Showing posts with label جادو ‏کے ‏مسائل ‏. Show all posts
Showing posts with label جادو ‏کے ‏مسائل ‏. Show all posts

شیطان ‏سے ‏کیسے ‏بچیں

 الرحمٰن الرحیم

شیطان سے کیسے بچیں؟

مرتب: شیخ ابراہیم بن عبداللہ المزروعی

مترجم: حافظ عبدالتواب محمدی

(فاضل جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں)

الحمد للہ رب العٰلمین والصلاۃ والسلام علی خاتم النبیین، واشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ، امابعد:

*موضوع کی اہمیت: ہم شیطان کے بارے میں بات کرنے جارہے ہیں، اس لئے کہ وہ ہمارا دشمن ہے، اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم بھی اسے اپنادشمن بنائیں۔ اللہ فرماتا ہے: (اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا) (سورہ فاطر: ۶) ترجمہ: ’’یاد رکھو! شیطان تمھارا دشمن ہے، تم اُسے دشمن جانو۔‘‘ اور اللہ فرماتا ہے: (اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْناً) (سورہ اسراء: ۵۳) ترجمہ:’’ بے شک شیطان، انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (شیطان کو دشمن سمجھنا ) اس لئے بھی ضروری ہے کہ اُس نے سارے ہی بنی آدم کو گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اللہ فرماتا ہے: (قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ* اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ) (سورہ ص: ۸۳-۸۲)ترجمہ:’’ (شیطان) کہنے لگا: پھر تو تیری عزت کی قسم! میں اُن سب کو یقیناًبہکا دوں گا۔ سوائے تیرے اُن بندوں کے جو منتخب شدہ اور پسندیدہ ہوں۔‘‘ شیطان تو چاہتا ہے کہ سارے ہی لوگ جہنم رسید ہوجائیں۔ اللہ فرماتا ہے: (اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہُ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحَابِ السَّعِیْرِ) (سورہ فاطر: ۶) ترجمہ: ’’ وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم رسید ہوجائیں۔‘‘

شیطان، انسان کو گمراہ کرنے کے لئے ہمہ وقت(موقع کی تلاش میں) رہتا ہے۔ جیسا کہ (صحیح مسلم :۵۴۲۳) کی روایت میں ہے:’’ تم جو کچھ بھی کام کرو، مگر شیطان تمھارے پاس موجود رہتا ہے۔‘‘

ہم شیطان کے بارے میں بتا رہے تھے کہ وہ ہر انسان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ (صحیح مسلم :۷۲۸۷،۷۲۸۶) میں ہے کہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر کسی کے ساتھ جنّ اور فرشتے میں سے ایک ایک ساتھی تعینات کیا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں! میرے ساتھ بھی ہے، مگر اللہ نے اس بارے میں میری مدد کی تو وہ (جنّ بھی)مجھے حق بات ہی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘

شیطان، انسان کو ایک ایک قدم پر بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اللہ فرماتا ہے: (وَلَاتَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ) (سورہ بقرہ: ۱۶۸) ترجمہ:’’ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔‘‘ وہ ہر انسان کو مختلف طریقوں سے گمراہ کرتا ہے، (جیسا کہ) عالم اور طالب علم کو علم کے راستے سے اور عبادت گزار کو عبادت کے نام پر گمراہ کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ایک کتاب’’ تلبیس ابلیس‘‘ لکھی ہے، جس میں بہت ساری شیطانی چالوں کے بارے میں بتلایا گیا ہیکہ وہ کس طرح بنی آدم کو گمراہ کرتا ہے۔

شیطان کے بہت سارے کام ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنی آدم سے کتنی دشمنی رکھتا ہے، خاص کر صالحین سے۔ وہ چاہتا ہے کہ سارے ہی لوگوں کو کفر، نفاق اور شرک اکبر میں ملوث کرکے جہنم میں پہنچا دے۔ وہ صرف اللہ کے بندوں کو اس کی اطاعت و ذکر سے نہیں روکتا، بلکہ ہر بچے کو اُس کی پیدائش کے وقت کچوکے لگاتا ہے، جیسا کہ (صحیح بخاری:۳۲۸۶)میں ہے:’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان، آدم کی ہر اولاد کو اُس کی پیدائش کے وقت ، اُس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے سوائے عیسیٰ بن مریم کے۔‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کچوکے لگانا، دراصل شیطان کی طرف سے تسلط کی ابتدا ہوتی ہے۔‘‘

’’جب آدمی نماز فجر چھوڑ کر سورج کے نکلنے تک سوتا رہتا ہے تو شیطان اُس کے دونوں کانوں میں پیشاب کرتا ہے۔‘‘ جیسا کہ (صحیح بخاری :۳۲۷۰) کی روایت میں ہے۔

جب کوئی جمائی لے کر ’’ہاہا‘‘ کرتا ہے توشیطان ہنستا ہے، جیسا کہ (صحیح بخاری:۶۲۲۳) میں ہے:’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جمائی، شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، جب کسی کو جمائی آئے تو جتنا ہو سکے اُس کو دبانے کی کوشش کرے، اس لئے کہ (جمائی کے وقت) جب کوئی ’’ہاہا‘‘ کرتا ہے تو(اس پر) شیطان ہنستا ہے۔‘‘ بلکہ بنی آدم سے اُس کی دشمنی ، جسمانی اور نفسانی دونوں طرح کی تکلیفوں کے پہنچانے پر محیط ہے۔ بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ شیطان نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو حالت نماز میں تکلیف پہنچانے کی کوشش کی (لیکن ناکام رہا) ۔ وہ انسان کے جسم میں داخل ہو کر ایذاء پہنچاتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ جنّ کا انسان کے جسم میں داخل ہونا اہل سنت کے نزدیک متفق ہے۔‘‘

شیطان، انسان کے کھانے، پینے، رہنے، جماع یہاں تک کہ اُس کے خواب میں بھی شریک ہوکر تکلیف پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح روایت میں ہے کہ:’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اُسے ناپسند ہو تو اپنی دا ہنی جانب پھونک مارے (جس میں ہلکا سا تھوک بھی شامل ہو) اورتین مرتبہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے، پھر جس کروٹ پر تھا اُس کو تبدیل کردے۔‘‘ اور دوسری حدیث میں ہے کہ :’’ جب کوئی شخص برا خواب دیکھے تو لوگوں کو نہ بیان کرے، (دراصل وہ) نیند میں شیطان کی طرف سے کھلواڑ ہوتا ہے۔‘‘ یہ دونوں روایتیں صحیح الجامع (۵۵۱، ۴۹۶) کی ہیں۔

*نیک لوگوں کو بہکانے کی شیطانی چالیں : خاص کر نیک لوگوں کو بہکانے کے لئے شیطان کے کچھ اہم طریقہء کار ہیں:

(۱) مسلمانوں کے درمیان بدگمانی کو بڑھاوا دینا: (صحیح بخاری :۲۰۳۵) میں ہے کہ: ’’بیشک شیطان، انسان کے خون کی رگوں میں دوڑتا ہے، اور مجھے خوف ہے کہ وہ تمھارے دلوں میں کوئی برائی نہ پیدا کردے۔‘‘ پس شیطان، جھگڑے، دشمنیاں اور بدگمانیاں لوگوں کے درمیان پیدا کرتا ہے۔ (صحیح مسلم :۷۲۸۱) میں ہے کہ: ’’ بلا شبہ شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ جزیرۃ العرب کے نمازی اس کی عبادت کریں، لیکن وہ تمھارے درمیان (دشمنی اور بدگمانی وغیرہ کو) بڑھاوا دے گا۔‘‘

(۲) دین کے کسی ایک شعبہ یا حکم کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینا:شیطان، جاہل کے پاس آتا ہے اور بعض بدعتی وظائف یا مسنون ذکر میں ایسا مشغول کرتا ہے کہ وہ شریعت کے دیگر احکامات کو نظر انداز کردیتا ہے (اُن کو کوئی اہمیت نہیں دیتا)۔ لوگوں کی ایک جماعت کے پاس آکر اُنھیں صرف حدیث میں ایسے لگا دیتا ہے کہ وہ سیاست اور دیگر احکام شریعت کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ کچھ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سفر میں ایسامشغول کردیتا ہے کہ وہ پھر دیگر واجبات شرعیہ پر دھیان نہیں دے پاتے۔ اور کچھ لوگوں کے پاس آکر اُنھیں علم کے حصول میں ایسا مصروف کرتا ہے کہ پھر وہ دعوت وتبلیغ وغیرہ کی جانب توجہ نہیں دے پاتے۔ اسی طرح دیگر سارے گوشے ہیں۔ حالانکہ جو شخص منہج نبوی کا اچھی طرح جائزہ لے گا تو وہ سارے ہی گوشوں کی اہمیت کو سمجھے گا۔ (ایسا نہیں ہو سکتا کہ) بعض کو اہمیت دے اور بعض کو نظر انداز کرے۔

(۳) نیک اعمال کے کرنے میں ٹال مٹول : علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ کتنے ہی محنت کا عزم رکھنے والوں کو (شیطان، اس کام سے کسی نہ کسی بہانے) ٹال دیتا ہے، کتنے شرف و فضیلت کے لئے کوشاں کو سست کردیتا ہے، کتنے ہی فقیہوں کو اُن کے درس کے اعادے (دہرا کر پختہ یاد کرنے) کے وقت(شیطان ) اُن سے کہتا ہے: ’’ کچھ دیر آرام کرلو (اس طرح اُنھیں آرام کے بہانے کام سے روک دیتا ہے) ، یا کوئی عبادت گزار جب رات میں عبادت کے لئے بیدار ہوتا ہے تو اُس سے کہتا ہے:’’ کافی وقت ہے، (ابھی تھوڑا آرام کرلو) اس طرح شیطان بندے کے لئے سستی کو محبوب بنادیتا ہے اورعمل سے پیچھے ہٹا دیتا ہے۔(اسی لئے کہتے ہیں کہ آج کاکام کل پر مت ٹالو۔ کل کرے سو، آج۔ آج کرے سو ، اب) ‘‘ (تلبیس ابلیس)

(۴)شیطان، انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مکمل اور بہتر اعمال کر لئے ہیں(اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں)، تاکہ اُسے مزید عمل سے روک سکے: (شیطان، انسان کے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ): تو نمازی ہے، درس اور دیگر دینی پروگراموں میں شرکت کرتا ہے، یہ نیک کام کرتے ہو، وہ نیک کام کرتے ہو۔ پس اس طرح وہ اسے گھمنڈاور خود پسندی میں مبتلا کرکے نیک کاموں میں سست کردیتا ہے۔ اگر ایک مسلمان خود اپنا محاسبہ کرتے ہوئے غور کرے کہ کیا اُس نے ویسے ہی نماز ادا کی ہے جیسی اُس پر فرض کی گئی تھی ؟ کیا وہ ہر روز قرآن کی تلاوت کرتا ہے؟ کیا وہ نفل روزوں کا اہتمام کرتا ہے؟ کیا وہ سنت مؤکدہ کی محافظت کرتا ہے؟کیا نماز باجماعت ادا کرتا ہے؟اسی طرح سارے اعمال کے بارے میں غور کرے۔

(۵) نیک لوگوں کو بہکانے میں ’’ خوف‘‘ کا استعمال:شیطان، نیک لوگوں کو اپنے لشکر اور اپنے مدد گاروں سے ڈراتا ہے، جس سے ڈر کر بندہ اللہ کی اطاعت اور عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے۔ یا غریبی و فقیری کا خوف دلاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:(اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُ کُمُ الْفَقْرَ) (سورہ بقرہ: ۲۶۸) ترجمہ:’’ شیطان تمھیں فقیری سے ڈراتا ہے۔ ‘‘ جبکہ ایک سچا مؤمن اللہ کی پناہ ہوتا ہے اور شیطان اور اُس کے چیلے چاٹوں سے پناہ مانگتا ہے۔ مؤمن اللہ پر پورا بھروسہ رکھتا ہے اور اسی کو (ہر مصیبت کی گھڑی میں)یاد کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے: (وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجاً* وَّیَرْزُقُہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ)(سورہ طلاق:۳،۲) ترجمہ:’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اُس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔ اور اُسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اُسے گمان بھی نہ ہو۔‘‘

(۶) فضول تاویلات:شیطان، ایک داعی کو گمراہ کرنے کے لئے اُس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ :’’ آپ ایک داعی ہیں ۔ دعوت کے میدان میں مصلحتاً غیبت کرنے، جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے میں کوئی برائی نہیں۔‘‘ دوسرے کو وسوسہ کچھ اس طرح ڈالتا ہے کہ:’’ آپ داعی ہیں تو معلوم ہونا چاہئے کہ کچھ برائیوں سے حکمت کے تقاضے کے تحت لوگوں کو نہیں روکنا چاہئے۔‘‘ اب تیسرے کو اِس طرح بہکاتا ہے کہ:’’ ٹی-وی اور گاڑیوں کی خرید و فروخت کے وقت سودی لین دین میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ ہماری مجبوری ہے، اور مجبوری میں تو حرام چیزیں حلال ہوجاتی ہیں۔‘‘ اس طرح کی اور بھی بہت ساری مثالیں ہیں۔

*اس طرح کی فریب کاریوں سے کیسے بچیں؟: اللہ پر ایمان اور کامل بھروسے کی بنیاد پر۔ اللہ فرماتا ہے: (اِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ )(سورہ نحل: ۹۹) ترجمہ:’’ ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اُس کا زور مطلقاً نہیں چلتا۔‘‘ اور جو لوگ اللہ کے ذکر سے غفلت برتتے ہیں اُن کے متعلق اللہ فرماتا ہے: ( وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطٰناً فَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ ) (سورہ زخرف: ۳۶) ترجمہ:’’ اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اُس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں، وہی اُس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘

شیطان سے مقابلے کے لئے مؤمن کا ہتھیار

(۱)احتیاط، شیطانی چالوں ، اُس کے وسوسوں اور بہکانے کے طریقوں کا مکمل علم اور اُس سے بچاؤ کے طریقہء کار: اگر مسلمان، شیطانی چالوں، طریقہء کار، وسوسوں اور فریب کاریوں سے لاعلم رہے گا تو آسانی کے ساتھ اُس کا شکار بن سکتا ہے۔ اور شیطان اُس کو جس طرح چاہے گمراہ کر سکتا ہے۔

(۲) صراط مستقیم پر قائم رہنا:کتاب و سنت کو زبانی اور عملی طور پر تھامنا، یہ شیطان سے بچنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے: (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ ) (سورہ انعام: ۱۵۳) ترجمہ:’’ اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے۔ سو اِس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو ۔‘‘ اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی اور کہا:’’ یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔‘‘ اور اُس کے بعد دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچیں پھر کہا:’’ اِن میں جتنے بھی راستے ہیں، ہر راستے پر شیطان بیٹھ کر دعوت دے رہا ہے۔‘‘ (مسند احمد: ۴۱۴۲) پس کتاب وسنت کو قول و عمل کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رہنا ، شیطان کو بھگانے اور غصہ دلانے کے لئے کافی ہے۔ ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب ابن آدم تلاوت کے وقت ( سجدہ کی آیت پڑھ کر ) سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اُس سے دور چلا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے :ہائے میری بربادی! ابن آدم کو سجدہ کا حکم دیا گیا، پس اُس نے سجدہ کیا تو اُس کے لئے جنت ہے، جبکہ مجھے حکم دیا گیا لیکن میں نے نافرمانی کی تو میرے لئے جہنم ہے۔‘‘ (مسلم: ۲۵۴)

(۳) اللہ کی پناہ میں رہنا اور اُسی پر بھروسہ کرنا:اللہ فرماتا ہے: (وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) (سورہ حٰم السجدہ: ۳۶) ترجمہ:’’ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو۔ یقیناًوہ بہت ہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔‘‘ دوسری جگہ اللہ ارشاد فرماتا ہے:( وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیٰطِیْنِ* وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ) (سورہ مؤمنون: ۹۸،۹۷) ترجمہ:’’ اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! میں شیطان کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور اے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کثرت سے، شیطان مردود سے ، اللہ کی پناہ طلب کرتے رہتے تھے۔ جیسا کہ:

*دعائے استفتاح کے بعد:’’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفَثِہِ‘‘ ترجمہ:’’ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جو (ہر آواز کو ) سننے والا (اور ہر چیز کو) جاننے والا ہے، شیطان مردود (کے شر) سے، اُس کے خطرے سے، اُس کی پھونکوں سے اور اُس کے وسوسے سے۔‘‘ (ابوداؤد: ۷۷۵)

*قضائے حاجت کے وقت: ’’ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَاءِثِ ‘‘ترجمہ:’’ اے اللہ ! میں تیری پناہ پکڑتا ہوں نر اور مادہ ناپاک جنّوں (کے شر) سے۔‘‘ (مسلم: ۳۷۵)

*جماع کے وقت: ’’ بِسْمِ اللّٰہِ ، اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطٰنَ وَجَنِّبِ الشَّیْطٰنَ مَا رَزَقْتَنَا‘‘ ترجمہ: ’’ اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہم سے اور جو اولاد تو عطا کرنے والا ہے ، اُس سے شیطان کو دور رکھنا۔‘‘ ( بخاری: ۱۴۱)

*گدھے کی آواز سنتے وقت:’’ جب گدھے کی آواز سنیں تو ۔۔۔’’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ‘‘پڑھیں۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔‘‘ (صحیح الجامع: ۸۱۹)

*قرآن پڑھتے وقت: اللہ فرماتا ہے: ( فَاِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ) (سورہ نحل: ۹۸) ترجمہ: ’’ قرآن پڑھنے کے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘

*بچوں اور گھر والوں کے لئے پناہ طلب کرنا: ’’ اُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطٰنِِ وَّھَامَّۃِ وَمِنْ کُلِّ عَیْنِِ لَّامَّۃِ‘‘ترجمہ:’’ میں تم دونوں کو اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور اور ہر لگ جانے والی نظر بد سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعا کرتے تھے۔ (بخاری: ۳۳۷۱)

(۴) اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا:اس لئے کہ اللہ کے ذکر سے شیطان مردود بھاگ جاتا ہے۔ پس جب بندہ جماع کے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان اُس کے ساتھ شریک نہیں ہوپاتا۔ جب مؤذن، اذان دیتا ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے بھاگتا ہے۔ جب کھانے پینے کے وقت اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو شیطان کو شرکت کا موقع نہیں ملتا۔ اور جب قضائے حاجت کے وقت اللہ کا ذکر کیا جائے تو شیطان ( وہاں سے بھاگ جاتا ہے ) اور مؤمن کی ستر نہیں دیکھ پاتا۔ پس اللہ کا ذکر، شیطان سے حفاظت کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔( صحیح الجامع : ۶۴۱۹) کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے: ’’ بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ‘‘ترجمہ:’’ (میں اس گھر سے) اللہ کے نام کے ساتھ (نکل رہا ہوں) میں نے اللہ پر بھروسہ کیا۔ گناہ سے بچنے کی ہمت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت مگر اللہ ہی کی توفیق سے۔‘‘ تو اُس سے کہا جاتا ہے: ’’( یہ دعا ) تیرے لئے کافی ہوگی، تجھ کو ہدایت مل گئی اور تجھ کو (شیطان کے شر سے) بچا لیا گیا۔‘‘ شیطان اُس سے دور بھاگ جاتاہے۔ اور وہ دوسرے شیطان کو جا کر کہتا ہے:’’ کہ تو کیسے اِس آدمی پر قابو پاسکتا ہے جبکہ اِسے ہدایت دے دی گئی، ( جو دعا اُس نے پڑھی وہ) اُس کے لئے کفایت کرگئی اور اُس کو (ہمارے شر سے) بچا لیا گیا۔‘‘

(صحیح الجامع: ۶۴۳۷) کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص دن میں ۱۰۰ مرتبہ یہ کہے:’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘ تو شام تک اُس کے لئے (یہ دعا ) شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گی۔‘‘پس معلوم یہ ہوا کہ اللہ کا ذکر، اُس کی اطاعت اور عبادات میں مشغولیت، شیطان سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۵) مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا: ’’ جماعۃ المسلمین‘‘ وہی ہے جو دین پر اُس طرح قائم ہو جیسے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔ تو لازم ہے کہ ان نیک دوستوں (کی راہ) کو لازم پکڑیں، سلف صالحین کی اتباع کریں جو اہل سنت والجماعت اور اہل حدیث ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص جنت کے بیچ میں جگہ چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ جماعت کو لازم پکڑے، اِس لئے کہ شیطان اکیلے کے ساتھ ہوتا ہے اور دو لوگ ہوں تو اُن سے بہت دور رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی: ۲۳۱۸)

(۶) جب بھی شیطان بہکانے کی کوشش کرے تو توبہ و استغفار کرے: اللہ فرماتا ہے: ( اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طآءِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ ) (سورہ اعراف: ۲۰۱) ترجمہ: ’’ یقیناًجو متقی ہیں، جب اُن کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ (اللہ کی ) یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔‘‘ حدیث قدسی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ شیطان نے اللہ رب العزت سے کہا: جب تک تیرے بندوں کی روحیں اُن کے جسموں میں ہیں، میں اُنھیں گمراہ کرتا رہوں گا۔ ‘‘ تو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:’’ میری عزت و جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے، میں اُنھیں بخشتا رہوں گا۔‘‘ (صحیح الجامع: ۱۶۵۰)

شیطان سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہر کام میں اُس کی مخالفت کی جائے۔ پس جو کام بھی شیطان کو پسند ہیں اُن میں اُس کی مخالفت کی جائے۔ سنت رسول ﷺ سے اِس بات کی دلیل ملتی ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم میں کا ہر شخص اپنے داہنے ہاتھ سے کھائے، پئے اورلین دین بھی کرے، اس لئے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا، پیتا اور لیتا ہے۔‘‘ (صحیح الجامع: ۳۵۴۸)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ قیلولہ کیا کرو، اِس لئے کہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔‘‘ (صحیح الجامع: ۴۴۳۱)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ ایک ہی جوتا پہن کر نہ چلے، بلکہ اُس کو ٹھیک کروالے۔ نہ ہی ایک موزہ پہن کر چلے اورنہ ہی بائیں ہاتھ سے کھائے۔‘‘ (صحیح الجامع: ۴۰۵) ایسا کیوں؟ اس لئے کہ شیطان ایک ہی جوتے میں چلتا ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب کوئی شخص سورج کی روشنی میں ہو اور اُس پر چھاؤں آنے لگے، یہاں تک کہ کچھ حصہ چھاؤں میں اور کچھ سورج کی روشنی میں ہوجائے تو وہاں سے ہٹ جائے۔‘‘ (صحیح الجامع: ۷۴۸) اور دوسری روایت میں ہے کہ :’’ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے کہ اس طرح بیٹھا جائے کہ کچھ حصہ دھوپ میں ہو اور کچھ حصہ چھاؤں میں۔ اس لئے کہ یہ شیطان کے بیٹھنے کا انداز ہے۔‘‘ (صحیح الجامع: ۶۸۲۳)

اسی طرح اُس کی مخالفت میں سے یہ بھی ہے کہ: جمائی کم سے کم آئے اور آجائے تو اُس کو دبانے کی کوشش کی جائے۔ (مسلم:۷۶۸۲) کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جمائی دراصل شیطان کی جانب سے ہوتی ہے، جب کسی کو جمائی آئے تو جتنا ممکن ہو سکے اُس کو دفع کرنے کی کوشش کرے۔ اس لئے کہ جب کوئی جمائی کے وقت ’’ ہاہا‘‘ کہتا ہے توشیطان اُس پر ہنستا ہے۔‘‘

یہ شیطان کے گمراہ کرنے کے چند طریقہء کار تھے، اوراُس کے خلاف مؤمن کے ہتھیار۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس کاوش کو شیطانی چالوں اور فریب کاریوں سے بچنے کا ذریعہ بنائے۔ اور شیطان کی گمراہیوں سے محفوظ رہنے کا جو راستہ اللہ نے ہمیں بتایا ہے ، اس راہ پر چلنے اور قائم رہنے کی توفیق دے۔ اس تحریر کو مرتب، مترجم اور جملہ اہل خیر حضرات کے لئے دنیا و آخرت کی نجات اور کامیابی کا وسیلہ بنائے ۔ آمین۔

جن ‏اور ‏فرشتہ ‏

جن اور فرشتہ


(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۶۷۔۷۲)

عن ابن مسعود رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ما من أحد إلا و قد وکل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملائکۃ ۔ قالوا : و إیاک یا رسول اﷲ ۔ قال : و إیای ، و لکن اﷲ أعاننی علیہ فأسلم ، فلا یأمرنی إلا بخیر ۔

'' ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے ، مگر یہ کہ وہ اپنے ساتھی ایک جن اورایک فرشتے کے سپرد کر دیا گیا ہو ۔ لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ، کیا آپ کے ساتھ بھی یہی معا ملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، میرے ساتھ بھی ، لیکن اللہ نے میری مدد کی ، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا ۔ لہٰذا وہ مجھے خیر ہی کی باتیں کہتا ہے۔ ''

لغوی مباحث

وکل بہ: ' وَکَّل' کا مطلب اپنا معاملہ کسی کے سپرد کرنا ہے ۔یہاں یہ مجہول ہے اور اس سے مراد ان کا مسلط ہونا ہے۔

قرین : ساتھی، جس کا ساتھ ہمہ وقتی ہو۔

متون

اس روایت کے متون میں کچھ فرق تو محض لفظی ہیں ۔ مثلا ایک روایت میں 'من الجن' کے بجائے 'من الشیاطین' ہے ۔اسی طرح احمد کی ایک روایت میں 'قد وکل بہ' کی جگہ 'ومعہ' روایت ہوا ہے۔ لیکن ایک فرق کافی اہم ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ ایک دو روایات میں 'قرینہ من الملائکۃ' کا ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ زیادہ تر روایات میں یہ جز بیان ہوا ہے۔ چنانچہ اسے راویوں کا سہو ہی قرار دیا جائے گا۔

معنی

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کچھ مادی قواعد و ضوابط کا پابند بنا رکھا ہے ۔ یہ قواعد ہم اپنے مشاہدے اور تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں سمجھ لیتے ہیں ۔ جدیددور میں سائنس دانوں نے اس دائرے میں بہت سا کام کیا ہے اوروہ بہت سے قوانین دریافت کر چکے ہیں اوردریافت کرتے رہیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ دنیا صرف ان مادی احوال تک محدود نہیں ہے ۔ اس مادی کارخانے کے پیچھے ایک غیر مادی نظام بھی کارفرما ہے ۔ اس روایت میں اس غیر مادی دنیا کے ایک معاملے کے بارے میں خبردی گئی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ کچھ غیر مادی طاقتیں وابستہ ہیں ۔ یہ طاقتیں خیر اور شر کی طاقتیں ہیں ۔ اس روایت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان طاقتوں کے وابستہ ہونے سے کوئی انسان بھی مستثنٰی نہیں ہے۔

قرآنِ مجید میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذی شعور مخلوقات میں فرشتے اورجنات بھی شامل ہیں ۔فرشتے سراپاخیر مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کا ذریعہ بھی ہیں ۔ جنات انسانوں کی طرح آزمایش سے گزر رہے ہیں اور انھیں خیروشر کے ترک و اختیار کی پوری آزادی حاصل ہے ۔ چنانچہ ان میں صالحین بھی موجود ہیں اور اشرار بھی پائے جاتے ہیں ، بلکہ انھی کا ایک فرد ابلیس انسانوں کو گمراہ کرنے کا مشن اختیار کیے ہوئے ہے اور اپنے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے انسانوں اور اپنے ہم جنسوں سے کام بھی لیتا ہے۔ہمارے نزدیک ، ملائکہ کی ذمہ داریوں اور ابلیس اور اس کے لشکر کی چالبازیوں کے نتیجے میں وہ صورتِِ حال پیدا ہوجاتی ہے جس کے لیے اس حدیث میں ایک جن اورایک فرشتے کے مسلط کیے جانے کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی اور بھلائی ہی کا بندو بست کیا گیا ہے ۔ یہ آزمایش کے لیے جنوں اور انسانوں کو دی گئی آزادی ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ صورتِ معاملہ پیدا ہو جاتی ہے ۔

قرآنِ مجید میں یہ بات اس طرح بیان نہیں ہوئی ، لیکن فرشتوں اور جنات کے انسانی زندگیوں میں کردار اور مداخلت کو مختلف مقامات پر بیان کیا گیاہے ۔مثلاً سورۂ انعام میں بتایا گیا ہے :

وَ ھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃٌ ۔ (۶ : ۶۱)

'' وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ تم پر اپنے نگران مقرر رکھتا ہے ۔''

مولانا امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

''مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ خدا اپنی مخلوق کے کسی فرد اور اپنے گلے کی کسی بھیڑ سے غافل ہوتا ہے ، سب ہر وقت اسی کے کنٹرول میں ہیں ۔ وہ برابر اپنے نگران فرشتوں کو ان پر مقرر رکھتا ہے ، جو ایک پل کے لیے بھی ان کی نگرانی سے غافل نہیں ہوتے۔''(تدبرِقرآن ،ج ۳ ، ص ۷۰)

سورۂ رعد میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ بات بیان ہوئی ہے :

لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنّ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُوْنَہُ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ۔ (۱۳ : ۱۱)

''ان پران کے آگے پیچھے سے امرِالٰہی کے مؤکل لگے رہتے ہیں جو باری باری ان کی نگرانی کرتے ہیں ۔''

اسی طرح جنات کے مسلط ہونے کا مضمون بھی قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے ۔ سورۂ زخرف میں ہے :

وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ۔(۴۳ : ۳۶)

''اور جو خدا کے ذکر سے اعراض کر لیتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے ۔''

درجِ بالا آیات کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ روایت میں جو بات بیان ہوئی ہے ، وہ قرآنِ مجید میں بھی بتائی گئی ہے ۔ روایت سے شبہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدھی راہ پر لگانے کے ساتھ ساتھ گمراہ کرنے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے ۔ سورۂ زخرف کی آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ شیطان کا تسلط خود انسان کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ میرے جن کو مسلمان کر دیا گیا ہے ۔ یہ درحقیقت پیغمبر کی عصمت کی حفاظت کے اس نظام کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کارِ دعوت کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے ۔

کتابیات

مسلم ، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار ، باب ۱۷۔دارمی ، کتاب الرقاق ، باب ۲۴۔ مسند احمد ، مسند عبداللہ بن عباس،مسند عبد اللہ بن مسعود۔

_______

شیطان اورانسان

عن أنس رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : إن الشیطان یجری من الانسان مجری الدم ۔

'' حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شیطان انسانی جسم میں اسی طرح گرداں ہے جیسے خون گرداں ہے ۔''

لغوی مباحث

یجری مجری ۔۔۔: کسی کی جگہ آنا ، قائم مقام ہونا۔

متون

بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد اپنے ایک عمل کی دلیل کے طور پر تھا ۔ روایت کے الفاظ ہیں:

عن علی بن الحسین رحمہ اﷲکان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی المسجد و عندہ أزواجہ فرحن۔ فقال لصفیۃ بنت حیی: لا تعجلی حتی انصرف معک و کان بینہا فی دار اسامۃ ۔ فخرج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم معھا ۔ فلقیہ رجلان من الانصار ۔ فنظرا الی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ، ثم أجازا۔ و قال لہما النبی صلی اﷲ علیہ وسلم : تعالیا ، إنھا صفیۃ بنت حیی ۔ قالا : سبحان اﷲ یا رسول اﷲ ۔ قال : إن الشیطان یجری من الانسان مجری الدم و إنی خشیت أن یلقی فی أنفسکما شیئا۔ (بخاری ، کتاب الاعتکاف ، باب ۱۱)

'' حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کی ازواج بیٹھی خوش ہو رہی تھیں۔ آپ نے صفیہ بنت حیی سے کہا : جلدی نہ کرو میں تمھارے ساتھ لوٹوں گا ۔اور صفیہ کا گھر دارِ اسامہ میں تھا ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے ۔ اس موقع پر انصار کے دو آدمی ملے ۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا ، پھر آگے بڑھ گئے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو کہا : ادھر آؤ ، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ۔ ان دونوں نے کہا : سبحان اللہ ، یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا : شیطان انسانی جسم میں اسی طرح گرداں ہے جیسے خون گرداں ہے ۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ تمھارے دل میں کوئی بات نہ ڈال دے ۔''

بخاری کی دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صفیہ کے مسجد میں حضور سے ملنے آنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے ۔اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئی تھیں ۔

معلوم ہوتا ہے کہ صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت مسلم سے لی ہے اور پوری روایت لینے کے بجائے باب کی مناسبت سے مکالمے کا ایک جز لے لیا ہے ۔ اس جز کے اعتبار سے متون میں صرف ایک ہی فرق روایت ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ '۔۔۔یجری ۔۔۔مجری' کے بجائے '۔۔۔یبلغ۔۔۔مبلغ' کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔

دارمی ، ابنِ ماجہ اور احمد میں مروی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ ایک اور موقع پر بھی بولا تھا ۔ اس روایت کے الفاظ ہیں :

عن جابر قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : لا تدخلوا علی المغیبات ۔ فان الشیطان یجری من ابن آدم کمجری الدم۔ قالوا : و منک؟ قال : نعم ولکن اﷲأعاننی علیہ فأسلم۔ (دارمی ، کتاب الرقاق ، باب ۶۴)

'' حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اکیلی بیوی ہو تو گھر میں داخل نہ ہو، کیونکہ شیطان ابنِ آدم میں اس کے خون کی طرح گرداں ہے ۔ لوگوں نے پوچھا : کیا آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ۔ آپ نے فرمایا : ہاں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہو گیا۔''

معنی

شیطان نے جس مشن کو اختیار کیا ہے ، اس کے لیے اس کو متعدد کارندے دستیاب ہیں اور وہ انھیں انسانوں کے پیچھے لگائے رکھتا ہے ۔ اس روایت میں ان شیاطین کی مستعدی کو واضح کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ ایک انسان پراپنے افکار کے ساتھ حملہ آور ہونے کی بار بار کوشش کرتے ہیں ۔ یہ کوشش شب وروز میں اتنی بارکی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خون کی گردش سے تشبیہ دی ہے ۔

مقصود یہ ہے کہ شیطان کے معاملے میں صالح سے صالح آدمی کو بھی بے پروا نہیں ہونا چاہیے۔ شیاطین ہر وقت چپکے رہتے ہیں اور دراندازی کے ہر موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ متون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کے ساتھ کھڑے ہونے پر راہ سے گزرنے والوں پر واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔جب انھوں نے کسی سوے ظن کی نفی کرنی چاہی تو آپ نے یہ واضح کیا کہ اسی طرح کے مواقع ہوتے ہیں جب شیاطین فائدہ اٹھاتے اور برائی کا بیج بوتے ہیں ۔ اسی طرح آپ نے اکیلی عورت کے گھر میں داخل ہونے سے منع کرتے ہوئے بھی یہی جملہ کہا ہے ۔ اس موقع پر بھی آپ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے لیے برائی کی طرف ابھارنے کے مواقع پیدا نہ کرو ۔

اس روایت سے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابلیس ہر آدمی کی رگوں میں گرداں رہتا ہے ۔ یہ محض غلط فہمی ہے ۔ ابلیس کو یہ طاقت نہیں دی گئی کہ وہ ہرجگہ ہروقت موجود رہے ۔ یہ اس کے کارندے ہیں جو وہ مختلف لوگوں پر مسلط کر دیتا ہے اور وہ مسلسل اپنے ہدف کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔

کتابیات

بخاری ، کتاب الاعتکاف ، باب ۱۱۔ ۱۲۔ کتاب بدء الخلق باب ۱۰۔ کتاب الاحکام ،باب ۲۱۔ مسلم کتاب السلام ، باب ۹۔ ترمذی ، کتاب الرضاع ، باب ۱۶۔ ابوداؤد ، کتاب الصوم ، باب ۷۹۔کتاب السنۃ ، باب ۱۸۔ کتاب الادب ، باب ۸۸۔ابن ماجۃ ، کتاب الصیام ، باب ۶۵۔احمد ، مسند انس بن مالک ۔مسند جابر بن عبداللہ۔ حدیث صفیہ ام المؤمنین۔ دارمی ، کتاب الرقاق ، باب۶۴۔