सुन्नते रसूल {ﷺ} और उसका मक़ाम
✅Topic
सुन्नते रसूल {ﷺ} और उसका मक़ाम
🔰🔻🔰🔻🔰
📮इस पोस्ट में आप पढ़ सकेंगे
🔻🔻🔻
☑सुन्नत की तअरीफ
☑सुन्नत की किस्मे
☑सुन्नत क़ुरआने करीम की रौशनी में
☑सुन्नत की फजीलत
☑सुन्नत की अहमियत
☑सुन्नत का एहतेराम
☑सुन्नत की मौजुदगी में राय की हैसियत
☑कुरआन समझने के लिए सुन्नत की जरुरत
☑सुन्नत पर अमल करना वाजिब है
☑सुन्नत सहाबा इकराम (रजि.) की नजर में
☑सुन्नत अइम्मा की नजर में
☑हदीस
☑हदीस और सुन्नत
☑खुलासा🔰🔰🔰
SUNNAT E RASUL ( S.A.W ) AUR USKA MAQAM
Sunnat aur hadees me farq
سنت اور حدیث میں فرق
سنت کے لغوی معنی طریقہ یا راستہ کے ہیں (النھایہ فی غریب الحدیث جلد ٢ص٣٦٨)اور جبکہ حدیث کو لغت میں جدت کے معنی میں لیا جانا اور حدیث کو لغت میں کسی کلام یا کوئی بات بھی کہا جاتا ہے ۔(السنة قبل التدوین ص٢٠)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :اللہ نزل احسن الحدیث (الزمر آیت ٢٣)
اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل کی ہے ۔
حدیث کے معنی اصطلاح میں ہر اس قول ،فعل ،تقریر اور صفت کو کہتے ہیں جس کی نسبت حضورۖ کی طرف کی جاتی ہو ۔
(اصطلاح الحدیث کی تعریف وتشریح اذ ڈاکٹر محمود الطحان)
محدثین کے نزدیک سنت کی بھی اصطلاحی تعریف یہی ہے جو حدیث کی بیان ہوئی ہے (ارشاد الفحول للشوکانی مع تحقیق صبحی بن حلاق)
ڈاکٹر صبحی صالح فرماتے ہیں اگر ہم محدثین بالعموم اور متاخرین محدثین بالخصوص کی غالب رائے پر عمل کریں تو ہم حدیث وسنت کے الفاظ کو مترادف ومساوی پائیں گے یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاتے ہیں اور ان دونوںکا مفہوم کسی قول فعل تقریر یا صفت کو سرورکائنات ۖ کی جانب منسوب کرنا ہے البتہ اگر حدیث وسنت کے الفاظ کو ان اصول تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت نکھر سامنے آتی ہے کہ ان دونوں کے استعمال میں لغت واصطلاح کے پیش نظر کچھ دقیق سا فرق بھی پایا جاتا ہے (علوم الحدیث ومصطلحہ للصبحی الصالح ۔ص١١٣)
اگر حدیث وسنت کے لفظ کا انفرادی طور پر استعمال کیا جائے تو سنت سے مراد حدیث اور حدیث سے مراد سنت ہوتی ہے ۔
ابن اثیر فرماتے ہیں ']یقال فی ادلة الشرع الکتاب والسنة ،ای القرآن والحدیث ''شرعی دلائل میں کہا جاتا ہے کہ قرآن وسنت تو اس سے
مراد ہوتا ہے قرآن وحدیث ''(النھایہ فی غریب الحدیث ،ص٣٦٨)
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سنت سے مراد وہ عمل ہے جو صدر اوّل(پچھلے انبیاء سے چلا آرہا ہو ۔اور اگر غامدی صاحب کے مبادی سنت کا کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو انکی سنت سے مراد بھی کچھ اسی طرح ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ سنت کی اسی تعریف کو مان لیا جائے تو بھی حدیث اور سنت میں زیادہ فرق نہیں آتا۔کیونکہ ہمیں کس طرح معلوم ہوگا کہ کہ یہ عمل صدر اوّل سے چلا آرہا ہے ؟ تو اس کا معقول جواب یہی ہوسکتا ہے کہ اس کی معرفت ہمیں حدیث ہی کے ذریعے ہوگی اور صدر اوّل کے اسی عمل کو تسلیم کیا جائے گا جس پر نبی ۖ نے عمل کیا ہو یاعمل کرنے کا حکم دیا ہو ۔اور یہ بھی ہمیں حدیث سے معلو ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''لکل جعلنا منکم شرعة ومنھا جا''(المائدہ ۔آیت ٤٨)
''ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری نے ابن عباس کا قول ذکر کیا ہے:قال ابن عباس شرعة ومنھاجا ،سبیلا وسنة ۔
(صحیح بخاری مع فتح کتاب الایمان جلد١ ص٦٣)
ابن عباس فرماتے ہیں ''شرعة سے مراد سبیل (راستہ)اور منھا جا ''سے مراد سنت ہے اس وقل کو امام بکاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے لیکن امام ابن حجر نے اس روایت کو تغلیق التعلیق میں ذکر کیا ہے اور موصول بنایا ہے حافظ ابن حجر اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ''ھذا حدیث صحیح ''یہ حدیث صحیح ہے (تغلیق التعلیق جلد٢ ص٢٥)
یہ ان اصحابی رسول کی تفسیر ہے جن کے لئے رسول ۖ نے خاص دعا کی تھی کہ اللہ ان کی دین کی سمجھ دے اور قرآن کی تاویل (تفسیر )علم عطا فرما ۔
لہٰذا یہ بات یہاں پر بھی عیاں ہوتی کہ تمام انبیاء کا دین ایک ہے لیکن ان کے فروع شریعت اور انکی سنت (طریقہ کار) مختلف ہے تو اصل سنت وہی ہے جس پر نبی ۖ نے عمل کیا ہو چاہے اس پر پچھلے انبیاء کا عمل رہا ہو یا نہ رہا ہو ۔اور نبی ۖ کے افعال واعمال یا تقریر یا آپ کی کوئی سی بھی صفت کی معرفت حدیث سے ہی ہوتی ہو اگرچہ حدیث اور سنت میں لغوی اعتبار سے فرق ہے لیکن اصطلاح میں یہ ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے کے باہم معنی میں استعمال ہوتے ہیں لہٰذا حدیث ہی سنت ہے اور سنت ہی حدیث ہے۔
اللہ سے دعا سے کہ وہ ہمیں صحیح دین کی سمجھ دے