Islam me tay ka hukm

اسلام میں ٹائی کاحکم
=============
تحریر: مقبول احمد سلفی
ٹائی کو لیکر عام لوگوں میں کافی غلط فہمیاں ہیں ، مندرجہ ذیل سطور میں انہیں باتوں کا ازالہ مقصود ہے۔
سب سے پہلے لوگوں کی غلط فہمیاں ذکر کرتاہوں تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔
اس سے متعلق لوگوں کی دو اہم غلط فہمیاں ہیں ۔
(1) ٹائی عیسائی کی مذہبی علامت ہے ۔
(2) اورٹائی صلیب کی شکل ہے اس لئے اس کا پہننا حرام ہے ۔
انہیں شبہات کی وجہ سے عوام میں ٹائی کے متعلق مختلف خیالات ہیں ۔
اس کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ جانیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کوئی خاص لباس مقررنہیں کیا بلکہ لباس کے اصول وحدود متعین کردیئے، جوبھی لباس ان اصول وحدود پرپوراترے گااسے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں، اس لئے کسی لباس کو انگریزی، عیسائی، ہندو یا یہودی کہہ کر منع نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ اس میں کوئی شرعی قباحت ہو۔
یہ بڑی خوش نصیبی ہے کہ اسلام نے ہمارے لئے کوئی لباس خاص نہیں کیا ورنہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ ہر قوم اور ہرعلاقے میں اپنا ایک خاص رہن سہن اور پہناوا ہے ۔ اور اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جو ہرعلاقے کے لوگوں کو لباس کے اسلامی آداب بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ثقافتی لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے ۔
اب پہلے شبہ کی حقیقت دیکھتے ہیں ، چنانچہ جب بائبل اٹھاکر دیکھتے ہیں تو ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ ٹائی عیسائیوں کی علامت و شعار ہے اور اگر ان کی علامت ہوتی تو بائبل میں اس کاضرورتذکرہ ہوتا، ساتھ ہی دنیا میں اور کسی کو اس کے استعمال کی اجازت نہیں ہوتی مگر ایسا نہیں ہے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرٹائی پہننے والے کو عیسائی نہیں سمجھاجاتا۔
دوسرا شبہ بھی پہلے شبہ ہی کی طرح کمزورہے، کیونکہ اس بات کی قطعی کوئی حقیقت نہیں کہ ٹائی صلیب کی شکل ہے ۔ اگر بغیر دلیل کے یونہی ٹائی کو صلیب کی شکل کہہ دیا جائے تو ہر کرتہ اور ہر جبہ ہاتھ اٹھانے پر صلیب کی شکل ہوجائے گی جبکہ ہم جانتے ہیں معاملہ ایسا نہیں ہے ۔
انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں لکھا ہوا ہے کہ "یہ ٹائی سب سے پہلے بوسنیا میں پہنا گیا"۔
جب یہ بات متحقق ہے تو پھر عیسائی کی علامت اور صلیب کی شکل کہنا مبنی برغلط ہوگا کیونکہ بوسنیا والے مسلم ہیں، گویا یہ مسلمانوں کی ایجاد ہے ۔
اس میں دوسری جگہ لکھا ہے کہ ’’ٹائی کالر کی حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔‘‘
گویا ٹائی کا مذھبی امور سے تعلق نہیں بلکہ ضرورت سے ہے ۔
جن لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر یہ عیسائی کی علامت نہیں تو وہ کیوں اسے بکثرت استعمال کرتے ہیں ؟
*تو اولا اس کا جواب یہ ہوگا کہ اسے محض عیسائی ہی نہیں بہت سارے مسلمان استعمال کرتے ہیں اور یہ مغربی تہذیب ہے ، غرب میں رہنے والے چاہے مسلم ہو یا عیسائی اس کا استعمال کرتے ہیں ۔اور یہ شرق میں بھی عام ہے ۔
*دوسری بات یہ کہ کسی قوم کا کچھ استعمال کرنا ان کے مذہب کی علامت ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو مدینہ اور عرب علاقوں کے یہودی اور عیسائی جبّہ پہنتے تھے۔ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کا جبہ دیکھ کر اس کے پہننے سے منع نہیں کیا۔اور اسی وقت سے آج تک جہاں عرب مسلمانوں میں جبہ کا رواج ہے وہیں عرب میں بسنے والے عیسائی میں بھی۔
ٹائی کے متعلق غلط فہمی کی وجہ ؟
=====================
ٹائی کے متعلق غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی دور حکومت میں ہندوستان کے باپو مسٹر گاندھی نے انگریزوں کے خلاف یہ نعرہ لگایا کہ ان کی کوئی چیز استعمال نہ کی جائے ۔
اس وقت کچھ بدھو قسم کے مولویوں نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ کوٹ ، پینٹ اور ٹائی عیسائی لباس ہے لہذا اس کا بائی کاٹ کیا جائے ۔ چنانچہ مولوی کا یہ خیال لوگوں میں عام ہوگیا جو آج تک عام ہے ۔ جب ٹائی کے موجد مسلم ہیں تو یہ مسلمانوں کی چیز ہے ۔ ٹائی کی ایجادضرورت کے تحت ہوئی تھی مگر بعد میں فرانس و یورپ کے لوگوں نے فیشن کے طور پر اسے استعال کیا ۔
بعض مولوی طبقہ مندرجہ ذیل احادیث کو ٹائی پہ فٹ کرتے ہیں ۔
(1)"مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ"(أبو داؤد ، ح : 4031وصححہ البانی)
"جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔"
(2) اسی طرح دوسری حدیث:"خالفوا الیھود والنصاری"(یہود اور نصاریٰ کی مخالفت کرو) (ابوداؤد)
ان احادیث میں عیسائی کی تمام چیزوں کی مخالفت مراد نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرح کچھ استعمال کرنا ان کی مشابہت ہے ۔ یہاں مشابہت سے مراد غیر قوم كا مذہبی شعار کو اپنانا ہے ۔ اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ ٹائی عیسائیوں کا مذہبی شعار نہیں ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : "تشبہ سے مراد جو غیرمسلم کی مذہب سے جڑی ہوئی چیز ہے اسے اپنانا"۔
بات بالکل صاف ہوگئی کہ ٹائی عیسائی کا نہ تو شعار ہے اور نہ ہی صلیب کی شکل ہے ،اس لئے اس کا استعمال حرام نہیں ٹھہرے گا ، کوئی چاہے تو اسے پہن سکتا ہے اس پر کوئی طعن و تشنیع نہیں کیا جائے گا اور کوئی نہ پہنے تو اس پر زبردستی بھی نہیں کی جائے گی ۔
واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment