Showing posts with label SAWAL JAWAB. Show all posts
Showing posts with label SAWAL JAWAB. Show all posts

Kya zalzale ya koi aisi gadbad ho namaz k dauran humare ird gird kya hum namaz todh sakte hain us halat me ya jari rakhein?

السُّــــ❓ـــــؤَالُ : ☟

Assalamu alaikum sheikh, mere do sawal hain. 1) Kya zalzale ya koi aisi gadbad ho namaz k dauran humare ird gird kya hum namaz todh sakte hain us halat me ya jari rakhein? 2) Hum namaz ki halat me ho aur humare samne koi kissi ko mar raha ho toh kis tarha se is situation me kaam karein?  jazakAllah khair... 


الجَـــ ✅ ـــوَابُ : ☟

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

آپ کے اس سوال میں تفصیل ہے۔ 

 *پہلی بات* : دوران نماز زلزلہ آ جائے تو اس کا اتمام کیسے کیا جائے گا۔ نسأل الله العافية والسلامة. آپ کا سوال حقیقی ہے یا فرضی نہیں معلوم، مگر اتنی نازک حالت میں نماز کی بابت سوال کرنا یقیناً آپ کے ایمان کی دلیل ہے. لا تخزيك الله يوم القيامة. 

اس سے ملتی جلتی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ میں ہے جس میں آپ نے فرمایا: *أقتلوا الأسودين في الصلاة: الحية والعقرب* .  نماز کے دوران سانپ اور بچھو آ جائیں تو اس کو مارنے کے لئے نماز قطع کر سکتے ہیں۔ 

البتہ حالت نماز میں مارنے سے وہ مر سکتا ہے تو نماز جاری رکھ سکتے ہیں، اگر عمل میں کثرت ہو تو نماز توڑ دیں اور اعادہ کر لیں۔ لا قدّر الله

صحیح بخاری کی كتاب فضائل الصحابة میں عمرو بن میمون جو کہ یمنی ہیں کبار تابعین میں سے ہیں۔ 
وہ کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے، پیچھے سے ابو لؤلؤ فیروز ( عليه لعنة الله المتتالية ) نے آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، جس سے آپ گر پڑے، چند ایک صحابہ بھی شہید ہوئے۔ 
کچھ صحابہ نے نماز توڑ کر اس کو گرفت میں لائے۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر نماز مکمل کئے۔ 

اس طرح ضرورت کے بقدر حرکت جائز ہے اس پر دلائل بہت ہیں۔ 

رہا نماز پڑھ رہے ہیں پیچھے کوئی کسی کو مار رہا ہے!!! 
میں یہ سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ 

آپ لڑکی ہیں اس لئے میں یہ سمجھا شاید آپ نماز پڑھ رہی ہوں اور گھر میں چھوٹے بچے ایک دوسرے کو مار رہے ہوں تو کیا کرنا چاہئے؟ 
آپ نماز سے پہلے بھی انہیں ہوشیار کریں دوران نماز ایک آدھ مرتبہ آواز یا کسی ہلکی تدبیر سے نمٹ لیں۔ 
دوسری بات ہو تو میں سمجھ نہیں سکا۔ 

وفق الله الجميع للخير

📜*محمد معاذ أبو قحافة حفظه الله*
٢٦ ذو الحجة ١٤٣٩ھ الجمعة

Jumah ke khutbe ke dauran kankadi se khela to uska *juma nahi hoga.*

السُّــــ❓ـــــؤَالُ : ☟

AssalamAlaikum WaRahmatullahi WaBarakatuhu

Shaykh sahab kya ye hadees durust h ke Jisne Jumah ke khutbe ke dauran kankadi se khela to uska *juma nahi hoga.*

الجَـــ ✅ ـــوَابُ : ☟

جی ہاں

جمعہ کے آداب سے متعلق ایک حدیث مروی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ اپنی (( الصحیح )) میں لائے ہیں۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ تَوَضَّأ فأحْسَنَ الوُضوءَ ثُمَّ أتَى الجُمُعةَ، فاسْتَمَعَ وأنْصَتَ، غُفِر له ما بينه وبيْنَ الجُمُعةِ وزيادة ثلاثة أيام، *وَمَنْ مَسَّ الحَصَى فَقَدْ لَغَا* ».

اس حدیث کے آخری کلمات میں کہا گیا کہ دوران جمعہ اگر کسی نے کنکر کو چھوئے گا تو اس کا جمعہ فوت ہو جائے گا۔ 

کنکر سے کھیلنا، مطلب کوئی بھی چیز جیسے مسجد کی فرش، قلم، موبائل، وغیرہ کسی بھی چیز میں مشغول ہو جائے اور خطبہ سننے سے غافل رہے تو اس شخص کا جمعہ لغو ہے۔ 

( لغا ) کا مطلب ہے اس شخص کو جمعہ کے جو فضائل اور ثواب ہے وہ سب نہیں ملیں گے۔ دو جمعہ کے درمیان کے گناہ کا معاف ہونا، جلدی آنے پر ثواب وغیرہ سب اس کی اس غفلت کی وجہ سے ختم ہو جاییں گے۔ ممکن ہے صرف ظہر کا ثواب ملے۔ واللہ اعلم۔ 

میں گھر سے باہر ہوں اس لئے مختصراً لکھ دیا ہوں۔ 

وفق الله الجميع للخير

محمد معاذ أبو قحافة
٢٥ جمادي الأولى ١٤٤٠ھ الجمعة

ولیمہ کس وقت کیا جائے؟

*سوال*

assalam alaikum : ek ahem sawal hai jo aaj kal bahut viral ho raha hai : (jis din nikah hota ha usi din walima jayez hai ya nahin , ager jayez hai to hadees ki roshni main wazeh kijiye ) jazakallah.


*جواب*

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

آپ کا یہ سوال در اصل اس وقت بیشتر حضرات کا سوال ہے۔ بار ہا بذریعہ فون بھی اس سے متعلق استفسار کیا جا چکا ہے۔ 

ولیمہ کس وقت کیا جائے؟ یعنی کیا خلوت شرط ہے؟ اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھیں۔ 

*پہلی بات*

خلوت (دخول) کے بعد کرنا *افضل اور مستحب* ہے۔ 
اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ اپنا ہر ولیمہ *خلوت* کے بعد ہی کئے ہیں۔  

ولیمہ کا خلوت (بعد از دخول) کے بعد مستحب ہونا اہل علم نے درج ذیل حدیث سے استدلال کئے ہیں۔ 

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: *أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ عَرُوْساً بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، ... وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِيْنَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ٱرْتِفَاعِ النَّهَارِ* . 
رسول اللہ ﷺ نے *زینب بنت جحش* رضی اللہ عنہا کے دلہا کی حیثیت سے صبح کی، آپ ﷺ نے اسی رات مدینہ میں ان سے شادی کی تھی، دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کے لئے بلایا۔ 
( *متفق عليه*: صحيح البخاري: 4797، وصحيح مسلم: 1428، واللفظ له ).

*نوٹ*

امام ابو ابوبکر البیہقی رحمہ اللہ اپنی (( السنن الكبرى )) کی *کتاب الصَّداق* میں اس مذکورہ حدیث کو صحیح بخاری (5170) کے حوالے سے نقل کئے ہیں، اور اس پر باب قائم کئے ہیں: *بابُ وقْتِ الوَليمَةِ*. گویا اس حدیث یہ مسئلہ واضح فرمائے ہیں کہ ولیمہ خلوت کے بعد ہوگا۔ 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح والی حدیث کی روشنی میں ولیمہ کا وقت خلوت کے بعد ہی مشروع ہے۔ *وقتُ الوليمةِ في حديث زينبَ وصفته تدلُّ على أنَّه عقب الدخول*. ( *الفتاوىٰ الكبرىٰ*: ص ١٤١٦، دار ابن حزم. ط: الأولى- ١٤٣٨ھ ).

*دوسری بات*

اہل علم نے ولیمہ کا وقت خلوت کے بعد ہونا مستحب کہا ہے، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کا عملی طریقہ یہی احادیث سے ملتا ہے۔ 

مگر درست بات یہی ہے کہ مذکورہ وقت کا اہتمام استحباب کا درجہ رکھتا ہے، وجوب کا نہیں۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ولیمہ کا کوئی خاص وقت متعین نہیں فرمائے ہیں۔ 

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 اہل علم  کے متعدد اقوال ملتے ہیں کہ ولیمہ کا وقت کونسا ہے؟ 
نکاح کے فوراً بعد اور خلوت سے پہلے!! یا خلوت کے بعد۔ 
یا پھر آغازِ نکاح سے لے کر شادی کے آخری وقت تک وسعت ہے کبھی بھی ولیمہ کیا جا سکتا ہے۔ 
آپ کہتے ہیں: 
*وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول أو عقبه، أو موسَّع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول*. پھر مختلف آراء ذکر کرکے ولیمہ کے وقت کو *غیر متعین* ہی بتائے ہیں۔ ( *فتح الباري*: ١١/٥١٩، دار طيبة ).

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی الجامع الصحیح کی (( کتاب النکاح )) میں فرماتے ہیں: 
*ولمْ يُوَقِّتِ النبيُّ ﷺ يوماً ولا يومين*. نبی کریم ﷺ ولیمے کے لئے صرف ایک یا دو دن مقرر نہیں فرمائے۔ اس میں بھی وسعت ہے۔ 
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے: 
*أي لم يجعل للوليمة وقتاً معيّناً يختصُّ به*. (١١/٥٣٩).


*خلاصہ*

اگر نکاح خانی کے ساتھ خلوت کے بعد ولیمہ ہو تو افضل ہے، مستحب ہے، اَولیٰ ہے۔ 
البتہ نکاح خوانی کے علی الفور (( خلوت سے قبل )) ولیمہ کرنا ہے تو اس میں وسعت ہے۔ مکمل گنجائش ہے۔ 
دوسرے ہی دن کرنے کو لازمی نہ قرار دیں۔ 
شادی کے لئے آئے مہمانوں کے لئے بھی سہولت ہوتی ہے۔ 

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں: 
ولیمہ کا وقت بہت وسیع ہے، نکاح خوانی سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور شادی کے ایام ( کم وبیش تین دن ) تک جائز ہے۔ 

شیخ کے الفاظ ہیں:
*وقت إقامة وليمة العرس موسع ، يبدأ من عقد النكاح إلى انتهاء أيام العرس*  ( الملخص الفقهي: 2/364 ).

وفق الله الجميع للخير

محمد معاذ أبو قحافة
٢ جمادي الأخرى ١٤٤٠ھ ليلة الجمعة

سوال میں دو مسئلوں سے متعلق استفسار ہے۔ دو الگ الگ امور ہیں

السُّــــ❓ـــــؤَالُ : ☟

Asssalamualykum mohtaram o muazzaz sheikh ek hadees jisme yeah kehne se manaa kiyagayaa hai ke yeah Allah agar tu chahe to mujhe maaf karde aur hum Roze Marrah ki zindagi me jo Inshaallah kehte hain usmei Kya Faraq hai baraai meherbaani sahulath paane per apne ilm se istafaadah karen

الجَـــ ✅ ـــوَابُ : ☟

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

سوال میں دو مسئلوں سے متعلق استفسار ہے۔ دو الگ الگ امور ہیں۔ 

پہلے وہ حدیث معلوم کرلیں جس میں دورانِ دعاء (( اگر تو چاہے تو ۔۔۔ )) کے الفاظ سے منع کیا گیا ہے۔ 

انس بن مالك رضی الله عنه سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « *إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمِ ٱلْمَسْأَلَةَ وَلَا يَقُوْلَنَّ: اللّٰهُمَّ إنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِيْ، فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ* ».
جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یقین وقطعیت کے ساتھ سوال کرے۔ یوں نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے دے دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔ 

( *متفق عليه* : صحيح البخاري: كتاب الدعوات. رقم: 6338، وصحيح مسلم: كتاب الذكر والدعاء. رقم: 2678 ).

 *نوٹ*

اس حدیث میں دعاء کے آداب سکھائے گئے ہیں، کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے اس یقین سے مانگے کہ اب میری دعاء قبول ہو چکی ہے، اور اللہ تعالیٰ میری مراد پوری فرمائے گا۔ 
اللہ تعالیٰ کو « *إنْ شِئْتَ* »، اگر تو چاہے تو دے۔ یہ بے معنی بات ہو جائے گی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، کسی کے کہنے کی حاجت نہیں ہے۔ ﴿ *فَعَّالٌ لِمَا يُرِيْدُ* ﴾، جو چاہے اسے کر گزرنے والا ہے۔ ( *البروج* : 16 ).
 بندہ اپنی حیثیت پہچانے وہ *عبد* ہے، فقیر ہے، محتاج ہے ایسے میں اللہ تعالیٰ سے ڈٹ کر مانگے، گڑگڑائے، بار بار سوال کرے۔ 
امام بخاری رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر باب قائم فرمائے ہیں، وہ قابل غور ہے: ( *بابٌ: لِيَعْزِمِ ٱلْمَسْأَلَةَ فَإِنَّهُ لَا مُكْرِهَ لَهُ* )، اللہ تعالیٰ سے یقینی کیفیت سے دعاء کرے، کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں۔ 

رہا دوران گفتگو ہم جو (( *إنْ شَاءَ اللّٰهُ*  )) کہتے ہیں، اس کا ترجمہ ہے ( اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور ارادہ ہو، اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہو )۔

یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا ارادہ کریں تو إن شاء الله ضرور کہہ لینا چاہیے، کیونکہ انسان کو پتہ نہیں کہ وہ جس کام کے کرنے کا ارادہ کیا ہے اس کی توفیق بھی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی یا نہیں؟؟

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی دیا ہے: ﴿ *وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَيْءٍ إَنِّيْ فَاعِلٌ ذَلِكَ غَداً * إلَّا أَنْ يَشَاءَ اللّٰهُ* ﴾، اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا۔ مگر ساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ لینا۔ ( *الكهف* : 23- 24 ).

آیت میں ( *غَداً* ) سے مراد مستقبل ہے۔ 

وفق الله الجميع للخير

محمد معاذ أبو قُحافة
٢٤ جمادي الأولى ١٤٤٠ھ الخميس