Showing posts with label name. Show all posts
Showing posts with label name. Show all posts

Name

إسم
    
                                       بسم الله الرحمن الرحيم

                                          صفاتی
                                      اسم اہل حدیث پر ایک نظر

           بعض مسلمان بضد ہیں ' مسلم ' اسم (نام) کو لیکر کہتے ہیں کہ امت محمدیہ
     میں ان لوگوں کو جو ' توحید و رسالت ' کی گواہی دیتے ہیں انہیں اپنے آپ کو  
     صرف ' مسلم ' کہنا چاہیئے اس لیے کہ اللہ سبحانه وتعالى نے ہمارا نام .......
     " هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هذا " (قرآن سورہ 22 آیت 78)ُ
     " اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور
     اس کتاب میں بھی " ....... اب کیونکہ ہمارا نام 'مسلم ' رکھا گیا ہے اس
      لیے کوئی اور نام رکھنا فرقہ وارانہ نام کہلائے گا،

           اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ... کیا واقعی صرف اس آیت مبارکہ سے
          یہ موقف اختیار کرنا درست ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو صرف ' مسلم ' ہی
          کہنا چاہیئے ... ؟

           ایک سوال اور ..... کہ کیا ' کتاب و سنت ' میں شہادتین کا اقرار کرنے
       والوں کا نام صرف ' مسلم ' رکھا گیا ہے ....... ؟

           ایک سوال اس طرح بهی کہ ...... کیا شہاد تین کا اقرار کرنے والوں کو
       اللہ سبحانه وتعالى نے ' مسلم ' نام کے علاوہ کسی اور صفتی نام سے پکارا
       یا نہیں.... ؟

     پہلے سوال کا جواب !
     " هو �سماكم المسلمين من قبل وفي هذا " کی آیت مبارکہ کے اس جز سے یہ
     موقف اختیار کرنے والے ... کہ ہمیں اپنے آپ کو صرف ' مسلم ' ہی کہنا چاہیے،
     یہ لوگ یا تو خائن ہیں یا پھر جاہل اس وجہ سے کہ اللہ سبحانه وتعالى نے
     شہادتین کا اقرار کرنے والوں کے 'مسلم ' نام کے علاوہ اور بھی نام رکهے ہیں
     ...... " مومن اور عبداللہ " (مسند احمد ح 17302 ترمذی ح 2863
     قال الترمذی حسن صحيح غريب)

   مزيد یہ کہ !
     'مسلم ، مومن ، عبدالله' تو ہمارے ذاتی نام ہیں ..... انکے علاوہ صفاتی نام
     اور بهی ہیں ، جن ناموں کے ساتھ اللہ سبحانه وتعالى نے شہادتین کا اقرار
     کرنے والوں کو پکارا.

   مثلاً !
     * مهاجر و انصار
     "وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ " (قرآن سورہ 9 آیت 100)ُ
     "جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں
      سے بھی اور انصار میں سے بھی"

     " قلت لانس ارايت اسم الأنصار كنتم تسمون به ام سماكم الله ؟ قال بل سمانا الله "
     (صحيح البخاري کتاب المناقب الانصار) " انس رضی اللہ عنہ سے کہا بتلاؤ تو
     ' انصار ' جو تمہارا نام ہوا یہ تم نے خود رکھ لیا یا اللہ نے رکھا ؟ انہوں نے کہا
     اللہ نے رکھا "
    
     ان دلائل کے بعد .... هو سماكم المسلمين .... کی آیت مبارکہ سے اس موقف
     پر استدلال باطل ٹهہرتا ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو صرف ' مسلم ' ہی کہنا چاہیے.

   دوسرے سوال کا جواب !
       مخالفین کی جانب سے یہ دعویٰ کہ ...... ہمیں اپنے آپ کو صرف ' مسلم '
       ہی کہنا چاہیئے کیونکہ اللہ سبحانه وتعالى نے ہمارا نام مسلم رکها ہے....
       سرے سے باطل ہے ....... کیونکہ اللہ سبحانه وتعالى نے ہمارا نام صرف
      ' مسلم ' نہیں رکها بلکہ مسند احمد وغيرها کی حدیث کے مطابق .... فادعوا
      المسلمين بأسمائهم بما سماهم الله عزوجل المسلمين المومنين عبادالله عزوجل
       ... ( صحيحه ابن خزیمة 483 و 930 و 1895 و ابن حبان 6233 و الحاكم
       118/1 و مسند احمد 17302 و ترمذی 2863 قال الترمذي: حسن
       صحيح غريب ) ..... پس تم مسلمین کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارو جو
       نام اللہ عزوجل نے ان کے رکهے ہیں ' مسلمین ، مومنین ، عباداللہ ...
       لیجیے مسلم نام کی قید کا قلعہ اس حدیث مبارکہ نے قمع کردیا،

       اب یہ دعویٰ باطل و بے بنیاد ٹهہرا کہ ..... ہمیں اپنے آپ کو صرف ' مسلم '
       کہنا چاہیے .... کیونکہ اللہ سبحانه وتعالى نے ہمارا نام صرف مسلم نہیں رکھا
       بلکہ الله سبحانه وتعالى نے ہی ہمارا نام .... مسلم کے ساتھ ساتھ ' مومن اور
       عبداللہ بهی رکھا ہے .

    تیسرے سوال کا جواب !
      * مسلم نام کی قید لگانے والے حضرات ذرا یہ تو بتائیں کہ .... الله سبحانه
       وتعالى نے قرآن مجید میں ..... ہمیں ' يا أيها الذين أسلموا .... کہکر کتنی
       مرتبہ پکارا ؟ .....،حق تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ سبحانه وتعالى نے
       جہاں کہیں بھی ہمیں پکارا تو .... يا أيها الذين آمنوا ....کہکر ہی پکارا .....

    * مسلم اور مومن  میں فرق !
       ہر مومن لازماً مسلم ہے  .... پر ہر مسلم کا مومن ہونا لازمی نہیں ، کیونکہ
       مسلم کا اطلاق تو منافق پر بھی ہے پر مو من کا إطلاق منافق پر نہیں کیا
       جاسکتا.

   جماعت المسلمين کے بانی مسعود احمد بی ایس سی کی ' حدیث رسول اکرم
     صلی اللہ علیہ و سلم میں معنوی تحریف ' ! ..... " فادعوا بدعوى الله الذي
     سمكم المسلمين المومنين عباد الله " ( الترمذي ابواب الأمثال ح 771 وقال
     هذا حديث حسن صحيح غريب ) ترجمہ " لہذا (لوگوں کو) اللہ کی طرف
     پکارو جس نے تمہارا ' نام مسلمین ، مومنین ، اللہ کے بندے (عباداللہ)
     رکھا ہے " ..... مسعود صاحب کا تحریفی ترجمہ ...' لہذا (مسلمین کو)
     ان ہی القاب سے پکارو جن القاب سے اللہ نے (جس نے تمہارا نام مسلمین
     رکھا ہے) پکارا ہے ، یعنی مومنین ، اللہ کے بندے ' .... (عکس ہمارا نام
     صرف ایک یعنی مسلم ص 8) ..... جماعت المسلمين کے بانی کی ہاتھ کی
     صفائی : اپنے باطل موقف کو ثابت کرنے کے لیے ' خود بدلتے نہیں فرمان
     بدل دیتے ہیں ' غور کریں .... المسلمين ، المومنین ، عباداللہ یہ تینوں اسم
     سماکم کے بعد آئے ہیں ..... اگر یہ نام ہیں تو تینوں ہی نام ہیں ، اور اگر
     القاب ہیں تو تینوں ہی القاب ہیں کیونکہ تینوں کا ایک ہی حکم ہے .... اب
     کیونکہ یہ حدیث مبارکہ موصوف کے باطل موقف کے ' رد پر دال ' ہے اس
     وجہ سے ارتکابِ تحریف کے ذریعے ' مسلمین کو نام مومنین اور عباداللہ
     کو القاب بنا دیا ..... (ماخوذ : الفرقةالجدیدة = ابو جابر عبدالله دامانوی)

    صفاتی یا اصطلاحی نام 'اہل حدیث ' اسلاف کا اجتہاد ہے !
     اصلا : " اہل السنة و اہل حدیث " ایک ہی جماعت کے دو مترادف نام ہیں جیسے
     ' سنت و حدیث ' ..... کیونکہ 'کتاب و سنت ' کا مترادف نام ' قرآن و حدیث ' ہے
     اور بلا اختلاف یہ نام لکھے اور کہے جاتے ہیں .
    
     ' اہل السنة والجماعة ' کی اصطلاح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کے دور میں
     شروع ہو گئی تھی ؛ .... حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (المتوفی 68
     ہجری) فرماتے ہیں ! ..... ' تبيض وجوه اهل السنة و تسود وجوه اهل البدعة '
     (تفسير القرطبی ج 4 ص 167).....( سورہ آل عمران کی آیت 106کی تفسیر
     میں) ' روشن چہروں سے اہل السنہ اور سیاہ چہروں سے اہل البدع مراد ہیں '

    محمد بن سیرین رحمه الله (جو مشہور تابعی ہیں) کا قول : ..... ' شروع میں
     محدثین اعتماد کی بناء پر اسناد حدیث کے بارے میں دریافت نہ کیا کرتے تھے
     لیکن جب فتنہ برپا ہو گیا (اور مختلف باطل فرقے عالم وجود میں آ گئے تو
     اسناد کی تحقیق وجود پائی) پس اہل السنہ کی طرف دیکھا جاتا اور ان کی
     حدیث لے لی جاتی اور اہل البدع کی طرف دیکھا جاتا اور ان کی حدیث قبول
     نہ کی جاتی '

   دیکھئے جسطرح : .... کافر کے مقابلہ میں مسلم نام ..... مشرک کے مقابلہ
     میں مومن نام ہے ٹهیک اسی طرح ' اہل البدع کے مقابلہ میں اہل السنہ ' ہیں،
     اور جب ' اہل الرائے عالم وجود میں آنے تب ان سے امتیاز کے لیے اہل حدیث
     نام کی اصطلاح یا توصیفی نام وجود میں آیا ، یا اسلاف نے اسے اختیار کیا ،

   اہل الحدیث کے متعلق اہل علم کے اقوال !
     1 امام شعبی رحمه الله جو تابعی ہیں (المتوفی 104 ہجری) جنہیں صحابہ کرام
     رضی اللہ عنہم سے حدیث روایت کرنے کا شرف حاصل ہے،ان کا قول : .......
     ' ہم سے پہلے بزرگ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے پہل) کثرتِ روایت حدیث
     کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ، اگر مجھے پہلے ہی سے علم ہوتا تو میں آپ لوگوں
     کے سامنے (یعنی اپنے ساگردوں کے سامنے) صرف وہی احادیث بیان کرتا جن
     پر ' اہل حدیث ' کا اجماع و اتفاق ہوچکا ہے . '(تذكرة الحفاظ ج 1ص 72)

   2 امام ابو بکر بن عیاش رحمه الله کا قول : ..... ' اہل الحديث ' اہل الإسلام میں
     وہی مقام رکھتے ہیں کہ جو خود اسلام کو دوسرے ادیان کے مقابلے میں
     حاصل ہے .' (ميزان خضري الامام شعرانی ، ص 56)

   3 امام ابوالعباس بن شریح رحمه الله کا قول : ....... ' اہل الحديث ' کا درجہ
     فقہاء سے کہیں بڑھ کر ہے .' (ميزان خضري ص 54)

   4 امام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفی 728 ہجری) کا قول : ..... ' پس امت
     کے گروہوں میں روافض سے بڑھ کر کوئی گروہ گمراہ نہیں ہے اور پوری
     امت میں اہل حدیث سے بڑھ کر کوئی رشدوہدایت پر قائم نہیں ہے .'
     ( منهاج السنة ج 2 ص 242)
  
   مزید : ....' اہل حدیث اور اہل السنۃ والجماعة کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اصول
     و فروع میں ہر مقام پر کتاب و سنت کی اتباع کا ہی اہتمام کرتے ہیں .'
     ( منهاج السنة ج 2 ص 103)

   ہمارا موقف !
     یہ امتیازی نام ' اہل حدیث ' نصوص سے ثابت نہیں ہے ، اور نہ ہم اس کے مدعی
     ہیں بلکہ جسطرح .... عہد رسالتمآب صلی الله علیہ و سلم میں آپ صلی اللہ علیہ
     و سلم کے ' قول،فعل و تقریر ' کو حدیث کہا جاتا تھا .... لیکن جب وضع حدیث
    کا دور شروع ہوا اور من گھڑت روایات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی
    طرف منسوب کیا گیا تب تحقیق حدیث کو لازم پکڑا گیا .... کتاب و سنت کی
    روشنی میں اصول قائم کیے گئے .... محدثین نے اصطلاحات حدیث مرتب کی ،
    مثلاً : صحيح ، حسن ، ضعیف اور موضوع وغيرها ، امت نے بلا اختلاف ان
    اصطلاحات کو تسلیم کیا ........ ٹهیک اسی طرح عہد رسالتمآب صلی الله علیہ
    و سلم میں تمام مومنین پر اصحابِ رسول صلی علیہ و سلم بولا جاتا تھا بعد
    اس کے جب دورے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع ہوا تب اہل البدع عالم
    وجود میں آنے تب ان سے امتیاز کے لیے 'اہل السنہ ' کی اصطلاح یا تو صیفی
    نام اختیار کیا گیا ، اور جب اہل الرائے عالم وجود میں آنے تب قرآن و احادیث
    کے متبعین نے امتیازی نام ' اہل حدیث ' اختیار کیا ..... والله أعلم.

   اخروی نجات کی بنیاد نام پر نہیں بلکہ ایمان و عمل پر ہے !
     اللہ سبحانه وتعالى کا فرمان ..." وَالْعَصْر * إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ،* إِلَّا الَّذِينَ
     آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر "
     (قرآن سورہ 103 1/3)ِِ...." عصر کی قسمٍ * کہ انسان نقصان میں ہےِ *
     مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات)
     کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے "

                 اے ہمارے رب ہمیں جب تک زندہ رکھ اسلام پر زندہ رکھ
                اور جب کبھی موت دے ایمان پر ہی موت دے .        آمین