ذہبی
الذہبی شمس الدین ابو عبید اللہ محمد بن عثمان نہایت ہی مشہور عرب محدث، مورخ اور فقیہہ تھے۔ ان کی ولادت 1274ء میں میافارقین میں ہوئی۔ ابتداً دمشق میں حدیث کی تعلیم پائی اور پھر اساتذہ بعلبک، حلب، نابُلس، اسکندریہ و قاہرہ سے استفادہ کیا۔ ابوا لفداء اورالوردی ان کے ہمعصر تھے۔ ان کا شاہکار "تاریخ الاسلام"ہے جو بیس جلدوں میں نہایت ضخیم اور مفصل کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف المشتبہ فی اسماء الرجال، میزان الاعتدال فی نقدالرجال، تجرید اسماء الصحابہ، الطب النبوی، معجم، کتاب العلوم مختصر المستدرک، مختصرا لعبر، طبقات القراء، تہذیب الکمال، فی اسماء الرجال ہیں۔ ان کا انتقال 4 فروری 1348ء میں دمشق میں ہوا۔
ابن تیمیہ
ابن تیمیہ کا نام احمدبن عبدالحلیم تقی الدین لقب اور ابوالعباس کنیت تھی۔ ان کے نسب میں ایک بزرگ تیمیہ نام کے تھے۔ اسی نسبت سے"ابن تیمیہ" سے مشہور ہو گئے۔ ان کی ولادت 22 جنوری 1263ء میں حران میں ہوئی۔ یہ زمانہ منگولوں کے ظلم وستم کا تھا۔ ان کے والد جان و مال کی حفاظت کے لیے دمشق چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 6 سال تھی۔ یہیں ابن تیمیہ نے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد کے علاوہ مشہور اساتذہ وقت سے تعلیم پائی۔ 20 برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے۔ اسی زمانہ میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور یہ ان کی جگہ فقہ حنبلی پڑھا نے پر مقرر ہوئے۔
ابن تیمیہ قرآن، حدیث، فقہ، الٰہیات اور فن مناظرہ کے بڑے ماہر تھے۔ وسعت مطالعہ اور ژرف نگاہی نے انھیں وہ فکر و نظر عطا کی تھی کہ مسائل دینیہ سے متعلق اجتہادی رائے کا اظہار فرمانے لگے۔ یہ بات حکام وقت کو پسند نہیں آئی اور جب تھوڑے دنوں بعد انھوں نے حضرت علی کی عظمت سے انکار کیا تو انھیں قید خانے بھیج دیا گیا۔ اسی زمانے میں منگولوں کی تاخت پھر شروع ہوئی۔ حکام نے دیکھا کہ ان کی مدد کے بغیر عوام ان حملہ آوروں سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ انہیں رہا کر دیا گیا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو دوبارہ گرفتار کر لیا۔ یہاں انھوں نے اپنے بھائی کی مدد سے تفسیر قرآن اور متعدد دوسری تصانیف قلم بند کیں۔ مخالفین کو جب ان کی علمی سرگرمی کا پتہ چلا توانھوں نے لکھنے پڑھنے کا سارا سامان چھین لیا۔ یہ سزا قید اور جسمانی تکلیف سے زیادہ سخت ثابت ہوئی۔ اسی رنج وغم میں 27 ستمبر 1328ء میں دمشق کے قید خانے میں انتقال کرگئے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ آپ کو ایک کنویں میں قید کر دیا گیا تھا۔ آپ کے شاگرد منڈیر پر بیٹھ کر قلم دوات اور کاغذ کے ساتھ موجود رہتے تھے اور آپ کے فرمان کو املاکرتے جاتے تھے۔
ان کی مشہور تصانیف: رسالۃ الفرقان، معارج الوصول، التبیان فی نزول القرآن، النیۃ فی العبادت، العقیدۃالواسطہ، الاکلیل فی المتشابہ والتاویل، رسالہ فی القضاء والقدر، رسالہ فی السماء والرقص، تفسیر المعوذتین، الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان، الواسطہ بین الخلق والحق، الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول، رسالہ زیارۃ القبور وغیرہ ہیں۔
ابن کثیر
اسماعیل بن عمر بن کثیر ان کا لقب عمادالدین اور عرفیت ابن کثیر ہے۔ آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر اپنی بستی کے خطیب تھے اور بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہہ تھے۔
حافظ ابن کثیر کی ولادت 701ھ میں مجدل میں ہوئی جو ملک شام کے مشہور شہر بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لیا۔ انھیں کے ساتھ دمشق چلے گئے۔ یہیں ان کی نشوونما ہوئی۔ ابتدا میں فقہ کی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے پائی اور بعد کو شیخ برہان الدین اور شیخ کمال الدین سے اس فن کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے حجّاز، حافظ مزی، ابن تیمیہ وغیرہ سے استفادہ کیا۔ ابن کثیر محدث، مفسر، فقیہہ اور مورخ تھے۔ تمام عمر آپ کی درس و افتاء، تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ 26 شعبان بروز جمعرات 774ھ میں وفات پائی۔
آپ کی مشہور تصانیف: تفسیرالقرآن الکریم (اس کے اردو زبان میں کئی تراجم ہیں۔)، البدایہ والنہایہ، رسالۃ فی فضائل القرآن، شرح صحیح بخاری، الاحکام الکبیر، السیرۃ النبویہ، الاجتہاد فی طلب الجہاد، الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول وغیرہ۔