QURBANI KA PAIGAM

📝📝📝📝📝
بسم اللہ الرحمن الرحیم

🌹🌹🌹🌹🌹
خطبہ جمعہ مبارکہ

🎤🎤🎤🎤🎤
موضوع
قربانی کا پیغام میرے اور آپ کے نام
✒️✒️✒️✒️✒️
بقلم
عمران محمدی( عفا اللہ عنہ )
جامعہ الدعوہ الاسلامیہ مرکز طیبہ مرید کے
🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰

👈1 قربانی اخلاص کا درس دیتی ہے کہ اعمال صالحہ خالص اللہ تعالٰی کے لیے ہی بجا لائے جائیں

🌷قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ
کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔
الأنعام - آیت 162

👈👈2 قربانی تقوی کا درس دیتی ہے

🌲لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَـكُمۡ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ‌ؕ وَبَشِّرِالۡمُحۡسِنِيۡنَ
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے انھیں تمہارے لیے مسخر کردیا، تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دے۔ الحج - آیت 37

🌲🌲 ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَ أَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ أَعْمَالِکُمْ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ۔۔ : ٣٤؍ ٢٥٦٤ ] ” اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔ “

👈👈👈3 قربانی سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اسوہ حسنہ پر بھی عمل کرنے کا پیغام دیتی ہے کیونکہ قربانی سنت ابراہیم علیہ السلام ہے

🌱قَدۡ كَانَتۡ لَـكُمۡ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ فِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗ‌ۚ
یقینا تمہارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ ہے الممتحنة - آیت 4

🌱🌱اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ‌ فَبِهُدٰٮهُمُ اقۡتَدِهۡ ‌ؕ
یہی( انبیاء )وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر، الأنعام - آیت 90

👈👈👈👈4 قربانی، اللہ تعالٰی کی راہ میں جان، مال اور اولاد تک کی قربانیوں کے لیے تیار کرتی ہے
اسی لئے تو پہلے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور یہی قربانی کا فلسفہ ہے

🌳فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعۡىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌  سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ
پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے ! بلاشبہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ بیشک میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے ؟ اس نے کہا اے میرے باپ ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے تو اسے کر گزر اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھے ضرور صبر کرنے والوں میں سے پائے گا
الصآفات 102

👈👈👈👈👈5 قربانی اپنے سب سے اچھے اور محبوب مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا پیغام دیتی ہے

🕯️دلیل.... اسی لیے ابراہیم علیہ السلام کو پہلے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا

🕯️🕯️دوسری دلیل.... اسی لیے قربانی کے جانور کے لیے جوان، تندرست اور بے عیب ہونے کی شروط لگائی گئی ہیں تاکہ اللَّهُ کی راہ میں محبوب ترین مال خرچ کرنے کی عادت پیدا ہو

🕯️🕯️🕯️ فرمان باری تعالٰی
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ
تم پوری نیکی ہرگز حاصل نہیں کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
آل عمران - آیت 92

👈👈👈👈👈👈 6 قربانی، غریبوں، مسکینوں اور عام مسلمانوں کو کھانہ کھلانے، مظلوم اور دکھی انسانیت کی خدمت کا درس دیتی ہے

🖊️فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡبَآٮِٕسَ الۡفَقِيۡـرَ
  سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
الحج - آیت 28

🖊️🖊️فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَـرَّ ‌ؕ
تو ان سے کچھ کھاؤ اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔
الحج - آیت 36

🖊️🖊️🖊️ جس سال مدینہ منورہ میں باہر سے کافی زیادہ تعداد میں لٹے پھٹے مہاجرین آئے تھے اس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین دن سے زیادہ گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا تھا تاکہ ان سے تعاون کیا جا سکے

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَلِعَمْرَةَ فَقَالَتْ صَدَقَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَى زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادَّخِرُوا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاكَ قَالُوا نَهَيْتَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا..... مسلم

👈👈👈👈👈👈👈7__ قربانی درس دیتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی نعمتیں اور نشانیاں دیکھ کر سبق حاصل کیا جائے اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا جائے

🌷وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰهَا لَـكُمۡ مِّنۡ شَعَآٮِٕرِ اللّٰهِ لَـكُمۡ فِيۡهَا خَيۡرٌ‌ ‌ۖ  فَاذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهَا صَوَآفَّ‌ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُهَا فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَـرَّ ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرۡنٰهَا لَـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏
اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے، تمہارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں، پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھاؤ اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ اور مانگنے والے کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انھیں تمہارے لیے مسخر کردیا، تاکہ تم شکر کرو۔
الحج - آیت 36

👈👈👈👈👈👈👈👈8 قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ اللہ تعالٰی کو جوانی کی عبادت اور جوانی کی قربانی بہت پسند ہے
🌳یعنی اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی عین جوانی، صحت اور تندرستی کی حالت میں اللہ تعالٰی کے لیے وقف رکھا جائے یہ نہیں کہ جب خود بوڑھے ہوگئے تو مسجد میں ڈیرے ڈال دیے اور اپنی اولاد میں سے بھی جو بچہ سب سے زیادہ نالائق، کمزور اور اپاہج ہو اسے مسجد، مدرسہ اور حفظ قرآن کے لیے چھوڑ دیا

🌳🌳اسی لیے لاغر، کمزور، لنگڑے، بھیگنے اور انتہائی بوڑھے جانور کی قربانی سے منع کیا گیا ہے

🌳🌳🌳 عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ مَاذَا يُتَّقَى مِنْ الضَّحَايَا فَقَالَ أربع....... الْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا وَالْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي

👈👈👈👈👈👈👈👈👈9__قربانی ہمارے گھروں اور گلی محلوں کو خون سے رنگین کرکے جہاد فی سبیل اللہ کا پیغام دیتی ہے

🌷اور اپنے بیٹوں، بھائیوں کی اللہ کی راہ میں قربانی کیلئے تیار کرتی ہے

🌷دلیل... جیسا کہ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم قربانی کے اصل فلسفے کی طرف اشارہ کررہا ہے

👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈10 قربانی توحید کا پیغام دیتی ہے کہ معبود و مسجود صرف ایک اللہ رب العزت کی ذات اقدس ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کی کسی بھی قسم کا مستحق نہیں ہے

🌲قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ
کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔
الأنعام - آیت 162

🌲🌲 مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی قلبی، زبانی اور جسمانی عبادات، مثلاً قیام، رکوع اور سجود، یہ سب غیر اللہ کے لیے تھیں، اسی طرح ان کی قربانیاں اور زندگی اور موت کا وقت سب انھی کی نذر تھا، ہاں کبھی اللہ تعالیٰ کو بھی شامل کرلیتے تھے۔ فرمایا، ان سے صاف کہہ دیجیے کہ میرا تو یہ سب کچھ ایک اللہ کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے یہی حکم ہے اور سب سے پہلے میں اپنے آپ کو ایک اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے والا اور اس کا فرماں بردار بنانے والا ہوں، میرا جینا اور مرنا بھی اس اکیلے کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے ساتھ شرک کو ختم کرنے کے لیے ہے، حتیٰ کہ اسی پر میری موت آجائے۔( الأستاذ بھٹوی ح)

🌲🌲🌲فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
الكوثر - آیت 2

👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈11قربانی اتباع سنت کا پیغام دیتی ہے اور یہ کہ خلاف سنت اعمال قبول نہیں ہوتے

🌱دلیل.... ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے سنت سے ہٹ کر عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے کہا تھا کہ یہ گوشت کا جانور ہے قربانی نہیں ہے

🌱🌱 عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ نَحَرَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنْ النُّسْكِ فِي شَيْءٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ فَقَالَ اجْعَلْهُ مَكَانَهُ وَلَنْ تُوفِيَ أَوْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ..... بخاري

👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈12 قربانی اللہ کی راہ میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے کا پیغام دیتی ہے

🎋دلیل.... نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی موقعہ پر سو اونٹ قربان کیے

👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈13__قربانی، جانوروں پر بھی رحم، شفقت اور نرمی کرنے کا پیغام دیتی ہے

🌲عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ
یعنی جب تم جانور کو ذبح کرو تو احسان کے ساتھ ذبح کرو اور اپنی چھری کو خوب تیز کرکے اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ....... مسلم

🌲🌲اسی طرح قربانی کے جانوروں کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے
 
🌲🌲🌲يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآٮِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهۡرَ الۡحَـرَامَ وَلَا الۡهَدۡىَ وَلَا الۡقَلَٓاٮِٕدَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! نہ اللہ کی نشانیوں کی بےحرمتی کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ حرم کی قربانی کی اور نہ پٹوں (والے جانوروں) کی
المائدة - آیت 2

🌲🌲🌲🌲مزید فرمایا
َ  وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآٮِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ
اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ ۔ الحج - آیت 32

🌲🌲🌲🌲🌲قربانی کے جانور بھی ” شعائر اللہ “ میں داخل ہیں، چناچہ فرمایا : (وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ ) [ الحج : ٣٦ ] ” اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔ “ ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آتے ہوئے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے، جانور قیمتی خریدے اور عیب دار جانور نہ خریدے۔ ان پر جھول اچھی ڈالے، انھیں خوب کھلائے پلائے اور سجا کر رکھے، جیسا کہ گلے میں قلادے ڈالنے سے ظاہر ہے، مجبوری کے بغیر ان پر سواری نہ کرے،  اور قربانی کے بعد ان کے جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دے۔( شیخ بھٹوی ح)

👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈👈14__قربانی, چند عارضی پابندیوں سے گزار کر مستقل حرام اور ممنوع کاموں سے اجتناب کی مشق کرواتی ہے
مثال کے طور
🌱دس دن ناخن اور بال نہیں کاٹنے

🌷بوڑھا جانور ذبح نہیں کرنا

🌳کمزور جانور ذبح نہیں کرنا

🌲بھینگا اور لنگڑا جانور ذبح نہیں کرنا

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
🌹🌹🌹🌹🌹

PASHU _BALI (QURBANI )AUR ISLAM

पशु-बलि (कुरबानी) और इस्लाम
पशु-बलि को विश्व के दो बड़े धर्मो, सनातन धर्म और इस्लाम धर्म में मान्यता प्राप्त हैं; सनातन धर्म के अनुसार ‘देवताओं को प्रसन्न करने के लिए’। और इस्लाम धर्म के अनुसार ‘अल्लाह को प्रसन्न करने के लिए’ पशु-बलि का विधान हैं। सनातन धर्म में ‘देवताओ। को प्रसन्न करने’ से क्या अभिप्रेत हैं और मनुष्य के आध्यात्म, आचार-विचार एवं चरित्र व आचरण पर पशु-वध के क्या अच्छे प्रभाव पड़ते हैं तथा मनुष्य के व्यक्तिगत व सामाजिक जीवन मे नैतिक स्तर पर, पशु-वद्य द्वारा कैसे सकारात्मक प्रभाव पड़ने अपेक्षित हैं यह इस लेख का विषय नही, अपितु सनातन धर्मावलंबियो, विचारकों एवं धर्म-विद्याचार्यो के लिए अपने आप में एक शोध-विषय हैं। अलबत्ता, इस संबंध में इस्लामी दृष्टिकोण यह हैं- इस्लाम में इस्लामी कैलेंडर (हिजरी सन्) के बारहवें मास ‘जिल-हिज्जा’ की दसवी, ग्यारहवी व बारहवीं तिथि को ‘र्इद-उल-अजहा’ त्योहार के अवसर पर पशु की बलि दी जाती हैं जिसे कुरबानी कहा जाता हैं। इसके अतिरिक्त हज को जाने वाले हर व्यक्ति पर भी यह कुरबानी अनिवार्य हैं। विश्व के अन्य भागो मे जानवर की कुरबानी करने की सामथ्र्य रखनेवाले हर मुसलमान पर (जो बालिग भी हो) कुरबानी अनिवार्य हैं। यह बलि, निर्दयता व हिंसा का द्योतक नही हैं। यह न मात्र पशु-हत्या हैं, न ही मात्र एक धार्मिक रीति जिसका कोर्इ महान ध्येय और मनुष्य के जीवन की व्यावहारिकताओं में कोर्इ रचनात्मक भूमिका एवं महत्वपूर्ण योगदान न हो। कुरबानी का एक प्रामाणिक व विश्वसनीय इतिहास हैं जो विश्व के सबसे अधिक प्रामाणिक र्इश-ग्रन्थ (हिन्दू धर्म-ग्रन्थों मे स्पष्ट रूप् से पशु-वध की अनुमति तथा आदेश मौजूद हैं। देखे:

मनु-3/123, 3/268, 5/23, 5/27-28, 5/35-36
ऋ0-10/27/2, 10/28/3
अथर्व0-9/6/4/43/8
श0ब्रा0-3/1/2/21)

‘कुरआन’ मे उल्लिखित हैं तथा जिसकी व्याख्या अंतिम र्इश-दूत (पैगम्बर) हजरत मुहम्मद (सल्ल0) के अति विश्वसनीय कथनों (हदीस) में वर्णित हैं। इतिहास के साथ-साथ इसका असल उद्देश्य भी, इस्लाम के उपरोक्त दोनों मूल-स्रोतो में खोल-खोलकर वर्णित कर दिया गया हैं। इस इतिहास पर एक दृष्टि डाल लेना कुरबानी की इस्लामी अवधारणा को समझने के लिए अनिवार्य हैं।

कुरबानी का इतिहास

            कुरबानी का इतिहास 4000 वर्ष पुराना हैं जिसका आरंभ इस्लाम (तथा यहूदी व र्इसार्इ धर्म) के महान पैगम्बर हजरत इब्राहीम (अलैहि0) से संबंधित एक असाधारण घटना से होता है। यह घटना तीनों धर्मो के धर्म-ग्रन्थों में उल्लिखित हैं तथा कुरआन, इन तीनों में एक मात्र प्रामणिक र्इश-ग्रंथ हैं।

4000 वर्ष पूर्व जब अज्ञानता के घोर अंधकार में, मानव-जाति निराकार एकेश्वरवाद की सीधी राह से भटक कर साकार अनेकेश्वरवाद की मिथ्या धारणा में फंसी हुर्इ थी; सूर्य, चन्द्रमा, नक्षत्रों, तारो, पत्थरो, प्रेतात्माओं, पूर्वजों और शक्तिशाली शासकों की उपासना और मूर्ति-पूजा में लिप्त तथा नाना प्रकार के अंधविश्वासों व आडम्बरों से ग्रस्त थी। अपने से तुच्छ थी। अपने से तुच्छ पदार्थो के सामने एवं अपने ही जैसे मनुष्यों के चरणों में शीश नवाते-नवाते मनुष्य की गरिमा, गौरव व स्वाभियान  (जो र्इश-प्रदत्त था) अपमानित और छिन्न-भिन्न हो चुका था, तात्कालिक पूरी मानव-जाति मे एकेश्वरोपासक एक भी व्यक्ति बाकी न रह गया था। इन विषम परिस्थितियों मे र्इराक के ‘उर’ नामक नगर के वासी ‘महंत-महापुजारी’ ‘‘आजर’’ के घर मे, उसी के बेटे ‘इब्राहीम को र्इश्वर ने, शिर्क (अनेकेश्वर-पूजा) के घोर मे तौहीद( विशुद्ध एकेश्वरवाद) की ज्योति जलाने के लिए चुन लिय और उन्हे अपना पैगम्बर (र्इश-दूत) नियुक्त किया।

हजरत इब्राहिम ने शिर्क के विरूद्ध ऐसे सशक्त एवं बुद्धिसंगत तर्क दिए जिनकी कोर्इ काट नही थी। फिर भी उनका घोर विरोध किया गया। वे इस ज्योति का प्रकाश फैलाने इराक से फिलिस्तीन, वहॉ से मिस्र और वहॉ से अरब प्रायद्वीप के मध्य-पश्चिम भाग मे गए। अल्लाह ने उनपर एक अत्यन्त कठिन कर्तव्य का भार डाला था। यह कर्तव्य एक ऐसा व्यक्ति ही निभा सकता था जो र्इश-आज्ञापालन, र्इश-भय, र्इशपरायणता एवं र्इश्वर के समक्ष संपूर्ण आत्मसमर्पण मे उत्कृष्ट, सुदृढ़ और अडिग हो। हर स्वार्थ, हर सुख, हर मनोकामना, हर लाभ, हर इच्छा और हर तरह के प्रेम हेतु बलि दे सकता हो। इतना उॅचा चरित्र और ऐसा सशक्त आत्मबल हजरत इब्राहीम के व्यक्तित्व में उत्पन्न करने के लिए अल्लाह ने बड़ी-बड़ी कठिनाइयों से गुजारकर उन्हे तैयार भी किया, प्रशिक्षण भी दिया और कर्इ कठिन परीक्षाएं भी जी। हर परीक्षा मे हजरत इब्राहीम (अलैहिस्सलाम) स्वंय को उत्तीर्ण सिद्ध करते गए यहां तक कि र्इश्वर ने उनकी अंतिम कठोरतम परीक्षा लेने का इरादा किया। उन्हें आदेश दिया कि (र्इश्वर के लिए) अपने पुत्र ‘इस्मार्इल’ की बलि दे।

इस्मार्इल (अलैहि0) इब्राहीम (अलैहि.) के इकलौते बेटे थे। वे बड़ी मिन्नत और आरजू के बाद इब्राहीम (अलैहि0) के बुढ़ापे मे पैदा हुए थे। अत: सहज ही इसका अनुमान लगाया जा सकता हैं कि इस्मार्इल (अलैहि0) इब्राहीम (अलैहि0) को कितने अधिक प्रिय और ऑखों के तारे रहे होंगे। अत: हजरत इब्राहीम (अलैहि0) अपने इकलौते पुत्र इस्मार्इल (अलैहि0) से बहुत अधिक प्यार करते थे। कोर्इ साधारण व्यक्ति होता तो ये बाते र्इश-आज्ञापालन में अवरोधक बनकर उसके आत्मबल को विचलित कर देने के लिए काफी होती और वह इस कठोर र्इश्वरीय परीक्षा मे नाकाम हो जाता लेकिन जिस व्यक्ति से र्इश्वर को भावी संसार में इंसानी नस्लों के लिए एकेश्वरवादी धर्म की मजबूत व चिरस्थायी नींव रखवानी थी उस व्यक्ति-हजरत इब्राहीम (अलैहिस्सलाम) ने इस परीक्षा में भी कामयाब होने की ठान ली। बेटे को इस र्इश्वरीय आदेश के बारे में बताया तो बेटे (इस्मार्इल) ने कहा, ‘‘ पिताजी, अल्लाह की ओर से जो आदेश हुआ हैं उसे पूरा कीजिए, र्इश्वर ने चाहा तो आप मुझे धैर्यवान और जमे रहनेवाला पाएंगे। ‘‘ घर से कुछ दूर ‘मिना’ की एक पहाड़ी पर ले जाकर बाप ने बेटे को लिटा दिया। छुरी गर्दन पर फेरने ही वाले थे कि र्इशवाणी हुर्इ कि ऐ इब्राहीम ! तुम परीक्षा में पूरे उतरे। प्रतिदिन के रूप में इस दुंबे (भेड़ समान पशु) की बलि दे दो। पास ही एक दु्रबा खड़ा हुआ मिला। हजरत इब्राहीम (अलैहि0) ने उसे कुरबान किया। कुरआन ने इसे ‘जिब्हिन-अजीम’ अर्थात् ‘महान बलिदान’कहा हैं।

इसी महाबलिदान को याद करने और याद रखने के लिए उसी तिथि को 4000 वर्ष से पशुओं की बलि और कुरबानी की रीति चली आ रही हैं।
काल-कालांतर मे इसमें कुछ विकृतियॉ आ गर्इ थी। लोग इस कुरबानी की असल स्पिरिट भी भूल चुके थे। आज से 1400 वर्ष पूर्व जब पैगम्बर मुहम्मद (सल्ल0) के माध्यम से विशुद्ध एकेश्वरवादी धर्म का पुनरागनम हुआ और आप (सल्ल0) पर र्इशवाणी (कुरआन) अवतरित हुर्इ तो कुरबानी के इतिहास को भी उसके शुद्ध व स्वच्छ रूप् मे लोगो के समक्ष लाया गया। र्इश-दूत हजरत मुहम्मद (सल्ल0) ने लोगो के सामने इसकी विस्तृत व्याख्या की ओर इस पर स्वंय अमल करके भी दिखाया। कुरआन मे अल्लाह ने फरमाया, ‘‘ (पशु का) न मांस अल्लाह तक पहुॅचता हैं न रक्त, अपितु उस तक जो चीज पहुॅचती है वह है तुम्हारा तकवा (र्इशपरायणता)।’’ हजरत मुहम्मद (सल्ल0) ने अपनी उंगली सीने पर हृदय के स्थान रखकर तीन बार फरमाया, ‘‘तकवा यहॉ होता है, तकवा यहॉ होता है, तकवा यहॉ होता है।’’ कुरआन और हदीस का एक पारिभाषिक शब्द हैं जिसका भावार्थ है ‘‘र्इश्वर की अवज्ञा (नाफरमानी) से बचते हुए जीवन का क्षण-क्षण बिताना’’। अर्थात् कोर्इ भी कार्य करते समय यह ध्यान अवश्य रखना कि कही वह र्इश्वर की दृष्टि में अनुचित, अवैध, वर्जित और पाप तो नही हैं (अनुचित, अवैध और पाप होने की पूरी व्याख्या कुरआन और हदीस मे उल्लिखित हैं)। अगर किसी काम में अल्लाह की नाफरमानी व अवज्ञा हैं तो उसपर अमल करना छोड़ देने को भी इस्लामी परिभाषा मे ‘तकवा’ कहते हैं।

निष्कर्ष

        उपरोक्त विवरण का निष्कर्ष यह हैं:

    सृष्टि के सृजनकर्ता-अल्लाह - ने पृथ्वी की सारी जीवधारी वस्तुए मनुष्य के प्रत्यक्ष-अप्रत्यक्ष उपयोग के लिए बनार्इ हैं। प्रत्येक उपभोग मे ‘मांसाहार’ भी आता हैं एवं इसे इस्लामी व गैर-इस्लामी समाजों में समान रूप् से मान्यता प्राप्त हैं। कुछ व्यक्तिगत या सीमित सामुदायिक अपवाद भी है जो नगण्य है।
    इस्लामी समाज में प्रचलित पशु-बलि (कुरबानी) का एक उत्कृष्ट व पवित्र इतिहास हैं। 1400 वर्ष से प्रतिवर्ष उसी इतिहास की याद ताजा की जाती हैं और मुस्लिम-समाज इस कुरबानी के माध्यम से अपने और अल्लाह के बीच ‘दास’ व ‘स्वामी’ के संबंध को घनिष्ट व दृढ़ करता हैं।
    कुरबानी के माध्यम से एक मुस्लिम व्यक्ति प्रयास करता हैं कि अपने अन्दर र्इश-भय (तकवा) के गुण को उन्नति व वृद्धि दे। बुरे और पाप के कामों से बचे ।
    कुरबानी के माध्यम से एक मुस्लिम व्यक्ति अपने अन्दर यह आत्मबल पैदा करने की आध्यात्मिक शक्ति अर्जित करता हैं कि सत्यनिष्ठ जीवन बिताने के लिए तथा र्इश आज्ञापालन मे वह बड़े से बड़े स्वार्थ, लाभ, हित और भावनाओं की कुरबानी दे सके और सत्य-मार्ग से विचलित कदापि न हो।

जीव-हत्या अपने में न तो सही हैं न गलत, न उचित हैं न अनुचित, न निन्दनीय हैं न सरायनीय। यह बात यूॅ भी कही जा सकती हैं कि जीव-हत्या अपने आप मे सही भी हैं, और गलत भी। सही या गलत होना इस बात पर निर्भर हैं कि जीव-हत्या का ‘उद्देश्य’ क्या हैं- और जीव-हत्या के संबंध में इस्लामी दृष्टिकोण भी यही हैं- मिसाल के तौर पर एक जीवित मेंढक की अनर्थ हत्या करके उसे फेंक दिया जाए तो यह इस्लाम की दृष्टि मे निर्दयता, हिंसा एवं पाप हैं लेकिन चिकित्सा-विज्ञान के विद्यार्थियों को शल्य-प्रशिक्षण (Surgical Training) देने के लिए उनके द्वारा मेडिकल-कालेजों मे जो मेढको को चीरा-फाड़ा जाता हैं वह निरर्थक व व्यर्थ कार्य न होकर मनुष्य व मानव-जाति की सेवा के लिए होता हैं इसीलिए यह न निर्दयता हैं, न हिंसा,  न पाप; बल्कि लाभदायक, वांछनीय व सराहनीय हैं। हमारा विश्वास हैं कि हत्या व हिंसा के उचित या अनुचित होने का यही मापदण्ड, सम्पूर्ण मानव समाज में, प्राचीन काल से लेकर वर्तमान युग तक मान्य व प्रचलित रहा हैं। यही मानव-प्रकृति के भी अनुकूल है और मानव-जीवन की स्वाभाविक आवश्यकताओं के तकाजों (Requisites) के अनुकूल भी। क्योकि इस्लाम इस्लाम एक स्वाभाविक व प्राकृतिक धर्म हैं, इसी लिए वह उपरोकत बौद्धिक, संतुलित और स्वाभाविक वैश्विक सिद्धान्त का पक्षधर हैं।

Author Name: मुहम्मद जैनुल-आबिदीन मंसूरी

BHENS KI HILLAT AUR MASAIL

*بھینس کی حلت اور اس کے مسائل*
_________________
مقبول احمد سلفی

*بھینس کی حلت :*
بھینس قرآن و حدیث کی روشنی میں حلال ہے ۔
*قرآن کی دلیل :*
اللہ تعالى کا ارشاد ہے :أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ (الأنعام :1)
ترجمہ: تمہارے لیے تمام تر چرنے والے جانور حلال ہیں , ما سوا ان جانوروں کے جو تمہیں بتا دئے گئے ہیں .
دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.(الانعام:145)
ترجمہ: آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
قرآن کی پہلی آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قاعدے کی رو سے سارے جانور حلال ہیں سوائے ان کے جن کی حرمت کے بارے میں وحی کردی گئی ۔ اور دوسری آیت میں وحی کے ذریعہ حرام کردہ جانور کی نشاندہی کردی گئی جن میں سے بھینس نہیں ہے ۔ اس لئے قرآن کی رو سے بھینس حلال ہوئی ۔
*حدیث سے دلیل :* قرآنی قاعدے کی طرح احادیث سے بھی اس قاعدے کی صراحت ملتی ہے کہ بری اور بحری سارے جانور حلال ہیں سوائے جن کی حرمت کا اعلان کردیا گیا۔ خشکی کے جانوروں میں کچلی دانت والے جانور کی ممانعت ہے ۔ اسی طرح وہ جانوربھی حرام ہے جس کے قتل کرنے یا نہ کرنے کا نبی ﷺ نے حکم دیاہویا جسکی حرمت خود نبی ﷺ نے واضح کردی ہو۔ مردار کھانے والا جانور بھی منع ہے ۔جانور کی ممانعت کے ان  اصول کے تحت بھینس نہیں آتی جس کی بنیاد پر بھینس بھی حلال ٹھہری ۔
*اجماع سے دلیل :*
الموسوعہ الفقیہ ، الاجماع اور المغنی وغیرہ میں بھینس کی حلت پہ اجماع نقل کیا گیا ہے اور اجماع بھی شرعی دلیلوں میں سے ہے ۔
حوالے کے لئے دیکھیں :(الموسوعة الفقهية:5 / 134، الاجماع لابن المنذر:48، المغنی لابن قدامہ 9/327)

*بھینس کاگوشت:* جو جانور حلال ہے ، اس کا گوشت کھانا حلال ہے ۔

*بھینس کا دودھ:*  حلال جانور کا دودھ پینا جائز ہے ،جیساکہ گائے کادودھ ۔ 

*بھینس کا گوبر:* ماکول اللحم جانور کا گوبر پاک ہے ، اس کے متعدد دلائل ہیں ایک دلیل بکری کے رہنے کی جگہ نماز پڑھنے والی حدیث دوسری دلیل  اونٹ کا پیشاب پینے والی حدیث ۔

*بھینس کا پیشاب :* بکری اور اونٹ سے متعلق مذکورہ بالا دلائل سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ  ماکول اللحم جانور کا پیشاب پاک ہے ۔ اس لئے ماکول اللحم جانور کا پیشاب بطور علاج اگر استعمال ہوتا ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ علاج  کے لئے ماہر مسلم طبیب کی صراحت ہو۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی کہ ہندؤں میں گائے کا پیشاب عقیدت کے طور پہ پیا جاتا ہے اور اسی عقیدے کے تحت دوائیوں میں بھی پیشاب ملایاجارہاہے ۔

*بھینس کی قربانی :*
قربانی کے جانور کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ، وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ (الانعام:142-143)
ترجمہ : آٹھ اقسام ، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔
اللہ تعالی نے نام لیکر آٹھ قسم کے قربانی کے جانور کی تعیین کردی جبکہ کھائے جانے والے جانور بے شمار ہیں۔ آٹھ قسم: دو قسم بکری نرومادہ، دوقسم بھیڑ نرومادہ، دوقسم اونٹ نرو مادہ اور دو قسم گائے نرومادہ۔ گویا ان آٹھ اقسام میں قربانی کے لئے نویں کسی جانور کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان اقسام میں بھینس کا ذکر نہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عرب میں اس وقت بھینس نہیں معروف تھی اور یہ گائے کی جنس سے ہے ۔ اس کا حکم وہی ہے جو گائے کا خواہ زکاۃ کے لئے ہو ، قربانی کے لئے ہو یا گوشت کھانے اور دودھ پینے کے طور پر ہو۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھینس عرب میں متعارف نہیں تھی مگر بھینس دنیا میں موجود تھی ، اللہ اس کا خالق ہے وہ کوئی بات بھولتا نہیں ۔ اگر چاہتا توقربانی کے جانور کی فہرست میں اسے بھی ذکر کرسکتا تھا۔
خلاصہ کے طور پر میرا یہ کہنا ہے کہ بھینس حلال جانور ہے ، اس کو قربانی کے تئیں وجہ نزاع نہ بنایا جائے ، سیدھی سی بات ہے اگر ہمارے یہاں قرآن میں مذکور آٹھ اقسام میں سے کسی قسم کا جانور پایا جاتا ہے تو اس کی قربانی کریں جس میں کوئی شک نہیں اور نہ اختلاف ہے البتہ متعدد اہل علم نے بھینس کو گائے کی جنس سے مانا ہے اور اس بنیاد پہ اس کی قربانی کا جواز فراہم کیا ہے ۔ عرب کے علماء بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذا کسی کا دل اس پہ مطئمن ہو تو اس پہ کسی قسم کا جبر نہیں کیا جائے ۔

*بھینس کا عقیقہ :*
جس طرح اللہ تعالی نے قربانی کے متعلق جانور کی تفصیل ذکر کردی ویسے ہی نبی ﷺ سے عقیقہ کے متعلق جانور کی صراحت موجود ہے ۔ عقیقہ کے لئے صحیح احادیث میں بکری، مینڈھا اور دنبہ کا ذکر ملتا ہے باوجودیکہ گائے اور اونٹ موجود تھے ۔ عقیقہ (قربانی) عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے ، اس کے لئے نص چاہئے ۔ لہذا عقیقہ کے جانور کے لئے جو نص ملتا ہے ہمیں انہیں جانور سے عقیقہ دینا چاہئے ۔
بعض لوگوں نے بڑے جانور مثلا گائے ، بیل ، اونٹ وغیرہ سے عقیقہ دینا جائز کہا ہے ۔ اگر بڑے جانور میں عقیقہ کا جواز تسلیم کیا جاتا ہے تو ایک بہت بڑا احتمال کھڑا ہوجاتا ہے وہ یہ کہ اگر گائے کا عقیقہ مانتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں ایک حصہ ہوگا یا قربانی کی طرح سات حصے ہوں گے ؟۔
جواز کے قائلین میں سے بعض نے ایک حصہ کہا اور بعض نے سات حصہ کہا۔ چونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں جن کو جو مناسب لگا حکم دے دیا۔ اور یہ معلوم ہے قربانی و عقیقہ عبادت توقیفی ہے اس میں بغیر دلیل کے کچھ کہنا صحیح نہیں ہے ۔
لہذا منصوص جانور سے ہی عقیقہ کرے یہی احوط واولی ہے ۔ جن روایات میں اونٹ اور گائے کا عقیقہ مذکور ہے وہ ضعیف ہیں، ان سے استدلال نہیں کیاجائے گا۔

*ایک امر کی وضاحت :*
بعض لوگ بڑے زوروشور سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ بھینس کی حلت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ، یہ قفہ سے حلال ہے ۔ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی اس بات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْآ اِٰلہًا وَّاحِدًا لآ اِٰلہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔(توبہ:31)
ترجمہ : انہوں نے اپنے علماء ،درویشوں کو اور عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کے علاوہ معبود بنالیاہے حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک معبود کی عبادت کریں اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ پاک ہے ان کے شرک سے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی توعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (جو اسلام قبول کرنے سے قبل عیسائی تھے) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا تو عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم نے ان کی کبھی بھی عبادت نہیں کی اور نہ ہم مولویوں اور درویشوں کو رب مانتے تھے تو نبی ﷺنے فرمایا:
أما إنَّهم لم يَكونوا يعبدونَهم ولَكنَّهم كانوا إذا أحلُّوا لَهم شيئًا استحلُّوهُ وإذا حرَّموا عليْهم شيئًا حرَّموه(صحيح الترمذي:3095)
ترجمہ: وہ اپنے علماءکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب ان کے علماءکسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ اسے حلال کر لیتے اور جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے تو وہ بھی اسے حرام تسلیم کر لیتے۔
اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ ہماری فقہ نے یا ہمارے امام نے بھینس حلال کیا اور اس عقیدے سے بھینس کاگوشت  کھائے تو اس کا بھی وہی حکم لگے گا جو قرآن میں ہے ۔
لہذا آج کے بعد اپنے ایمان و عقیدے کی اصلاح کرلیں اور ایک بات کی خاطر آخرت نہ برباد کریں ۔
__________________
For more Articles
www.maquboolahmad.blogspot.com