بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
[Tafseer As-Saadi 49:13]
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ
لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے نبی آدم کو ایک ہی اصل اور ایک ہی جنس سے پیدا کیا ہے تمام بنی آدم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا۔ تمام نبی آدم، حضرت آدم اور حوا ( علیہ السلام) کی طرف لوٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نسل میں سے بیشمار مردوں اور عورتوں کو پھیلایا، پھر ان کو قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم کیا، یعنی چھوٹے بڑے قبیلوں میں تاکہ وہ ایک دوسرے کی پہچان رکھیں کیونکہ اگر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت کو قائم رکھے تو وہ تعارف حاصل نہیں ہوسکتا جس پر ایک دوسرے کی مدد، باہمی تعاون، باہمی توارث اور عزیز و اقارب کے حقوق کا قیام مرتب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو قوموں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے تاکہ وہ امور حاصل ہوسکیں جو باہمی تعارف اور الحاق نسب پر موقوف ہیں۔ مگر عزت کا معیار تقویٰ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ شعار ہے اور یہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور گناہوں سے رکنے والا ہے۔ وہ شخص سب سے زیادہ عزت والا نہیں جس کا کنبہ قبیلہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بلند حسب و نسب رکھتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے وہ جانتا ہے کہ ان میں کون ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور کون اللہ تعالیٰ سے اپنے ظاہر میں ڈرتا ہے نہ باطن میں۔ پس اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ایسی جزا دیگا جس کا وہ مستحق ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسب و نست کی معرفت مطلوب اور مشروع ہے کیونکہ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قوم اور قبیلے بنائے۔
Mishkat ul Masabeeh Hadees # 4893
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَي النَّاس أكْرم؟ فَقَالَ: «أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ» . قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ. قَالَ: «فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ» . قَالُوا: لَيْسَ عَن هَذَا نَسْأَلك. قَالَ: «فَمِمَّنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟» قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا : لوگوں میں سے زیادہ معزز شخص کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزز شخص وہ ہے جو ان میں سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے ۔‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تب معزز شخص یوسف ؑ اللہ کے نبی ، اللہ کے نبی کے بیٹے ، اللہ کے نبی کے پوتے ، اللہ کے خلیل (ابراہیم ؑ) کے پڑپوتے ہیں ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ہم اس کے بارے میں آپ سے دریافت نہیں کر رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم عرب قبائل کے متعلق مجھ سے دریافت کر رہے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھے وہی تمہارے اسلام میں بہتر ہیں بشرطیکہ وہ (آداب شریعت کے متعلق) سمجھ بوجھ حاصل کریں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
Sahih Hadees