Showing posts with label فقہاء. Show all posts
Showing posts with label فقہاء. Show all posts

Jahbi

ذہبی
الذہبی شمس الدین ابو عبید اللہ محمد بن عثمان نہایت ہی مشہور عرب محدث، مورخ اور فقیہہ تھے۔ ان کی ولادت 1274ء میں میافارقین میں ہوئی۔ ابتداً دمشق میں حدیث کی تعلیم پائی اور پھر اساتذہ بعلبک، حلب، نابُلس، اسکندریہ و قاہرہ سے استفادہ کیا۔ ابوا لفداء اورالوردی ان کے ہمعصر تھے۔ ان کا شاہکار "تاریخ الاسلام"ہے جو بیس جلدوں میں نہایت ضخیم اور مفصل کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف المشتبہ فی اسماء الرجال، میزان الاعتدال فی نقدالرجال، تجرید اسماء الصحابہ، الطب النبوی، معجم، کتاب العلوم مختصر المستدرک، مختصرا لعبر، طبقات القراء، تہذیب الکمال، فی اسماء الرجال ہیں۔ ان کا انتقال 4 فروری 1348ء میں دمشق میں ہوا۔

ابن تیمیہ
ابن تیمیہ کا نام احمدبن عبدالحلیم تقی الدین لقب اور ابوالعباس کنیت تھی۔ ان کے نسب میں ایک بزرگ تیمیہ نام کے تھے۔ اسی نسبت سے"ابن تیمیہ" سے مشہور ہو گئے۔ ان کی ولادت 22 جنوری 1263ء میں حران میں ہوئی۔ یہ زمانہ منگولوں کے ظلم وستم کا تھا۔ ان کے والد جان و مال کی حفاظت کے لیے دمشق چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 6 سال تھی۔ یہیں ابن تیمیہ نے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد کے علاوہ مشہور اساتذہ وقت سے تعلیم پائی۔ 20 برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے۔ اسی زمانہ میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور یہ ان کی جگہ فقہ حنبلی پڑھا نے پر مقرر ہوئے۔

ابن تیمیہ قرآن، حدیث، فقہ، الٰہیات اور فن مناظرہ کے بڑے ماہر تھے۔ وسعت مطالعہ اور ژرف نگاہی نے انھیں وہ فکر و نظر عطا کی تھی کہ مسائل دینیہ سے متعلق اجتہادی رائے کا اظہار فرمانے لگے۔ یہ بات حکام وقت کو پسند نہیں آئی اور جب تھوڑے دنوں بعد انھوں نے حضرت علی کی عظمت سے انکار کیا تو انھیں قید خانے بھیج دیا گیا۔ اسی زمانے میں منگولوں کی تاخت پھر شروع ہوئی۔ حکام نے دیکھا کہ ان کی مدد کے بغیر عوام ان حملہ آوروں سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ انہیں رہا کر دیا گیا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو دوبارہ گرفتار کر لیا۔ یہاں انھوں نے اپنے بھائی کی مدد سے تفسیر قرآن اور متعدد دوسری تصانیف قلم بند کیں۔ مخالفین کو جب ان کی علمی سرگرمی کا پتہ چلا توانھوں نے لکھنے پڑھنے کا سارا سامان چھین لیا۔ یہ سزا قید اور جسمانی تکلیف سے زیادہ سخت ثابت ہوئی۔ اسی رنج وغم میں 27 ستمبر 1328ء میں دمشق کے قید خانے میں انتقال کرگئے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ آپ کو ایک کنویں میں قید کر دیا گیا تھا۔ آپ کے شاگرد منڈیر پر بیٹھ کر قلم دوات اور کاغذ کے ساتھ موجود رہتے تھے اور آپ کے فرمان کو املاکرتے جاتے تھے۔

ان کی مشہور تصانیف: رسالۃ الفرقان، معارج الوصول، التبیان فی نزول القرآن، النیۃ فی العبادت، العقیدۃالواسطہ، الاکلیل فی المتشابہ والتاویل، رسالہ فی القضاء والقدر، رسالہ فی السماء والرقص، تفسیر المعوذتین، الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان، الواسطہ بین الخلق والحق، الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول، رسالہ زیارۃ القبور وغیرہ ہیں۔

ابن کثیر
اسماعیل بن عمر بن کثیر ان کا لقب عمادالدین اور عرفیت ابن کثیر ہے۔ آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر اپنی بستی کے خطیب تھے اور بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہہ تھے۔

حافظ ابن کثیر کی ولادت 701ھ میں مجدل میں ہوئی جو ملک شام کے مشہور شہر بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نے اپنی آغوش تربیت میں لیا۔ انھیں کے ساتھ دمشق چلے گئے۔ یہیں ان کی نشوونما ہوئی۔ ابتدا میں فقہ کی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے پائی اور بعد کو شیخ برہان الدین اور شیخ کمال الدین سے اس فن کی تکمیل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے حجّاز، حافظ مزی، ابن تیمیہ وغیرہ سے استفادہ کیا۔ ابن کثیر محدث، مفسر، فقیہہ اور مورخ تھے۔ تمام عمر آپ کی درس و افتاء، تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ 26 شعبان بروز جمعرات 774ھ میں وفات پائی۔

آپ کی مشہور تصانیف: تفسیرالقرآن الکریم (اس کے اردو زبان میں کئی تراجم ہیں۔)، البدایہ والنہایہ، رسالۃ فی فضائل القرآن، شرح صحیح بخاری، الاحکام الکبیر، السیرۃ النبویہ، الاجتہاد فی طلب الجہاد، الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول وغیرہ۔

Darmi qutni

دارمی
الدارمی ابو محمد عبداللہ کی ولادت سمرقند میں 181ھ میں ہوئی۔ یہ مشہور محدث کے علاوہ بڑے زاہد و مرتاض تھے۔ انھوں نے احادیث کی جستجو میں خراساں، شام، عراق، حجاز و مصر کا سفر کیا اور بڑے بڑے ائمہ احادیث سے استفادہ کیا۔ مسلم، ابو داؤد، نسائی مشہور ائمہ حدیث انھیں کے شاگردوں میں سے تھے۔ ان کا مجموعہ احادیث"المسند" بہت مشہور ہے۔ انہوں نے تفسیر قرآن بھی لکھی۔ ان کی ایک اور کتاب"کتاب الجامع" بھی بہت مشہور ہے۔ ان کا انتقال 255ھ میں ہوا۔

دار قطنی
الدار قطنی ابوالحسن علی بن احمد بن مہدی نہایت مشہور محدث، تجوید اور ادبیات کے ماہر تھے۔ ان کی ولادت دار قطن (بغداد) میں ہوئی۔ انھوں نے مختلف مقامات کا سفر کیا۔ احادیث جمع کیں اور محدثین کی صف میں اول جگہ پائی۔ انھوں نے جمع احادیث میں زیادہ تر اصول و روایت سے کام لیا اور یہ ان کی وہ خصوصیت ہے کہ جو بہت کم دوسرے محدثین میں پائی جاتی ہے۔

ان کی مشہور تصانیف میں السنتہہ، الزامات علی الصحیحین، کتاب الاربعین، کتاب الافراد، کتاب الامانی، کتاب المستنجد، کتاب الرویتہ، کتاب الضعفاء، کتاب القرات شامل ہیں۔ ان کا انتقال 385ھ میں ہوا۔

امام واقدی
الواقدی ابو عبداللہ محمد بن عمر علم قرآن، فقہ و حدیث کے ماہر تھے۔ مگر مشہور ہوئے مورخ کی حیثیت سے ہارون رشید، ما مون اور یحییٰ بر مکی سبھی ان کے قدر دان تھے۔ ان کی ولادت مدینہ میں 130ھ میں جبکہ انتقال 207ھ میں ہوا۔ ان کی مشہور تصانیف۔ اخبار مکہ، التاریخ وا لمغازی والمبعث، فتوح الشام، فتوح العراق، صفین، تاریخ کبیر، تاریخ الفقہا ء وغیرہ۔

سرخشی
سرخشی شمس الائمہ ابوبکر محمد بن احمد پانچویں صدی ہجری میں ماورا لنہر کے مشہور فقیہہ اور امام علوم و فنون تھے۔ اوائل میں تجارت پیشہ تھے۔ پھر حصول علم کی طرف توجہ کی۔ بخارا میں عبدالعزیز حلوانی سے تعلیم پوری کی اور قراخانی کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ لیکن یہاں سلطان سے اختلاف ہونے کی وجہ سے قید کر دیے گئے۔ اسی زمانے میں اپنی مشہور پندرہ جلدوں کی کتاب"مبسوط" لکھی۔ اس کے علاوہ "شرح السیرالکبیر"بھی ان کی تصنیف ہے۔ ان کا انتقال 483ھ میں ہوا۔

سبکی
قاضی تقی الدین سبکی اپنے زمانے کے مشہور فقیہہ، محدث، حافظ، مفسر اور ادیب تھے۔ ان کا تعلق سبک کے ایک مشہور فاضل خاندان سے تھا۔ جس کے اکثر افراد قضاء و افتاء تک پہنچے۔ ان کی ولادت اپریل 1284ء میں ہوئی۔ ان کی تعلیم قاہرہ میں ہوئی اور دمشق و قاہرہ میں مفتی و قاضی کے عہدہ پر ممتاز رہے۔ ان کا انتقال 16 جون 1355ء کو مصر میں ہوا۔

ان کی مشہور تصانیف الدّر النظیم، الابتہاج فی شرح المنہاج، الا عتبارفی بقاء الجنتہ والنار ہیں۔

شعبی
الشعبی ابوعمر عامر ابتدائے اسلام کے قاری و محدث تھے۔ ان کے والد بھی کوفہ کے نہایت مشہور قاری تھے۔ جب حجاج کوفہ کا گورنر ہو کر آیا تو ان کی قابلیت کو دیکھ کر وظیفہ مقرر کر دیا۔ جب عبدالرحمن بن الاشعث نے حجاج کے خلاف فوج کشی کی تو شعبی حجاج کے خلاف ہو گئے اور اشعث کی شکست کے بعد جان بچا کر فرغانہ چلے گئے۔ مگر حجاج نے انھیں گرفتار کرالیا۔ لیکن بعد میں رہا کر دیا۔ اس کے بعد یہ خلیفہ عبدالملک کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ خلیفہ عبد الملک کے انتقال کے بعد پھر کوفہ چلے گئے۔ ان کی ولادت 19ھ میں ہوئی اور انتقال 110ھ میں ہوا۔ انہوں نے تقریباً 500 صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں اور امام ابو حنیفہؒ انہیں کے شاگرد رشید ہیں۔

ذہبی

Shafi and Ahmad bin hanbal and imam muslim

امام شافعیؒ
شافعی ابو عبداللہ محمد بن ادریس بن عثمان بن شافع قریشی نسل اور ہاشمی تھے۔ یہ شافعی فقہ کے امام تھے۔ ان کی ولادت غزہ میں 150ھ میں ہوئی۔ والد کا انتقا ل کم سنی میں ہی ہو گیا تھا۔ والدہ نے نہایت غربت کے عالم میں پرورش کی اور بدوی قبائل کے سپرد کر دیا۔ نتیجۃً قدیم ادبیات عربی کے ماہر ہو گئے۔ بچپن ہی میں مکہ آ گئے تھے اور یہیں حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ 20 سال کی عمر میں مدینہ چلے گئے اور امام مالک کی شاگردی اختیار کی اور ان کے انتقال تک ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ امام مالک کی موطا انھیں زبانی ازبر تھی۔

امام مالک کے انتقال کے بعد یمن چلے گئے۔ یہاں انھوں نے اس وقت کی عباسی حکومت کے خلاف علویوں کی سرگرمی میں حصہ لیا اور اس طرح گرفتار ہو کر بغداد لائے گئے۔ لیکن ہارون رشید نے انھیں رہا کر دیا۔ یہاں سے دوبارہ مصر گئے۔ 6 یا 7 برس کی غیر حاضری کے بعد دوبارہ بغداد واپس آ گئے۔ یہیں طلبہ کو حدیث اور فقہ کی تعلیم دیتے رہے۔ یہاں سے تقریباً 5 سال بعد مصر دوبارہ واپس چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں رہے۔ بروز جمعہ 204ھ میں فسطاط میں آپ کا انتقال ہوا۔ "کتاب الام" امام شافعی کی بنیادی اور شاہکار تصنیف ہے۔ جو اصول فقہ اسلامی کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ امام احمد بن حنبل انھیں کے شاگرد تھے۔ آپ کے پیرو بلاد ہند، مصر، عرب، ملایا وغیرہ میں کثرت سے ہیں۔

امام احمد ابن حنبلؒ
امام حنبل کا پورا نام احمد بن محمد بن حنبل تھا۔ فقہ اسلامی کے چار اماموں میں سے ہیں۔ ان کی ولادت بغداد میں 164ھ (ربیع الاول) میں ہوئی۔ عراق، شام، حجاز ویمن کے علماء سے استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ امام شافعی سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔ ان سے فقہ اور اصول کی کتابیں پڑھیں۔ 20 برس کی عمر میں فارغ ہو گئے اور جمع احادیث کے لیے مختلف مقامات کا سفر کیا۔

المامون عباسی معتزلہ کے زیر اثر مسئلہ خلق قرآن کا حامی تھا۔ اس نے حکم دیا کہ تمام علمائے سلطنت اس پر جہاد کریں۔ امام حنبل نے انکار کر دیا۔ مامون نے حکم دیا کہ انھیں پابجولاں طرطوس بھیج دیا جائے۔ جہاں وہ ان دنوں مقیم تھا۔ یہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ مامون کا انتقال ہو گیا۔ لیکن اس کے جانشینوں (المستعم اور الواثق) نے سختی جاری رکھی۔ مگر ان کے پائے استقامت ڈگمگائے نہیں۔ بعد کو المتوکل کے زمانے میں ان کو چھٹکارا نصیب ہوا۔ ان کا انتقال 12 ربیع الاول 241ھ کو بغداد میں ہوا۔

مسنداحمد بن حنبل ان کا بہت ہی مشہور مجموعہ احادیث ہے جس میں تقریباً 30 ہزار حدیثیں ہیں۔ ان کی دوسری تصانیف کتاب الزہد، کتاب الصلوۃ وما یلزم فیھا، الرد علی الزنادقہ والجہیمہ، فی ما شکت فیہہ من تشابہ القرآن، کتاب طاعۃ الرسول اور کتاب السنۃ ہیں۔

امام مُسلمؒ
مسلم بن الحجاج ابوالحسین القشیری النیشا پوری مشہور محدث تھے۔ ان کی ولادت نیشا پور میں 202ھ میں ہوئی۔ ان کی"صحیح مسلم"کا شمار حدیث کی 6! مشہور کتابوں میں سے ہے جنھیں "صحاح ستہ"کہتے ہیں۔ انھوں نے جمع احادیث کے لیے عرب، مصر، شام اور عراق وغیرہ کا سفر کیا اور بڑے بڑے اکابرِ احادیث سے روایت حاصل کیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 3!لاکھ احادیث فراہم کر کے ان کا انتخاب کیاجسے"صحیح مسلم" کہتے ہیں۔ جس میں انھوں نے اسناد کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔ فقہ اور متذکرہ محدثین پر بھی انھوں نے متعدد تصانیف کیں۔ ان کا انتقال 261ھ میں ہوا۔

Abu Dawood and nisai and Tirmizi bukhari

ابو داؤدؒ
ابو داؤد سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی مشہور جامع احادیث تھے۔ ان کی ولادت 202ھ میں ہوئی۔ انھوں نے بغداد میں امام احمد بن حنبل سے تعلیم پائی اور پھر بصرہ میں مستقل قیام اختیار کیا۔ انھوں نے جمع احادیث کے لیے بڑے بڑے سفر کیے۔ انھوں نے راویوں کی چھان بین کر کے اپنا مجموعۂ احادیث "کتاب السنۃ" مرتب کیا جو صحاح ستہ میں شامل ہے۔ ان کا انتقال بصرہ میں 275ھ میں ہوا۔

النسائیؒ
النسائی ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن بحر بن سنان مشہور جامع احادیث تھے جن کا مجموعۂ احادیث صحاح ستہ میں شامل ہے۔ انھوں نے جمع احادیث کے لیے بہت سفر کیا اور عرصہ تک مصر میں رہنے کے بعد دمشق میں اقامت اختیار کر لی۔ ان کے مجموعۂ احادیث میں بعض ایسے ابواب بھی ہیں جو دوسرے مجموعے میں نہیں پائے جاتے۔ چونکہ یہ علوئین کے طرف دار تھے اس لیے بنو امیہ نے انھیں کا فی ستایا۔ ان کا انتقال 303ھ میں ہوا۔ انھوں نے ایک کتاب "فضائل علی"پر بھی لکھی تھی جس کا نام "خصایص امیرالمومنین علی ابن ابی طالب" ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب "کتاب الضعفاء" بھی ان سے منسوب کی جاتی ہے۔

ترمذیؒ
ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی مشہور محدث تھے۔ یہ نابینا تھے اسی حالت میں انہوں نے خراسان، عراق، حجاز وغیرہ کی سیاحت کر کے احادیث جمع کیں۔ امام احمد بن حنبل، امام بخاری اور ابو داؤد ان کے اساتذہ تھے۔ حدیث میں ان کی دو کتابیں بہت مشہور ہیں۔ جامع ترمذی، شمایل المحمدیہ (جامع ترمذی صحاح ستہ میں شامل ہے۔) ان کی رحلت 279ھ میں ہوئی۔

امام بخاریؒ
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزبۃ البخاری الجعفی امام بخاری کی ولادت 13!شوال 194ھ بروز جمعہ بخارا میں ہوئی۔ ان کے والد اسماعیل جلیل القدر علماء، حماد بن زید اور امام مالک کے شاگردوں میں سے تھے۔ کم سنی ہی میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ والدہ نے ان کی پرورش کی۔ امام بخاری کو کم سنی سے ہی حدیث کا بے حد شوق تھا۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ امام کی تخلیق صرف حدیث کے لیے ہی کی گئی تھی۔ ان کا حافظہ غضب کا تھا۔

16 برس کی عمر میں ہی خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ حج کے لیے گئے۔ فریضہ کی ادائیگی کے بعد وہ لوگ تو واپس آ گئے مگر امام بخاری وہیں حجاز میں مقیم رہے۔ پھر وہیں سے احادیث کی تلاش میں اسلامی مراکز کے سفر پر نکلے۔ اس مقصد کے لیے وہ ان تمام مقامات پر گئے جہاں سے حدیث ملنے کی توقع تھی۔ اس طرح انھوں نے 6 لاکھ احادیث جمع کیں۔ جن سے انتخاب کر کے اپنی شہرہ آفاق کتاب صحیح بخاری مرتب کی۔ اس میں 2762 احادیث ہیں۔ (مکررات کے ساتھ 7397) اس کتاب کو"اصح الکتب"بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ امام بخاری نے صرف صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ ان کی دیگر تصانیف تاریخ الکبیر (اس کتاب کو امام بخاری نے 18 سال کی عمر میں حضورؐ کے روضہؐ اقدس پر بیٹھ کر لکھا تھا۔) تاریخ صغیر، تاریخ اوسط، الجامع الکبیر، کتاب الہٰیہ، کتاب الضعفاء، اسامی الصحابہ، کتاب العلل، کتاب المبسوط، الادب المفرد وغیرہ ہیں۔

امام بخاری آخری عمر میں بخارا واپس آ گئے۔ لیکن یہاں کے حاکم خالد بن احمد الذہلی نے ان کی مخالفت کی اور انھیں شہر بدر کر دیا۔ اہل سمرقند کی دعوت پر وہاں چلے گئے اور ایک گاؤں خرتنگ میں اپنے چند رشتہ داروں کے ساتھ رہنے لگے۔ یہیں ان کا انتقال 10 شوال 256ھ بعد نماز عشاء ہوا۔

ابن ماجہؒ
ابن ماجہ ابو عبداللہ محمد بن یزید القزوینی کی ولادت 209ھ میں ہوئی۔ مشہور جامع احادیث تھے۔ ان کا مجموعہ احادیث سنن ابن ماجہ، صحاح ستہ میں شامل ہے جسے عراق، عرب، شام و مصر وغیرہ کی سیاحت کر کے مرتب کیا تھا۔ سنن ابن ماجہ میں امام صاحب کا مقدمہ نہایت اہم مباحث پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے قرآن کی تفسیر اور ایک تاریخ کی کتاب بھی لکھی ہے۔ ان کا انتقال 273ھ میں ہوا۔

بیہقی
ابوبکر احمد بن الحسن فقیہہ اور محدث تھے۔ انہوں نے سیاحت کر کے اشعری اصول اور احادیث کا علم حاصل کیا۔ سیاحت سے واپس آکر نیشا پور میں تصنیف وتالیف شروع کی۔ ان کی مشہور تصانیف کتا ب نصوص الامام الشافعی، کتاب السنۃ والآثار ہیں۔ ان کی ولادت بیہق میں 384ھ میں ہوئی اور انتقال 458ھ میں ہوا۔

دارمی
الدارمی ابو محمد عبداللہ کی ولادت سمرقند میں 181ھ میں ہوئی۔ یہ مشہور محدث کے علاوہ بڑے زاہد و مرتاض تھے۔ انھوں نے احادیث کی جستجو میں خراساں، شام، عراق، حجاز و مصر کا سفر کیا اور بڑے بڑے ائمہ احادیث سے استفادہ کیا۔ مسلم، ابو داؤد، نسائی مشہور ائمہ حدیث انھیں کے شاگردوں میں سے تھے۔ ان کا مجموعہ احادیث"المسند" بہت مشہور ہے۔ انہوں نے تفسیر قرآن بھی لکھی۔ ان کی ایک اور کتاب"کتاب الجامع" بھی بہت مشہور ہے۔ ان کا انتقال 255ھ میں ہوا۔

Shafi and Ahmad bin hanbal and imam muslim

امام شافعیؒ
شافعی ابو عبداللہ محمد بن ادریس بن عثمان بن شافع قریشی نسل اور ہاشمی تھے۔ یہ شافعی فقہ کے امام تھے۔ ان کی ولادت غزہ میں 150ھ میں ہوئی۔ والد کا انتقا ل کم سنی میں ہی ہو گیا تھا۔ والدہ نے نہایت غربت کے عالم میں پرورش کی اور بدوی قبائل کے سپرد کر دیا۔ نتیجۃً قدیم ادبیات عربی کے ماہر ہو گئے۔ بچپن ہی میں مکہ آ گئے تھے اور یہیں حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ 20 سال کی عمر میں مدینہ چلے گئے اور امام مالک کی شاگردی اختیار کی اور ان کے انتقال تک ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ امام مالک کی موطا انھیں زبانی ازبر تھی۔

امام مالک کے انتقال کے بعد یمن چلے گئے۔ یہاں انھوں نے اس وقت کی عباسی حکومت کے خلاف علویوں کی سرگرمی میں حصہ لیا اور اس طرح گرفتار ہو کر بغداد لائے گئے۔ لیکن ہارون رشید نے انھیں رہا کر دیا۔ یہاں سے دوبارہ مصر گئے۔ 6 یا 7 برس کی غیر حاضری کے بعد دوبارہ بغداد واپس آ گئے۔ یہیں طلبہ کو حدیث اور فقہ کی تعلیم دیتے رہے۔ یہاں سے تقریباً 5 سال بعد مصر دوبارہ واپس چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں رہے۔ بروز جمعہ 204ھ میں فسطاط میں آپ کا انتقال ہوا۔ "کتاب الام" امام شافعی کی بنیادی اور شاہکار تصنیف ہے۔ جو اصول فقہ اسلامی کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ امام احمد بن حنبل انھیں کے شاگرد تھے۔ آپ کے پیرو بلاد ہند، مصر، عرب، ملایا وغیرہ میں کثرت سے ہیں۔

امام احمد ابن حنبلؒ
امام حنبل کا پورا نام احمد بن محمد بن حنبل تھا۔ فقہ اسلامی کے چار اماموں میں سے ہیں۔ ان کی ولادت بغداد میں 164ھ (ربیع الاول) میں ہوئی۔ عراق، شام، حجاز ویمن کے علماء سے استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ امام شافعی سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔ ان سے فقہ اور اصول کی کتابیں پڑھیں۔ 20 برس کی عمر میں فارغ ہو گئے اور جمع احادیث کے لیے مختلف مقامات کا سفر کیا۔

المامون عباسی معتزلہ کے زیر اثر مسئلہ خلق قرآن کا حامی تھا۔ اس نے حکم دیا کہ تمام علمائے سلطنت اس پر جہاد کریں۔ امام حنبل نے انکار کر دیا۔ مامون نے حکم دیا کہ انھیں پابجولاں طرطوس بھیج دیا جائے۔ جہاں وہ ان دنوں مقیم تھا۔ یہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ مامون کا انتقال ہو گیا۔ لیکن اس کے جانشینوں (المستعم اور الواثق) نے سختی جاری رکھی۔ مگر ان کے پائے استقامت ڈگمگائے نہیں۔ بعد کو المتوکل کے زمانے میں ان کو چھٹکارا نصیب ہوا۔ ان کا انتقال 12 ربیع الاول 241ھ کو بغداد میں ہوا۔

مسنداحمد بن حنبل ان کا بہت ہی مشہور مجموعہ احادیث ہے جس میں تقریباً 30 ہزار حدیثیں ہیں۔ ان کی دوسری تصانیف کتاب الزہد، کتاب الصلوۃ وما یلزم فیھا، الرد علی الزنادقہ والجہیمہ، فی ما شکت فیہہ من تشابہ القرآن، کتاب طاعۃ الرسول اور کتاب السنۃ ہیں۔

امام مُسلمؒ
مسلم بن الحجاج ابوالحسین القشیری النیشا پوری مشہور محدث تھے۔ ان کی ولادت نیشا پور میں 202ھ میں ہوئی۔ ان کی"صحیح مسلم"کا شمار حدیث کی 6! مشہور کتابوں میں سے ہے جنھیں "صحاح ستہ"کہتے ہیں۔ انھوں نے جمع احادیث کے لیے عرب، مصر، شام اور عراق وغیرہ کا سفر کیا اور بڑے بڑے اکابرِ احادیث سے روایت حاصل کیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 3!لاکھ احادیث فراہم کر کے ان کا انتخاب کیاجسے"صحیح مسلم" کہتے ہیں۔ جس میں انھوں نے اسناد کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔ فقہ اور متذکرہ محدثین پر بھی انھوں نے متعدد تصانیف کیں۔ ان کا انتقال 261ھ میں ہوا۔

Imam malik

امام مالکؒ
امام داراہجرۃ مالک بن انس مشہور فقیہہ و محدث تھے۔ ان کے چچا اور داد ابھی محدث تھے۔ حدیث کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد فقہ کی تعلیم ربیعہ بن فرخ سے حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے قرأت کا فن بھی حاصل کیا۔ ان کی پیدائش 90ھ میں ہوئی۔ ان کا زیادہ تر وقت مدینہ میں گزرا۔

جب 144ھ میں محمد اور ابراہیم بن عبداللہ (علوئین) نے عباسیوں کے خلاف خروج کیا تو خلیفہ منصور عباسی نے انھیں کو طرفدار حسین کے پاس مکہ روانہ کیا تھا کہ یہ دونوں بھائی حکومت کے حوالے کر دیے جائیں لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ تاہم اس خدمت کے صلہ میں عبداللہ کی ضبط شدہ جائداد کا کچھ حصہ انہیں مل گیا۔ جب محمد بن عبداللہ نے 145ھ میں مکہ میں اقتدار حاصل کیا تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ منصور کی خلافت پر جن لوگوں نے بیعت کی تھی وہ اس کی پابندی پر مجبور نہیں ہیں کیوں کہ یہ بیعت جبریہ حاصل کی گئی تھی۔ جب یہ بغاوت ختم ہوئی تو جعفر بن سلیمان گورنر مدینہ نے مالک بن انس کو گرفتار کر کے کوڑے لگوائے جس سے ان کا شانہ اتر گیا۔ لیکن بعد میں خلافت عباسیہ کے فرمانرواؤں سے ان کے تعلقات استوار ہو گئے تھے۔ ان کا انتقال مدینہ میں 85 سال کی عمر میں 175ھ میں ہوا اور تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔

ان کے مشہور شاگرد امام شافعی ہیں۔ ان کی مشہور کتاب"موطا"ہے جو اسلام کا سب سے پہلا مجموعہ حدیث ہے جس کی ترتیب فقہی ہے۔ انھوں نے کوئی علٰحدہ فقہی مسلک قائم نہیں کیا۔ مگر بعد میں ان کے شاگردوں نے بعض مسائل میں امام شافعی سے اختلاف کر کے مالکی فقہہ کی بنیاد ڈالی۔ مالکی مسلک زیادہ تر مصر اور مغرب میں مقبول ہے۔

Imam Abu hanifa

امام ابو حنیفہؒ
امام ابو حنیفہؒ کا نام "نعمان بن ثابت" تھا۔ یہ حنفی فقہ کے بانی ہیں۔ ان کے دادا (زوطا) غلام کی حیثیت سے ایران سے کوفہ لائے گئے۔ بعد میں آزاد کر دیے گئے اور قبیلہ تیم اللہ کے مولیٰ کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے لگے۔ ان کے والد کا نام"ثابت" تھا۔ امام صاحب کی پیدائش 80ھ میں کوفہ میں ہوئی۔ انہوں نے تمام عمر فقہ کی تحصیل میں صرف کر دی۔ یہ کوفہ میں ایک زبردست عالم و واعظ کی حیثیت رکھتے تھے۔ لوگ دور دور سے ان سے فقہی مسائل پوچھنے آتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ املا کے طریقے پر زبانی تعلیم دی اور کوئی تصنیف نہیں چھوڑی۔ مگر بعض رسائل اور کتب جو ان سے منسوب ہیں ان کے پوتے اسماعیل بن حماد اور ان کے شاگردوں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔

ان کا نام نعمان بن ثابت تھا مگر چونکہ دین کی طرف تمام دنیاوی چیزوں سے منھ موڑ کر یکسوئی اختیار کی۔ اسی نسبت سے"حنیفہ" مشہور ہوئے۔ یہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور خوشحال تھے۔ ان کا زمانہ اموی خلافت کا زمانہ تھا مگر عمر کے آخری حصہ میں اموی خلافت ختم ہو گئی اورعباسی خلافت قائم ہوئی تو خلیفہ منصور نے انہیں عہدۂ قضا کی پیش کش کی۔ مگر انہوں نے انکار کیا۔ اس لیے قید کر دیے گئے۔ ان کا انتقال 150ھ میں ہوا۔