⛔ *جنازے کے موقع پر درس وتدریس اور تقریریں کرنا* ؟
اس موضوع پر ہمارے اکابر شیوخ علماء کرام اظہار خیال
1_ قاری ایوب چنیوٹی رحمه الله کے جنازے پر
اہلحدیث سمیت مختلف مسالک کے علماء باری باری مرحوم کی تعریف پر چند منٹ لگا رہے تھے۔ جب جنازہ پڑھانے شیخ الحدیث مولانا رفیق اثری رحمه الله تشریف لائے تو آتے ہی کہا کہ یہ مشرکین کا طریقہ تھا
کہ میت سامنے رکھ کر اس کی تعریفیں شروع کر دیا کرتے تھے۔ اس سے بچنا چاہیے، یہ مسنون طریقہ نہیں ہے۔
2_حافظ صلاح الدین یوسف رحمه الله کے جنازہ کے موقع پر
ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب کو تعزیتی کلمات کہنے کیلئے مدعو کیا گیا تو پہلی صف میں بیٹھے
شیخ الحدیث مفتی ثناء اللہ مدنی رحمه الله نے کہا کہ جنازے پہ وعظ کرنا خلاف سنت عمل ہے۔
ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب وہیں بیٹھ گئے، اور وعظ نہیں کیا۔
3_مولانا عبیداللہ عفیف رحمه الله کے جنازے کے موقع پر شیخ ارشاد الحق اثری حفظه الله کو کلماتِ تحسین کہنے کیلیے دعوت دی گئی تو یہ کہہ کر انکار فرما دیا : ”یہ عمل سنت سے ثابت نہیں ہے۔“
👈 بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ بھی میت کی تعریف کرتے تھے
یا اس موقع پر وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ یہ دین کے صحیح فہم سے دور ہونے کا نتیجہ ہے۔ صحابہ کرام بہت زیادہ ذکر کرنے والی ہستیاں تھیں
مگر جب انہوں نے کچھ لوگوں کو حلقوں میں بیٹھ کر مخصوص انداز سے اجتماعی ذکر کرتے ہوئے دیکھا
تو انتہائی غصے کا اظہار فرمایا۔ اس لیے وعظ یا میت کی تعریف میں حرج نہیں ہے،
لیکن رسم و رواج کی طرز پر میت سامنے رکھ کر بڑے بڑے لوگوں سے اس کی تعریفیں کروانا اور جنازے جیسے پُر ہول اور خشوع و تضرع کے متقاضی مشہد کو جلسہ گاہ بنا لینا
مذموم اور نامناسب عمل ہے۔ اسی لیے کبار اور سنجیدہ اہلِ علم ہمیشہ اس سے منع کرتے رہے ہیں۔
4_حافظ محمد یوسف گکھڑوی رحمه الله کے جنازے میں
بعض علماء کی جانب سے رسمی خراجِ تحسین اور تعریفی کلمات کا سلسلہ شروع تھا۔ امام العصر محدث حافظ محمد گوندلوی رحمه الله شدید غصے میں فرمانے لگے!
یہ سلسلہ بند کرو، کیوں اللہ کے غیض و غضب کو دعوت دیتے ہو؟!
یہ وقت تقاریر کا نہیں، عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کا ہے۔
5_ مولانا عبد الحميد ازہر رحمه الله نے وفات سے قبل یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے پر داد و تحسین کا پروگرام مت کیجیے گا۔
اسی وصیت کے باعث ان کے جنازے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا ۔
6_شیخ الحدیث جامعہ کمالیہ مولانا محمد یوسف صاحب آف راجو وال
کے جنازے کے موقع پر
آپ کے بیٹے نے آپ کا لکھا ہوا وصیت نامہ پڑھ کر سنایا
کہ میرے جنازے پر تعریفیں اور تقریریں نہ کی جائیں
کیونکہ یہ صریحاً خلاف سنت بلکہ بدعت عمل ھے
میرے جماعتی احباب
یہ تھے ھمارے اسلاف
ان کی زندگیوں میں شرک و بدعت کے بارے انتہائی نفرت تھی اور یہ عظیم ہستیاں کتاب و سنت پر مضبوط العقیدہ تھیں
میری دلی دعا ھے
کہ اللہ تعالیٰ دور حاضر کے علماء کرام کو بھی کتاب و سنت پر قائم دائم رکھے
آمین ثم آمین
دعاؤں کا طالب
احسان الٰہی اولکھ
فیصل آباد