Showing posts with label منکر ‏حدیث ‏. Show all posts
Showing posts with label منکر ‏حدیث ‏. Show all posts

کیا نبی ﷺ نے کتاب اللہ کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع کیے تھے؟*

*کیا نبی ﷺ نے کتاب اللہ کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع کیے تھے؟*

آپ اوپر کی امیج میں دیکھ سکتے کہ کس طرح یہ منکر حدیث (خورشید اکرم صاحب) 1 حدیث پیش کرتے جس میں بظاہر ایسا لگ رہا کے نبی ﷺ نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے سے منع کیے۔ (امیج دیکھیں)

یہ منکر حدیث صرف اس حدیث کو پیش نہیں کرتے بلکہ کس طرح بڑی بڑی باتیں کہتے کہ یہ اصول الحدیث ہے امام اعظم محمد ﷺ کے مطابق۔ (یہ در اصل انکی نقلی کھوکھلی بات ہے، طعنہ مارنے کے لیے)

اب یہ منکر حدیث (خورشید اکرم صاحب) کا دوغلا پن آپ دیکھیے:
جب انھونے یہ حدیث پیش کیے تو میں نے انکی  1 پرانی تحریر پر ان سے سوال کیا کہ آپ نے جو کچھ لکھا یہ تو قرآن کی آیات نہیں،
اب آپ جو اصول پیش کر رہیں، پھر یہ بھی کہہ رہے چلو رسول ﷺ کی اطاعت کریں،
تو اس اصول کے مطابق آپ کا کوئی بھی دینی تحریر لکھنا درست نہیں ہے،
اس پر یہ منکر حدیث کی بولتی ہی بند ہو گئی۔

ایسے کھوکھلے اور دوگلی باتیں رہتی ہے یہ منکرین احادیث کی،
1 طرف خود کہتے یہ اصول ہے (کہ کتاب اللہ کے علاوہ کچھ نہیں لکھنا) اور یہ بھی کہتے کہ چلو اس اصول کی اطاعت کرتے ہیں،
لیکن دوسری طرف خود اسکی خلاف ورزی کرتے ایسے تحاریر لکھ کر جو قرآن کی آیات نہیں ہے۔


اوپر کی حدیث کے اصل معنی پر آنے سے پہلے میں آپ کو قرآن اور احادیث کا 1 انداز بیان بتانا چاہتا ہوں۔

اور وہ انداز بیان یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں آپ کو 1 ہی موضوع کی تفصیل 1 ہی آیت یا 1 ہی حدیث میں نہیں ملتی، وہ الگ الگ مقامات پر منتشر ہوتی ہے۔

قرآن سے اس بات کی 1 مثال دیتا ہوں:

اگر کوئی غیر مسلم پہلی بار قرآن کھولے اور اسے اسلامی تعلیمات کا ذرا بھی علم نہیں، تو آپ ذرا سوچیے جب وہ سورۃ بقرة کی یہ آیت پڑھین گا تو اسے کیا سمجھ آئیں گا:

Al-Baqarah 2:34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِءَادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ 

پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا.

اب جس شخص کو اس بات کا پہلے سے علم نہیں کہ ابلیس کون ہے، اسے تو ایسا لگیں گا کہ ابلیس فرشتہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے کہ فرشتوں کو اللہ نے حکم دیے، تو سب نے سجدہ کیے  سوائے ابلیس کے۔
یہاں پر کوئی دوسری مخلوق کا نام نہیں لیا گیا۔

اب ابلیس درحقیقت ہے کوں اسکی تفصیل ہمیں قرآن میں کافی آگے 18 نمبر کی سورۃ میں ملتی سورۃ کہف میں، جہاں اللہ فرماتے ہیں، "كان من الجن"، وہ جنوں میں سے تھا۔

Al-Kahf 18:50

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِءَادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ ٱلْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِۦٓۗ۔۔۔۔۔۔۔

یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔

تو اُمید کرتا آپ کو واضح ہو گیا، کہ صرف 1 حدیث یا 1 آیات کو لے کر کچھ اصول بنا لینا یا کوئی نتیجہ اخذ کر لینا یہ  احمقانہ رویہ ہے جسکا شکار خورشیدِ اکرم صاحب جیسے منکرین احادیث ہو جاتے ہیں۔
اسی لیے اگر ہمیں کوئی بات کو سمجھنا ہے تو اُسکے تعلق سے تمام آیات اور احادیث پتہ ہونا چاہیے، تب ہی وہ بات صحیح سمجھ آ سکتی ہے۔


تو اوپر کی حدیث کا اصل معنی کیا ہے؟

نبی ﷺ قیامت کے کچھ نشانیاں بیان کرتے ہیں اور 1 نشانی یہ بیان کرتے:

وَيُقْرَأ بِالْقَوْم المُثَنَّاة۔۔
کہ لوگ المُثَنَّاة کو پڑھیں گے۔

سوال کیا گیا المُثَنَّاة کیا ہے؟

نبی ﷺ نے جواب دیے:
مَا اسْتَكْتَبَ سوَى كِتَاب الله عَزّ وَجَل
وہ جو اللہ کی کتاب کے علاوہ لکھوایا گیا۔

اب اس حدیث میں نبی ﷺ ہمیں دینی کتب لکھنے سے منع نہیں کر رہے (حقیقت تو یہ ہے کہ نبی ﷺ نے خود قرآن کے علاوہ حدیث بھی لکھیں اور کتب بھی، اسکی تفصیل آگے پیش کرونگا)

المُثَنَّاة،
یہ در اصل یہودیوں کی 1 کتاب تھی، اور اسکی دلیل ہمیں ابن حزم رحمه الله کی کتاب میں ملتی ہے:

1 یہودی عورت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر شکایت کرتی ہے کہ اُسکے والد فوت ہو گئے، اور یہود اسے اسکی وراثت نہیں دے رہے۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کو بلایا اور انسے اس بارے میں پوچھا،

تو یہودیوں نے جواب دیے:
لا نَجِدُ لَهَا حَقًّا فِي كِتَابِنَا.
ہم اس عورت کے لیے ہماری کتاب میں وراثت کا حق نہیں پاتے۔

فَقَالَ: "أَفِي التَّوْرَاةِ؟"
عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیے "کیا تورات میں؟"

قَالُوا: بَلَى، فِي الْمُثَنَّاةِ
یہودیوں نے جواب دیے، "ہاں، الْمُثَنَّاةِ میں".

قَالَ: "وَمَا الْمُثَنَّاةُ؟"
عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیے "الْمُثَنَّاةُ کیا ہے؟"

قَالُوا: كِتَابٌ كَتَبَهُ أَقْوَامٌ عُلَمَاءُ حُكَمَاءُ
یہودیوں نے جواب دیے " یہ 1 کتاب ہے جو ہمارے بڑے بڑے علماء نے لکھی ہے"

اوپر کی حدیث سے آپ دیکھ سکتے الْمُثَنَّاةُ 1 خاص کتاب کا نام ہے،
تو نبی ﷺ نے بس یہ کہا ہے کہ جب یہ کتاب پڑھی جائیں گی تب قیامت قریب آ جائیں گی۔

اوپر نبی ﷺ نے ہرگز دینی کتب یا احدیث کے کتب لکھنے سے منع نہیں کیا، بلکہ خود نبی ﷺ نے حدیث لکھوائے بھی اور قرآن کے علاوہ کتاب بھی لکھوائے۔
اور اس بات کے کئی دلائل موجود ہے، میں آپ کے سامنے 2 پیش کر کے اپنی بات ختم کر دوں گا۔

پہلی دلیل: (ابو داود 2017)

نبی ﷺ نے 1 بار لوگوں سے خطاب فرمایا, اُسکے بعد:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُبُوا لِي ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اكْتُبُوا لأَبِي شَاهٍ
قُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ:‏‏‏‏ مَا قَوْلُهُ اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذِهِ الْخُطْبَةُ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّ


.......ایک شخص ابوشاہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے لکھ کر دے دیجئیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو شاہ کو لکھ کر دے دو ، ( ولید کہتے ہیں ) میں نے اوزاعی سے پوچھا: «اكتبوا لأبي شاه» سے کیا مراد ہے، وہ بولے: یہی خطبہ ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ 


اوپر کی حدیث سے واضح ہو جاتا نبی ﷺ نے خود کتاب اللہ کے علاوہ اپنا بیان لکھ کے دینے کو کہا۔


دوسری دلیل: (ترمزی 621)

۔۔۔۔۔ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ    كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ۔۔۔۔۔

سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقے کی کتاب لکھوائیں۔

اوپر کی حدیث سے آپ دیکھ سکتے خود نبی ﷺ نے کتاب اللہ کے علاوہ صدقے کی کتاب لکھوائے۔

تو اوپر آپ دیکھ سکتے رسول  ﷺ نے خود اپنی احادیث بھی لکھوائی اور کتاب بھی۔

تو اسی لیے وہ المُثَنَّاة والی حدیث میں 1 خاص کتاب کی بات ہو رہی ہے، اس میں دینی کتب اور احادیث کے کتب لکھنے سے منع نہیں کیا گیا۔

ایسے رہتے ہے یہ خورشید اکرم صاحب جیسے منکرین احادیث، بغیر صحیح علم کے کچھ بھی احمقانہ اصول بنا لیتے اور  ایسے نقلی اصولوں کے بارے میں کہتے چلو رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔