Showing posts with label MAKAN AND KHET GIRWI RAKHNA. Show all posts
Showing posts with label MAKAN AND KHET GIRWI RAKHNA. Show all posts

GIRWI CHIJO SE FAYDA UTHANA KAISA HAI?

گروی اشیاء سے فوائد اٹھانے کی شرعی حیثیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ گروی مکان اسلام کی روح سے جائزہے،؟ اور اگر ہے تو اس کے لئے کوئی خاص شرائط ہیں۔ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال​

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مکان اور کوئی بھی مالیت والی چیز گروی رکھنا اور رکھوانا جائز ہے لیکن اس میں درج ذیل چیزوں کا خیال رکھا جائے۔
1۔ گروی شدہ چیز کی آمدنی، اجرت، محصول وغیرہ رہنے رکھوانے والے (راہن) کی ملکیت ہے۔
2۔مرتھن (جس کے پاس چیز رہن رکھی گئی ہے) اس چیز میں تصرف کا مجاز نہیں ہے إلا کہ جو نص سے ثابت ہے یعنی جس طرح حدیث میں آیا ہے۔​
آپ ﷺ نے فرمایا:
" الظھر یرکب بنفقة إذا کان مرھونا ولبن الدر یشرب بنفقتہ إذا کان مرھونا وعلی الذی یرکب و یشرب النفقة " (صحیح بخاری کتاب الرھن باب الرھن مرکوب و محلوب)
’’رہن رکھے ہوئے جانور پر مصارف و اخراجات کے بدلے سواری کی جاسکتی ہے او ردودھ دینے والے جانور کا دودھ مصارف کے بدلے پیا جاسکتا ہے جبکہ وہ رہن ہو اور جو آدمی سواری کرتا ہے اور دودھ پیتا ہے اس کے اخراجات کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔‘‘​
اس طرح مرہونہ زمین سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے اگر اس پر جس قدر خرچ کیا جائے اتنا فائدہ اٹھا لیا جائے۔
مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر ہر وہ مرتھن چیز جس کی دیکھ بھال نہ کرنے سے تلف ہوجانے کا خدشہ ہو اس سے بقدر خرچ اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن مکان کی صورت حال کچھ اور نوعیت کی ہے۔ مکان گروی رکھنے والا اسے استعمال نہیں کرسکتا اگر استعمال کرنا چاہے تو اس کا راہن سے کرایہ وغیرہ کا طے کرلے کیونکہ آج کل صورت حال یوں ہےکہ ایک آدمی مکان رہن رکھ کے مرتھن سے کچھ رقم لیتا ہے اور مرتھن اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے یعنی اس میں سکونت اختیار کرتا ہے جبکہ راہن اس کی رقم استعمال کرتا ہے حالانکہ مکان کو جانور وغیرہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جانور کا اگر دودھ وغیرہ نہ دھویا جائے گا اور چارہ وغیرہ نہ ڈالا جائے گا تو اس کے تلف و ضرر کا خدشہ ہے جبکہ مکان میں ایسی کوئی صورت نہیں ہاں اگر وہ راہن سے مکان کا کرایہ طے کرلیتا ہے تو اس میں سکونت اختیار کرسکتا ہے وگرنہ اس کا اس سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آئے گا۔
وبالله التوفيق
فتوی کمیٹی​

محدث فتوی

MAKAN GIRWI RAKHNA

مکان گروی رکھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
باہمی رضامندی سے گروی مکان دیا،   پیسے لیے!
گروی مکان استعمال کیا، وہاں گروی پیسے استعمال ہوئے!
گروی مکان واپس دیا، وہاں گروی پیسے واپس دیے!
تو آخر یہ سود کیسے ہوا؟۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز حقدار کے پاس رکھنے کو گروی کہا جاتا ہے۔ جب قیمت یا قرض ادا کر دوں گا تو میری چیز مجھے واپس مل جائے گی۔ جائز مقصد کےلیے کوئی چیز گروی رکھنے میں کوئی خرابی یا قباحت نہیں لیکن گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ قرضے یا ادھار قیمت کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’تو ایسی سرزمین (عراق) میں رہتا ہے جہاں سود کی وباء عام ہے، لہٰذا اگر تیرا کسی شخص کے ذمے کوئی حق ہے تو اس سے توڑی یا چارے کا گٹھا یا جَو وغیرہ بطور ہدیہ قبول نہ کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔‘‘ (بخاری، المناقب: ۳۸۱۴)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرض کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ ہاں گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچ کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے حقدار کے پاس بطور ضمانت کوئی جانور وغیرہ گروی رکھا ہو تو اسے گھاس یا چارہ ڈال کر اس پر سواری کی جا سکتی ہے یا اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
’’سواری کا جانور اگر گروی ہے تو بقدر خرچ اس پر سواری کی جا سکتی ہے اور اگر دودھ والا جانور گروی ہے تو خرچ کے عوض اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے، سوار ہونے والے اور دودھ پینے والے کے ذمے اس کا خرچہ ہے۔‘‘ (بخاری، الرھن: ۲۵۱۲)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی کے پاس گروی شدہ بکری ہے تو چارے کی قیمت کے مطابق اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں، قیمت سے زیادہ دودھ حاصل کرنا سود ہے۔‘‘ (فتح الباری ص ۱۷۸ ج ۵)
مرھونہ زمین کی صورت میں اگر مرتھن ٹھیکے پردے تو ٹھیکے کی رقم راہن کے قرضہ سے منہا کر دی جائے۔ اگر مرتھن خود کاشت کرے تو پیداوار تقسیم کر کے مالک کے حصہ کے مطابق اس کا قرضہ کم کر دے۔
صورت مسئولہ میں کسی نے قرضہ کے بدلے اپنا مکان گروی رکھا ہے اگر قرضدار اس میں رہائش رکھنا چاہتا ہے تو اس کا کرایہ طے کیا جائے اور اس کرائے کی رقم کو قرضے سے کم کرتا رہے، اگر کرایہ کی رقم کو قرض سے منہا نہیں کرتا تو یہ صریح سود ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسی چیز گروی رکھی جائے جس پر خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے زیورات وغیرہ تاکہ وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ گروی چیز کی حیثیت ایک امانت کی سی ہے، جب ادھار یا قرض چکا دیا جائے تو وہ چیز مالک کو اصل حالت میں واپس کر دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی محدث فتوی