Showing posts with label quran. Show all posts
Showing posts with label quran. Show all posts

Kamyabi ke usul

*تدبر قرآن ..... کامیابی کے اصول سوره طه کی ایک آیت کے تناظر میں*
کہا جاتا ہے کہ کامیابی و کامرانی اور متعین مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ مضبوط پلاننگ اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے جو درج ذيل علمی بنیادوں پر قائم ہوں جیسے :
1- مثبت سوچ یا مثبت انداز فکر (positive attitude )
2- مشترکہ عمل ( team work )
3- علم و معرفت ( Knowledge )
4- کڑی جد و جہد ( Hard Work )
5- روحانیت یا واضح مقصد کا تعین ( Spiritual or clear aim )
یہ سارے اصول اور ساری بنیادی باتیں آپ کو قرآن کریم کی صرف ایک آیت میں مل جائیں گی چنانچہ جب آپ درج ذيل آیت کریمہ میں غور کریں گے تو آپ حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب جائیں گے کہ ایک ہی آیت میں کس طرح ان سارے معانی و مفاہیم کو سمو دیا گیا ہے وه آیت یہ ہے :
(اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي )
ترجمہ: ( اللہ تعالی نے موسی عليہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے کہا ) تم اور تمہارا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ ، اور میرا ذکر کرنے میں سستی نہ کرنا ۔
( سوره طه آية 42)
اب اس آیت کی تفصیل میں غور کیجئے :
👈 اذْهَبْ : ( جاؤ ) آیت کا یہ ٹکڑا منفی سوچ اور منفی ذہنیت کا خاتمہ کرتا ہے اور مثبت سوچ اپنانے اور حرکت و نشاط اور سرگرم رہنے پر ابھارتا اور آمادہ کرتا ہے. اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حرکت ميں برکت ہے. Positive attitude
👈 أَنتَ وَأَخُوك : ( تم اور تمہارا بھائی) آیت کا یہ ٹکڑا انفرادیت کو ختم کرنے اور اجتماعی و مشترکہ عمل انجام دینے کی ترغیب دیتا ہے. Team work
👈 بِآيَاتِي : ( میری نشانیاں) آیت کا یہ ٹکڑا بتاتا ہے کہ کوئی بھی عمل جہالت و بدنظمی کی تاریکی ميں نہیں بلکہ اسے علم و معرفت اور اصول و قوانین کی روشنی میں انجام دینا چاہیے. Knowledge
👈 وَلَا تَنِيَا : ( سستی نہ کرنا ) آیت کا یہ ٹکڑا بتاتا ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سخت محنت اور ہمت و جاں فشانی کی ضرورت ہوتی ہے اور سستی، کسل مندی اور پست ہمتی ناکامی کا پہلا زینہ ہے. Hard Work
👈 فِي ذِكْرِي: ( میرے ذکر میں ) آیت کے اس ٹکڑے سے مادیت یا ماده پرستی کا خاتمہ ہوتا ہے کہ انسان کو ماده پرست نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیشہ اللہ کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ دل میں روحانیت پیدا ہو. Spiritual or clear aim
*ذرا غور کیجئے کہ قرآن مجید کی صرف یہی ایک آیت ہی کافی ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہم ایک کامیاب اور بامقصد زندگی کیسے گزاریں.*
(عربی سے ترجمہ )

Quran gir jane ka kaffarah ?

قرآن گر جانے کا کفارہ؟
قرآن گر جانے کا کفارہ؟
مردوں میں تو نہیں البتہ عورتوں میں یہ بات کافی مشہور ہے کہ اگر غلطی سے بھی قرآن پاک گرجائے تو بہت بڑے گناہ کا سبب ہے ، اس وجہ سے اس غلطی کا تدارک کیسے کیا جائے بہت پریشان ہوجاتی ہیں ۔ ابھی رمضان کا مہینہ ہے ، قرآن کی تلاوت عام ہے جس کی وجہ سے یہ بات کافی جہتوں سے آرہی ہے ۔
اتنا جان لیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے قرآن مجید کا احترام اور تعظیم فرض ہے اس کی بے ادبی و بے حرمتی ناجائز اور حرام ہے، بلکہ بسا اوقات اس کی توہین کفرتک پہنچا دیتی ہے۔اس لئے قرآن کریم لینے دینے ، اٹھانے ، رکھنے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔
مگر پھر بھی غیر ارادی طور پر قرآن مجید ہاتھ سے چھوٹ کر گر جائے تو کوئی گناہ لازم نہیں آتا اور نہ ہی کوئی کفارہ ادا کرنا ہے۔

(1)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ»[سنن ابن ماجه رقم 2045 صحیح بالشواہد]۔
ترجمہ : صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی ) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔

(2)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات کی فضیلت کے متعلق حدیث میں ہے ’’اے ہمارے رب ہم سے مؤاخذہ نہ کر، اگر ہم بھول جائیں یا ہم غلطی کر جائیں‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا‘‘ ۔
(مسلم کتاب الایمان، باب بیان تجاوز اللہ تعالیٰ عن حدیث النفس۔۔۔ الخ،ح: 330)

مذکورہ بالا دونوں حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بندے سے اگر بھول چوک ہوجائے تو اللہ تعالی یوں ہی معاف فرمادیتا ہے ، اگر بھول سے قرآن کریم بھی گر جائے تو وہ اللہ کے نزدیک معاف ہے، نیزقرآن مجید کے گرنے پر کوئی کفارہ وغیرہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ نے بیان نہیں فرمایا۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس کام پر عنداللہ کوئی مواخذہ نہیں ، اور نہ ہی گوئی کفارہ دینا ہے ، اگر استغفار کرلیتا ہے تو بہتر ہے ، اور دل کی تسلی کے لئے مسکینوں میں صدقہ کردے تو بھی بہتر ہے ۔

Quran

يا جماعة الرساله هذي لازم توصل للعالم كله

انشر بارك الله فيك

القرآن الكريم في عشرين لغة عالمية

أي رقم عندك من المسلمين أو غير المسلمين الذين لا يتكلمون العربية في بلدك أو من خارج البلد

الدال على الخير كفاعله

1/ اللغة العربية
هديتي اليكم هي المصحف الشريف كاملا بكل لغات العالم
http://quran.ksu.edu.sa.
ارسلها لغيرك وساهم في الاجر
----------------------------------
2/ اللغة الاندنوسية
Indonesian language
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
Hadiah saya kepada Anda adalah Quran penuh dalam semua bahasa di dunia
http://quran.ksu.edu.sa.
Kirim ke orang lain dan memberikan kontribusi untuk upah
----------------------------------
3/ اللغة البنغالية
Bangali Language
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
আপনার কাছে আমার উপহার বিশ্বের সব ভাষায় সম্পূর্ণ কোরান হয়
http://quran.ksu.edu.sa.
অন্য কাউকে এটা পাঠান এবং মজুরি অবদান
----------------------------------
4/ اللغة الأوردية
Urdu  Language
''''''''''''''''''"'"'""""""""""""""
آپ کو میرا گفٹ دنیا کے تمام زبانوں میں مکمل قرآن پاک ہے
http://quran.ksu.edu.sa.
کسی اور پر بھیج دیں اور اجرت میں اہم کردار ادا
----------------------------------
5/اللغة الصينية
Chinese  Language
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
我给你的礼物是完全可兰经在世界上所有语言
http://quran.ksu.edu.sa。
它发送给其他人,并促成工资
----------------------------------
6/ اللغة الهندية
Hindi Language
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
अपने आप को उपहार दुनिया की सभी भाषाओं में पूरी तरह कुरान है
http://quran.ksu.edu.sa.
इसे किसी और को भेजें और मजदूरी करने के लिए योगदान
----------------------------------
7/ اللغة الانجليزية
English  Language
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
My gift to you is the Koran fully in all languages ​​of the world
http://quran.ksu.edu.sa.
Send it to someone else and contributed to wage
----------------------------------
7/اللغه الفرنسية
French Language
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''"""'
mon cadeau pour vous êtes le Saint Coran une complète tout le monde langues http://quran.ksu.edu.sa. envoyées aux autres ont contribué à payer
---------------------------------
8/اللغه اللاتينية :
Latin Language
''''''''''''''''''''''''''''''''
Bene vobis donum linguarum mea saeculi XVI
http://quran.ksu.edu.sa.
Contulerunt ad alium mittere merces
----------------------------------
9/ اللغه الروسية
Russian Language
'''''''''''''''""""""""""""""""
Мой подарок тебе это Коран полностью на всех языках мира
http://quran.ksu.edu.sa.
Отправить его кому-то еще и способствовали заработной платы
-------------------------------
10/ اللغه الاسبانية
Spanish Language
''''''''''"''''''''""'''''"'''''''''
mi regalo a usted es el Santo Corán una completa todos los del mundo
http://quran.ksu.edu.sa.
enviado a los demás contribuido a de pago
-----------------------------
11/ اللغه الايطالية
Italian Language
'''''''''''''''''''"""'''''''''''
Il mio regalo per voi è pieno il Corano in tutte le lingue del mondo
http://quran.ksu.edu.sa.
Invia a qualcun altro e ha contribuito a salari
----------------------------------
12/ اللغه الفلبينية
Filipino  Language
''''''''""''''''''''''''
Ang aking regalo sa iyo ay ang Koran ganap sa lahat ng mga wika sa mundo
http://quran.ksu.edu.sa.
Ipadala ito sa ibang tao at nag-ambag sa pasahod
----------------------------------
13/ اللغة الكورية
Korean Language
'''''''''''''''''''''''
당신에게 내 선물은 세계의 모든 언어에서 완전히 코란입니다
http://quran.ksu.edu.sa.
다른 사람에게 전송 및 임금에 기여
----------------------------------
14/اللغه اليابانية
Japanese Language
''''''''''''''''''''''''''''''
あなたに私の贈り物は、世界のすべての言語で完全にコーランです
http://quran.ksu.edu.sa。
誰か他の人に送信し、賃金に貢献
----------------------------------
15/اللغه الفارسية :
Persian Language
''''''''''''''''''''''''''''
هدیه من به شما قرآن را به طور کامل در همه زبان های جهان
http://quran.ksu.edu.sa.
ارسال آن را به شخص دیگری و به دستمزد کمک
----------------------------------
16/ اللغة العبرية
Hebrew Language
''''''''''''''''''''''''
המתנה שלי אליך היא הקוראן באופן מלא בכל השפות בעולם
http://quran.ksu.edu.sa.
שלח אותו למישהו אחר, ותרם לשכר
----------------------------------
17/ اللغه الالمانية
German Language
''''''''''''''''''''''''
Mein Geschenk an dich ist der Koran vollständig in allen Sprachen der Welt
http://quran.ksu.edu.sa.
Senden Sie es an jemand anderen und trug zur Lohn
----------------------------------
18/ اللغة التركية
Turkish Language
''''''''''''''''''''''
Benim size hediye dünyanın bütün dillerinde tamamen Kur'an
http://quran.ksu.edu.sa.
Başkasına göndermek ve ücret katkıda
----------------------------------
19/ اللغه التايلاندية
Tilandi Language
'''''''''''''''''''''''''''
  ของขวัญของคุณคืออัลกุรอานอย่างเต็มที่ในทุกภาษาของโลก
http://quran.ksu.edu.sa
ส่งไปให้คนอื่นและมีส่วนทำให้ค่าจ้าง
----------------------------------
20/ اللغه البرتغاليه
Portuguese Language
''''''''''''''''''''''''
Meu presente para você é o Corão plenamente em todas as línguas do mundo
http://quran.ksu.edu.sa.
Envie para alguém e contribuiu para salário
---------------------------------
-
ارسلها لكل من تعرف
عربي او غير عربي
مسلم او غير مسلم

من آعتاد أن يوزع الورد ، فسيبقى شيء من العطر بيده
،

ما دمت تفعل الخير ،
سيصلك أثره ،
إن لم يكن في الدنيا ، فسيكون فى الآخرة..

صدق اللہ العظيم tilawate quran ke bad

⭕تلاوت كے بعد صدق اللہ العظيم كہنا⭕

كيا تلاوت كرنے كے بعد صدق اللہ العظيم كہنا بدعت ہے اور اگر واقعى بدعت ہے تو يہ اسلام ميں كيسے داخل ہوا ؟

⭕الحمد للہ:

اكثر لوگوں كى عادت ہے كہ جب تلاوت سے فارغ ہوتے ہيں تو صدق اللہ العظيم كہتے ہيں يہ مشروع نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا نہيں كيا، اور نہ ہى صحابہ كرام كى عادت تھى، اور پھر تابعين كے دور ميں بھى ايسا نہيں ہوا، بلكہ يہ آخرى دور ميں كچھ قراء حضرات كى جانب سے جارى ہوا جنہوں نے اللہ تعالى كے فرمان ( قل صدق اللہ ) سے دليل ليتے ہوئے بطور استحسان كہنا شروع كيا، ليكن يہ استحسان مردود ہے كيونكہ اگر يہ اچھا اور بہتر ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام اور تابعين عظام اس پر ضرور عمل كرتے، كيونكہ وہ اس امت كے سلف ہيں.

رہا فرمان بارى تعالى:

{ قل صدق اللہ }.

اس سے يہ مراد نہيں كہ جب تلاوت ختم كى جائے تو صدق اللہ كہا جائے، اگر اس سے يہى مراد ہوتى تو اللہ تعالى يہ فرماتا: كہ جب تم قرآت سے فارغ ہو تو صدق اللہ كہا كرو، جس طرح يہ فرمايا كہ:

{ تو جب تم قرآن مجيد كى تلاوت كرو تو اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم كہو }.

مذكورہ آيت سے دليل لے كر صدق اللہ العظيم كہا بدعت ہے، بلكہ يہ فرمان تو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے ليے سب كچھ كھانا حلال قرار ديا صرف وہى جو يعقوب عليہ السلام نے خود اپنے ليے حرام كيا تھا اس كى خبر ديتے ہوئے فرمايا ہے:

{ كہہ ديجئے تورات لا كر پڑھو اگر تم سچے ہو، جو كوئى بھى اس كے بعد اللہ تعالى پر افترا پردازى كرتا ہے تو يہى لوگ ظالم ہيں، كہہ ديجئے اللہ تعالى نے سچ فرمايا ہے، لہذا تم ملت ابراہيم كى يكسو ہو كر پيروى كرو، اور وہ مشركوں ميں سے نہ تھے }.

اگر اس سے قرآن مجيد كى تلاوت سے فارغ ہو كر صدق اللہ كہنا مراد ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے علم كا زيادہ حق ركھتے تھے، اور وہ اس پر سب سے پہلے خود عمل كرتے، جب ايسا نہيں ہوا تو پھر اس سے يہ مراد نہيں ہے.

خلاصہ:

قرآن مجيد كى تلاوت سے فارغ ہو كر صدق اللہ العظيم بدعت ہے مسلمان كو ايسا نہيں كرنا چاہيے.

اللہ تعالى نے جو كچھ فرمايا ہے اس كى سچائى كا اعتقاد ركھنا مسلمان كے ليے فرض ہے، كيونكہ جس شخص نے بھى اللہ تعالى كے كسى فرمان يا اس ميں سے كسى چيز كو جھٹلايا يا اس ميں شك كيا تو وہ كافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.

اور جو كسى مناسبت سے مثلا جن اشياء كى اللہ تعالى نے خبر دى ہے وہ واقع ہو تو اس وقت كسى شخص كا بطور تاكيد صدق اللہ يعنى اللہ نے سچ فرمايا كہنا جائز ہے، كيونكہ سنت سے يہ ثابت ہے.

ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے كہ حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما آئے تو آپ نے منبر سے اتر كر انہيں اٹھايا اور اپنے سامنے بٹھا كر فرمايا: اللہ تعالى نے سچ فرمايا ہے كہ:

{ يقينا تمہارے مال اور تمہارى اولاد فتنہ ہيں }.

ديكھيں: ازالۃ الستار عن الجواب المختار ابن عثيمين ( 79 - 80 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

Jis ne quran ko chelenange Kya

ﻭﮦ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﭼﯿﻠﻨﺞ ﮐﯿﺎ��������​
1977 ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ ﮔﯿﺮﯼ ﻣﯿﻠﺮ ‏( Gary Miller ‏) ﺟﻮ
ﭨﻮﺭﻧﭩﻮ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮨﺮ ﻋﻠﻢِ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﻄﻖ ﮐﮯ
ﻟﯿﮑﭽﺮﺍﺭ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻨﮉﺍ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮔﺮﻡ ﻣﺒﻠﻎ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ
ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﺖ ﮐﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪﮐﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻏﻠﻄﯿﻮﮞ ﮐﻮ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ، ﺟﻮ ﺍﺱ ﻣﺒﻠﻎ
ﮐﮯﭘﯿﺮﻭ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﮮ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﯾﺌﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻻﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ ۔ ﺗﺎ ﮨﻢ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﺮ عکس تھا.  ﻣﯿﻠﺮ ﮐﯽ ﺩﺳﺘﺎﻭﯾﺰ ﺟﺎﺋﺰ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺸﺮﯾﺢ
ﺍﻭﺭ ﻣﻼﺣﻈﺎﺕ ﻣﺜﺒﺖ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﺟﻮ ﻭﮦ ﻗﺮﺁﻥِ ﻣﺠﯿﺪ
ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥِ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍیسے ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ ،ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ :
ﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥِ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﻣﯿﻠﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻗﺮﺁﻥِ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﭼﯿﻠﻨﺞ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ اور ﻟﻠﮑﺎﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﺜﻼً :"ﺃَﻓَﻼَ ﻳَﺘَﺪَﺑَّﺮُﻭﻥَ ﺍﻟْﻘُﺮْﺁﻥَ ﻭَﻟَﻮْ ﻛَﺎﻥَ
ﻣِﻦْ ﻋِﻨﺪِ ﻏَﻴْﺮِ ﺍﻟﻠّﻪِ ﻟَﻮَﺟَﺪُﻭﺍْ ﻓِﻴﻪِ ﺍﺧْﺘِﻼَﻓًﺎ ﻛَﺜِﻴﺮًﺍ۔‏
ﯾﮧ لوگ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻏﻮﺭ و فکر ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ؟ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ کلام ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ
ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ کی طرف سے ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ‏ﺑﮩﺖ ﺳﺎ‏ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﭘﺎﺗﮯ۔
(ﺳﻮﺭۃ ﻧﻤﺒﺮ 4:، ﺍﻟﻨﺴﺂﺀ، ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 82)
"ﻭَﺇِﻥ ﻛُﻨﺘُﻢْ ﻓِﻲ ﺭَﻳْﺐٍ ﻣِّﻤَّﺎ ﻧَﺰَّﻟْﻨَﺎ
ﻋَﻠَﻰ ﻋَﺒْﺪِﻧَﺎ ﻓَﺄْﺗُﻮﺍْ ﺑِﺴُﻮﺭَﺓٍ ﻣِّﻦ ﻣِّﺜْﻠِﻪِ ﻭَﺍﺩْﻋُﻮﺍْ ﺷُﻬَﺪَﺍﺀﻛُﻢ ﻣِّﻦ ﺩُﻭﻥِ
ﺍﻟﻠّﻪِ ﺇِﻥْ ﻛُﻨْﺘُﻢْ ﺻَﺎﺩِﻗِﻴﻦَ۔"
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ‏( ﮐﺘﺎﺏ‏) ﻣﯿﮟ، ﺟﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﮮ
‏( ﻣﺤﻤﺪ ﻋﺮﺑﯽ‏) ﭘﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﺷﮏ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ جیسی ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭﺕ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﻻﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺟﻮ بھی  ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﻮ سکتے ہوں، اگر تم سچے ہو تو ان سب ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻼﻟﻮ ۔
(ﺳﻮﺭہ ﻧﻤﺒﺮ 2: ،ﺍﻟﺒﻘﺮة،ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 23)
ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻣﯿﻠﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﻟﻠﮑﺎﺭ ﺭہے تهے ﺍﻭﺭ
ﭼﯿﻠﻨﺞ ﮐﺮ ﺭہے تهے ،ﻣﮕﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ان ﮐﺎ ﯾﮧ ﺭﻭﯾﮧ ﺣﯿﺮﺕ
ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍنہوں  ﻧﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ
ﺍن ﮐﻮ ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻼ؟
ﻣﻨﺪﺭﺟﮧء ﺫﯾﻞ ﮐﭽﮫ ﻧﮑﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻣﯿﻠﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮑﭽﺮ”ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻗﺮﺁﻥ“ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ:
1⃣ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺼﻨﻒ ‏( ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ‏) ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻟﻠﮑﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﻠﻨﺞ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﻏﻠﻄﯿﻮﮞ ‏ﺳﮯ بالکل ﭘﺎﮎ ﮨﮯ۔ لیکن ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ
ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ کوئی غلطی ﻧﮩﯿﮟ ہے۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﯿﻠﻨﺞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺳﭽﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﻥ غلطیوں کو ﺗﻼﺵ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﻭ۔ ﯾﺎ ﺗﻢ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺟﯿﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭﺕ ﮨﯽ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﻭ۔
2⃣ﻗﺮﺁﻥ ﻣﻘﺪﺱ ،ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﮐﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ‏( ﺫﺍﺗﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ‏)
ﮐﮯ ﺳﺨﺖ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ رفیقہء ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺑﯿﻮﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺪﯾﺠﮧ ؓﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺻﺎﺣﺒﺰﺍﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺣﺒﺰﺍﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ وفات کا واقعہ۔
ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺠﯿﺐ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﺎﮐﺎﻣﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﻄﻮﺭ ﺭﺍﺋﮯ‏( ﺗﺒﺼﺮﮦ‏) ﻧﺎﺯﻝ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺁﯾﺎﺕ ﺟﻮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ،ﻓﺘﺢ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﺮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻏﺮﻭﺭ ﻭ ﺗﮑﺒﺮ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺗﻨﺒﯿﮧ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ہے۔
��ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺗﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ‏( ﺳﻮﺍﻧﺢ ﺣﯿﺎﺕ / ﺁﭖ ﺑﯿﺘﯽ‏)
ﻟﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯿﻮﮞ ‏(ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ‏) ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎ ﭼﮍﮬﺎ ﮐﺮ
ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﮐﺎﻣﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺴﺖ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺟﺒﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﻄﻘﯽ ﮨﮯ۔
��  ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﺮﯾﺮ
ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ‏( ﻣﻌﺒﻮﺩ‏) ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ،ﻋﺒﺎﺩﺕ
ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻋﺎﻡ ایک ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، اور ان کے لیے ایک قانون وضع ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔
��ﻣﯿﻠﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺧﺎﺹ ﺁﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ
:
"ﻗُﻞْ ﺇِﻧَّﻤَﺎ ﺃَﻋِﻈُﻜُﻢ ﺑِﻮَﺍﺣِﺪَﺓٍ ﺃَﻥ
ﺗَﻘُﻮﻣُﻮﺍ ﻟِﻠَّﻪِ ﻣَﺜْﻨَﻰ ﻭَﻓُﺮَﺍﺩَﻯ ﺛُﻢَّ ﺗَﺘَﻔَﻜَّﺮُﻭﺍ ﻣَﺎ ﺑِﺼَﺎﺣِﺒِﻜُﻢ ﻣِّﻦ ﺟِﻨَّﺔٍ
ﺇِﻥْ ﻫُﻮَ ﺇِﻟَّﺎ ﻧَﺬِﻳﺮٌ ﻟَّﻜُﻢ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱْ ﻋَﺬَﺍﺏٍ ﺷَﺪِﻳﺪٍ۔ "
ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻭ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮐﮭﮍﮮ
ﮨﻮﺟﺎﺅ ﭘﮭﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻭ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺭﻓﯿﻖ ﮐﻮ ﺟﻨﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻋﺬﺍﺏ ﺳﺨﺖ ‏( ﮐﮯ ﺁﻧﮯ‏) ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﺮﻑ ﮈﺭﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ۔
(ﺳﻮﺭہ ﻧﻤﺒﺮ: 34 ،ﺳﺒﺂ، ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 46)
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﻘﯿﻖ
“ ﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﺑﺤﺚ ﻭ ﻣﺒﺎﺣﺜﮧ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ” ﭘﺮ ﭨﻮﺭﻧﭩﻮ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﻣﺤﻘﻖ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻘﺮﺭﯾﻦ ‏( ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ‏)
ﮐﻮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺑﺤﺚ ﻭ ﻣﺒﺎﺣﺜﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﮭﭩﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﮐﯿﺎ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﺤﺚ ﻭ
ﻣﺒﺎﺣﺜﮧ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺗﺐ ﻣﻠﯽ ﺟﺐ ﻣﻘﺮﺭ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ 2 ﺗﮭﮯ ، ﺟﺒﮑﮧ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﻢ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﻣﻘﺮﺭﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ زیادہ ﺗﮭﯽ۔
��ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭہ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺮﯾﻢ علیها ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﺳﻮرہ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺡ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﻣﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ، ﺑﻠﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺭه ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ؓﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ؓﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﺍﺳﻢ گرﺍﻣﯽ ﻗﺮﺁﻥِ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ 25 ﻣﺮﺗﺒﮧ ، ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺤﻤﺪ صلی الله علیہ و سلم  ﮐﺎ ﺍﺳﻢ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺻﺮﻑ 5 ﻣﺮﺗﺒﮧ
ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
�� کچھ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ کہ  ‏(ﻧﻌﻮﺫ ﺑﺎﻟﻠﮧ‏) ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺁﺳﯿﺐ ، ﺑﮭﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻧﺒﯽ اکرم کو ﺳﮑﮭﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﮨﺪﺍﯾﺎﺕ ﺩﯾﺎﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ،
ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ؟
ﺟﺒﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ‏:
" ﻭَﻣَﺎ ﺗَﻨَﺰَّﻟَﺖْ ﺑِﻪِ ﺍﻟﺸَّﻴَﺎﻃِﻴﻦُ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ‏( ﻗﺮﺁﻥ‏) ﮐﻮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﮯ۔
(ﺳﻮﺭہ ﻧﻤﺒﺮ 26: ، ﺍﻟﺸﻌﺮﺁﺀ، ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 210)
‏" ﻓَﺈِﺫَﺍ ﻗَﺮَﺃْﺕَ ﺍﻟْﻘُﺮْﺁﻥَ ﻓَﺎﺳْﺘَﻌِﺬْ
ﺑِﺎﻟﻠّﻪِ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺸَّﻴْﻄَﺎﻥِ ﺍﻟﺮَّﺟِﻴﻢِ۔‏
ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺗﻢ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻣﺮﺩﻭﺩ ﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ
ﻣﺎﻧﮓ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﻭ۔
(ﺳﻮﺭه ﻧﻤﺒﺮ 16: ، ﺍﻟﻨﺤﻞ، ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 98)
�� اگر ﺁﭖ ﺍﻥ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖؓ ﻏﺎﺭِ ﺣﺮﺍ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ،ﻣﺸﺮﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮔﮭﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ،ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ،ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺭﺩِ ﻋﻤﻞ ﯾﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﮧ پیچهے ﺳﮯ ﺧﺮﻭﺝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺗﻼﺵ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﯾﺎ پهر ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮧ ﺳﻦ ﺳﮑﮯ ، ﺗﺎﮨﻢ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﻧﮯ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ؓﺳﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﻏﻤﺰﺩﮦ ﻧﮧ ﮨﻮ، ﻓﮑﺮ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ، ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ۔
‏"ﺇِﻻَّ ﺗَﻨﺼُﺮُﻭﻩُ ﻓَﻘَﺪْ ﻧَﺼَﺮَﻩُ ﺍﻟﻠّﻪُ
ﺇِﺫْ ﺃَﺧْﺮَﺟَﻪُ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﻔَﺮُﻭﺍْ ﺛَﺎﻧِﻲَ ﺍﺛْﻨَﻴْﻦِ ﺇِﺫْ ﻫُﻤَﺎ ﻓِﻲ ﺍﻟْﻐَﺎﺭِ ﺇِﺫْ
ﻳَﻘُﻮﻝُ ﻟِﺼَﺎﺣِﺒِﻪِ ﻻَ ﺗَﺤْﺰَﻥْ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠّﻪَ ﻣَﻌَﻨَﺎ ﻓَﺄَﻧﺰَﻝَ ﺍﻟﻠّﻪُ ﺳَﻜِﻴﻨَﺘَﻪُ
ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺃَﻳَّﺪَﻩُ ﺑِﺠُﻨُﻮﺩٍ ﻟَّﻢْ ﺗَﺮَﻭْﻫَﺎ ﻭَﺟَﻌَﻞَ ﻛَﻠِﻤَﺔَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﻔَﺮُﻭﺍْ
ﺍﻟﺴُّﻔْﻠَﻰ ﻭَﻛَﻠِﻤَﺔُ ﺍﻟﻠّﻪِ ﻫِﻲَ ﺍﻟْﻌُﻠْﻴَﺎ ﻭَﺍﻟﻠّﻪُ ﻋَﺰِﻳﺰٌ ﺣَﻜِﻴﻢٌ
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ
ﮨﮯ ‏( ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﺗﻢ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﻮﮔﺎ‏) ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ۔ ‏( ﺍﺱ ﻭﻗﺖ‏) ﺩﻭ ‏( ﮨﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ‏) ﻣﯿﮟ ‏(ﺍﯾﮏ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮؓ ﺗﮭﮯ‏) ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ‏(ﺧﻮﺩ ﺭﺳﻮﻝ
ﺍﻟﻠﻪ‏) ﺟﺐ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻏﺎﺭ ‏(ﺛﻮﺭ‏) ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻓﯿﻖ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻏﻢ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻟﻠﮧ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ۔ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﺸﮑﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﺩﯼ ﺟﻮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﺴﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻭﺭ
ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ‏( ﺍﻭﺭ‏) ﺣﮑﻤﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ۔
(ﺳﻮﺭہ ﻧﻤﺒﺮ 9:، ﺍﻟﺘﻮﺑﮧ، ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 40)
ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﺑﺎﺯ ﯾﺎ ﺩﻏﺎ ﺑﺎﺯ ﮐﯽ ﺫﮨﻨﯿﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮨﮯ، ﺟﻦ ﮐﻮ پتا تها ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﻭ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻓﺮﻣﺎئے گا۔
��ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻤﺴﺪ‏(ﺳﻮﺭۃ ﺗﺒﺖ‏) ﺍﺑﻮ ﻟﮩﺐ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ، ﺍﺑﻮ ﻟﮩﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﭼﭽﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﺍﺑﻮ ﻟﮩﺐ ﻧﮯ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﺍﺱ ﺑﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺬﺍﺭﮮ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ کے لیے ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ ۔ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ الله ﺳﺒﺤﺎنہ ﻭ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ سے ﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﻮ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮐﯿﺠﺌﮯ:
"ﺗِﻠْﻚَ ‏ﻣِﻦْ ﺃَﻧﺒَﺎﺀ ﺍﻟْﻐَﻴْﺐِ ﻧُﻮﺣِﻴﻬَﺎ
ﺇِﻟَﻴْﻚَ ﻣَﺎ ﻛُﻨﺖَ ﺗَﻌْﻠَﻤُﻬَﺎ ﺃَﻧﺖَ ﻭَﻻَ ﻗَﻮْﻣُﻚَ ﻣِﻦ ﻗَﺒْﻞِ ﻫَـﺬَﺍ ﻓَﺎﺻْﺒِﺮْ ﺇِﻥَّ
ﺍﻟْﻌَﺎﻗِﺒَﺔَ ﻟِﻠْﻤُﺘَّﻘِﻴﻦَ۔
ﯾﮧ ‏( ﺣﺎﻻﺕ‏) ﻣﻨﺠﻤﻠﮧ ﻏﯿﺐ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮧ ﺗﻢ ﮨﯽ
ﺍﻥ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﻮﻡ ‏( ﮨﯽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ
ﺗﮭﯽ‏) ﺗﻮ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﻭﮞ ﮨﯽ ﮐﺎ ‏( ﺑﮭﻼ‏)
ﮨﮯ۔
(ﺳﻮﺭۃ ﻧﻤﺒﺮ 11: ، ﮬﻮﺩ ، ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 49)
ﻣﯿﻠﺮ لکھتے ہیں ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ رہا ہو کہ یہ ایک
ﻧﺌﯽ ﺧﺒﺮ‏( ﺍﻃﻼﻉ‏) ﮨﮯ!!!
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﻧﻈﯿﺮ ‏( ﺑﮯﻣﺜﺎﻝ ‏) ﭼﯿﻠﻨﺞ ‏( ﻟﻠﮑﺎﺭ‏) ﮨﮯ ۔
ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ ﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﻣﮑﺮ ﻭ ﻓﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ؟  ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮑﺎﻟﺮ ‏( ﻋﺎﻟﻢ‏) ﯾﮧ اعلان  ﮐﺮ سکتا تها کہ ﯾﮧ ﺍﻃﻼﻉ ‏( ﺧﺒﺮ‏) ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﯽ ﭘﮩﭽﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ‏ مگر  ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔

��ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻣﯿﻠﺮ ﮐﯿﺘﮭﻮﻟﮏ ﺍﻧﺴﺎﺋﯿﮑﻠﻮ ﭘﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻋﮩﺪ ‏( ﺯﻣﺎﻧﮧ‏) ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ
ﻭﺍﺿﻊ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺗﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ،ﻧﻈﺮﯾﺎﺕ
ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﻧﺰﻭﻝ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﻗﺖ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﺍﻭﺭ
ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺠﺘﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻣﻨﻄﻘﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺗﺴﻠﯿﻢ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﺟﺎ ﮔﮭﺮ ‏( ﭼﺮﭺ‏) ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻧﻈﺮﯾﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ
ﺗﮏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﮐﯽ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ
ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺁﺧﺮﯼ ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮨﮯ۔
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻣﯿﻠﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﻘﻄﮧ ﻧﻈﺮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ
ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭼﻨﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺻﺎﻑ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ
ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ
‏( ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻖ ﮐﻮ ﺗﻼ ﺵ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻌﺼﺐ ﮐﻮ ﺍﺟﺎﺯﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﻖ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮐﮭﮯ‏) ﻣﺰﯾﺪ
ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻖ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻦ ﺷﺎﮨﺮﺍﮦ ﭘﺮ ﭼﻞ
ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﻗﺒﺖ ﺳﻨﻮﺍﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔ﺁﻣﯿﻦ
ﺣﺘﻤﯽ ﺭﺍﺋﮯ
1977 ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻣﯿﻠﺮ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺳﮑﺎﻟﺮ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﺣﻤﺪ
ﺩﯾﺪﺍﺕؒ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﮑﺎﻟﻤﮧ،ﺑﺤﺚ ﻭ ﻣﺒﺎﺣﺜﮧ ﮐﯿﺎ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻨﻄﻖ ﺻﺎﻑ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻋﺬﺭ ‏(ﺗﺎﺋﯿﺪ‏) ﺍﯾﺴﮯ
ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﺗﮏ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ
ﺗﻌﺼﺐ ﮐﮯ ﭘﮩﻨﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ
ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔
1978 ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻣﯿﻠﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻻﺣﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮑﺎﺭﺍ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ
ﻋﺮﺻﮧ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﺗﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺪﻧﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﯾﻮﺭﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ
ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺑﺬﺭﯾﻌﮧ ﭨﯿﻠﯽ
ﻭﯾﮋﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﮑﭽﺮﺯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
����ابو محمد مندوست بلوچ����