سوال: سورہ نوح میں استغفار کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے، تو استغفار کرنے کی صحیح کیفیت کیا ہے-اللہ تعالی آپکی حفاظت فرمائے- ایک بات [اگر یہ کہنا درست ہے تو]تجربے سے گزری ہے کہ میرے کو شادی کے ڈیڑھ سال کے بعد بھی اولاد کی نعمت نہ ملی، اس کے بعد انہوں نے اپنی ہر حالت اور ہر وقت میں استغفار کرنا شروع کر دیا، اور فضول باتیں بالکل چھوڑ دیں، اپنی تمام ضروریات کیلئے صرف حلال روزی اختیار کی، ابھی اس کی اس حالت کو ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ -الحمد للہ- اسے یہ خوشخبری ملی کہ اس کی بیوی حاملہ ہو چکی ہے، اللہ تعالی ہمارے اس ساتھی اور انکی اولاد کی حفاظت فرمائے۔
سبحان اللہ! تو کیا یہ طریقہ کار دولت اور باغات کی تمنا رکھنے والے کیلئے بھی کار گر ہوگا؟
الحمد للہ:
اول:
مال اور اولاد کے حصول کیلئے کثرت سے استغفار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا [10] يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا [11] وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا )
ترجمہ: چنانچہ میں [نوح] نے ان سے کہا: تم اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، بیشک وہ بخشنے والا ہے۔ [10] وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا۔[11] اور تمہاری مال و اولاد کے ذریعے مدد کریگا، اور تمہارے لیے باغات و نہریں بنا دے گا۔[نوح:10 - 12]
ان آیات کی تفسیر میں قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی:
" فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ " یعنی: تم اللہ سے اپنےسابقہ گناہوں کی بخشش کا سوال اخلاص اور ایمان کیساتھ کرو۔
" إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا " یعنی: وہ ہمیشہ توبہ کرنے والو ں کو معاف کرتا ہے، ان الفاظ میں اللہ تعالی بندوں کو توبہ کرنے کیلئے ترغیب دلا رہا ہے۔
" يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا " یعنی: آسمان سے تم پر موسلا دھار پانی نازل کرے گا۔
" وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا " یعنی: اور تمہاری مال و اولاد کے ذریعے مدد کریگا، اور تمہارے لیے باغات و نہریں بنا دے گا "
شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نماز استسقاء کیلئے باہر نکلے، اور استغفار سے زیادہ کچھ نہیں کیا، اور واپس چلے آئے، لیکن بارش ہوگئی، تو لوگوں نے کہا: "ہم نے آپکو نماز استسقاء پڑھتے ہوئے تو دیکھا نہیں!" تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "میں نے حقیقی مجادیع کے ذریعے بار ش مانگی تھی، اور بارش انہی کے ذریعے مانگی جاتی ہے" پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا [10] يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا) [چنانچہ میں [نوح] نے ان سے کہا: تم اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، بیشک وہ بخشنے والا ہے۔ [10] وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا]"
"مجادیع" مجدع کی جمع ہے، اور یہ اس تارے کا نام ہے جس کے بارے میں عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ بارش اسی سے مانگی جاتی ہے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی گفتگو کے ذریعے عرب کے اس غلط عقیدے کی تردید فرمائی، اور یہ واضح کیا کہ انہوں نے بارش نازل ہونے کا حقیقی باعث بننے والے ذریعے کو اپنا کر بارش طلب کی ہے، اور وہ ہے استغفار نا کہ تاروں کی تاثیر۔
ایک شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ کو خشک سالی کی شکایت کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں کہا: "اللہ سے استغفار کرو"
دوسرے شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ کو تنگ دستی کی شکایت کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں کہا: "اللہ سے استغفار کرو"
تیسرے شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اولاد کیلئے دعا کی درخواست کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں کہا: "اللہ سے استغفار کرو"
چوتے شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ کو اپنے باغ کے خشک ہو جانے کی شکایت کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں بھی کہا: "اللہ سے استغفار کرو"
تو ہم نے اُن سے سب کو یکساں جواب دینے کے بارے میں استفسار کیا!؟ تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: "میں نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی، کیونکہ اللہ تعالی سورہ نوح میں فرماتے ہیں: ( فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا [10] يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا [11] وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا )
ترجمہ: چنانچہ میں [نوح] نے ان سے کہا: تم اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، بیشک وہ بخشنے والا ہے۔ [10] وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا۔[11] اور تمہاری مال و اولاد کے ذریعے مدد کریگا، اور تمہارے لیے باغات و نہریں بنا دے گا۔[نوح:10 - 12]" انتہی مختصراً
تفسیر قرطبی: ( 18 / 301 – 303 )
دوم:
استغفار کے لئے وارد الفاظ کے بارے میں یہ ہے کہ : سب سے افضل ترین الفاظ وہ ہیں جو صحیح احادیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، کہ آپ وہ الفاظ خود کہا کرتے تھے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو وہ الفاظ کہنے کی ترغیب دلائی، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1- شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو: "اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنوبَ إِلاَّ أَنْتَ"[یعنی: یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میرا تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میرے تیرے سامنے تیری مجھ پر ہونیوالی نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے] آپ نے فرمایا: جس شخص نے کامل یقین کے ساتھ دن کے وقت کہا ، اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اسکی موت ہوگئی ، تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جس شخص نے اسے رات کےو قت کامل یقین کے ساتھ اسے پڑھا اور صبح ہونے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو وہ بھی جنت میں جائے گا) بخاری: (5947)
2- ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دعائیہ الفاظ کے ذریعے دعا کیا کرتے تھے: (اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي كُلَّهُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ وَعَمْدِيْ وَجَهْلِيْ وَهَزْلِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)[یعنی: پروردگار! میری خطائیں، جہالت، اور اپنے بارے میں لاپرواہی ساری کی ساری معاف فرما دے، اور وہ بھی معاف کر دے جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، یا اللہ! میری خطائیں بخش دے جو میں نے عمداً کی ہیں یا جہالت کی وجہ سے کی ہیں، یا مذاق میں کی ہیں، اور وہ سب کچھ جو میرے کھاتے میں موجود ہے، یا اللہ! میرے اگلے ، پچھلے، خفیہ ، اعلانیہ سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی آگے بڑھانے والا، اور پیچھے کر نے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے] " بخاری: (6035)، مسلم: (2719)
3- ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مجلس میں "رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ "[یعنی: پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا، اور نہایت رحم کرنے والا ہے] کا ورد سو بار تک شمار کرتے تھے"
ترمذی: ( 3434 ) لیکن اس میں یہ الفاظ ہیں:" اَلتَّوَّابُ الْغَفُوْرُ " ، ابو داود ( 1516 ) اور ابن ماجہ: ( 3814) نے اسے روایت کیا ہے۔
4- ابو یسار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص " أَسْتَغْفِرُ اللهَ الْعَظِيْمَ الَّذِيْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ"[یعنی: میں عظمت والے اللہ سے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، جس کےعلاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، وہی ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے والی ذات ہے، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں] کہے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، چاہے وہ میدان جہاد کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو)
ترمذی: ( 3577 ) اور ابو داود ( 1517 ) نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔
5- ابو بکر صدیق رضی اللہ نہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "مجھے آپ کوئی دعا سکھا دیں، جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہو: (اَللَّهُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْماً كَثِيْراً وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِيْ مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِيْ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ)[یعنی: یا اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم ڈھائے، اور تیری سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنےو الا نہیں ہے، لہذا تو مجھے اپنے پاس سے بخشش عطا فرما، اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے] بخاری: (799)، مسلم: (2705)
واللہ اعلم.