سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 12..
سابقہ اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ اور مذھب یہودیت و عیسائیت کا تذکرہ کیا گیا.. اس قسط میں ھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود باقی مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے..
آتش پرست..
ایران و عراق کی سرحد کے پاس آباد عرب قبائل ایرانیوں کے مذھب آتش پرستی سے بہت متاثر ھوۓ.. اھل ایران کی طرح یہ بھی نیکی اور بدی کے دو الگ الگ خداؤں کے قائل تھے اور اھل ایران کی طرح آگ کو خدا کا ظہور مانتے اور اس کی پوجا کرتے تھے..
صائبی..
عرب جاھلیت ایسے لوگ بھی تھے جن میں ستارہ پرستی کا چرچا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے.. غالبا" ان کا مذھب وادی دجلہ و فرات کی قدیم تہذیبوں کی باقیات میں سے تھا.. ان کا دعو'ی تھا کہ ان کا مذھب الہامی مذھب ھے اور وہ حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے پیروکار ھیں.. ان کے ھاں سات وقت کی نماز اور ایک قمری مہینہ کے روزے بھی تھے.. ان کو مشرک عرب معاشرہ صابی یعنی بے دین کہہ کر پکارتا تھا.. یمن کا مشھور قبیلہ "حمیر" سورج کی پوجا کرتا تھا.. قبیلہ اسد سیارہ عطارد کی اور قبیلہ لحم و جزام سیارہ مشتری کو دیوتا مان کر پوجتے تھے.. بعض لوگ قطبی ستارہ کے پجاری تھے اور قطب شمالی کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے.. یہ لوگ خانہ کعبہ کی بھی بہت تکریم کرتے تھے..
دھریت..
ان تمام مذاھب کے ساتھ ساتھ عرب میں ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے تھے جو سرے سے مذھب اور خدا پر یقین ھی نہ رکھتے تھے.. یہ نہ بت پرست تھے اور نہ کسی الہامی مذھب کے قائل تھے.. ان کے نزدیک خدا , حشر و نشر , جنت دوزخ اور جزا سزا کا کوئی وجود نہ تھا.. یہ دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے..
مسلک توحید کے علم بردار..
عرب معاشرہ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنی فطرت سلیم اور قلبی بصیرت کی بدولت توحید خالص تک پہنچنے میں کامیاب ھوگئے تھے.. یہ لوگ ایک خدا کے قائل تھے اور شرک و بت پرستی سے نفرت کرتے تھے.. ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل , حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سگے چچا زید بن عمر بن نفیل اور عبیداللہ بن حجش مشھور ھیں.. دین حق کی تلاش میں سرگرداں ان لوگوں میں سے ورقہ بن نوفل بلآخر عیسائی ھوگئے.. یہ وھی ورقہ بن نوفل ھیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ھونے پر آپ کی نبوت کی تصدیق کی تھی.. عبیداللہ بن حجش اسلام کے بعد مسلمان ھوگئے لیکن حبشہ ھجرت کی تو وھاں بدقسمتی سے مرتد ھوکر عیسائی ھوگئے جبکہ ان میں زید بن عمر بن نفیل کو بہت اونچا مقام حاصل ھے.. حالاں کہ ان کو اسلام نصیب نہیں ھوا کیونکہ وہ پہلے ھی وفات پاگئے تھے لیکن ان کی فضیلت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے لگایا جاسکتا ھے کہ جب قیامت کے دن ھر امت اپنے نبی کی قیادت میں اٹھاۓ جائی گی تو زید بن عمر بن نفیل اکیلے ایک امت کے طور پر اٹھاۓ جائیں گے..
زید بن عمر بن نفیل نے بت پرستی , مردار خوری , خون ریزی اور دیگر تمام معاشرتی خباثتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور جب ان سے ان کے مذھب کے متعلق پوچھا جاتا تو آپ جواب دیتے کہ
" اعبد رب ابراھیم " میں ابراھیم کے رب کی پرستش کرتا ھوں..
آپ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قریش کو کہتے کہ میرے سوا تم میں ایک بھی شخص دین ابراھیمی پر نہیں ھے.. آپ قوم کو بت پرستی سے منع کرتے رھتے تھے..
گو عرب میں ھر قسم کے دین موجود تھے مگر ان کی اصلی صورت اتنی مسخ ھوچکی تھی کہ کفر و شرک اور دین میں امتیاز کرنا مشکل ھوچکا تھا.. توحید جو ھر الہامی مذھب کا خاصہ تھا اس کا کسی مذھب میں کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور کفر و شرک و توھم پرستی کا اندھیرا صرف عرب ھی نہیں تمام معلوم دنیا پر چھایا ھوا تھا.. غرض تمام ھی دنیا ضلالت و گمراھی کی دلدل میں غرق ھوچکی تھی..
تب خداۓ بزرگ و برتر کو اھل زمیں کی اس پستی و زبوں حالی پر رحم آیا اور اس نے ان میں اپنا عظیم تر پیغمبر مبعوث فرمایا..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھمااللہ
منقول ؛ڈاکٹرزبیراحمد حفظہ اللہ
ناشر ؛عبدالستار
No comments:
Post a Comment