سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 8..
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے حضرت اسمائیل علیہ السلام کے ساتھ ملکر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو آپ کی تبلیغ سے قبائل جرھم و قطورا نے دین ابراھیمی قبول کرلیا اور اللہ کو ایک خدا مان لیا.. حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسمائیل علیہ السلام کے اثر سے بعد میں مکہ آباد ھونے والے بھی دین حنیف یعنی حضرت ابراھیم علیہ السلام کا دین قبول کرتے رھے.. تب آل اسمائیل سمیت تمام قبائل مکہ صرف ایک واحد خدا کی عبادت کے قائل تھے اور خانہ کعبہ کا تقدس پوری طرح سے قائم تھا لیکن جب حضرت اسمائیل علیہ السلام کی وفات کے بعد پھر کوئی نبی اھل مکہ کی راھنمائی کے لیے مبعوث نہ ھوا تو آھستہ آھستہ ان میں شرک و گمراھی پھیلنے لگی..
پچھلی ایک قسط میں ذکر کیا گیا کہ جب مکہ پر قبیلہ ایاد و بنو خزاعہ یکے بعد دیگرے حملہ آور ھوۓ تو بنو اسمائیل کے کئی قبائل کو مکہ چھوڑنا بھی پڑا.. تب یہ لوگ برکت کی غرض سے کعبہ کا ایک پتھر بھی اپنے ساتھ لے گئے.. کعبہ سے نسبت کی وجہ سے وہ اس کی بہت تعظیم کرنے لگے.. اس تعظیم کا اثر یہ ھوا کہ آھستہ آھستہ آنے والے وقت میں ان کی آل اولاد نے خود اسی پتھر کو معبود مجازی کا درجہ دے دیا.. اس طرح ان میں شرک رائج ھونا شروع ھوا..
لیکن حقیقی معنوں میں عربوں اور خصوصا" اھل مکہ میں باقائدہ شرک و بت پرستی کا آغاز حضرت ابراھیم علیہ السلام سے کم و بیش ڈھائی ھزار سال بعد ھوا جب بنو خزاعہ نے مکہ پر قبضہ کیا.. عربوں میں بت پرستی کا آغاز کرنے والا قبیلہ خزاعہ کا سردار " عمرو بن لحی" تھا.. یہ شخص خانہ کعبہ کا متولی تھا.. ایک بار جب وہ شام گیا تو وھاں اس نے لوگوں کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھا..
یہ کل پانچ بت تھے جن کے نام "ود , یغوث , سواع , یعوق اور نسر" تھے.. ان بتوں کو قوم نوح علیہ السلام پوجا کرتی تھی.. یہ شخص وھاں سے ان کے بت ساتھ لے آیا اور واپسی پر ان کو جدہ کے ایک مقام پر دفن کردیا.. جب مکہ واپس پہنچا تو وھاں مشھور کیا کہ اسے اس کے تابع جن نے ان بتوں کا پتہ بتایا ھے جنہیں قوم نوح پوجا کرتی تھی.. پھر وہ اھل مکہ کو جو پہلے ھی شرک و بت پرستی کی طرف راغب ھوچکے تھے , ساتھ لیکر جدہ پہنچا اور وھاں سے وہ بت زمین کھود کر نکال لیے اور انہیں مکہ لا کر خانہ کعبہ میں رکھ دیا جھاں تعظیم کے نام پر ان بتوں کی عبادت شروع ھوگئی اور ان بتوں کو مختلف خدائی صفات کا مالک تصور کیا جانے لگا..
آھستہ آھستہ اھل مکہ خود نئے نئے بتوں کو ڈھالنے لگا اور تب بہت سے ایسے بت بناۓ گئے جنہیں آنے والے دور میں مشرکین عرب میں بے پناہ اھمیت حاصل ھوئی..
چونکہ کعبہ کی وجہ سے مکہ پورے جزیرہ نما عرب کا مرکز تھا تو جب باھر سے مختلف قبائل کے لوگ حج کے دنوں میں مکہ آتے تو وھاں ان بتوں کی پرستش ھوتے دیکھ کر واپسی پر ان بتوں کی شبیہیں بنوا کر ساتھ لے جاتے اور اپنے علاقے میں ان کو نصب کرکے ان کی پوجا شروع کردیتے..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.رحمھمااللہ
منقول؛ ڈاکٹرزبیر احمدحفظہ اللہ
الدعی الی الخیر؛عبدالستار
No comments:
Post a Comment