اھل الحدیث سے مراد محدثین کرام اور عوام دونوں ہیں
یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ اھل الحدیث سے مراد صرف محدثین ہیں جبکہ حقیقت میں اھل الحدیث سے مراد محدثین (صحیح العقیدہ) اور حدیث پر عمل کرنے والے ان کے عوام دونوں مراد ہیں اس کی فی الحال دس دلیلیں پیش خدمت ہیں:
1) علمائے حق کا اجماع ہے کہ طائفہ منصورہ (فرقہ ناجیہ) سے مراد اہلحدیث ہیں جس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہےتو کیا فرقہ ناجیہ صرف محدثین ہیں؟
ہرگز نہیں یہ بالکل خلاف عقل اور خلاف حقیقت ہے، طائفہ منصورہ اھل الحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔
2) امام اہلسنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
"احب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث
" ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے۔
(مناقب الامام احمد بن حنبل لابن الجوزی ص۲۰۹ و سندہ صحیح)
3) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اہلحدیث کا یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے حدیث سنی، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ، معرفت اور فہم کا ظاہری اور باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری اور باطنی لحاظ سے اس کی اتباع کرتا ہے ۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۴ ص ۹۵)
4) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اہل حدیث کی یہ صفت بیان کی ہے:
"وہ حدیثیوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں"
(صحیح ابن حبان، الاحسان : ۶۱۲۹)
5) امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ (المتوفی ۲۵۹ ھجری) نے فرمایا: دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہلحدیث سے بغض نہیں رکھتا (معرفة علوم الحدیث للحاکم ص۴ وسندہ صحیح)
یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ صحیح العقیدہ محدثین اور ان کے عوام سے اہل بدعت بہت بغض رکھتے ہیں۔
6) قرآن مجید سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے امام کیساتھ پکارا جائے گا (بنی اسرائیل:۷۱) اس کی تشریح میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہلحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہيں (تفسیر ابن کثیر ۱۶۴/۴)
کیا صرف محدثین کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ نہیں بلکہ اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں
7) امام ابن قیم نے اپنے مشہور قصیدے نونیہ میں فرمایا: " اے اہل حدیث سے بغض رکھنے والے اور گالیاں دینے والے تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو" (الکافیہ الشافیہ ص ۱۹۹)
8) امام جلال الدین سیوطی نے بنی اسرائیل:۷۱ کی تفسیر میں نقل فرمایا: "اہل حدیث کے لیئے اس سے زیادہ فضیلت والی کوئی اور بات نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ان کا کوئی امام نہیں۔(تدریب الراوی جلد۲ ص ۱۲۶)
یہاں بھی اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔
9) ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر البغدادی (المتوفی ۴۲۹ ھجری) نے ملک شام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کہا: وہ سب اہلسنت میں سے اہلحدیث کے مذہب پر تھے۔ (اصول دین ص ۳۱۷)
یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ صرف محدثین ہی مذکورہ سرحدی علاقوں میں رہتے تھے اور وہاں ان کے عوام موجود نہیں تھے لہذا اس حوالے سے بھی ثابت ہوا کہ محدثین کے عوام بھی اہل حدیث ہیں۔
10) ابو عبداللہ محمد بن احمد بن البناء المقدسی البشاری (متوفی ۳۸۰ ھجری) نے اپنے دور کے اہل سندھ کے بارے میں لکھا:
"مذاھبھم أکثرھم أصحاب حدیث ورأیت القاضي أبا محمد المنصوري داودیًّا إماماً في مذھبھ ولھ تدریس و تصانیف، قدصنّف کتباً عدّة حسنةً"
ان سندھیوں کے مذاہب میں اکثر اہلحدیث ہیں اور میں نے قاضی ابو محمد المنصوری کو دیکھا، وہ داؤد ظاہری کے مسلک پر اپنے مذہب (اہل ظاہر) کے امام تھے، وہ تدریس بھی کرتے ہیں اور کتابیں بھی لکھتے ہیں، انہوں نے بہت سی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔
احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ص ۳۶۳)
بشاری نے سندھیوں کی اکثریت کو اہلحدیث قرار دے کر ثابت کر دیا کہ محدثین کی طرح صحیح العقیدہ عوام بھی اہلحدیث ہیں نیز (1867 میں) فرقہ دیوبند کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے۳۸۰ ھجری میں سندھ میں اہلحدیث اکثریت میں تھے۔
No comments:
Post a Comment