یہ صفحہ زیر نظر کیجیے
سراج الدولہ
اصل نام : مرزا محمد
لقب: سراج الدولہ نواب بنگال
والد کا نام : زین العابدین
والدہ کانام : آمینہ بیگم
تاریخ پیدائش:1733ء
تاریخ شہادت:2جولائی 1757ء
بیوی : لطف النساءبیگم
اولاد: ایک بیٹی ۔قدسیہ بیگم
خاندان: افشار
مرزا محمد سراج الدولہ المعروف نواب سراج الدولہ (1733ء تا 2 جولائی 1757ء) بنگال، بہار اور اڑیسہ کے آخری صحیح المعنی آزاد حکمران تھے۔ 1757ء میں ان کی شکست سے بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔
ابتدائی حالات زندگیترميم
نواب سراج الدولہ کے والد زین الدین بہار کے حکمران تھے۔ جبکہ والدہ امینہ بیگم بنگال کے نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ چونکہ نواب علی وردی خان کی کوئی نیرینہ اولاد نہیں تھی اس لیے شروع ہی سے خیال کیا جاتا تھا کہ مرشد آباد یعنی بنگال کے تخت کے وارث بھی نواب سراج الدولہ ہی ہوں گے۔ ان کی پرورش نواب علی وردی خان کے محلات میں ہوئی اور انہوں نے اوائلِ جوانی سے ہی جنگوں میں نواب علی وردی خان کے ہمراہ شرکت کی مثلاً 1746ء میں مہاراشٹر میں ہندؤوں کو شکستِ فاش دی۔ 1752ء میں نواب علی وردی خان نے سرکاری طور پر سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ نواب ایک مذہبی آدمی تھا اور علی وردی خان کی طرح اس کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔
حکمرانی
جنگ پلاسی
نواب کی شہادتترميم
نواب جنگ میں شکست کے بعد مرشد آباد اور بعد میں پٹنہ چلے گئے انہوں نے اپنی بیوی لطف النساء بیگم اور بیٹی کے ہمراہ بھیس بدل کر ایک خانقاہ“میر بعنہ شاہ“ میں روپوش تھے جہاں میر جعفر کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ میر جعفر کے بیٹے میرمیران کے حکم پر محمد علی بیگ نے نواب کو نماز فجر کے بعد شہید کر دیا۔بعض روایات میں نواب کو نماز اور سجدہ کی حالت میں سرقلم کرکے سزائے موت دی گئی نواب کا مزار مرشد آباد کے ایک باغ “خوش باغ“ میں واقع ہے اگرچہ یہ مزار کی عمارت سادہ ہے مگر عوام کے آداب کامرکزہے ۔اس طرح ایک مسلمان نے مسلمان کے ساتھ غداری اور قتل کرکے غیر مسلموں یعنی انگریزوں کی حکومت کے قیام میں مدد کی۔
نمک حرام ڈیوڑھی
جس مقام پر نواب سراج الدولہ کو شہید کیاگیا یہ میر جعفر کی رہائش گاہ تھی جسے بعد میں عوام نے “نمک حرام ڈیوڑھی “ کانام دیا ۔غداروں نے نواب کی میت کو ہاتھی پر رکھ کر مرشدآباد کی گلیوں میں گھمایا تاکہ عوام کو یقین ہوجائے کہ نواب قتل ہوچکاہے اور نیانواب میر جعفر تخت نشین ہوگا ۔
جنگ کے بعدترميم
انگریزوں نے نواب کا خزانہ لوٹ لیا۔ انگریزوں نے مال تقسیم کیا۔ صرف کلائیو کے ہاتھ 53 لاکھ سے زیادہ رقم ہاتھ آئی۔ جوہرات کا تو کوئی حساب نہ تھا۔ میر جعفر کو ایک کٹھ پتلی حکمران کے طور پر رکھا گیا مگر عملاً انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ تاریخ نے خود کو دہرایا اور بیسویں صدی میں اسکندر مرزا پاکستان کے صدر کی حیثیت سے امریکیوں کے مفادات کی ترجمانی کرتا رہا۔ انگریزوں نے ایسے حالات پیدا کیے جس سے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا اور بعد میں میر قاسم کو حکمران بنا دیا گیا جس کے بھی انگریزوں سے اختلافات ہو گئے۔ چنانچہ ان کے درمیان جنگ کے بعد پورے بنگال پر انگریز قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ پورے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کی صورت میں نکلا۔
: حکمرانیترميم
ان کا دورِ حکمرانی مختصر تھا۔ 1756ء میں علی وردی خان کے انتقال پر 23 سال کی عمر میں بنگال کے حکمران بنے۔ شروع سے ہی بنگال میں عیار برطانوی لوگوں سے ہشیار تھے جو بنگال میں تجارت کی آڑ میں اپنا اثر بڑھا رہے تھے۔ خصوصاً ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کے خلاف سازشیں تیار کی جو نواب کو معلوم ہو گئیں۔ اولاً انگریزوں نے نواب کی اجازت کے بغیر کلکتہ کے فورٹ ولیم (قلعہ ولیم) کی دیواریں پختہ اور مزید اونچی کیں جو معاہدوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔ دوئم انگریزوں نے بنگال کے کچھ ایسے افسران کو پناہ دی جو ریاست کے خزانے میں خرد برد کے مجرم تھے۔ سوم انگریز خود بنگال کی کسٹم ڈیوٹی میں چوری کے مرتکب تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر نواب اور انگریزوں میں مخالفت کی شدید فضا پیدا ہو گئی۔ جب رنگے ہاتھوں ٹیکس اور کسٹم کی چوری پکڑی گئی اور انگریزوں معاہدوں کے خلاف کلکتہ میں اپنی فوجی قوت بڑھانا شروع کی تو نواب سراج الدولہ نے جون 1756ء میں کلکتہ میں انگریزوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے متعدد انگریزوں کو قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے قید کر لیا۔ نواب سراج الدولہ کے مخالفین سے انگریزوں نے رابطہ کیا۔ ان مخالفین میں گھسیٹی بیگم (سراج الدولہ کی خالہ)، میر جعفر المشہور غدارِ بنگال اور شوکت جنگ (سراج الدولہ کا رشتہ دار) شامل تھے۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا۔ نہائت بد فطرت آدمی تھا۔ نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا۔ پاکستان کےپہلے صدر اسکندر مرزا اس کی نسل سے تھے۔ سازش سے واقف ہونے کے بعد نواب سراج الدولہ نے گھسیٹی بیگم کی جائیداد ضبط کی اور میر جعفر کو اس کے حکومتی عہدہ سے تبدیل کر دیا۔ میر جعفر اگرچہ ریاستی معاملات سے متعلق رہا مگر اس نے انگریزوں سے ساز باز کر لی اور جنگ پلاسی میں نواب سے غداری کرتے ہوئے نواب کی شکست کا باعث بنا۔ انگریزوں نے میر جعفر کو اقتدار کا لالچ دیا تھا۔
[ جنگ کے بعدترميم
انگریزوں نے نواب کا خزانہ لوٹ لیا۔ انگریزوں نے مال تقسیم کیا۔ صرف کلائیو کے ہاتھ 53 لاکھ سے زیادہ رقم ہاتھ آئی۔ جوہرات کا تو کوئی حساب نہ تھا۔ میر جعفر کو ایک کٹھ پتلی حکمران کے طور پر رکھا گیا مگر عملاً انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ تاریخ نے خود کو دہرایا اور بیسویں صدی میں اسکندر مرزا پاکستان کے صدر کی حیثیت سے امریکیوں کے مفادات کی ترجمانی کرتا رہا۔ انگریزوں نے ایسے حالات پیدا کیے جس سے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا اور بعد میں میر قاسم کو حکمران بنا دیا گیا جس کے بھی انگریزوں سے اختلافات ہو گئے۔ چنانچہ ان کے درمیان جنگ کے بعد پورے بنگال پر انگریز قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ پورے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کی صورت میں نکلا۔
No comments:
Post a Comment