۔۔"(سورہ البقرہ : ۱۸۹)
ترجمہ : لوگ آپ سے ہلالوں کے بارے میں دیافت کرتے ہیں ۔ کہہ دیجئے وہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے وقت جاننے کے ذرائع ہیں ۔ (اسی مفہوم کی آیت سورہ یونس : ۵میں ہے "وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ" )
عام مفسرین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا کہ چاند گھٹتا بڑھتا کیوں ہے ؟ اس کا سبب کیا ہے ؟ مگر مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام نے دریافت کیا تھا کہ چاند کہ گھٹنے اور بڑھنے کی حکمت کیا ہے ؟ تو اللہ تعالی نے جواب دیا کہ ہلال کا گھٹنا اور بڑھنا اور چاند کی مختلف شکلیں لوگوں کے دینی و دنیاوی معاملات جیسے صوم ، افطار او ر قرض و غیرہ نیز موسم حج کے لئے اوقات جاننے کے ذرائع ہیں ۔ (حاشیہ :۶، تفسیر جلالین ص: ۲۸، طبع دہلی)
علامہ شوکانی آیت مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " اس آیت میں ہلال کے گھٹنے اور بڑھنے کی حکمت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اوقات جاننے کا ذریعہ ہے جس کی مدد سے لوگ اپنی عبادات و معاملات جیسے صوم ، افطار، حج ، مدت ، حمل، عدت، اجارہ و قسم وغیرہ کے اوقات جانتے ہیں ۔"(فتح القدیر :۱/۱۸۹، طبع بروت)
ہندوستان کے مشہور مفسر مولانا عبد الماجد دریابادی قمری ماہ وسال کی اہمیت اور مذہب اسلام نے اسے جو اختیار کیا ہے اس کی حکمت و فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :" قمری مہینے چونکہ مختلف موسموں میں ادل بدل کرآتے ہیں ، مسلمان روزہ دار بھی رمضان کی اس گردش سے ہلکی گرمی اور ہلکی سردی، شدید گرمی اور شدید سردی ، خشک و تر ہر موسم میں بھوک اور پیاس کے ضبط و تحمل کا خوگر ہوجاتا ہے "۔ (تفسیر ماجدی :۱/ ۳۳۷، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)
بہر حال اسلامی شریعت نے قمری ماہ و سال کو اپنا کر بڑی عظیم حکمت عملی اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے ، بنابریں تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ عبادات اور دوسرے معاملات زندگی میںقمری ماہ و سال کو اختیار کریں اور اسی کا اعتبار کریں ۔
چونکہ قمری ماہ وسال کا دار ومدار رویت ہلال پر ہے اس لئے تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ ہر مہینہ کے آغاز اور اختتام پر چاند دیکھنے اور قریبی علاقوں میں رویت ہلال کے پتہ لگانے کا اہتمام کریں ، مگر افسوس اس وقت مسلمانوں میں اس کے تعلق سے بڑی غفلت پائی جاتی ہے ۔
2رویت ہلال سے متعلق چند احادیث :رویت ہلال سے متعلق کتب احادیث میں بہت سے رویات ہیں ، بخاری و مسلم و ترمذی کے حوالہ سے چند احادیث مع ترجمہ ذکر کی جارہی ہیں ۔ پھر ان کے چند قابل غور گوشوں پر روشنی ڈالی جائے گی ، ان شاء اللہ ۔
"عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ، و فی روایۃ قال الشھر تسع و عشرون لیلۃ فلا تصوموا حتی تروہ فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین "(متفق علیہ ) عبد اللہ بن عمر tنے فرمایا کہ روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور افطار نہ کرو یہاں تک اسے دیکھ لو اور اگر تم پر بادل چھا جائے تو اس کا اندازہ کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ مہینہ ۲۹/ دن کا بھی ہوتا ہے تو اگر بادل چھا جائے تو ۳۰دن کی تعداد پوری کرو۔
"عن ابی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ"(متفق علیہ )ابو ہریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چاند دیکھ کرروزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اگر تم پر ابر چھا جائے تو شعبان کے دنوں کی تعداد پوری کرو ۔
"ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌالاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِينَ وَمَرَّةً ثَلاَثِينَ" (متفق علیہ ) (مشکوۃ المصابیح مع مرعاۃ المفاتیح ،ج: ۶، باب رویۃ الھلال) عبد اللہ بن عمر tکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم ناخواندہ لوگ ہیں لکھنے اور حساب سے واقف نہیں ، دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اشارہ کیا کہ مہینہ اتنے اور اتنے دنوں کا ہوتا ہے ، اور تیسری مرتبہ انگوٹھا سمیٹ لیا ، پھر فرمایا اتنے اور اتنے دنوں کا ہوتا ہے یعنی کبھی ۲۹دن اور کبھی ۳۰ دن کا ہوتا ہے ۔
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَالأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ:هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ" وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ فَقَالَ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا أَنَّ الصَّوْمَ وَالفِطْرَ مَعَ الجَمَاعَةِ وَعُظْمِ النَّاسِ "(جامع الترمذی مع العرف الشذی: ۱/۱۵۰، طبع دیوبند ) ابو ہریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزہ اسی روز ہے جس دن تم سب روزہ رکھو اور افطار اسی دن ہے جس دن تم سب افطار کرو اور قربانی اسی دن ہے جس دن تم سب قربانی کرو ۔ بعض اہل علم نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ صوم ، افطار وغیرہ جماعت مسلمین کے ساتھ ہونا چاہئے ۔
احادیث مذکورہ کے قابل غور شئے:بغیر کسی تعصب و تحزب کے مذکورہ احادیث کے قابل غور شئے اس طرح ہیں :
اول :صوم ﴾(روزہ ) کی فرضیت واقعہ تحویل قبلہ کے بعد ۲ ھ؁ کے چھٹے مہینہ شعبان میں ہوئی ،اس لئے یہ بات ظاہر وہ باہر ہے کہ مذکورہ احادیث میں جمع مذکر حاضر کے جو صیغے ہیں "لا تصومو ا، لا تفطروا ، صوموا، افطروا، تصوموا اور تفطرون وغیرہ استعمال ہوئے ہیں ان کے مخاطب براہ راست اہل مدینہ ہیں ، پھر شرعی اصول و ضوابط کے مطابق خطاب کا عموم سارے مسلمانوں کو شامل ہوجاتا ہے ، معلوم نہیں کس طرح درو جدید کے مشہور مصری محدث علامہ محمد شاکر و غیرہ نے جامع ترمذی کی حدیث ابوہریرہ میں وارد " تصومون ، تفطرون، اور تضحون " کا مخاطب اہل مکہ کو قرارد یا ہے اور پھر ایسی نکتہ آفرینی و جدت طرازی کی ہے عقل ورائے کے پرستاروں کی تاویلات بھی ماند نظر آتی ہیں ۔
دوم :احادیث میں رویت کے تعلق سے تمام مسلمانوں کو مخاطب کیاگیا ہے چاہئے دنیا کے سارے مسلمان مرد ہوں یا کسی ایک ملک کے تمام مسلمان ، مگر دوسری صحیح احادیث کی روشنی میں بیشتر علماء و فقہاء کا اجماع ہے کہ سب لوگوں کے لئے رویت کی شرط نہیں بلکہ صوم کے لئے ایک شخص کی رویت اور افطار کے لئے دوشخص کی رویت سب کے لئے کافی ہے۔ البتہ اس مسئلہ میں علمائے احناف کا کہنا ہے کہ مذکورہ صورت اس وقت ہے جب آسمان ابر آلود ہو لیکن اگر آسمان صاف ستھرا ہو تو پھر خبر مستفیض ضروری ہے یعنی اتنی بڑی جماعت رویت کی گواہی دے جس سے رویت کا ظن غالب ہوجائے مگر یہ حقیقت بے دلیل ہے ، محض عقل و رائے پر موقوف ہے واضح رہے کہ متاخرین علمائے احناف نے بعض دینی مصالح کے پیش نظر اس رائے کو ترک کردیا ہے ، جیسا کہ علامہ ابن نجیم مصری نے وضاحت کی ہے ۔ (تنبیہ الغافل و الوسنان علی احکام ھلال رمضان: ۲۳۴، بحوالہ جدید فقہی مسائل تالیف مولانا خالد سیف اللہ رحمانی: ۲/۲۸، طبع دہلی )
سوم :ظاہراحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ شروع کردینا چاہئے اور چاند دیکھ کر روزہ توڑ دینا چاہئے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند دیکھ کر صوم و افطار مشروع طریقہ اور شرعی آداب کے مطابق ہوگا ،علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں : " بل المراد الافطار و الصوم علی الوجہ المشروع فلا بدفی کل منھما من معرفۃ ذلک الوقت "(مرعاۃ الماتیح شرح مشکوۃ المصابیح : ۶/۲۲۴، طبع جامعہ سلفیہ بنارس )
ترجمہ: بلکہ مراد ہے افطار و صوم مشروع طریقہ کے مطابق ، لہذا افطار و صوم ہر ایک میں اس کے وقت کی معرفت ضروری ہے ۔
احادیث مذکورہ کی جوتوضیح کی گئی ہے اس پر تمام علماء و فقہاء کا اتفاق ہے ۔
چھارم :ابوہریرہ کے حوالہ سے جامع ترمذی کی جو حدیث ذکر کی گئی اس میں ایک اہم فقہی مسئلہ بیان کیا گیا ہے ، جس کی طرف امام ترمذی نے بعض اہل علم کے حوالہ سے اشارہ کیا ہے وہ مسئلہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو روزہ عید الفطر اور عید الاضحی جمہور مسلمانوں کے ساتھ ادا کرنا چاہئے اور عامۃ المسلمین سے شذوذ اور تفرد نہیں کرنا چاہئے ، جیسے اگر کسی شخص واحد نے یا ایسے دو شخصو نے شوال کا چاند دیکھا جن کی شہادت کا اعتبا رلوگوں نے نہیں کیا اور عامسلمانوں نے روزہ رکھا تو ان چاند دیکھنے والوں کو بھی اس حدیث کی بنا پر اس دن افطار کی اجازت نہ ہوگی بلکہ جمہور مسلمانو ں کے ساتھ مل رہ کر روزہ رکھنا پڑے گا اور سب کے ساتھ عید الفطر ادا کرنا پڑے گی ، ہاں اس مہینہ میں جن امور کا تعلق ان کی ذات سے خاص سے ہے مثلا نذر، طلاق و غیرہ وہ ان کے ذاتی علم کے مطابق ہوں گے ۔
یہ ہے حدیث مذکور کا واضح مفہوم و معنی مگر افسوس کہ علامہ شاکر مصری اور ان کی تقلیدکرتے ہوئے شیخ عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے حدیث مذکور میں "تصومون" وغیرہ کا مخاطب اہل مکہ کو قراردیا ہے اور حدیث کا یہ معنی بتایا ہے کہ صوم و افطار اور قربانی کریں۔ لہذا مکہ مکرمہ کی رویت ہلال تمام مسلم ممالک میں معتبر ہوگی ۔ (ملاحظہ ہو اوائل الشھور العربیہ تالیف احمد محمد شاکر ، طبع مصر اور مکہ مکرمہ کی رویت ہلال ، تالیف شیخ عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ ناشر سعود بکڈپودہلی)
ظاہر ہے حدیث کی تشریح مذکور جد طرازی ، استدال کی بو العجبی، تاویل کی کجی اور نظریاتی عصبیت کے سوا کچھ نہیں بلکہ اس طرز استدلال سے عربی عصبیت کو فروغ ملے گا ۔ فالی اللہ المشتکیٰ ۔
پنجم:احادیث میں صوم و افطار کو رویت ہلال پر موقوف قرارد یا گیا ہے ، چونکہ دنیا میں اختلاف مطالع پایا جاتا ہے ، یعنی دنیا میں چاند کے طلوع ہونے اور نظر آنے کے اوقات و مقامات مختلف ہیں لہذا احادیث کا یہ واضح تقاضہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں اختلاف مطالع کا اعتبار کسی اصول و ضابطہ کے تحت ضرور کیا جائے مگر چونکہ بہت سے نا خواندہ ہوتے ہیں اس لئے رویت ہلال کے معاملہ میں تکلف کی ضرورت نہیں ، البتہ حسب ضرورت علم فلکیات سے مددلی جاسکتی ہے ۔
ذرا غور کیجئے! یہ بات بہت واضح ہے کہ نمازوں کے اوقات میں تمام لوگ اختلاف مطالع کا اعتبار کرتے ہیں ، اگر ایک جگہ عشاء یا ظہر کا وقت ہوچکا ہو اور دوسری جگہ نہ ہو تو جہاں وقت نہ ہوا ہو وہاں کے لوگ محض بناء پر ظہر و عشاء کی نماز ادا نہیں کرسکتے کہ دوسری جگہ ان نمازوں کا وقت ہوچکا ہے اس لئے یہ بات انتہائی فطری اور انہتائی منطقی بھی ہے کہ مطلع کے اختلاف کا اور اسی لحاظ سے رمضان و عید کا اختلاف تسلیم کرنا ہی پڑے گا مگر بہر حال متقدمین و متاخرین میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جس پر بحث آگے آرہی ہے ۔
اختلاف مطالع متقدمین و متاخرین کی نظر میں :
اس سوال کے تحت تین مسائل بحث و نظر ہیں :
اول : کیا اختلاف مطالع کا وجود ہے ؟
دوم: اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے یا نہ کیاجائے ؟
سوم: اگر اختلاف مطالع کا انتظار نہ کیا جائے تو کیا مکہ مکرمہ کی رویت ہلال کو معتبر مانا جائے اور اسی کو معیار قرار دیا جائے جیسا کہ علامہ احمد شاکر نے جدت طرازی کی ہے اور ہندوستان میں شیخ عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ اس طبقہ فکر کے حامی و ناشر ہیں ۔
پہلا مسئلہ اختلاف مطالع کے وجود کا ہے ، تو ممکن ہے کہ پہلے زمانہ میں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہو لیکن اب یہ مسئلہ نظری نہیں رہا بلکہ یہ حقیقت تجربہ و مشاہدہ کی سطح پر ثابت ہوچکی ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مطلع کا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اسلئے کہ ہم دیکھتےہیں کہ کہ دنیا کے بعض مقامات ایسے ہیں جن کے درمیان بارہ بارہ گھنٹوں کافرق ہے ، یعنی عین اس وقت جب کسی خطہ میں دن اپنے شباب پر ہوتا ہے تو دوسرے خطہ رات اپنا نصف طئے کرچکی ہوتی ہے ۔ اسی طرح ٹھیک اس وقت جب ایک جگہ پر ظہر کا وقت ہوتا ہے تو دوسری جگہ مغرب کا وقت ہوچکا ہوتا ہے ظاہر ہے اس صورت حال میں ان تمام مقامات کا مطلع ایک ہو ہی نہیں سکتا ۔ فرض کیجئے کہ جہاں مغرب کا وقت ہے اگر وہاں چاند نظر آئے تو کیا جہاں ظہر کا وقت ہے وہاں بھی چاند نظر آجائے گا یا اس کو مغرب کا وقت تسلیم کرلیا جائے گا ؟
سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے زمانہ میں بعض لوگوں نے اختلاف مطالع کا انکار کیا تھا ، چنانچہ ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے "فائدہ " کے تحت لکھا ہے کہ " برار باب خبرت واضح بادکہ بعض طلبہ ازجہالت انکارو وجود اختلاف مطالع می کنندہ پس بایددانست۔۔۔۔۔"(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفتاویٰ نذیریہ مبوب و مترجم ، ج: ۲، کتاب الصیام طبع دہلی )
ترجمہ : اصحاب علم پر یہ بات واضح ہے کہ بعض طلبہ جہالت کی وجہ سے مطلع کے اختلاف کا انکار کرتے ہیں لہذا معلوم ہونا چاہئے ۔۔۔۔
اس کے بعد سید میاں صاحب بے بڑی تفصیل کے ساتھ علم فلکیات کی روشنی میں اختلاف مطالع کےوجود پر بڑی فاضلانہ و علمی بحث کی ہے اور ثابت کیا کہ اختلاف مطالع ایک واضح اور ثابت شدہ حقیقت ہے ۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے یا نہ کیا جائے تو اس سلسلہ میں متقدمین میں بھی او ر متاخرین میں بھی دونوں رائیں پائی جاتی ہیں ، ان میں ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا انکار نہیں ، یعنی اگر کسی بھی ملک یا علاقہ میں رویت ہلال ہوجائے تو دنیا کے سارے ملکوں میں وہ رویت معتبر ہوگی ، تمام حنابلہ ،اکثر احناف اور مالکیہ کا مشہور مسلک یہی ہے اور بعض شوافع کا خیال بھی یہی ہے ۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح : ۶/۲۲۵، طبع جامعہ سلفیہ بنارس ) متاخرین میں علامہ ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، علامہ شوکانی اور علامہ نواب صادق حسن خاں بھوپالی وغیرہ بھی اسی نقطہ نظر کے قائل ہیں ۔ (مکہ مکرمہ کی رویت ہلال۔۔۔۔۔، تالیف شیخ عطاء الرحمن مدنی طبع دہلی )
اس مسئلہ میں ایک بڑے طبقہ کی رائے یہ ہےکہ اختلاف مطلع کا اعتبار کیا جائے گا جیسے محققین حنفیہ و مالکیہ اور اکثر شوافع وغیرہ ان حضرات کا مسلک یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مطالع کا جوا ختلاف ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا اس تفصیل کے ساتھ کہ بلا د قریبہ میں سے کسی بلد میںاگر چاند نظر آجائے تو دوسرے بلد میں اس کا اعتبار کیا جائے گا مگر بلاد بعید ہ کا معاملہ یہ ہے کہ " لکل اھل بلد روئتھم " یعنی ہر بلد والوں کی رویت الگ الگ معتبر ہوگی ۔ ( مرعاۃ المفاتیح : ۲/۲۲۶، طبع جامعہ سلفیہ بنارس)
یہی جمہور محدثین کا بھی مسلک ہے چنانچہ امام ترمذی نے کتاب الصوم میں " باب ماجاء لکل اھل بلد رویتھم" کے تحت حدیث کریب ذکرکی ہے آخر میں بیان کیا ہے کہ " و العمل علی ھذا الحدیث عند اھل العلم ان لکل اھل بلد رویتھم" یعنی اہل علم (اہل حدیث ) کے یہاں اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہر بلد والوں کے لئے انہیں رویت کا اعتبار ہوگا ، یہی نقطہ امام مسلم ، امام ابوداود، امام نسائی، اور تقریبا تمام محدثین نے اختیار کیا ہے اور حدیث کریب پر اسی انداز کی تبویب کی ہے جس طرح امام ترمذی نے باب قائم کیا ہے ۔اس حدیث کا ذکر آئے گا۔
متاخرین احناف میں تقریبا تمام لوگوں نے بلاد بعیدہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا ہے جیسے مراقی الفلاح ، مصنف تجرید القدوری، اور محشی، قدوری علامہ طحطاوی، مولف فتاوی تاتار خانیہ، مصنف ہدایہ لکھنوی اور علامہ انور شاہ کشمیری وغیرہ۔ (جدید فقہی مسائل : ج۲۲، تالیف مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، طبع دہلی ، العرف الشذی مع جامع الترمذی :۱/۱۴۹ ، طبع دیوبند)
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کیا جائے توکیامکہ مکرمہ کی رویت ہلال کو معتبر ماناجائے ، تو یہ میری معلومات کی حد تک اس نقطہ نظر کے قائل علامہ محمد شاکر مصری اور بعض سعودی علماء ہیں ، ہندوستان میں شیخ عطاء الرحمن مدنی اور کیرلہ کے لوگ بھی اس کے حامی ہیں، یہ لوگ اپنی تائید میں انہیں ائمہ و فقہاء کے اقوال و آرا پیش کرتے ہیں جو اختلاف مطالع کو معتبر نہیں مانتے۔ حالانکہ ان لوگوں کے یہاں یہ بات عمومی انداز میں ہے کہ کسی بھی بلد میں رویت ہلال ہوجائے تو پوری دنیا میں اس کا اعتبار ہوگا اس میں مکہ ومدینہ کی تخصیص نہیں ، مگر علامہ احمد شاکر مصری نے رویت کو معتبر مانا ہے ظاہر ہے کہ یہ مضحکہ خیز جدت طرازی اور علمائے متقدمین کے دلائل کا غلط استعمال ہے ۔
رویت میں وحدت کے قائلین اور ان کے دلائل :
جو ائمہ اور علماء وحدت رویت کے قائل ہیں ان کا استدلال احادیث کے عموم سے ہے ، چنانچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : احادیث رویت کا حکم کسی شہر والوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ خطاب تمام مسلمانوں کے لئے ہے ، لہذا ان احادیث سے کسی ایک ملک والے کی رویت کا دیگر ممالک والوں کے لئے لازم ہونے پر استدلال کرنا زیادہ واضح ہے ، نہ نسبت عدم ملزوم کے ۔ کیونکہ جب ایک ملک والوں نے چاند دیکھ لیا تو گویا دیگر ممالک کے تمام مسلمانوں نے اسے دیکھ لیا ، لہذا ممالک کے مسلمانوں پر بھی وہی چیز لازم آئے گی ، جو چیز چاند دیکھنے والے ملک کے مسلمانوں پر لازم آئے گی ۔ (نیل الاوطار: ۴/۲۶۸، طبع دار الجیل ، بیروت)
مولانا غزنوی جو وحدت رویت کے قائل ہیں وہ بھی احادیث رویت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :" ان احادیث میں تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے ، کسی ایک شہر یا ملک کے لوگوں کو مخصوص نہیں کیاگیا ہے پس صریح و صاف اور عام حکم سے دوسرے شہر والوں کی شہادت کو مخصوص یا مستثنی قراردینا اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک ایسی ہی صریح وصاف حدیث نہ مل جائے ، مگر ایسی صریح حدیث کوئی نہیں " (بحوالہ مقالات داود غزنوی رحمہ اللہ مقالہ " رویت ہلال" مکتبہ ترجمان دہلی)
جو ائمہ و علماء وحدت رویت کے قائل ہیں ان کے طرز استدلال سے ایک اور بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ وہ لوگ اس تخصیص کے بھی قائل نہیں کہ مکہ مکرمہ کی رویت کو معیار قرار دے کر اس کو معتبر مانا جائے بلکہ اس کا نقطہ نظریہ ہے کہ کسی بھی خطہ میں اگر رویت ہلال ہوجائے تو پورے عالم اسلام میں اس کا اعتبار کیا جائے، اس لئے کہ احادیث میں مکہ مکرمہ کی تخصیص نہیں آتی ۔
مگر علامہ احمد شاکر مصری وغیرہ جو وحدت رویت کے حوالہ سے یہ تخصیص کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں مکہ مکرمہ کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ یہ فکر اسلام میں تحریف بھی ہے اور جادہ کتاب و سنت سے انحراف بھی ہے ، اس سلسلہ میں ان کے استدلال کی بو العجبی ملاحظہ ہو !
علامہ مصری نے سب سے پہلے قرآن مجید سے استدلال کیا کہ اللہ تعالی کا جو ارشاد ہے " يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ" اس میں عموم کے بعد حج کا جو خصوصی ذکر کیا گیا ہے اس سے لطیف اشارہ ملتا ہے کہ توقیت زمانی میں مقام حج (مکہ مکرمہ) کو باعتبار اصل معتبر مانا جائے ۔
ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں " فالذی اراہ ان تخصیص الحج بالذکر فی ھذا المقام بعد العموم ، انما ھو اشارۃ دقیقۃ الی اعتبار اصل التوقیت الزمانی متصلا بمکان واحد، مکان الحج و ھو مکۃ " (اوائل الشھور العربیۃ، ص: ۲۱، طبع مصر )
آیت مذکورہ سے علامہ مصری نے جو استدلال کشید کیا ہے اور جو لطیف اشارہ محسوس کیا ہے وہ بالکل ایک جدید بلکہ مستحدث طرز فکر ہے ۔ علامہ شوکانی وغیرہ جو وحدت رویت کے قائل ہیں وہ مذکورہ لطیف اشارہ بالکل محسوس نہ کرسکے ،بلکہ میری معلومات کی حد تک قدیم و جدید مفسرین میں کسی نے وہ اشارہ محسوس نہیں کیا ہے ۔
علامہ احمد شاکر مصری نےاپنے موقف کی تائید میں درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیاہے ، بلکہ ان احادیث سے زبردستی استدلال کشید کیا ہے ۔
اول :جامع ترمذی کی حدیث جو ابو ہریرہ tسے مروی ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے اس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :"الصوم یوم تصومون، الفطر یوم تفطرون، و لا ضحی یوم تضحون" اس حدیث میں جمع مذکر حاضر کے جو صیغے وارد ہیں علامہ مصری نے ان کا مخاطب اہل مکہ کو قرارد یا اور ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے کہ صوم و افطار وغیرہ میں تمام دنیا والے اہل مکہ کے عمل کا اعتبار کریں گے ۔ مگر یہ استدلال بہت لغو و مہمل ہے کسی بھی شارح حدیث نے اس کا وہ مطلب نہیں بیان کیا جسے علامہ مصری نے اپنایا ہے بلکہ اس کا وہی معنی و مفہوم ہے جس کی طرف امام ترمذی نےاشارہ کیا ہے جس کا ذکر تفصیل سے گزر چکا ہے ۔
دوم :سنن ابی داود کی حدیث ، اس کے راوی ابو ہریرہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو مخاطب بنا کر فرمایا:"فطرکم یوم تفطرون و اضحا کم یوم تضحون وکل عرفۃ موقف و کل منی منحرو کل فجاج مکۃ منحر وکل جمع موقف" (سنن ابی داود مع شرحہ عون المعبود:۲/۲۶۹، کتاب الصیام)تم لوگوں کا افطار اس روز ہے جس روز تم سب افطا ر کرو ، تم لوگوں کی قربانی اس روز ہے جس رو ز تم سب قربانی کرو ، پورا عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے ، پورا منی اور مکہ کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں اور پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے ۔
اسی معنی و مفہوم کی احادیث سنن دار قطنی ، سنن بیھقی اور سنن بن ماجہ وغیرہ میں بھی ہیں ، جن کا ذکر علامہ مصری نے کیا ہے اور اس طرح کی تمام روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے " یہ تمام روایات جو عائشہ وغیرہ سے مروی ہیں انہیں اس معنی پر محمول کیا جائے گا کہ ان سب کا تعلق حجۃ الوداع سے ہے اور جن احادیث میں " یوم یفطر الناس " یا " یوم یفطر الامام " کے الفاظ آئے ہیں وہ روایت بالمعنی کے قبیل سے ہیں اور یہ کہ ان کی ان احادیث میں اصل خطاب مقامات حج کے باشندوں سے ہے ۔" (اوئل الشھور العربیہ: ۲۶، طبع مصر)
حالانکہ اگر ان احادیث کا تعلق حجۃ الودع سے ہے تب بھی ان احادیث سے وہ استدلال عقل و نقل کے مطابق بھی ہے بلکہ واضح بات یہ ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے حج کے موقع پر موجودہ تمام مسلمانوں کے حج اور دوسرے انسانی مسائل کے تعلق سے اہم اصول و آداب بتائے ہیں ۔
سوم :علامہ مصری اور شیخ عطاء الرحمن مدنی وغیرہ نے عالم اسلام کے اتحاد کی بھی بات کی ہے اگر وحدت رویت مان لی جائے اور مرکز اسلام مکہ مکرمہ کی رویت کو معیار قرار دیا جائے تو پورے عالم اسلام میں اتحاد کا خوشگوار ماحول بنے گا ۔
حالانکہ پوری کائنات میں ، انسانوں اور حیوانات میں اور نباتات جمادات میں اللہ تعالی نے جس طرح اختلاف و تنوع اختیار کیا اور اسے اپنی قدرت و حکمت کی نشانی قرار دیا ہے اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ کہیں اختلاف و تنوع پسندیدہ ہے اور کہیں اتحاد مستحسن ہے ، اس لئے ہرجگہ اور ہر عمل میں اتحاد کی بات کرنا محض سادہ لوحی ہے علامہ محمد اسماعیل سلفی اس طرز فکر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں " بات یہ ہے کہ اختلاف مطلع ایک حقیقت ہے ، وحدت ملت کی دلیل شرعا مطلوب ہے ۔۔۔ بلکہ وحدت ملت اس میں ہے کہ ملت کے احکام اور قواعد کی صحیح پابندی کی جائے ۔ " (فتاوی سلفیہ۔ ص: ۵۸، مقالہ "رویت ہلال" ناشر مکتبہ ترجمان دہلی)
چہارم :شیخ عطاء الرحمن مدنی نے وحدت رویت پر زور دیتے ہو ایک عجیب مضحکہ خیز بات لکھی ہے کہ ہفتہ وار عید پوری دنیا میں ایک ہی دن منانے پر اتفاق ہے تو سالانہ عید ایک ہی دن منانے میں اختلاف کیوں ؟ (مکہ مکرمہ کی رویت ہلال ۔ ص: ۱۱، تالیف عطاء الرحمن مدنی، طبع دہلی)
جناب شیخ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہفتہ وار عید (جمعہ) پوری دنیا میںایک دن منانے پر اس لئے اتفاق ہے کہ دونوں کا تعلق نظام شمسی سے ہے ا س لئے اس میں کوئی اختلاف نہیں اور عید الفطر اور عید قرباں کا تعلق نظام قمری سے ہے اس لئے اختلاف ہے ۔ یہاں فطری اختلاف پسندیدہ ہے اور وہاں اتحاد مستحسن ہے اور دراصل صوم و افطار اور عید وغیرہ کے حوالہ سے اتحاد کی بات کرنا محض ایک جذباتی نعرہ ہے اس وقت ملکی و عالمی طور پر تمام مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کی بڑی خطرناک صورت حال جیسے ذاتی اختلاف ، اعتقادی و فقہی اختلاف اور مسلمان حکومتوں میں سیاسی اختلاف ، جب تک ان تمام اختلاف کے داخلی وخارجی اسباب کا جائزہ لے کر ان کے ازالہ کی کوشش نہ کی جائے اس وقت تک محض چند عباداتی و معاملاتی مظاہر میں اتحاد کی کوشش لا حاصل ہوگی ، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ رویت ہلال کے مسئلہ میں مکہ مکرمہ کو معیار قرار دینے سے ایک نیا اختلاف جنم لے گا اس لئے کے مکہ مکرمہ سے پچھم (مغرب) جو علاقے بہت دور ہیں انہیں اس رائے سے بالکل اتفاق نہیں ہوسکتا جس کا سبب ظاہر باہر ہے ۔
رویت میں عدم وحدت کے قائلین اور ان کے دلائل :
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا ک حنابلہ و بعض مالکیہ کو چھوڑ کر اکثر فقہائے احناف ، اکثر محدثین، اور تقریبا تمام متاخرین علمائے احناف رویت ہلال میںعدم و حدت کے قائل ہیں ۔ ان کا نقطہ نظریہ ہے کہ بلاد قریبہ میں باہم رویت کا اعتبار نہیں ہوگا ۔
ان کا طرز استدلال یہ ہے کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں اسی طرح عمل تھا کہ بلاد قریبہ کی رویت کا اعتبار کیا جاتا تھا اور بلاد بعیدہ کی رویت کا اعتبار کیا جاتا تھا ، اس سلسلہ میں عہد نبوی کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو : "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الهِلَالَ، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ»، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «يَا بِلَالُ، أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا"(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح : ۶/۴۴۸،۴۴۷، طبع جامعہ سلفیہ بنارس)
عبد اللہ بن عباسtکہتے ہیں ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے آپ نے کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ اس نے کہا : ہاں ، آپ نےکہا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں آپ نے کہا : بلال !لوگوں میں اعلان کردو کہ کل روزہ رکھیں ۔
علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اعرابی آیاتھا وہ بادیہ (دیہات) کا رہنے والا تھا۔ سنن ابی داود ، سنن دارقطنی اور مستدرک حاکم میں وضاحت ہے کہ " جاءالاعرابی من الحرۃ " یعنی وہ اعرابی حرہ مدینہ سے آیاتھا ۔ " حرہ" کا معنی ہے سنگنستان، مدینہ دو سنگستانوں کے درمیان ہے جو مدینہ سے بہت دور نہیں ہیں اسی لئے آپ نے حرہ سے آنے والے کی رویت کا اعتبار کیا ۔
بلاد بعیدہ کی رویت ہلال کے اعتبار و عدم اعتبار کا کوئی واقعہ عہد نبوی ﷺ میں نہیں ملتا ہے مگر عہد صحابہ میں اس کی مثال ملتی ہے وہ واقعہ اس طرح ہے ۔"عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "(صحیح مسلم : ۱/۳۴۷، طبع دہلی) کریب سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث نے ان کو معاویہ tکے پاس شام بھیجا وہ کہتے ہیں میں شام گیا اور میں نے ان کا م پورا کیا میں شام ہی میں تھا کہ رمضان شروع ہوگیا میں نے وہاں چاند جمعہ کی رات میں دیکھا اور پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا ابن عباس tنے مجھ سے احوال پوچھے پھر پوچھا کہ تم لوگوں نے ہلال کب دیکھا ؟ میں نے بتایا کہ جمعہ کی رات میں انہوں نے پوچھا کیا تم نے خود دیکھا ؟ میں نے کہا ہاں ، اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ان لوگوں نے روزہ رکھا اور معاویہ tنے روزہ رکھا ، ابن عباس tنے کہا مگر ہم لوگوں نے چاند سنیچر کی رات دیکھا اس لئے ہم لوگ روزہ رکھیں گے ، یہاں تک کہ تیس دن پورے کرلیں ، کریب نے کہا کیا آپ معاویہ tکی رویت اور ان کے صیام کا اعتبار نہیں کریں گے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے ۔
یہ حدیث جامع صحیح بخاری کے علاوہ تمام کتب حدیث میں موجود ہے جس معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن عباس t نے اختلاف مطالع کی وجہ سے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہیں کیا اس لئے کہ شام مدینہ و شام کے درمیان تقریبا سات سو میل کی دوری ہے ۔ علامہ عبید اللہ مبارکپوری لکھتے ہیں کہ یہی حدیث مذکور کا ظاہر و متبادر محل ہے اور یہی مفہوم ہے عبد اللہ بن عباس tکے الفاظ "ھکذا امرنا رسول اللہ ﷺ" کا مگر جو لوگ وحدت رویت کے قائل ہیں وہ حدیث مذکور کی مختلف تاویلات و احتمالات بیان کرتے ہیں ، جنہیں علامہ مبارکپوری a نے مرجوح قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ عدم وحدت کے قائلین احادیث عموم کو خاص مانتے ہیں اس لئے کہ حدیث کریب میں تخصیص کی پور صلاحیت ہے ۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح : ۶/۴۲۸، طبع جامعہ سلفیہ بنارس )
احادیث عموم کی تخصیص کا مطلب یہ ہے کہ ان کا حکم ہر بلد وہر علاقہ کے لوگوں کے لئے خاص مانا جائے تاکہ تمام احادیث میں جمع و تطبیق ہوجائے ۔
جائزہ و ترجیح :اس پوری بحث سے معلوم ہوا کہ اختلاف مطالع و رویت ہلال کے سلسلہ میں تین نظریات ہیں :
پہلا نظریہ:اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں اس لئے دنیا کے کسی بھی علاقہ میں اگر چاند کی رویت ہوجائے تو پوری دنیا میں اس کا اعتبار ہوگا ۔
دوسرا نظریہ: جو پہلے نظریہ کے بطن سے پیدا ہوا ہے مگر اس تحریف و ترمیم کے ساتھ کہ کسی بھی علاقہ کی رویت نہیں مکہ مکرمہ کی رویت ہلال کا اعتبار کیا جائے گا اور صوم و افطار وغیرہ کے لئے پوری دنیا میں اسی کو معیار مانا جائے گا ۔
تیسرا نظریہ : یہ ہے کہ بلاد قریبہ کی رویت کا اعتبار ہوگا اور بلاد بعیدہ کی رویت کا اعتبار نہیں ہوگا ۔
ان تینوں نظریات میں آخری نظریہ دلائل کےاعتبار سے راجح اور پہلا مرجوح ہے اور دوسرا نظریہ جو بالکل جدید و مستحدث ہے وہ صریح طور پر عقل و نقل اور مزاج شریعت کے خلاف ہے اس لئے بالکل لغو و باطل ہے ۔
تیسرا نظریہ جو راجح اور جس میں بلاد قریبہ و بلاد بعیدہ کا فرق کیا گیا ہے ا س کے تعلق سے ایک اہم بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قرب و بعد کا معیار کیا ہے تو اس سلسلہ میں علماء و فقہاء کے تین نظریات ہیں ۔
اول :مسافت قصر بعد کا معیار ہے ، اس کو امام بغوی ، اور مام رافعی aاور علامہ نووی وغیرہ نے اختیار کیا ہے ۔
دوم : علم جغرافیہ کے اعتبار سے اختلاف اقالیم و بعد کا معیار ہے ۔
سوم موجود علم ہیئت کے اعتبار سے پانچ سو ساٹھ میل سے زیادہ کی مسافت بعد کا معیار ہے یعنی ۵۶۰ میل کی مسافت یا اس سے کم مسافت کے لوگوں میں سے ایک بلد کے لوگ اگر چاند دیکھیں تو دوسرے بلد کے لوگوں کو اس کا اعتبار کرنا چاہئے اس کی صورت یہ ہوگی کہ اگر مغرب میں چاند دیکھا جائے تو مشرق میں ۵۶۰ میل تک اس کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر مشرق میں بھی کسی نے چاند دیکھا جائے تو تمام اہل مغرب کے لئے اس کا اعتبار ضروری ہے ۔ (ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح :۶/۲۲۸،۲۲۹، طبع جامعہ سلفیہ بنارس)
علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری aنے علم جغرافیہ و جدید علم ہئیت کی روشنی میں اسی نقطہ نظر کو راجح قرار دیا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ قرب و بعد کے لئے کوئی معیار کتاب و سنت میں منصوص نہیں لیکن رفع اختلاف کے لئے جدید علم و ہئیت پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں معلوم ہوتا ، اس لئے اس سلسلہ میں معیار قرب و بعد کے طور پر تیسری رائے کو اختیار کرنا راجح ہے ۔ واللہ اعلم با الصواب۔
موجودہ دور میں علمائے احناف نے تقریبا وہی موقف اختیار کیا ہے جسے علامہ عبید اللہ رحمانی aنے مفصل بحث مناقشہ کے بعد راجح قرار دیا ہے ، چنانچہ مجلس تحقیات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنو نے بتاریخ ۳،۴ مئی ۱۹۶۷ء؁اس موضوع پر ایک فقہی سیمنار منعقد کیا تھا جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء شریک ہوئے تھے اس مجلس کے اہم فیصلوں کا خلاصہ درج ذیل ہے :
اختلاف مطالع ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
دلائل کی روشنی میں بلا د بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے ۔
بلاد بعیدہ سے مراد یہ ہے کہ ان میں باہم اس قدر دوری ہو ک عادتا ان کی رویت میں ایک دن کا فرق ہوتا ہے ، ایک شہر میں ایک دن پہلے چاند نظر آتا ہے اور دووسرے میں ایک دن بعد ۔
بلاد قریبہ وہ شہر ہیں جس کی رویت میں عادتا ایک دن کا فرق نہیں پڑتا ، فقہاء ایک ماہ کی مسافت کی دوری کو جو تقریبا ۵۰۰ یا ۶۰۰ میل ہوتا ہے بلاد بعیدہ قرار دیتے ہیں اور اس سے کم کو بلاد قریبہ ۔
ہندوستان و پاکستان کےبیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں مثلا نیپال و غیرہ کا مطلع ایک ہے اس علماء کا عمل رہا ہے ۔
مصر اور حجاز جیسے دور دراز ملکوں کامطلع ہندو پاک کے مطلع سے الگ ہے یہاں کی رویت ان ملکوں کے لئے اور ان ملکوں کی رویت یہاں کے لئے لازم اور قابل قبول نہیں ہے ۔
(قرارداد مجلس بحوالہ جدیدفقہی مسائل : ۲/۴۵۔۴۴، طبع دہلی)
خلاصہ بحث و حرف آخر :
چندجملوں میں پورے مقالے کا خلاصہ درج ذیل ہے :
پوری دنیا میں اختلاف مطالع ایک مسلمہ حقیت ہے ۔
بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا مگر بلاد قریبہ میں اختلاف مطالع بہت بہت معمولی ہے اس لئے اس کا اعتبار نہں ہوگا ، یہی راجح نقطہ نظر ہے ۔
عالمی طور پر رویت وحدت کا نظریہ دلائل کی روشنی میں مرجوح ہے اور مکہ مکرمہ کی رویت کو معتبر ماننے اور اسے پوری دنیا کے لئے معیار قرار دینے کا نظریہ بالکل لغوو باطل ہے ۔
zبلاد بعیدہ اور بلاد قریبہ کا معیار ۵۶۰ میل کی مسافت ہے کہ جن بلاد کے درمیان کی مسافت ۵۶۰ میل سے زائد ہے وہ بلاد بعیدہ ہیں ۔
بطور حرف آخر عرض ہے کہ دینی و شرعی امورکا بڑا گہرا تعلق نظام حکومت سےہے انہیں میں سے صوم و افطار اور عید وغیرہ کا معاملہ بھی ہے مگرہندوستان جیسے ممالک جہاں اسلامی نظام حکومت نہیں وہاں امارت و قضاء کا نظام ہونا چاہئے ۔ اور اگر نظام امارت و قضاء قائم نہ ہوسکے تو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی ذمہ داری ہے کہ ملکی و علاقائی طورپر رویت ہلال کمیٹی قائم کرے جس میںتمام مکاتب فکر کے علماء شریک ہوں ، پھر وہ کمیٹی ایک مفصل چارٹ تیار کرے جس سےمعلوم ہوجائے کہ مطلع کتنی مسافت پر بدلتا ہے اور کن کن ملکوں کا مطلع ایک ہے اس طرح علاقائی و ملکی طور پر صوم و افطار وغیرہ کے بارے
میں امت اختلاف و انتشار سے دور رہے گی اور اتفاق و اتحاد کی فضا قائم ہوگی ۔
ان شاء اللہ
واللہ ھو الموافق للصواب و ھو الھادی الی سواء السبیل