Showing posts with label ilm. Show all posts
Showing posts with label ilm. Show all posts

ILM KI AHMIYAT AUR JARURAT

علم کی اہمیت و ضرورت​

[ar]الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین ،نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین أما بعد ........[/ar]

قرآن وحدیث کے اندر علم کے مختلف گوشوں پر بات کی گئی ہے مگرمیں یہاں اس کے مندرجہ ذیل اہم نقطوں کو ذکر کررہا ہوں
:١۔ علم کی اہمیت
٢۔ جہالت کی مذمت
٣۔ علم کی فضیلت
٤۔ علم کی قسمیں
٥۔ حصول علم واجب ہے
٦۔ صحیح علم کیا ہے؟
٧۔ غلط علم اور اس سے اجتناب
٨۔ وسائل علم
٩۔ موانع حصول علم
١٠۔ حصول علم سے متعلق چند دعائیں .

١۔علم کی اہمیت :جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کعبہ بنا یا اور وہاں چند لوگ آباد ہوگئے تو دعا فرمائی تھی [ar]
( ربنا و ابعث فیھم رسولا منھم یتلو علیھم آیاتک و یعلمھم الکتاب و الحکمة و یزکیھم انک أنت العزیز الحکیم)[/ar]
"اے ہمار ے رب!ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے ،یقینا تو غلبہ والااورحکمت والاہے" ( سورہ بقرہ :١٢٩)

نبی اکرم ۖکی بعثت کا مقصد تعلیم ہے ارشاد باری تعالی ہے
[ar]( ھو الذی بعث فی الأمیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین)[/ar]
٫٫وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے ، یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ،،( سورہ جمعة : ٢)
اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن کی سب سے پہلی آیت جو اللہ نے اپنے نبی پر نازل فرمائی وہ اسی تعلیم سے متعلق تھی اللہ تعالی فرماتا ہے:
[ar](اقرأ باسم ربک الذی خلق، خلق النسان من علق ،اقرأ وربک الأکرم ،الذی علم بالقلم ،علم النسان مالم یعلم )[/ar]
٫٫پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ،تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑ اکرم والاہے جس نے قلم کے ذریعے (علم )سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا،،(سورہ علق:١۔٥)
اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا، اور قرآن کریم میں ایک سورت کا نام ہی ٫٫سورة القلم،،رکھا جس کے شروع میں اللہ نے قلم کی قسم کھائی جو علم کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے.
قبر میں مومن سے علم کے بارے میں سوال ہوگا:
[ar] ٫٫ وما یدریک ؟فیقول: قرات کتاب اللہ فآمنت بہ و صدقت ،، [/ar]
٫٫تمہیں یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں ؟وہ آدمی کہے گا میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لا یااور اس کی تصدیق کی ،،
(ابوداود کتاب السنة باب:٢٣ حدیث:٤٧٥٣)
اور کافر ، منافق( اورفاسق و فاجر) اپنی بے علمی اور جہالت کا اعتراف کریں گے اور کہیں گے٫٫ لا ادری ، کنت أقول ما یقول الناس ،، ٫٫مجھے نہیں معلوم جو لوگ کہتے تھے وہی میں بھی کہتا تھا ،، فرشتے کہیں گے:
[ar]٫٫ لادریت و لاتلیت،، ٫٫ [/ar]
تم نے نہ تو جاننے کی کوشش کی اور نہ (قرآن )پڑھا،،
(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب:٦٨ حدیث:١٣٣٨)
قیامت میں ہر انسان سے چار سوالات کئے جائیں گے :جن میں ایک سوال علم کے بارے میں یہ ہوگا٫٫
[ar]وعن علمہ فیم فعل ،، ٫٫ [/ar]
کیا علم سکھا اور اس پر کتنا عمل کیا؟،،(ترمذی کتاب صفة القیامة باب:١ حدیث :٢٤١٧).

٢۔ جہالت کی مذمت : علم کی ضد جہالت ہے ، جو ایک بہت ہی بری چیز ہے ،کوئی شخص اپنے آپ کو جاہل کہلواناہر گز پسند نہیں کرتا،علم نور ہے تو جہالت ظلمت اور اندھیرا ہے ، ہر قسم کی برائیوں کی جڑ ہے ، معاشرہ کا کینسر ہے ،جاہل کی اس دنیا میں کوئی قیمت نہیں ، اگر وہ زندہ بھی ہے تو لوگوں کے نزدیک مرد ہ ہے ،لیکن علم والا اپنے مرنے کے بعد بھی گویا وہ زندہ ہے . جہالت ہمیشہ اور ہر موڑ پر نقصان دہ ہے ، اور علم ہمیشہ اور ہر موقع پر فائدہ مند ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ علم اور مال کے درمیان تقابل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
[ar] ٫٫ رضینا قسمة الجبار فینا ٭ لنا عمل وللجہال مال ،،[/ar]
٫٫اللہ تعالی کی تقسیم سے ہم راضی ہیں کہ ہمارے لئے علم ہے اور جاہلوں کے لئے مال ہے ،،

٣۔ علم کی فضیلت : علم ہماری حفاظت کرتاہے ، لیکن مال کی ہم کو حفاظت کرنی پڑتی ہے ، علم حاکم ہے اور مال محکوم ہے ، مال و دولت کے خزانے جمع کرنے والے تو مرگئے لیکن علم کا خزانہ جمع کرنے والے باقی ہیں ، وہ نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں لیکن دلوں میں موجود ہیں .
علم کی زیاتی آدمی کے دل میں اللہ کا ڈر اور خوف پیدا کرتی ہے ،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
[ar](انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء)[/ar]
٫٫اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں،،(سورہ فاطر:٢٨)
علم لوگوں میں علم والے کی عزت اور اس کے احترام کوبڑھاتی ہے ، جبکہ عموما مال کی زیادتی آدمی کو سرکشی میں مبتلا کردیتی ہے ؛ اسی لئے اللہ نے نبی کریم ۖ کوعلم میں زیادتی کی دعا سکھائی ، فرمایا:
[ar]( وقل رب زدنی علما )[/ar]
٫٫یہ دعا کیجئے کہ پروردگار !میرا علم بڑھا ،،(سورہ طہ:١١٤)
اور مال میں برکت کی دعا سکھائی٫٫
[ar]وبارک لی فیما أعطیت ،،٫٫ [/ar]
اے اللہ ! جو تونے مجھے دیا اس میں برکت عطا فرما ،،(صحیح الترمذی کتاب باب :١٠ حدیث :٤٦٤)

اہل مدینہ کے لئے رسول اللہ ۖنے دعا کی ٫٫
[ar]اللھم بارک لھم فی مکیالہم ، وبارک لہم فی صاعھم ومدھم ،، ٫٫ [/ar]
اے اللہ ! تو ان کے ناپ تول میں ،اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما ،، (صحیح بخاری کتاب البیوع باب:٥٣ حدیث: ٢١٣٠)یعنی ان کے مال میں برکت دے .قارون کو اس کے مال نے سرکشی پر ابھا را تو اس نے دنیا ہی میں عبرتناک سزا پالیا کہ زمین میں دھنسا دیا گیا . آج دنیا میں کتنے ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی اونچا حسب و نسب نہیں ہے لیکن علم نے انہیں بڑے بادشاہوں اور بہت سے حسب و نسب والوں سے بھی بڑا مرتبہ والا بنا دیا ہے .
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ نافع بن عبد الحارث جو عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکہ کے گورنر تھے ، عمر رضی اللہ عنہ جب مکہ آرہے تھے تو نافع بن عبد الحارث عمر رضی اللہ عنہ کا استقبال کرنے کے لئے مکہ سے مدینہ کے راستے میں مقام عسفان گئے ، عمر رضی اللہ نے پوچھا اپنا خلیفہ کس شخص کو بنائے ہو ، نافع نے جواب دیا ابن ابزی کو ، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ ابن ابزی کون ہے ؟ نافع نے جواب دیا : وہ ایک غلام آدمی ہے ، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا ایک غلام کوتم نے اپنا خلیفہ بنایا ہے ؟! نافع نے جواب دیا : کہ وہ اللہ کی کتا ب کا عالم اور حافظ اور میراث کا علم جانتا ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ تمہارے نبی کریم ۖ نے فرمایاہے :
٫٫ [ar]ان اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین[/ar] ،،(صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین باب: ٤٧ حدیث: ٢٦٩ ).
کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
[ar] العلم یرفع بیتا لا عماد لہ ٭ و الجھل یھدم بیت العز و الشرف.[/ar]
٫٫علم ایسے بنگلے کی تعمیر کرتاہے جس کے ستون نہیں ہوتے ، لیکن جہالت عزت و شرافت کے بنگلوں کو ڈھا دیتی ہے ،،.

سفیان بن عیینہ سے علم کی فضیلت سے متعلق پو چھا گیا تو ان ہوں نے فرمایا٫٫
[ar]ألم تسمع قولہ حین بدأبہ (فاعلم أنہ لاالہ الا اللہ و استغفر لذنبک)فأمر بالعمل بعد العلم ،، [/ar]
٫٫تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان(سو اے نبیۖ!آپ یقین کرلیں کہ اللہ کی سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش ما نگا کریں )سنا نہیں ہے ؟ اللہ پہلے علم حاصل کرنے کو کہتا ہے پھر اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیتا ہے ،،(تفسیر قرطبی سورہ محمد :١٩ کی تفسیر ).

مختصریہ کہ علم ایک عبادت ہے اس کے بغیر کوئی قول و عمل اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ہے .مسلمانوں کو چاہئے کہ علم حاصل کرنے میں محنت کریں اور اس میں بیزار نہ ہوں، امام عبداللہ بن مبارک سے کہا گیا کہ آپ کب تک علم حاصل کرتے رہیں گے ؟ انہوں نے جواب دیا شاید میں ابھی اس بات تک نہیں پہنچا جو مجھے فائدہ دینے والی ہے .

کیا آپ جانتے ہیں کہ جس علم کی یہ فضلیت بیان کی جاری ہے وہ کونسا علم ہے ؟ وہ دنیوی علم نہیں بلکہ دین کا علم ہے ،حلال و حرام جاننے کا علم ہے ، قرآن وحدیث کا علم ہے ، اللہ کی ذات ،اس کی صفات کا علم ہے اور اس کا احترام کیسے کیا جائے اس کی عبادت کیسی کی جائے وہ کس چیز سے خوش ہوتا ہے اور کس چیزسے ناراض ہوتا اس کو جاننے کا علم ہے .

٤۔علم کی قسمیں: علم کی دوقسمیں ہیں :ایک علم تو وہ ہے جس کو فرض کفایہ کہتے ہیں اگر مسلمانوں میں سے چند لوگ اس کو حاصل کرلیں تو کافی ہے ہر ایک کو یہ علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے علم تفسیر ،علم حدیث،علم فقہ وغیرہ.
علم کی دوسری قسم فرض عین ہے : جو ہر مسلمان کو حاصل کرنافرض ہے ، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ، اس کے بغیر وہ اسلام پر قائم نہیں رہ سکتا: مثلا اسلام کے پانچ ارکا ن اور اس کی تفصیل جاننا جو ظاہر ی عبادات ہیں ، اور ایمان اور اس کے چھ ارکان اس کی تفصیل معلوم کرنا ، جو دین اسلام کے اہم عقائد ہیں ، روز مرہ کے بعض معاملات جو حلا ل ہیں اور وہ معاملات جو حرام ہیں ،انہیں جاننا. یہ علم دین کی کم سے کم مقدار ہے جو ہر مسلمان کو معلوم کرنا فرض ہے .

٥۔ حصول علم واجب ہے : لوگ نبی کریم ۖ کے زمانے سے جتنا دور ہوتے جائیں گے اتنا ہی انہیں علم کی سخت ضرورت ہوگی کیونکہ لوگوں میں بگاڑ پیدا ہوگا دنیا پر ستی غالب آئے گی بدعات و خرافات ، اور شرکیا ت اور آباء پرستی، کافروں کی مشابہت سے اکثر لوگ اصلی دین کو بھلا دیں گے ، اسی لئے اسلام نے طلب علم کو فرض قرار دیا ارشاد باری تعالی ہے
[ar]( فاعلم أنہ لاالٰہ الا اللہ و استغفر لذنبک )[/ar]
٫٫ سو (اے نبیۖ!)آپ یقین کرلیں کہ اللہ کی سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش ما نگا کریں ،، (سورہ محمد:١٩ )
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ٫٫[ar]طلب العلم فریضہ علی کل مسلم[/ar]،، (سنن ابن ماجہ مقدمہ باب:٢حدیث :٢٢٤).

(قال جمال الدین المزی :٫٫ہذا الحدیث روی من طرق تبلغ رتبة الحسن،،) .

٦۔ صحیح علم کیا ہے؟ : نبی کریم ۖ نے فرمایا : ٫٫
[ar]خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم،، ٫٫[/ar]
لوگوں میں سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر اس کے بعد پھر، اس کے بعد والا،،( صحیح بخار ی کتاب الشہادات باب :٩ حدیث:٢٦٥٢ ).
معلوم یہ ہوا کہ بہترین زمانہ رسول کا زمانہ ہے صحابہ کا زمانہ اور تابعین کا زمانہ ہے ، اس لئے کہ ان لوگوں کے پاس صحیح دین اور صحیح علم موجود تھا اور جو دین میں بگاڑ آیا وہ اسی وقت ختم کردیا گیا ۔ لہذا صحیح علم قرآن و حدیث میں ہے اور صحابہ کے طریقہ میں موجود ہے ، اس کو تلاش کرنا ہر مسلمان کا کا م ہے ۔
آج جو کتا ب اور جو عالم صحابہ کرام کے منہج اور طریقہ پر رہے گا وہی صحیح علم ہے اور وہی صحیح عالم ہے ، اس سے ہٹ کر جو بھی چیز ہو گی وہ لوگوں کی اپنی بات ہے ، وہ ان کا علم ہے ، جس میں غلطیاں ، بدعت ، اور شرک جیسی باتیں پائی جاتی ہیں .

٧۔غلط علم اور اس سے اجتناب :ہر وہ علم جو ایک مسلمان کے لئے نہ دنیاوی اعتبار سے مفید اور کارآمد ہونہ اخروی اعتبار سے ایسا علم حاصل کرنا بیکار اور عبث ہے ،بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اسے اجتناب اور پرہیز ضروری ہے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعاہے ٫٫
[ar]اللہم نی أعوذ بک من علم لا ینفع،، ٫٫ [/ar]
اے اللہ ! میں تجھ سے غیر نفع بخش علم سے تیری پناہ چاہتاہوں ،، (صحیح مسلم کتاب الذکر باب:١٨ حدیث :٧٣)،

٨۔وسائل علم :علم دین حاصل کرنے کے لئے زندگی کی نہ کوئی عمر مقرر ہے اور نہ وقت ،آج دنیا میں الحمدللہ علم حاصل کرنے کے بہت سے وسائل موجود ہیں :مثلاً کتا ب ، کیسٹ ، اسلامک سنٹرز ، ٹیلفون اور انٹرنٹ ، و غیرہ ، بہت سے لوگ بڑی عمر کے ہوجانے کے بعد دینی معلومات حاصل کرنے میں شرماتے ہیں یا جھجکتے ہیں یا عیب محسوس کرتے ہیں ، یہ بات ٹھیک نہیں کتنا تعجب کی بات ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑی عمر کے جاہل کہلوانا تو پسند کرلیتے ہیں لیکن بڑی عمر کے طالب علم کہلوانا پسند نہیں کرتے . امام ابن حزم نے ٢٦ سال کی عمر میں علم دین حاصل کرنا شروع کیا اور ایک بہت بڑے امام بن گئے ، کتنے ایسے صحابہ کرام ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں اسلام قبول کیا اور دین کا علم حاصل کئے . آج لوگوں کو روزانہ نیوز دیکھنے اور اخبارپڑھنے کے لئے گھنٹہ دو گھنٹہ مل جاتے ہیں لیکن قرآن و حدیث پڑھنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہے ، دس دس گھنٹہ سخت ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی اپنے دوست و احباب کے ساتھ مل بیٹھ کر گپ شپ کرنے ، جوا کھیلنے اور بے فائدہ فلمیں دیکھنے کا تو انہیں وقت مل جاتا ہے ، لیکن ایسے ہی مل بیٹھ کر دین کی باتیں معلوم کرنے کے لئے وقت نہیں ہے ، تھکان کا بہانہ آڑے آجا تا ہے ، بہت سے مسلم اپنی گاڑ ی کے ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ سے موسیقی اور گانے سننے کے لئے پیسہ خرچ کرکے کیسٹیں تو خرید لیتے ہیں لیکن فری کی دینی کیسٹوں سے فائدہ اٹھانا ان کے لئے گراں گزرتا ہے .اورکچھ لوگ دین پر جمے نظر آتے ہیں کہ ان کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی ایک مخصوص طبقہ اور مخصوص کتابوں کے مطالعے پر گزار دیتے ہیں.

٩۔موانع حصول علم :عوام الناس کو علم دین سے روکنے والے فرقوں میں صوفی فرقہ سب سے آگے آگے ہے جو یہ کہتا ہے : ٫٫العلم حجاب،، ٫٫کہ علم دین ان کے من گھڑت طریقت کے راستے میں زبردست رکا وٹ ہے ،،اسی لئے آپ دیکھیں گے ان کے پا س ایسے اذکار کی بھر مار ہے جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے .

١٠۔حصول علم سے متعلق چند دعائیں: اللہ تعالی نے ہمیں اپنے نبیۖکے واسطے سے علم کی زیادتی کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے
[ar](قل رب زدنی علما )٫٫ [/ar]
یہ دعا کیجئے کہ پروردگار !میرا علم بڑھا ،،(سورہ طہ:١١٤) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا٫
٫[ar]سلوا اللہ علما نافعا ،وتعوذوا با للہ من علم لا ینفع،، ٫٫[/ar]
اللہ تعالی سے نفع بخش علم طلب کرو ، غیر نفع بخش علم سے اللہ کی پناہ مانگو ،، (ابن ماجہ کتاب الدعاء باب:٢ حدیث :٣٨٤٣) ساتھ ہی ہمیں علم دین سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی دعائیںبھی سکھائی ہیں :مثلاً
[ar]٫٫ اللھم انفعنی بما علمتنی وعلمنی ما ینفعنی وزدنی علما ،،[/ar]
٫٫اے اللہ! تو مجھے میرے علم سے نفع دے اور تو مجھے نفع بخش علم عطاکر اور زیادہ علم سے نواز،،.(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب:١٢٨ حدیث:٣٥٩٩)
٫٫ اللھم نی أعوذبک من علم لاینفع،، ٫٫ اے اللہ ! میں تجھ سے غیر نفع بخش علم سے تیری پناہ چاہتاہوں ،، (صحیح مسلم کتاب الذکر باب:١٨ حدیث :٧٣)،
اللہ تعالی ہم سب کو شرعی علم کی دولت سے نوازے آمین .

ILM KI FAZILAT AUR AHMIYAT

" علم کی فضیلت اہمیت اور فوائد" ​ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے19 -ربیع الثانی-1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں " علم کی فضیلت اہمیت اور فوائد" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس کے اہم نکات یہ تھے: ٭ مخلوقات کو پیدا کرنے کا مقصد ٭ علم کی قدر و منزلت ٭ علم کی ضرورت کھانے پینے سے بھی زیادہ ٭ قرآن کریم کی پہلی آیت ہی "علم" ٭ اللہ تعالی کی صفت "علیم" ٭ پیغام رسالت "علم" ٭ آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر برتری بھی علم کی بنا پر ملی ٭ تمام انبیا کو علم سے نوازا گیا ٭ علما کو انبیا سے ملنے والی وراثت ٭ علم کی وجہ سے فضیلت پانے والے لوگ ٭ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ٭ قرآنی امثال سمجھنا صرف اہل علم کا طرۂِ امتیاز ٭ علمی مجالس کی فضیلت ٭ حصول علم بھی جہاد میں شامل ہے ٭ دو قابل رشک شخصیات ٭ بغاوت علم سے دوری کا نتیجہ ٭ تر و تازگی کیلیے نبوی دعا ٭ آسمانوں پر کسے عظیم کہا جائے گا؟ ٭ افضل ترین علم کون سا ہے؟ ٭ حصول علم کا قرآنی منہج ٭ علمائے کرام کا احترام و وقار ٭ علما ہی اللہ تعالی کے اولیا ہیں۔ پہلا خطبہ:​ ​ یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔ حمد و صلاۃ کے بعد: اللہ کے بندو! تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے ، تقوی الہی نورِ بصیرت ہے اور اسی سے احیائے قلب و ضمیر ہوگا۔ مسلمانو! ​ ٭ صرف اللہ تعالی کی عبادت ہی لوگوں کو پیدا کرنے اور انہیں احکامات صادر کرنے کا مقصد ہے، اسی کیلیے رسولوں کو بھیجا گیا، کتابیں نازل کی گئیں، مخلوقات کیلیے شرف، سعادت مندی، کامیابی و کامرانی اسی میں ہے، بلکہ اللہ تعالی کے ہاں لوگوں کی درجہ بندی عبادت گزاری کے مطابق ہی ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے: { إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} یقیناً اللہ تعالی کے ہاں وہی مکرم ہے جو زیادہ متقی ہے۔ [الحجرات : 13] ​ الله تعالی كا ایک فضل و کرم یہ ہے کہ اس نے مخلوق کیلیے عبادت میں لذت پیدا کرنے اور عبادت کے ذریعے لوگوں کے درجات بلند کرنے کیلیے عبادات میں تنوع رکھا ہے، دین میں ایک عبادت ایسی ہے جو دیگر تمام عبادات سے مقدم ہے، دیگر عبادات کی تصحیح اسی پر محصور ہے، یہ عبادت بجا لانے والا کامران ہوگا، جبکہ اس میں کوتاہی برتنے والا پشیمان ہوگا، اللہ تعالی نے یہ عبادت سر انجام دینے والوں کی تعریف بیان کی، اس عبادت کی وجہ سے بہت سی مخلوق کو فضیلت بخشی، یہ عبادت انسان کو اپنے رب سے ملاتی ہے، اور زندگی کے گوشوں کو منوّر کرتی ہے، معاملہ معیشت کا ہو یا آخرت کا اسی طرح انسان کمال و بحال اسی وقت ہوگا جب یہ عبادت ادا ہو، اللہ تعالی کی بندگی کیلیے اس جیسی کوئی عبادت نہیں، اسی کے ذریعے معرفت و عبادتِ الہی ہوگی، حمد و ثنا اور ذکر الہی ممکن ہوگا، خالق و مخلوق کے حقوق معلوم ہونگے، حلال و حرام ، حق و باطل، صحیح و غلط، مفید و غیر مفید ، اچھے اور برے میں امتیاز کیا جا سکے گا، یہ عبادت تنہائی کی ساتھی اور خلوت کی رفیق ہے، غفلت کے وقت متنبہ کرتی ہے، اسے حاصل کرنا خود ایک عبادت ہے، اسے پھیلانا قربتِ الہی، اپنے چاہنے والوں کیلیے زینت اور باعث امان ہے، قلب و بصیرت کو منور کرتی ہے، ذہن و ضمیر کو مضبوط بناتی ہے، اسے اپنانے والے اہل زمین کیلیے آسمان کے تاروں کی مانند ہیں، چنانچہ انہی سے رہنمائی لی جاتی ہے، یہی عبادت مخلوقات کیلیے باعث حسن و جمال ہے، امت کیلیے قلعہ اور ذرہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر وہ نہ ہوں تو دین کا نام و نشان ہی مٹ جائے، اسی عبادت میں امت کی بہتری اور ترقی ، لوگوں کیلیے استقامت و تزکیہ ، انسانیت کی ہدایت و سعادت مندی، نسلوں کا تحفظ اور سلامتی پنہاں ہے، اس کی ضرورت تمام ضرورتوں سے زیادہ ہے، اس کے بغیر صرف تباہی اور بربادی ہے، امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "لوگوں کو علم کی کھانے پینے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ کھانے پینے کی ضرورت دن میں ایک یا دو مرتبہ ہوتی ہے، لیکن علم کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے" ​ ٭ ہماری امت ہی علم کی بنیاد پر قائم ہوئی چنانچہ سب سے پہلی آیت ہی حصولِ علم کی ترغیب کیلیے نازل کی گئی: {اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیں جس نے پیدا کیا ہے۔ [العلق : 1] ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی مبارک آیات نازل ہوئیں، اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر پہلی رحمت اور نعمت تھیں" ​ ٭ اللہ تعالی نے اپنا ایک نام "العلیم" بھی رکھا، اپنے آپ کو علم سے موصوف کیا، بلکہ اپنی مخلوق کو اپنا تعارف بھی اسی صفت سے کرواتے ہوئے فرمایا: {اَلَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ } [رب وہی ہے]جس نے قلم کے ذریعے علم دیا[4] اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو اسے معلوم نہیں تھا۔ [العلق : 4 - 5] ​ پیغامِ رسالت علم و عمل کا نام ہے، اس لیے پیغامِ رسالت کا نصف حصہ علم پر مشتمل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ} وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت -یعنی علم -اور دین حق -یعنی عمل صالح -کیساتھ بھیجا۔ [التوبہ: 33] انسان اور انسانی دل کیلیے حُبِّ الہی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، اور یہ صرف علم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ ​ ٭ علم ہی وہ حکمت ہے جسے اللہ تعالی جتنی چاہے عطا فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} وہ جسے چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے، اور جسے حکمت دے دی جائے تو اسے بہت سی خیر نواز دی گئی، اور نصیحت صرف عقل والے ہی پکڑتے ہیں [البقرة : 269] ​ ٭ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو علم دیکر احسان جتایا اور پھر علم کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری عیاں فرمائی: {وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} ​ اور آدم [علیہ السلام] کو تمام چیزوں کے نام بتلائے، پھر انہی چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم [اپنی بات میں]سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ [البقرة : 31] ​ اللہ تعالی نے انبیائے کرام، رسولوں اور دیگر جسے چاہا انہیں علم کیلیے مختص فرمایا، چنانچہ فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کو علم رکھنے والے بچے یعنی اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی ۔ ​ ٭ یوسف علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا} ​ وہ جس وقت بھر پور جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا [يوسف : 22] پھر یہی فضلیت یوسف علیہ السلام نے اپنے بارے میں بھی ذکر کی: {إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ} میں یقیناً حفاظت کرنے والا اور جاننے والا ہوں۔[يوسف : 55] ​ ٭ موسی علیہ السلام پر بھی علم دے کر کرم کیا گیا : {وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا} وہ جس وقت کڑیل جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا [القصص : 14] ​ ٭ داود اور سلیمان علیہما السلام کے بارے میں فرمایا: {وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا} اور ہم نے ہر ایک کو علم و حکمت سے نوازا [الأنبياء : 79] ​ ٭ عیسی علیہ السلام کو اسی نعمت کی یاد دہانی بھی کروائی: ​ {اُذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ} ​ عیسیٰ! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا ، جب میں نے روح القدس سے تمہاری مدد کی کہ تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے یکساں کلام کرتا تھاو اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات اور انجیل سکھلائی [المائدة : 110] ​ ٭ سیدنا خضر کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا ایسا علم تھا جو کسی اور کے پاس نہیں تھا اسی فضیلت کے باعث اولو العزم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر بھی سفر کر کے ان کے پاس جا پہنچتے ہیں: {فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا} ​ وہاں [موسی اور ان کے ساتھی]نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے [خضر]کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا، اور اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا [الكهف : 65] ​ ٭ سلیمان علیہ السلام کے فوجیوں میں سے جس کے پاس سب سے زیادہ علم تھا وہی طاقتور تھا: {قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ} ​ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ [سلیمان علیہ السلام سے]کہنے لگا کہ آپ کے پلک جھپکانے سے بھی پہلے میں اس [تختِ سبا] کو آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ۔ [النمل : 40]