نبی کریم ﷺ کا جب اس ظاہری دنیا سے پردہ فرمانے کا وقت آیا اس وقت آپ ﷺ کو شدید بخار تھا، آپﷺ نے حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مدینہ میں اعلان کردو کہ جس کسی کا حق مجھ پر ہو وہ مسجدِ نبوی میں آکر اپنا حق لے لے۔
جب مدینے کے لوگوں نے یہ اعلان سُنا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور مدینہ میں کہرام مچ گیا، سارے لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوگئے، صحابۂ کرام کی آنکھوں میں آنسو تھے، دل بے چین وبے قرار تھا۔ پھر نبئ کریم ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ کو اس قدر تیز بخار تھا کہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوا جارہا تھا۔
نبئ کریم ﷺ نے فرمایا اے میرے ساتھیو! تمھارا اگر کوئی حق مجھ پر باقی ہو تو وہ مجھ سے آج ہی لے لو، میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے رب سے قیامت میں اس حال میں ملوں کہ کسی شخص کا حق مجھ پر باقی ہو، یہ سن کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا دل تڑپ اُٹھا، مسجدِ نبوی میں آنسوؤں کا ایک سیلاب بِہ پڑا، صحابہ رو رہے تھے لیکن زبان خاموش تھی، کہ اب ہمارے آقا ہمارا ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں،
اپنے اصحاب کی یہ حالت دیکھکر فرمایا کہ "اے لوگوں ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے"
میں جس مقصد کے تحت اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا ہم لوگ کل قیامت میں ملیں گے،
ایک صحابی کھڑے ہوئے، روایتوں میں انکا نام عُکاشہ آتا ہے، عرض کیا یا رسول اللہ میرا حق آپ پر باقی ہے، آپ جب جنگِ اُحد کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگ گیا تھا میں اسکا بدلہ چاہتا ہوں، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہا کیا تم نبئ کریم ﷺ سے بدلہ لوگے؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ ﷺ بیمار ہیں۔
اگر بدلہ لینا ہی چاہتے ہو تو مجھے کُوڑا مار لو لیکن نبئ کریم ﷺ سے بدلہ نہ لو،
یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا "اے عمر اسے بدلہ لینے دو، اسکا حق ہے اگر میں نے اسکا حق ادا نہ کیا تو اللہ کی بارگاہ میں کیا منھ دکھاؤنگا، اسلئے مجھے اسکا حق اداء کرنے دو،
آپ ﷺ نے کُوڑا منگوایا اور حضرت عُکاشہ کو دیا اور کہا کہ تم مجھے کُوڑا مار کر اپنا بدلہ لے لو۔
حضراتِ صحابہ یہ منظر دیکھ کر بے تحاشہ رُو رہے تھے، حضرت عُکاشہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میری ننگی پیٹھ پر آپکا کُوڑا لگا تھا، یہ سن کر نبئ کریم ﷺ نے اپنا کُرتہ مبارک اُتار دیا اور کہا لو تم میری پیٹھ پر کُوڑا مار لو، حضرتِ عُکاشہ نے جب حضورﷺ کی پیٹھ مبارک کو دیکھا تو کوڑا چھوڑ جلدی سے آپ ﷺ کی پیٹھ کو چُوم لیا اور کہا یارسول اللہ" فَداکَ ابِی واُمی " میری کیا مجال کہ میں آپ کو کُوڑا ماروں، میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپکی مبارک پیٹھ پر لگی مہر نبوّت کو چوم کر جنّت کا حقدار بن جاؤں۔ یہ سن کر آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا تم نے جنّت واجب کرلی۔
سبحان اللہ! سبحان اللہ!
اے اللہ ہمے بھی نبئ کریم ﷺ سے سچی محبت کا جزبہ عطا فرما۔ آمین!
الرحیق المختوم صفحہ نمبر ۶۴۸.
تعظیم
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 1..
آج سے سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک سلسلہ شروع کیا جا رھا ھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے تذکرہ سے پہلے بہت ضروری ھے کہ آپ کو سرزمین عرب اور عرب قوم اور اس دور کے عمومی حالات سے روشناس کرایا جاۓ تاکہ آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت عرب اور دنیا کے حالات کیسے تھے..
ملک عرب ایک جزیرہ نما ھے جس کے جنوب میں بحیرہ عرب , مشرق میں خلیج فارس و بحیرہ عمان , مغرب میں بحیرہ قلزم ھے.. تین اطراف سے پانی میں گھرے اس ملک کے شمال میں شام کا ملک واقع ھے.. مجموعی طور پر اس ملک کا اکثر حصہ ریگستانوں اور غیر آباد بے آب و گیاہ وادیوں پر مشتمل ھے جبکہ چند علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے بھی مشھور ھیں.. طبعی لحاظ سے اس ملک کے پانچ حصے ھیں..
یمن :
یمن جزیرہ عرب کا سب سے زرخیز علاقہ رھا ھے جس کو پرامن ھونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا.. آب و ھوا معتدل ھے اور اسکے پہاڑوں کے درمیان وسیع و شاداب وادیاں ھیں جہاں پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ھوتے ھیں.. قوم "سبا" کا مسکن عرب کا یہی علاقہ تھا جس نے آبپاشی کے لیے بہت سے بند (ڈیم) بناۓ جن میں "مارب" نام کا مشھور بند بھی تھا.. اس قوم کی نافرمانی کی وجہ سے جب ان پر عذاب آیا تو یہی بند ٹوٹ گیا تھا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس کی وجہ سے قوم سبا عرب کے طول و عرض میں منتشر ھوگئی..
حجاز :
یمن کے شمال میں حجاز کا علاقہ واقغ ھے.. حجاز ملک عرب کا وہ حصہ ھے جسے اللہ نے نور ھدائت کی شمع فروزاں کرنے کے لیے منتخب کیا.. اس خطہ کا مرکزی شھر مکہ مکرمہ ھے جو بے آب و گیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ھے.. حجاز کا دوسرا اھم شھر یثرب ھے جو بعد میں مدینۃ النبی کہلایا جبکہ مکہ کے مشرق میں طائف کا شھر ھے جو اپنے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں اور سایہ دار نخلستانوں اور مختلف پھلوں کی کثرت کی وجہ عرب کے ریگستان میں جنت ارضی کی مثل ھے.. حجاز میں بدر , احد , بیر معونہ , حدیبیہ اور خیبر کی وادیاں بھی قابل ذکر ھیں..
نجد :
ملک عرب کا ایک اھم حصہ نجد ھے جو حجاز کے مشرق میں ھے اور جہاں آج کل سعودی عرب کا دارالحکومت "الریاض" واقع ھے..
حضرموت :
یہ یمن کے مشرق میں ساحلی علاقہ ھے.. بظاھر ویران علاقہ ھے.. پرانے زمانے میں یہاں "ظفار" اور "شیبان" نامی دو شھر تھے..
مشرقی ساحلی علاقے (عرب امارات) :
ان میں عمان ' الاحساء اور بحرین کے علاقے شامل ھیں.. یہاں سے پرانے زمانے میں سمندر سے موتی نکالے جاتے تھے جبکہ آج کل یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ھے..
وادی سیناء :
حجاز کے شمال مشرق میں خلیج سویز اور خلیج ایلہ کے درمیان وادی سیناء کا علاقہ ھے جہاں قوم موسی' علیہ السلام چالیس سال تک صحرانوردی کرتی رھی.. طور سیناء بھی یہیں واقع ھے جہاں حضرت موسی' علیہ السلام کو تورات کی تختیاں دی گئیں..
نوٹ :
ایک بات ذھن میں رکھیں کہ اصل ملک عرب میں آج کے سعودی عرب , یمن , بحرین , عمان کا علاقہ شامل تھا جبکہ شام , عراق اور مصر جیسے ممالک بعد میں فتح ھوۓ اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وھاں نقل مکانی کرکے آباد ھوئی اور نتیجتہ" یہ ملک بھی عربی رنگ میں ڈھل گئے لیکن اصل عرب علاقہ وھی ھے جو موجودہ سعودیہ , بحرین , عمان اور یمن کے علاقہ پر مشتمل ھے اور اس جزیرہ نما کی شکل نقشہ میں واضح طور دیکھی جاسکتی ھے..
عرب کو "عرب" کا نام کیوں دیا گیا اس کے متعلق دو آراء ھیں.. ایک راۓ کے مطابق عرب کے لفظی معنی "فصاحت اور زبان آوری" کے ھیں.. عربی لوگ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ھم پایہ اور ھم پلہ نہیں سمجھتے تھے اس لیے اپنے آپ کو عرب (فصیح البیان) اور باقی دنیا کو عجم (گونگا) کہتے تھے..
دوسری راۓ کے مطابق لفظ عرب "عربہ" سے نکلا ھے جس کے معنی صحرا اور ریگستان کے ھیں.. چونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ھے اس لیے سارے ملک کو عرب کہا جانے لگا..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھمااللہ
الداعی الی الخیرعبدالستار