Showing posts with label NAMAZ. Show all posts
Showing posts with label NAMAZ. Show all posts

فرشتوں کی دعا حاصل کیجیے ‏

*🌹فرشتوں کی دعا حاصل کیجیے 🌹*

*🌸 از قلم :*
*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*

*🌸 ناشر :*
*البلاغ اسلامک سینٹر*
===============================

*الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد :*

محترم قارئین! تقریبا آٹھ مہینے سے یوپی میں ہوں اور -الحمد للہ- یہیں پر دعوت و تبلیغ کا کام جاری ہے، تیس (30) سے زائد مسجدوں میں جانا ہوا ہے۔ تقریبا ہر مسجد میں میں نے دیکھا کہ جب فرض نماز ختم ہوتی ہے تو کوئی نا کوئی یا دو یا تین لوگ اپنی جائے نماز کوچھوڑ کر مسجد ہی کے کسی اور حصے میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں یا اپنی جائے نماز کو چھوڑ کر اپنی پچھلی والی صف میں بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں اذکار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے اِس عمل کی وجہ سے ایک عظیم فائدے سے محروم رہ جاتے ہیں.
اور وہ فائدہ یہ ہے کہ انہیں فرشتوں کی رحمت و مغفرت کی دعا نہیں مل پاتی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
”وَالمَلاَئِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ، مَا لَمْ يُؤْذِ فِيهِ“
”اور جب تک تم مین سے کوئی اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے جہاں اُس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے برابر اُس کے لیے رحمت کی دعائیں یوں کرتے رہتے ہیں : ”اے اللہ! اُس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ اس پر رحم فرما“۔ یہ اُس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک وہ حدث کا شکار نہ ہو جائے، جب تک وہ تکلیف نہ پہنچائے “۔ (صحیح البخاری : 2119 و اللفظ لہ وصحیح مسلم : 649)

ایک دوسری روایت کے الفاظ اِس طرح ہیں:
” فَإِذَا صَلَّى، لَمْ تَزَلِ المَلاَئِكَةُ تُصَلِّي عَلَيْهِ، مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ“
”اور جب آدمی نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو فرشتے اُس وقت تک اُس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے۔ کہتے ہیں : اے اللہ! اُس پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ! اُس پر رحم کر“۔ (صحیح البخاری : 647)

اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں مغفرت کا بھی ذکر ہے، الفاظ اِس طرح ہیں:
”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ“
”اے اللہ! اُس کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! اُس پر رحم فرما“۔ دیکھیں :(صحیح البخاری : 445)

مذکورہ تمام الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ مصلی فرض نماز پڑھنے کے بعد اگر اپنی جائے نماز میں ہی بیٹھا رہے تو فرشتے اُس کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے یا وہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائے. 

اور ہم سب کو دعائے رحمت و مغفرت کی ضرورت ہے تاکہ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں بخش دے لہذا تمام مصلیوں سے گزارش ہے کہ فرض نماز پڑھنے کے بعد اپنی جائے نماز میں ہی بیٹھ کر اذکار کا اہتمام کریں تاکہ فرشتوں کی رحمت و مغفرت کی دعا حاصل ہوجائے۔ اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔

*وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.*

*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*
*صدر البلاغ اسلامک سینٹر*
*🗓️ 17 - ربیع الاول - 1442ھ*
*🗓️ 04 - نومبر - 2020ء*

NAMAZ awwabin ke fazail w ahkam

نماز اوابین کے فضائل واحکام
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

عوام میں اوابین کی نماز کا بہت چرچا ہے مگر بیشتر اس کی اصل حقیقت سے ناواقف ہیں اور احناف کے یہاں عموما لوگ یہ نماز  مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کرتے ہیں جبکہ اوابین کی نماز کا وقت یہ نہیں ہے ۔ عوام اور احناف کی اسی غلطی پہ متنبہ کرنے کے لئے میں نے یہ مضمون لکھا ہے ۔
اوابین کا معنی:
اواب مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی کثرت سے اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ، ذکر وتسبیح کرنے والا، گناہوں پر شرمندہ ہونے والا اور توبہ کرنے والا ہے ۔ اوابین اسی اواب کی جمع ہے۔ قرآن میں اواب اور اوابین دونوں استعمال ہوا ہے، اللہ کا فرمان ہے :
هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (ق:32)
ترجمہ: یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو رجوع کرنے والا اور پابندی کرنے والا ہو ۔
اللہ کا فرمان ہے: رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (الاسراء:25)
ترجمہ:جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے ۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے : وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ (سبا:10)
ترجمہ: اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی ( یہی حکم ہے ) اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کر دیا ۔
نماز اوابین اور چاشت کی نماز دونوں ایک ہیں:
نماز اوابین اور چاشت کی نماز دونوں ایک ہی ہیں ، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس سے متعلق کئی احادیث اور ائمہ ومحدثین کے متعدد اقوال ہیں مگر ایک حدیث ہی اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور قول محمد ﷺ کے سامنے دنیا کے سارے اقوال اور لوگوں کی ساری باتیں مردود ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أوصاني خليلي بثلاثٍ لستُ بتاركهنَّ ، أن لا أنامَ إلا على وترٍ ، و أن لا أدَعَ ركعتي الضُّحى ، فإنها صلاةُ الأوّابينَ ، و صيامِ ثلاثةِ أيامٍ من كلِّ شهرٍ۔(صحيح الترغيب:664، صحيح ابن خزيمة:1223)
ترجمہ: مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں انہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ بغیر وتر پڑھے نہ سوؤں، چاشت کی دوگانہ نہ چھوڑوں کیونکہ یہی اوابین کی نماز ہے اور ہر ماہ تین روزے نہ ترک کروں۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح الترغیب اور صحیح ابن خزیمہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔ (حوالہ سابق)
اس حدیث میں نبی ﷺ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ صلاۃ الضحی(چاشت کی نماز) ہی صلاۃ الاوابین (اوابین کی نماز) ہے ۔
یہاں ایک اہم بات یاد رکھیں کہ فجر کے بعد سے ظہر کے پہلے تک تین نمازوں کا ذکر ہے ۔ ایک اشراق کی نماز، دوسری چاشت کی نماز اور تیسری اوابین کی نماز۔ ان تینوں نمازوں میں چاشت اور اوابین کی نماز دونوں ایک ہی ہیں اور اشراق کی نماز اول وقت پر ادا کرنا چاشت کی نماز ہے یعنی اشراق اور چاشت کی نماز بھی دونوں ایک ہی ہیں ۔ ہم نے اول وقت پر ادا کرلیا تو اشراق کہلایا اور ظہر کی نماز سے پہلے وسط یا آخر وقت میں ادا کئے تو چاشت کی نماز کہلائی ۔ گویا طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد اشراق کا وقت ہے اور یہی وقت چاشت کا بھی ہے مگر اسے ظہر سے پہلے پہلے کسی بھی ادا کرسکتے ہیں ، ظہر سے پہلے وسط یا آخر وقت میں ادا کی گئی نماز کو چاشت کہیں گے پھر اشراق نہیں کہیں گے ۔
نمازاوابین کے فضائل :
چونکہ چاشت کی نماز اور اوابین کی نماز دونوں ایک ہیں اس وجہ سے چاشت کی فضلیت سے متعلق جو بھی احادیث وارد ہیں وہ سبھی اوابین کی بھی فضیلت میں ہیں ۔ چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
پہلی حدیث : عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحَى(صحيح مسلم: 1701)
ترجمہ: حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے۔پس ہر ایک تسبیح (ایک دفعہ "سبحا ن الله" کہنا)صدقہ ہے۔ہر ایک تمحید ( الحمد لله کہنا)صدقہ ہے،ہر ایک تہلیل (لااله الا الله کہنا) صدقہ ہے ہرہر ایک تکبیر (الله اكبرکہنا) بھی صدقہ ہے۔(کسی کو) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور (کسی کو ) برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھتا ہے کفایت کرتی ہیں۔
دوسری حدیث : عَنْ أَبِي الدَّ

رْدَاءِ أَوْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّهُ قَالَ ابْنَ آدَمَ ارْكَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَكْفِكَ آخِرَهُ(الترمذي: 486)
ترجمہ: بوالدرداء ؓ یا أبوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے ابن آدم ! تم دن کے شروع میں میری رضاکے لیے چار رکعتیں پڑھاکرو، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے ۔ ( صحيح الترمذي:475)
تیسری حدیث : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، وَمَنْ خَرَجَ إِلَى تَسْبِيحِ الضُّحَى لَا يَنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، وَصَلَاةٌ عَلَى أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا، كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ (ابوداؤد:558)
ترجمہ: سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو آدمی اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اجر و ثواب ایسے ہے جیسے کہ حاجی احرام باندھے ہوئے آئے اور جو شخص چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اس مشقت یا اٹھ کھڑے ہونے کی غرض صرف یہی نماز ہو تو ایسے آدمی کا ثواب عمرہ کرنے والے کی مانند ہے ۔ اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کہ ان دونوں کے درمیان کوئی لغو نہ ہو علیین میں اندراج کا باعث ہے ۔
چوتھی حدیث : انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :من صلى الغداة في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة۔ (صحيح الترمذي: 586)
ترجمہ : جس نے جماعت سے فجرکی نمازپڑھی پھراللہ کے ذکرمیں مشغول رہایہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیاپھردورکعت نماز پڑھی ، تو اس کے لئےمکمل حج اور عمرے کے برابرثواب ہے ۔
نمازاوابین کا حکم:
اس نماز کے حکم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض نے اسے سببی نماز کہا کیونکہ اس قسم کے بھی دلائل وارد ہیں جیساکہ کسی نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا: کیانبی اکرم ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا:نہیں الا یہ کہ سفر سے واپس آئے ہوں۔( صحیح مسلم: 1691)
بعض نے سرے سے اس نماز کا انکار کیا بلکہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے بدعت کہہ دیا ہے ، یہ بات راوی کی عدم رویت پر محمول کی جائے جیساکہ حافظ ابن حجر نے کہا ہے ۔ بعض علماء نے کبھی کبھار پڑھنے کا جواز ذکر کیا ہے جبکہ شیخ ابن باز نے چاشت کی نماز کا حکم بیان کرتے ہوئے اسے سنت مؤکدہ کہا ہے اور بیشتر علماء اوابین کی نماز کو استحباب پر محمول کرتے ہیں ۔ میری نظر میں بھی استحباب کا حکم اولی واقوی ہے۔ اس سلسلے میں چند دلائل دیکھیں :
(1) ایک دلیل اوپر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبیﷺ کی تین ہمیشگی والی وصیتیں ہیں جن میں چاشت کی نماز بھی مذکور ہے۔
(2) نبی ﷺ کا فرمان ہے: لا يُحَافِظُ على صلاةِ الضُّحَى إلا أَوَّابٌ وهي صلاةُ الأَوَّابِينَ(صحيح الجامع:7628)
ترجمہ: نمازِ اشراق کی صرف اوّاب[رجوع کرنے والا، توبہ کرنے والا] ہی پابندی کرتا ہے، اور یہی صلاۃ الاوّابین ہے۔
یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ چاشت کی نماز اوابین کی نماز ہے وہیں اس میں چاشت واوابین کی نماز پر ہمیشگی کرنے کی بھی دلیل ہے ، اس لئے اس نماز کا انکار کرنا یا اسے بدعت کہنا صحیح نہیں ہے ، بڑے اجر وثواب کا عمل ہے اس پہ ہمیں مداومت برتنی چاہئے۔
نماز اوابین کی رکعات:
اوابین کی نماز کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ہیں، نبی ﷺ سے دو رکعت ، چار رکعت اور فتح مکہ کے موقع پر ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں آٹھ رکعت پڑھنا ثابت ہے۔ان تمام احادیث کی روشنی میں مسلم شریف میں باب ہے(بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ، وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْسَطُهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتٍّ، وَالْحَثُّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا)یعنی باب ہے نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین کے بارے میں ۔
بارہ رکعات صلاۃ الضحی والی روایت ثابت نہیں ہے، الترغیب والترھیب(1/320) للمنذری میں ہے جو دو رکعت نماز چاشت ادا کرے اسے غافل میں نہیں لکھا جاتا ، اس میں آگے یہ ٹکڑا بھی ہے "مَن صلَّى ثِنْتَيْ عَشْرةَ رَكعةً بَنى اللهُ له بيتًا في الجنَّة" کہ جو بارہ رکعات (چاشت کی نماز) ادا کرے اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الترغیب میں (405) میں درج کیا ہے ۔ اور اسی طرح ترمذی میں یہ روایت ہے :" مَن صلَّى الضُّحى ثنتي عشرةَ رَكعةً بنى اللَّهُ لَه قصرًا من ذَهبٍ في الجنَّةِ" یعنی جو چاشت کی بارہ

رکعات ادا کرے گا اللہ اس کے لئے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر کرے گا ۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الترمذی(473) میں درج کیا ہے ۔
نماز اوابین کا وقت :
نماز اوابین کے وقت سے متعلق مسلم شریف میں ایک واضح حدیث ہے ۔
عَنْ أَيُّوبَ عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ مِنْ الضُّحَى فَقَالَ أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ(صحیح مسلم:1777)
ترجمہ: ایوب نے قاسم شیبانی سے روایت کی کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لوگوں کو چاشت کے وقت نماز پڑھتے دیکھاتو کہا:ہاں یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نماز اس وقت کی بجائے ایک اور وقت میں پڑھنا افضل ہے۔بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"اوابین(اطاعت گزار،توبہ کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والےلوگوں) کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب(گرمی سے) اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
مسلم شریف میں اس حدیث پہ صلاۃ الاوابین کا باب ہے جبکہ صحیح ابن خزیمہ میں صلاۃ الضحی کا باب ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ چاشت اور اوابین دونوں ایک ہی نماز ہیں جیساکہ اسی حدیث میں مذکور ہے کہ لوگ چاشت کی نماز ادا کررہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اوابین کی نماز یعنی چاشت کی نماز فلاں وقت میں ہے ۔
اوابین کی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد سے شروع ہوتا ہے اور ظہر کی نماز سے کچھ دیر پہلے تک رہتا ہے اور گرمی تک مؤخر کرنا افضل ہے جیساکہ اوپر والی حدیث میں مذکور ہے ۔
ترمض کا معنی ہے سورج کی گرمی لگنا اور الفصال کا معنی اونٹ کا بچہ یعنی اوابین کا افضل وقت وہ ہے جب گرمی کی شدت سے اونٹ کا بچہ اپنے پاؤں اٹھائے اور رکھے ۔ یہ دن کا چوتھائی حصہ یعنی طلوع شمس اور ظہر کے درمیان نصف وقت ہے۔
مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان نفل پڑھنا:
مغرب کے بعد دو، چار، چھ ، آٹھ اور بیس رکعات نوافل پڑھنے کی متعدد روایات آئی ہیں ، ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
پہلی حدیث : من صلَّى ستَّ رَكَعاتٍ ، بعدَ المغرِبِ ، لم يتَكَلَّم بينَهُنَّ بسوءٍ ، عدَلَت لَه عبادةَ اثنتَي عَشرةَ سنةً۔ ( ترمذی: 435،ابن ماجہ:256)
ترجمہ:جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اوران کے درمیان کوئی بری بات نہ کی تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگا۔
یہ حدیث سخت ضعیف ہے ، علامہ ابن القیم نے تو موضوع کہا ہے اور شیخ البانی نے متعدد جگہوں پر ضعیف جدا (سخت ضعیف) کہا ہے ۔ حوالہ کے لئے دیکھیں : (المنار المنیف : 40، ضعيف الترغيب:331، السلسلة الضعيفة:469، ضعيف الجامع:5661،ضعيف ابن ماجه:220، ضعيف ابن ماجه:256)
دوسری حدیث: مَن صلَّى ستَّ ركعاتٍ بعدَ المغربِ قبل أن يتكلَّمَ ,غُفرَ لهُ بها ذنوبُ خمسينَ سنةٍ۔
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد بغیر بات کئے چھ رکعتیں پڑھیں تو اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:468)
تیسری حدیث:حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رأَيْتُ حبيبي رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم صلَّى بعدَ المغرِبِ ستَّ ركَعاتٍ وقال مَن صلَّى بعدَ المغرِبِ ستَّ ركَعاتٍ غُفِرَتْ له ذُنوبُه وإنْ كانت مِثْلَ زَبَدِ البحرِ(المعجم الأوسط:7/191, مجمع الزوائد:2/233)
ترجمہ: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
امام طبرانی نے اسے معجم اوسط میں ذکرکرنے کے بعد کہا کہ اس حدیث کو عمار سے بیان کرنے والا اکیلے صالح بن قطن ہے وہ بھی صرف اسی سند سے ۔ اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس میں صالح بن قطن البخاری ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں مل سکا ۔ ابن الجوزی نے اس حدیث کو العلل المتناهية (1/453)میں شامل کرکے کہا کہ اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں ۔
چوتھی حدیث : مَن صلَّى ، بينَ المغربِ والعِشاءِ ، عشرينَ رَكْعةً بنى اللَّهُ لَه بيتًا في الجنَّةِ(ابن ماجه: 1373)
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعت نماز ادا کی اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (ضعيف ابن ماجه:255)
پانچویں حدیث : مَن صَلَّى بعدَ المغرِبَ قبلَ أنْ يَتَكَلَّمَ ركعتيْنِ - وفي روايةٍ : أربعَ رَكعاتٍ – ؛ رُفِعَتْ صلاتُه في عِلِّيِينَ.(مسند الفردوس، مصنف عبدالرزاق:4833، مصنف ابن أبي شيبة:5986)
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز کے بعد بغیر بات کئے دو رکعت ، اور ایک روایت میں ہے چار رکعت پڑھی تو اس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعيف ا

لترغيب:335)
چھٹی حدیث : من صلى أربعَ ركعاتٍ بعد المغربِ كان كالمعقبِ غزوةً بعد غزوةٍ في سبيلِ اللهِ(شرح السنة للبغوی:3/474)
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد چار رکعات ادا کی گویا وہ اللہ کی راہ میں پہ درپہ ایک عزوہ کے بعد دوسرا عزوہ کرنے والا ہے ۔
علامہ شوکانی نے کہا کہ اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی بہت ہی ضعیف ہے ۔ (نیل الاوطار: 3/67)
ابن القیسرانی نے کہا کہ اس میں عبداللہ بن جعفر متروک الحدیث ہے ۔(تذکرۃ الحفاظ:335)
ابن حبان نے کہا کہ اس میں عبداللہ بن جعفر (علی بن مدینی کے والد) ہے جسے آثار کی روایت میں وہم ہوجاتا ہے اسے الٹ دیتا ہے ، اس میں خطا کرجاتا ہے ۔(المجروحین:1/509)
ساتویں حدیث : منْ ركع عشرِ ركعاتٍ بينَ المغربِ والعشاءِ، بُنيَ له قصرٌ في الجنةِ۔(الجامع الضعیر: 8691)
ترجمہ: جس نے مغرب وعشاء کے درمیان دس رکعات نماز ادا کی اس کے لئے جنت میں ایک محل بنایا جائے گا۔
شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:4597)
سیوطی نے اسے مرسل کہا ہے ۔ (حوالہ سابق)
ان ساری روایات کے بیان کرنے کے بعد اب دو باتیں جان لیں :
پہلی بات یہ ہے کہ یہ تمام احادیث عام ہیں ،ان میں عام نفل نماز کا ذکر ہے ان کا اوابین کی نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے بطور مثال اس عنوان کے تحت مذکور پہلی حدیث کو دیکھیں ۔ ترمذی میں اس حدیث کے اوپر باب ہے : "باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّطَوُّعِ وَسِتِّ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ" یعنی باب ہے مغرب کے بعد نفل نماز اور چھ رکعت پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں۔
اور ابن ماجہ میں اس حدیث پر باب ہے ۔"بَابُ: مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ" یعنی باب ہے مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز کے بیان میں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تمام روایات ناقابل اعتماد اور ضعیف ہیں ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مغرب وعشاء کے درمیان متعین رکعات کے ساتھ جو بھی احادیث آئی ہیں کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، ایک دوسرے سے ضعف میں شدید ہیں ۔اس وقت میں بغیر تعیین کے نماز پڑھنا نبی ﷺ کے عمل کی وجہ سے صحیح ہے ۔ (الضعیفہ:1/481)
خلاصہ یہ ہوا کہ مغرب کے بعد رکعات متعین کرکے کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے ورنہ بدعت کہلائے  گی کیونکہ اس سلسلہ میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے البتہ بغیر تعیین کے مغرب وعشاء کے درمیان نوافل پڑھ سکتے ہیں ۔
نماز اوابین اور احناف :
احناف کے یہاں اوابین کی نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ہیں اور جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا حال اوپر گزر چکا ہے کہ سبھی ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نماز اوبین سے متعلق نہیں ہے ۔ بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ اوابین کی نماز مغرب وعشاء کے درمیان ہے مگر وہ بھی ضعیف ہیں مزید برآں نبی ﷺ کی صریح احادیث کے ہوتے ہوئے ضعیف اقوال کی طرف التفات بھی نہیں کیا جائے گا۔
(1)محمد بن المنکدر سے روایت ہے : من صلى ما بين صلاةِ المغربِ إلى صلاةِ العشاءِ ؛ فإنها صلاةُ الأوابينَ۔
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان نماز ادا کی وہ اوابین کی نماز ہے۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:4617)
علامہ شوکانی نے اسے مرسل کہا ہے ۔(نيل الأوطار:3/66)
(2) عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں : صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ مَا بَيْنَ أَنْ يَلْتَفِتَ أَهْلُ الْمَغْرِبِ إلَى أَنْ يَثُوبَ إلَى الْعِشَاءِ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ: اوابین کی نمازکا وقت اس وقت سے ہے جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ ہوں اور عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی ضعیف ہے ۔
عبد اللہ بن عمر سے یہ بھی مروی ہے : مَنْ صلَّى المغربَ في جماعةٍ ثم عقَّبَ بعشاءِ الآخرةِ فهِيَ صلاةُ الأوَّابينَ۔
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز جماعت سے پڑھی پھر اسے عشاء کی نماز سے ملایا یہی اوابین کی نماز ہے ۔
ابن عدی نے کہا کہ اس میں بشر بن زاذان ضعیف راوی ہے جو ضعفاء سے روایت کرتا ہے ۔(الكامل في الضعفاء: 2/180)
(3) ابن المنکدر اور ابوحازم سے تتجافی جنوبھم عن المضاجع کی تفسیر میں مغرب وعشاء کے درمیان اوابین کی نماز ہے ۔ اسے بیہقی نے سنن میں روایت ہے اور اس کی سند میں مشہور ضعیف راوی ابن لهيعة ہے جبکہ صحیح حدیث میں بغیرلفظ اوابین کے مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنا مذکور ہے۔
(4) ابن عباس فرماتے ہیں: الملائكة لتحف بالذين يصلون بين المغرب والعشاء وهي صلاة الأوابين۔ (شرح السنۃ للبغوی ج 2ص439)
ترجمہ: فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ اوابین کی نماز ہے۔
(5) بعض مفسرین نے سورہ اسراء میں وارد اوابین کے تحت بھی مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنے والے کو ذکرکیا ہے تفسیرابن کثیر میں بھی  کئی اقوال میں ایک یہ قول ہے ۔
یہ سارے محض اقوال ہیں جبکہ صریح صحیح مرفوع روایات میں اوابین کی نماز وہی ہے جو چاشت کی نماز ہے اور چاشت واوابین کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے لیکر ظہر سے پہلے تک ہے تاہم گرمی کے وقت ادا کرنا افضل ہے بنابری

ں نبی ﷺ کےثابت شدہ  فرمان کے سامنے ضعیف احادیث اور غیرمستند اقوال کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورتحقیق سے بس یہی ثابت ہوتا ہے کہ اوابین کی نماز چاشت کی نماز ہے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

Namaz ki ahmiyatn

نماز کی اہمیت و فوائد ‏اپریل 06، 2014 محمد ارسلان خاص رکن شمولیت: ‏مارچ 09، 2011 پیغامات: 17,905 موصول شکریہ جات: 40,829 تمغے کے پوائنٹ: 1,155 ترجمہ: شفقت الرحمن​ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے27-جمادی الاولی-1435 کا خطبہ جمعہ " نماز کی اہمیت و فوائد"کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے تمام انبیائے کرام پر نماز کی فرضیت، مشکل حالات میں نماز کے ذریعے مدد ، اور نماز کی اہمیت کے بارے میں متعدد دلائل ذکر کئے، انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ نماز جنت میں دیدار الہی اور گناہوں کی بخشش کیلئے بہترین راستہ ہے۔ پہلا خطبہ: یقینا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کےبندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، اور سلامتی ہو۔ حمد و صلاۃ کے بعد: اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، خلوت وجلوت کیلئے بہترین زادِ راہ تقوی ہے۔ مسلمانو! اللہ کے ہاں سب سے بڑا عمل توحیدِ عبادت ہے، اور توحید کے بعد افضل ترین نیکی اسلام کا دوسرا رکن ہے، جو کہ سراپا عظمت وذکر الہی اور خشوع وخضوع ہے، حتی کہ اللہ تعالی نے اس رکن کو ایمان سے موسوم کیا، اور فرمایا: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ}اور اللہ تعالی تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کریگا۔ [البقرة : 143]یہی اسلام کا ستون ہے، قرآن مجید میں متقین کی ایمان بالغیب کے بعد سب سے پہلی صفت بھی یہی بیان ہوئی، اس سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، اور آپکی امت کو آخری وصیت بھی اسی کے بارے میں تھی کہ : (نماز ، نماز اور اپنے نوکروں کا خیال رکھنا) احمد۔ جو نماز قائم کریگا وہی دیندار ہے، اور جو نمازیں ضائع کردے، دیگر اعمال سے زیادہ ہی لاپرواہی برتے گا، نماز مشرک قائم کرے تو اسکے لئے پناہ کا باعث ہے، چنانچہ فرمایا: {فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ }جب حرمت والے مہینے ختم ہو جائیں تو جہاں بھی مشرکین کو پاؤ ان سے قتال کرو، انہیں پکڑو، اپنے حصار میں لو، اور ان کیلئے کمین گاہوں میں رصد لگا کر بیٹھو، اگر وہ توبہ کر لیں ، نماز اور زکاۃ ادا کریں تو انکا راستہ چھوڑ دو، [التوبۃ : 5] یہی نماز جان و مال کے بچاؤ کا ذریعہ ہے، چنانچہ فرمانِ رسالت ہے: (مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی، اور نماز وزکاۃ کی ادائیگی شروع نہ کردیں، چنانچہ لوگ یہ کام کرنے لگ جائیں تو انکے مال وجان میری طرف سے محفوظ ہوجائیں گے، صرف اسلامی حق [زکاۃ، فطرانہ]کے مطابق لیا جائے گا، اور انکا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا) بخاری نماز قائم کرنے سے اخوت و بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے، اسی لئے فرمایا: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ }اگر وہ توبہ کے بعد نمازیں پڑھنے لگیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ [التوبۃ : 11] نماز کی قدر و منزلت اور انفرادیت کے باعث اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسل پر بھی اسے فرض کیا، چنانچہ ابراہیم، اسحاق، یعقوب علیہم السلام پر نماز قائم کرنے کی وحی کی، اور فرمایا: { وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ }اور ہم نے انکی طرف نیکیاں، نمازیں، اور زکاۃ ادا کرنے کی وحی کی۔ [الأنبياء : 73] اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو حکم دیا کہ وہ شرک نہ کریں، بیت اللہ کو طواف، قیام ، رکوع وسجود کرنے والوں کیلئے صاف کریں، پھر ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے نمازی ہونے کی دعا بھی کی: {رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ} ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد کو بیابان وادی میں تیرے باعزت گھر کے پاس اس لئے چھوڑا ہے کہ وہ نمازیں قائم کریں۔ [إبراہيم : 37] چنانچہ اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: {وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا}[اسماعیل ]اپنے گھر والوں کو نمازاور زکاۃ کا حکم دیا کرتے تھے، وہ اپنے رب کے ہاں برگذیدہ تھے۔ [مريم : 55] موسی علیہ السلام سے اللہ تعالی نے براہِ راست گفتگو کی اور توحید کے بعد سب سے پہلے نماز ہی کو فرض کیا: {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي}بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سواکوئی معبود نہیں، چنانچہ میری ہی عبادت کرو، اور مجھے یاد کرنے کیلئے نماز قائم کرو۔ [طہ : 14] پھر اللہ تعالی نے موسی و ہارون علیہما السلام کو ایمان کی دعوت کے بعد نماز کی دعوت کا حکم دیا، اور فرمایا: {وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ}ہم نے موسی اور اسکے بھائی کو وحی کی: اپنی قوم کیلئے شہر میں قبلہ رخ گھر بناؤ، اور نمازیں قائم کرو۔ [يونس : 87] زکریا علیہ السلام نماز کی پابندی کرتے تھے، اسی لئے جب فرشتوں نے انہیں بلایا تو وہ محراب میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ داود علیہ السلام کا محبوب مشغلہ نماز تھا، اسی لئے ایک تہائی رات قیام کرتے ۔ اسی طرح قوم شعیب نے توحید اور نمازوں کی دعوت سنی تو: {قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ} انہوں نے کہا: شعیب! کیا تمہاری نماز اس بات کا حکم کرتی ہیں کہ ہم آباؤ اجداد کی عبادات ترک کردیں، اور ہم اپنے مال و دولت میں جو چاہیں نہ کریں۔ [هود : 87] اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو جھولے ہی میں وصیت کردی تھی: {وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا} اللہ نے مجھے مرتے دم تک نماز اور زکاۃ کی وصیت کی ہے۔ [مريم : 31] اللہ تعالی نے تمام انبیائے کرام کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا: {إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا}جب ان پر رحمن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں جا گرتے ہیں۔[مريم : 58] بنی اسرائیل سے بھی نماز کی ادائیگی کا وعدہ لیا گیا: {وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا، اور ان میں سے بارہ نمائندے بھیجے، اور اللہ تعالی نے انہیں فرمایا: اگر تم نماز، زکاۃ ادا کرو، میرے رسولوں پر ایمان لاکر انکی پشت پناہی کرتے ہوئے اللہ تعالی کی راہ میں قرضِ حسنہ بھی دو تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اور میں تمہارے گناہ مٹا کر تمہیں جنت میں داخل کردونگا، جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔[المائدة : 12] سابقہ امتوں کو بھی اللہ تعالی نے فرمایا: {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ} انہیں اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مخلص ہوکر عبادت صرف اللہ کی کریں، نمازیں، اور زکاۃ ادا کریں، یہی مضبوط دین ہے۔[البينة : 5] اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم دیا اور فرمایا: {وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ}دن کے دنوں کناروں اور رات کے حصہ نماز قائم کریں۔ [هود : 114] یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کا خیال کرتے ہوئے اس سے پہلے نہیں سوتے تھے، اور نماز فجر کا خیال کرتے ہوئے عشاء کے بعد باتیں کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے، اللہ تعالی نے مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے پہلے نماز ہی کا تذکرہ کیا: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ }یقینا مؤمن کامیاب ہوجائیں گے، جو اپنی نمازیں خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں [المؤمنون : 1 - 2] اور جب مؤمنین کی صفات ختم ہوئیں تب بھی نماز ہی کا ذکر کیا، اور فرمایا: {وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (9)}وہ لوگ جو ہمیشہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں [المؤمنون : 9] جس سے نماز کی شان واضح ہوتی ہے۔ نماز کی خصوصیت یہ بھی ہے آسمانوں پر بلا واسطہ کلامِ الہی کے بعد اسکی فرضیت ہوئی، تعداد میں پانچ ہیں لیکن اجر میں پچاس ہیں، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حکم دیتے ہوئے اسے فرض قرار دیا: {إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا} بیشک نماز مؤمنوں کیلئے وقت مقررہ پر فرض ہے۔[النساء : 103] نماز امن ہو یا خوف، سفر ہو یا قیام، بیماری ہو یا تندرستی سوائے حائضہ ، اور نفاس والی خواتین کے ہر شخص پر فرض ہے۔ بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا جائے گا اور دس سال کی عمر میں سزا دی جائے گی، نماز کی قبولیت بدن، لباس، اور جگہ کی طہارت کے ساتھ مشروط ہے، نماز کے دوران نقل وحرکت، کھانا پینا، اور بات چیت منع ہے، یہ پابندی کسی اور عبادات میں نہیں کیونکہ نمازی اللہ سے راز ونیاز کی باتیں کرتا ہے۔ اللہ تعالی نمازی کے چہرے کی طرف ہوتا ہے، اور سجدے کی حالت میں انسان اللہ کے قریب تر ہوتاہے، نماز اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اللہ کے ہاں کونسا عمل محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: (وقت پر پڑھی گئی نماز) اسکے بعد کونسا عمل؟ فرمایا: (والدین کے ساتھ اچھا سلوک) بخاری ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: نمازوں کی وقت پر بابندی کے ساتھ ادائیگی، اور والدین کیساتھ حسن سلوک دونوں لازم و ملزوم ، اور بار بار آنے والے عمل ہیں، ان کے بارے میں فرامینِ الہیہ کی پاسداری "صدیق" لوگ ہی کرتےہیں۔ نماز کی ادائیگی جنت میں داخلے اور اللہ کے دیدار کا باعث ہے، فرمانِ نبوی ہے: (تم یقینا اپنے رب کو ایسے ہی دیکھو گے جیسے تم بغیر بھیڑ بھاڑ کے[چاندکو]دیکھ رہے ہو،[اسکی تیاری کیلئے] اگر تم فجر اور عصر کی نماز پابندی سے پڑھ سکتے ہو تو پڑھا کرو)متفق علیہ اس کے بارے میں ابن رجب رحمہ اللہ کہتےہیں:"جنت کی اعلی ترین نعمت دیدارِ الہی ہے، اور دنیا میں افضل ترین عبادات میں فجر اور عصر کی نمازیں شامل ہیں، چنانچہ ان دونوں کی پابندی سے امید ہے کہ جنت میں داخلہ اورزیارتِ الہی نصیب ہوجائے" نماز کی ادئیگی سے قبل ہی اسکا اجر بہت بڑا ہے، چنانچہ وضوء سے گناہ دُھل جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کو نہر سے تشبیہ دی ہے، فرمایا: (ذرا بتلاؤ! اگر کسی کے دروازے کے آگے نہر بہتی ہو، اور وہ روزانہ پانچ بار غسل کرے، کیا خیال ہے! کوئی میل باقی بچے گا؟) سب نے کہا: کچھ بھی باقی نہیں بچے گا، تو آپ نے فرمایا: (پانچ نمازیں بھی اسی طرح ہیں، اللہ تعالی ان کے ذریعے گناہ مٹا تا ہے) بخاری، ایک روایت میں ہے کہ: (جو شخص صبح شام مسجد میں جائے تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر بار آنے جانے کے بدلے میں جنت کی مہمانی تیار کرتا ہے)، نماز کیلئے جاتے ہوئے ایک قدم کے بدلے میں نیکی ، اور دوسرے کے بدلے میں گناہ مٹایا جاتا ہے، اور جو شخص مسجد میں داخل ہوجائے تو فرشتے اسکے لئے دعا گو ہوتے ہیں: (یا اللہ!اس پر رحمتیں نازل فرما،یا اللہ!اس پر رحم فرما، ) اور بے وضو ہونے تک دعا کرتے رہتے ہیں۔بخاری، اور جب تک وہ نماز کا انتظار کرتا ہے، اس کیلئے نماز کی حالت لکھی جاتی ہے۔ نماز گناہوں کی بخشش کیلئے تیز ترین راستہ ہے، چنانچہ فرمانِ رسالت ہے: (اگر کوئی شخص فرض نماز کے وقت اچھی طرح وضو کرے، اور خشوع وخضوع کے ساتھ رکوع کرے تو کبیرہ گناہوں کی عدم موجودگی میں سب [صغیرہ] گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور یہ معاملہ ساری زندگی چلتا رہتا ہے)مسلم نماز کے دوران بھی گناہ معاف ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی اسکے سابقہ سارے گناہ معاف ، کردئے جاتے ہیں)بخاری جو متقی شخص نمازوں کے ذریعے مسجد کو آباد رکھے وہ مؤمنین میں سے ہے: {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ}مساجد کو وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں۔[التوبۃ : 18] نماز کی ادائیگی کے بعد بھی گناہ معاف ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ، 34 بار اللہ اکبر کہا تو اسکے سابقہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں)بخاری نماز کشادگی رزق کا باعث ہے: {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى}اپنے اہل خانہ کو پابندی کیساتھ نمازوں کا حکم دیں،ہم آپ سے انکے رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ ہم آپکو رزق دیتے ہیں، انجام کار متقی لوگوں کا ہی ہوگا۔ [طہ : 132] نماز شر سے نجات اور باعث خیر ہے، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : "دنیاوی مشکلات سے نجات اور کامیابی کیلئے نماز کی بھی ایک عجیب تاثیر ہے، خاص طور جس وقت نماز کو ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مکمل حق دیا جائے، دنیاوی یا اخروی کسی بھی قسم کی مشکلات کیلئے نماز بے مثال ہتھیار ہے، مجموعی طور پر صحتِ قلب وبدن کیلئے نماز انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے، اگر دو آدمی کسی وبا میں مبتلا ہوجائیں تو نمازی پر اسکا اثر بہت کم ہوتا ہے" عقیدہ توحید اور نماز رفعِ تکالیف کیلئے اپنا ثانی نہیں رکھتے، فرمانِ رسالت ہے: (جب اللہ تعالی وحی کے ذریعے کلام کرتا ہے تو آسمان خوفِ الہی سے لرزنے لگتے ہیں، اور جب آسمانی مخلوقات اسے سنتی ہے تو سب اللہ کیلئے سجدے میں گر پڑتے ہیں) یونس علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مچھلی کے پیٹ میں نماز ہی کی وجہ سے نجات دی: {لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [144] فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ}مچھلی کے پیٹ میں وہ قیامت تک رہتا [144] اگر وہ تسبیح نہ کرتا۔[الصافات : 143-144] اسی طرح سلیمان علیہ السلام کو بھی اپنی توبہ کیلئے استغفار کے ساتھ نماز کا ہی راستہ نظر آیا {فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ} چنانچہ فوراً اللہ سے استغفار کیااور خشوع کیساتھ نماز پڑھنے لگے۔ [ص : 24] اللہ تعالی نے جس وقت مریم علیہا السلام کو بغیر خاوند اولاد دیکر آزمانا چاہا تو انہیں نماز ہی کا حکم دیا ، تا کہ معاملہ آسان ہوجائے، اسی لئے فرمایا: {يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ} مریم! اپنے رب کیلئے قیام، سجدہ، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔[آل عمران : 43] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اگر کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو نماز پڑھتے تھے، نماز مشکلات میں گھرے افراد کیلئے جائے پناہ ہے، اللہ تعالی نے ہمیں ہر حالت میں نماز کے ذریعے مدد حاصل کرنے کا حکم دیا ہے، فرمایا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ}ایمان والو! صبر اور نماز کیساتھ مدد طلب کرو، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کیساتھ ہے۔ [البقرة : 153] ہم دنیاوی معاملات میں نمازِ استخارہ کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، جب سورج و چاند کے مدار میں کچھ تبدیلی رونما ہو تو نماز کسوف ادا کرتے ہیں، خوشی ہوتو سجدہ شکر بجا لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپکے قدم مبارک سوج جاتے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ ایسے کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ آپکی اگلی پچھلی ساری لغزشیں بھی معاف ہوچکی ہیں!آپ نے فرمایا:(تو پھر میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟)بخاری قیامت کے دن سب سے آگے نماز ہی ہوگی، سب سے پہلے اسی کا حساب لیا جائے گا، قیامت کے دن مؤمنین سجدہ کرتے ہوئے منافقین سے الگ تھلگ نظر آئیں گے، چنانچہ جب مؤمنین اللہ تعالی کو دیکھے گے تو سجدے میں گر جائیں گے، اور جب منافقین کو بلایا جائے گا تو چاہت کے باوجود سجدہ نہیں کر پائیں گے، اسی کے بارے میں فرمایا: {يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ} اس دن پنڈلی سے پردہ اٹھایا جائے گا، اور انہیں سجدے کیلئے کہاجائے گا، تو سجدہ نہیں کر پائیں گے[القلم : 42] اگر کوئی مسلمان گناہوں کی وجہ جہنم چلا بھی گیا تو سجدے کی جگہوں پر آگ اثر نہیں کریگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چاہئے تو کثرت سے نفل نمازیں پڑھو، کہ ایک آدمی نے آپ سے آکر کہا: میں جنت میں آپکی رفاقت چاہتا ہوں، تو فرمایا: (اپنے بارے میں کثرت سے نوافل کیساتھ میری مدد کرو) مسلم نماز اتنا بڑا فرض ہے کہ اللہ تعالی نے ایمان وکفر کے لئے علامت قرار دے دیا ، فرمایا: (آدمی اور شرک وکفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنے کا ہے) مسلم تارک نماز کو اللہ تعالی نے جہنم کی سزا سنائی ہے، فرمایا: {فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا} انکے بعد کچھ ناخلف لوگ آئے اور انہوں نے نمازوں کو ضائع کرکے شہوات کے پیچھے لگ گئے، وہ عنقریب جہنم کی وادی میں جائیں گے[مريم : 59] اور کفار کو جب کہا جائے گا: {مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [42] قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ}تمہیں کس نے جہنم میں ڈال دیا؟ [42]تو وہ کہیں گے: ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے۔ [المدثر : 43-42] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: " نماز چھوڑنے والے کا اسلام میں کوئی حق نہیں" مسلمانو! مؤمن وہی ہے جو نماز کی پابندی کرتے ہوئے اہل خانہ کو بھی نماز کا حکم دیتا ہے، یہی انبیائے کرام کا طریقہ تھا، نماز کامیابی کی کنجی ، اور تکالیف سے نجات کی باعث ہے، نماز ہی میں خوشحالی، کامیابی، سکون، مالی برکت، فراخی رزق، گھروں کا سکون، اور نیک اولاد الغرض ہر طرح کی کامیابی کا رازہے۔ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: {أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} سورج ڈھلنے سے لیکر رات چھا جانے تک نمازیں پڑھو، اور فجر کے وقت قرآن پڑھو، کیونکہ فجر کے وقت تلاوت قرآن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں[الإسراء : 78] اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔ دوسرا خطبہ تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد - صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔ مسلمانو! اللہ تعالی نے بندوں پر مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا فرض کیا ہے، فرمایا: {وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ}اور رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو[البقرة : 43] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے پیچھے رہ جانیوالے لوگوں کے گھر جلانے کا ارادہ فرمایا تھا، اور کہا: (منافقوں پر بھاری ترین نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے، اگر انہیں ان کی قدر کا علم ہوجائے تو گھٹنوں کے بل بھی چل کرے آئیں گے، میں نے ارادہ کیا تھا کہ جماعت کروانے کاحکم دیکر ایک آدمی کو امام بناؤں، پھر اپنے ساتھ چند لوگوں کو لیکر نماز میں شامل نہ ہونے والوں کو گھروں سمیت آگ لگادوں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا شخص کو راہنما کی عدم دستیابی کے باوجود جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ اسے کہا: (کیا تم آذان سنتے ہو؟)اس نے کہا: جی ہاں!، آپ نے فرمایا: (تو پھر جماعت میں حاضر ہو) مسلم سستی اور کاہلی مت کرو! جماعت کیساتھ نمازیں ادا کرو، نماز چہرے کا نور، ایمان کی علامت، شرح صدر، اور بلند مقام کا باعث ہے۔ یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56] اللهم صل وسلم على نبينا محمد,یا اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ یا اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔ یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔ یا اللہ! ہمیں تمام فتنوں سے بچا، جو ظاہر ہوچکے ہیں ان سے بھی اور جو ابھی مخفی ہیں ان سے بھی محفوظ فرما۔ یا اللہ! تیرے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! توں ہی انکا والی ، وارث ، پشت پناہ، اور مدد گار بن ، یا اللہ! حق اور ہدایت پر انکا اتحاد پیدا فرما، یا رب العالمین۔ یا اللہ! مجاہدین پر ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما،یا اللہ! انکے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! انہیں نیست ونابود فرما، یا قوی یا عزیز۔ یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔ یا اللہ! تو ہی ہمارا معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، توں غنی ہے، اور ہم کنگال ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس نہ کر، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھالیا ہے، اور اگر اب تو ہم پر رحم کرتے ہوئے معاف نہ کرے تو ہم یقینی طور پر خسارے میں چلے جائیں گے۔ [الأعراف: 23] اللہ کے بندو! إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90] تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔ لنک