قنوت نازلہ کے متعلق

قنوت نازلہ میں کی جانے والی دعائیں اور اذکار (خلاصہ کتاب ).     (قسط 1)

                       قنوت نازلہ:
اللہ کے حضور خشوع وخضوع کو’’قنوت‘‘ کہتے ہیں اور نازلہ کا معنی مصیبت میں گرفتار ہونا ہے لہٰذا زمانے کے حواد ثات میں پھنسے وقت‘ نماز میں عجز و انکساری کے ساتھ مصائب سے نجات پانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنا’’قنوت نازلہ‘‘ کہلاتا ہے-
دنیا میں مصائب وآلام کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلاً دنیا کے کسی خطہ میں مسلمانوں پر کفار ومشرکین یا یہود و نصاریٰ ظلم ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں‘ دن رات ان کو پریشانیوں میں مبتلا کئے ہوئے ہوں‘ ان کو قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا کئے ہوئے ہوں اور کمزور ولاغر مسلمان ان کے ظلم وستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہوںیا کسی علاقے میں قحط سالی اور بد حالی کے ایام ہوں یا وبائوں‘ زلزلوں اور طوفانوں کی زد میں کوئی علاقہ آ چکا ہو تو ان تمام حالات میں قنوت نازلہ کی جاتی ہے- اور یہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضی اللّہ عنہم تابعین عظام‘ فقہاء محدثین اور سلف صالحین رحمہم اللّٰہ اجمعین کا طریقہ رہا ہے- 
ایک حدیث میں ہے کہ
کَانَ لاَ یَقْنُتُ فِیْھَا اِلاّ اِذَا دَعَا لِقَوْمٍ اَوْ دَعَا عَلَی قَوْمٍ۔ نبی کریم ﷺ اس وقت قنوت کرتے جب کسی قوم کے حق میں دعا کرنا ہوتی یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنا ہوتی-(صحیح ابن خزیمہ - باب القنوت)
نبی کریم ﷺ نے مصیبت‘ پریشانی اور رنج و غم کے پیش نظر کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت کی اور کبھی بعض نمازوں میں- ابو ہریرہؓ سے مروی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور تابعین سے کہتے: وَاللّہِ لَاَقْرِبَنَّ بِکُمْ صَلٰوۃَ رَسُوْلِ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ ‘ فَکَانَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ یَقْنُتُ فِی الظُّہْرِ وَالْعِشَآئِ الْآخِرَۃِ وَصَلوٰۃِ الصُّبْحِ وَیَدْعُوْ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَ یَلْعَنُ الْکُفَّارَ.
اللہ کی قسم! میں تمہاری نسبت رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ قریب ہوں‘ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر‘ عشاء اور فجر کی نماز میں قنوت کرتے اور مومنوں کے لئے دعاء خیر اور کافروں پر لعنت کرتے تھے- (مسلم۱/۲۳۷)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ‘ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح اور مغرب کی نماز میںقنوت کرتے تھے-‘‘ (مسلم۱/۲۳۷)
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّہُ عَنْہُ قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فِیْ صَلاَۃِ الْعَتْمَۃِ شَھْرًا- (الحدیث)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں ایک ماہ تک قنوت کیا-
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ مختلف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی ایک نماز میں‘ کبھی دو‘ تین اور کبھی اکٹھی پانچ نمازوں میں قنوت کرتے تھے- تو ہمیں بھی حالات و واقعات کے تقاضے کے مطابق ایسا کرنا چاہئے اور یہ معاملہ اس وقت تک جاری رہے جب تک دشمنوں کی مکمل سرکوبی نہیں ہو جاتی اور مسلمانوں کے مصائب وآلام میں کمی واقعی نہیں ہوتی- مروی ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت کیا- جب آپ ﷺ سَمِعَ اللّہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے تو اپنی قنوت میں کہتے- ’’ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے- اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے- اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے- اے اللہ! ضعیف مومنوں کو نجات دے- اے اللہ! اپنا عذاب قبیلہ مضر پر سخت کر دے- اے اللہ ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسے قحط ڈال دے- (مسلم۱/۲۳۷)
ابو ہریرہؓ کہتے ہیں پھر میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے دعا کرنا چھوڑ دی- تو لوگوں نے کہا کہ تم دیکھتے نہیں جن کے لئے رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے وہ آ گئے ہیں- یعنی کفار کے غلبہ سے انہیں نجات مل گئی ہے-
قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا مسنون ہے جیسا کہ انس ر ضی اللہ عنہ‘ سے مروی ہے: فَقَدْ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللّہِ صَلّی اللّہٗ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فِیْ صَلاَۃِ الْغَدَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا عَلَیْھِمْ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو صبح کی نماز میں دیکھا کہ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دشمنان اسلام پر بددعا کی- (مسند احمد-۳/۱۳۷)
قنوت نازلہ سے مقصود مظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصرت و کامیابی اور سفاک و جابر دشمن کی ہلاکت و بربادی ہے اس لئے اس مقصد کو جو دعا بھی پورا کرے وہ مانگی جا سکتی ہے- امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے شرح مسلم ۱/۲۳۷ میں لکھا ہے کہ:
وَالصّحِیْحُ اَنّہٗ لاَیَتعَیّنُ فِیْہِ دُعَائٌ مَخْصُوْصٌ بَلْ یَحْصُلُ بِکُلِّ دُعَائٍ وَفِیْہِ وَجْہٌ ‘ اَنَّہٗ لاَ یَحْصُلُ اِلاَّ بِالدُّعَائِ الْمَشْہُورِ اَللّھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ۔۔۔۔الخ وَالصَّحِیْحَ اَنّ ھَذَا مُسْتَحَبٌّ لاَ شَرْطٌ.
صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دعا متعین نہیں بلکہ ہر اس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو اور اللھم اھدنی فیمن ھدیت آخر تک پڑھنا مستحب ہے شرط نہیں- اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ مذکورہ دعا بھی پڑھی جائے اور اس کے بعد وہ دعائیں بھی پڑھی جائیں جو اس معنی کی قرآن مجید اور احادیث نبوی میں موجود ہیں- مختلف دعائیں مانگنا صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت ہے جیسا کہ ابی بن کعب ؓ جب رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے تو آخری آدھے ایام میں قنوت (یعنی مخالفین اسلام کے لئے بد دعا‘ پھر نبی کریم ﷺ پر درود اور مسلمانوں کے لئے استغفار) کرتے تھے-
صحیح ابن خزیمہ(۲/۱۵۵-۱۵۶) کے حوالہ سے علامہ البانی رحمتہ اللہ علیہ نے قیام رمضان صفحہ (۳۲ )پر لکھا ہے کہ: وَکانُوا یَلْعنُونَ الْکَفَرۃَ فِی النِّصْفِ: اَللّھُمّ قَاتِلِ الْکَفَرۃَ الّذِیْنَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیْلِکَ… الی آخرہ
(صحابہ کرام)نصف رمضان میں کافروں پر لعنت کرتے اور کہتے: اے اللہ! ان کافروں کو جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے وعدوں پر ایمان نہیں لاتے انہیں تباہ کر دے‘ ان کے گٹھ جوڑ میں مخالفت ڈال دے‘ ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر اپنا عذاب نازل فرما- پھر نبی کریم ﷺ پر درود پڑھتے اور اپنی استطاعت کے مطالق مسلمانوں کے لئے بھلائی کی دعائیں کرتے پھر مومنوں کے لئے استغفار کرتے تھے-

        قنوت نازلہ میں کی جانے والی دعائیں
۱۔ اَللّھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَاَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِھِمْ وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ.
اے اللہ! ہمیں بھی اور تمام مومن مردوں‘ مومن عور توں‘ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے- ان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دے‘ ان کے درمیان اصلاح فرما دے‘ اپنے اور ان کے دشمنوں پر ان کی مدد فرما-
اَللّھُمَّ الْعَنِ الْکَفَرۃَ الّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِِیْلِکَ وَیُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَیُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَآئَکَ.
اے اللہ! ان کافروں پر لعنت فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں‘ تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے دوستوں سے لڑائی (قتال) کرتے ہیں-
اَللّھُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِھِمْ وَزَلْزِلْ اَقْدَامَھُمْ وَاَنْزِلْ بِھِمْ بَأسَکَ الّذِیْ لاَ تَرُدُّہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ. (البیہقی وحصن حصین)
الٰہی ! ان کے درمیان اختلاف ڈال دے‘ ان کے قدموں کو ڈگمگا دے اور ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرما کہ جسے تو مجرم قوم سے واپس نہیں لوٹاتا-
۲۔ اَللّھُمَّ اِنّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ. (رواہ احمد وابوداؤد)
اے اللہ! ہم تجھی کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں-
۳۔ اَللّھُمَّ اکْفِنَا ھُمْ بِمَا شِئْتَ۔ (راوہ مسلم)
اے اللہ! جس طریقے سے تو چاہے ہمیں ان سے کافی ہو جا-
۴۔ اَللّھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اَللّھُمَّ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ. اَللّھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔ (متفق علیہ)
کتاب اتارنے والے اور جلد حساب لینے والے اللہ! کافر جماعتوں کو شکست دے- اے اللہ! انہیں شکست دے اور انہیں ہلا کر رکھ دے-
۵۔ اَللّھُمَّ انْجِ إخْوَانَنَا الْمَسْجُوْنِیْنَ بِسِجْنِ الْھِنْدُوْس الْمُشْرِکِیْنَ‘ اَللّھُمَّ اِنّا نَسْتَوْدِعُکَ إخْوَانَنَا الْمَحْصُوْرِیْنَ.
اے اللہ! مشرک ہندو کی جیلوں میں قید ہمارے بھائیوں کو نجات دے- اللہ! ہم اپنے گھرے ہوئے بھائیوں کو تیرے سپرد کرتے ہیں-
اَللّھُمَّ انْجِ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ بِسِجْنِ أعْدَائِکَ وَأعْدَآئِ الدِّیْنِ.
الٰہی! اپنے اور اپنے دین کے دشمنوں کی جیلوں میں قید کمزور مومن بندوں کو نجات دے-
۶۔ اَللّھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا۔(رواہ احمد)
اے اللہ! ہمارے عیب ڈھانپ دے اور ہمارے خوف و خطرات سے ہمیں امن دے-
۷۔ اَللّھُمَّ اشْدُدْ وَطأتَکَ عَلَی الْیَھُوْدِ وَالْھِنْدُوس۔ اَللّھُمَّ اشْدُدْ وَطْأتَکَ عَلَی الْمَسِیْحِیّیْنَ الصَّلِیْبِیّنَ۔ اَللّھُمَّ اشْدُدْ وَطَأتَکَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ وَالْکُفّارِ اَجْمَعِیْنَ وَاجْعَلْ عَلَیْھِمْ سِنِیْنَ کَسِنِيْ یُوْسُفَ۔
اے اللہ! اپنا عذاب یہود و ھنود پر سخت کر دے- اللہ! اپنا عذاب صلیبی عیسائیوں پر سخت کر‘ الٰہی ! اپنا عذاب تمام مشرکین اور کفار پر سخت کر دے- اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسا قحط ڈال دے-
۸۔ اَللّھُمَّ اَنْتَ الْقَوِیُّ وَنَحْنُ الضُّعَفآئُ وَاَنْتَ الْغَنِیَّ وَنَحْنُ الْفُقَرَآئُ نَشْکُوْ اِلَیْکَ ضُعْفَ قُوَّتِنَا وَقِلّۃَ حِیْلَتِنَا وَھَوَانَنَا عَلَی النّاسِ.
اے اللہ! تو طاقت والا اور ہم کمزور ہیں‘ تو دولت والا اور ہم فقیر ہیں- لوگوں میں اپنی رسوائی‘ تدبیر کی کمی اور اپنی طاقت کی کمزوری کی شکایت ہم تیرے ہاں کرتے ہیں-
اَللّھُمَّ عَلَیْکَ بِالْیَہُوْدِ وَالصَّلِیْبِیّنَ۔ اَللّھُمَّ عَلَیْکَ بِالْھِنْدُوْسِ وَالْمُشْرِکِیْن۔ اَللّھُمَّ عَلَیْکَ بِالشُّیُوعِیِّینَ وَالْکُفّارِ اَجْمَعِیْن.
اے اللہ! یہودو نصاریٰ کی پکڑ تیرے ذمے- اے اللہ! ہندوئوں اور مشرکوں کی گرفت بھی تیرے ذمے- اے اللہ! کمیونسٹوں اور تمام کافروں کا مواخذہ بھی تیرے ذمے ہے- (یعنی تو ان سب کو اپنے ذمے لے اور انہیں خوب عذاب دے)
۹۔ اَللّھُمَّ دَمِّرْ أعْدَائَ الدِّیْنَ اَللّھُمَّ دَمِّرْ دِیَارَھُمْ وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ اَللّھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ‘ اَللّھُمَّ قَتِّلْ شُبَّانَھُمْ وَیَتِّمْ أطْفَالَھُمْ وَرَمِّلْ نِسَآئَھُمْ‘ اَللّھُمَّ خُذْھُمْ أَخْذَ العَزِیْزِ المُقْتَدِرِ‘ اَللّھُمَّ احْصِھِمْ عَدَداً وَاقْتلْھُمْ بَدَداً
اللہ! دین کے دشمنوں کو ہلاک کر دے- اللہ! ان کے گھروں کو برباد کر دے‘ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے اور ان کی جمعیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے- اے اللہ! انہیں ہر قسم کی تباہی سے دو چار کر کے چیر پھاڑ دے- الٰہی! ان کے جوانوں کو قتل‘ ان کے بچوں کو یتیم اور ان کی عورتوں کو بیوہ کر دے‘ اے اللہ! ایک غالب اقتدار والے کی طرح انہیں پکڑ لے- اللہ! ان کی تعداد شمار کر لے اور انہیں چن چن کر ہلاک کر-
۱۰۔ اَللّھُمَّ انصُرْعِبَادَکَ الْمُجَاھِدِیْنَ الّذِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِکَ وَیُقَاتِلُوْنَ أَعْدَائَکَ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ۔ اَللّھُمَّ اُنصُرْھُمْ فِیْ کَشْمِیْرٍ وَأنصُرْھُمْ بِشِیْشَانَ‘ اَللّھُمَّ انُصُرْھُمْ فِیْ بَوْسِنْیَا وَأرَاکَانَ اَللّھُمَّ انصُرْھُمْ فِیْ فَلَسْطِیْنَ وَفِیْ کُلِّ مَکَانٍ.
اے اللہ! اپنے ان مجاہد بندوں کی مدد فرما جو تیرے راستے میں جہاد کرتے اور تیرے دشمنوں سے لڑائی کرتے ہیں- وہ قتل کرتے بھی ہیں اور (اس راہ میں) قتل کر بھی دئیے جاتے ہیں- اللہ ! کشمیر اور چیچنیا میں ان کی مدد فرما- الٰہی! بوسنیا اور اراکان میں ان کی مدد فرما- اے اللہ! فلسطین میں اور ہر جگہ ان کی مدد فرما-
اَللّھُمَّ انْصُرْھُمْ نَصْراً مُؤزَّراً وَّانْصُرْھُمْ نَصْراً عَزِیْزًا وَّافْتَحْ لَھُمْ فَتْحًا مُبِیْناً۔
اے اللہ! ان کی بھرپور مدد فرما‘ ان کی وہ مدد کر جو غالب آنے والی ہو اور انہیں واضح فتح نصیب فرما-
۱۱۔ اَللّھُمَّ انْصُرِ المسلمين بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَانْصُرْھُمْ بِجُنُودِ الْمَلاَئِکَۃِ‘ اَللّھُمَّ انْصُرْھُمْ نَصْرَ الْمُقْتَدِرِ‘ اَللّھُمَّ انْصُرْھُمْ کَنَصْرِ یَوْمِ بَدْر‘ اَللّھُمَّ انْصُرْھُمْ وَاحْفَظْھُمْ ‘ اَللّھُمَّ ثَبّتْ اَقْدَامَھُمْ وَسَدِّدُ رَمْیَہُمْ وَاَنْزِلِ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ ‘ اَللّھُمَّ احْفَظْھُمُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ یَمِیْنِہِمْ وَعَنْ شِمَالِھِمْ وَمِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ‘ اَللّھُمَّ احْفَظْہُمْ بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ.
اے اللہ! مجاہدین کی مدد جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ فرما اور ان کی مدد فرشتوں کی افواج سے بھی فرما- الٰہی! اقتدار والے کی مدد جیسی ان کی مدد فرما- (اور تجھ سے بڑھ کر کوئی صاحب اقتدار نہیں) اللہ! بدر والے دن جیسی ان کی مدد فرما- ان کی مدد بھی کر اور انہیں محفوظ بھی رکھ- اے اللہ! انہیں ثابت قدم رکھ‘ ان کے نشانے ٹھکانے پر لگا اور ان کے دلوں میں اطمینان و سکون نازل فرما- اے اللہ! انہیں سامنے سے‘ پیچھے سے‘ دائیں اور بائیں سے‘ اوپر اور نیچے سے محفوظ رکھیو- الٰہی ! ان کی حفاظت ہر اس چیز سے فرما جس کے ساتھ تو اپنے صالح بندوں کی حفاظت فرماتا ہے-
۱۲۔ اَللّھُمَّ اھْلِکِ الظَّالِمِیْنَ بِالظَّالِمِیْنَ وَاَخْرِجْنَا مِنْہُمْ سَالِمِیْنَ غَانِمِیْنَ.
اے اللہ ! تو ظالموں کو ظالم لوگوںسے برباد فرما اور ہمیں ان کے درمیان سے صحیح سلامت غنیمت لے کر لوٹنے والے‘ نکال لا-
۱۳۔ اَللّھُمَّ اِنّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَائِ وَدَرْکِ الشَّقَآئِ وَسُوْئِ الْقَضَآئِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَائِ۔(متفق علیہ)
اے اللہ! ہر مصیبت کی سختی سے‘ ہر بدبختی کے گھیر لینے سے‘ ہر بری تقدیر سے اور دشمنوں کے ہم پر ہنسنے سے ہم تیری پنا ہ چاہتے ہیں-

۱۵۔ اَللّھُمَّ اِنّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ وَلاَ نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ۔(الأذکار للنووی ص۹۶)
اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں‘ تجھ سے معافی چاہتے ہیں‘ تیری ثناء بیان کرتے ہیں‘ تیرے ساتھ کفر نہیں کرتے اور جو تیری نافرمانی کرتے ہیں ہم ان سے علیحدگی اختیار کرتے اور انہیں ترک کرتے ہیں-
۱۶۔ اَللّھُمَّ إیّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُوَ اِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ نَرْجُوْ رَحْمَتَکَ وَنَخَافُ عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفّارِ مُلْحِقٌ.(مصنف عبدالرزاق ومصنف ابن ابی شیبہ)
اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں- تیرے لئے ہی ہم نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں- تیری ہی طرف لپکتے اور سعی کرتے ہیں‘ تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں- بلاشبہ تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے-
۱۷۔ یَا قَدِیْمَ الْاِحْسَانٍ یَا مَنْ اِحْسَانُہٗ فَوْقَ کُلِّ اِحْسَانٍ یَا مَالِکَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ یَا حَیُّی یَا قُیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ ‘ یَا مَنْ لاَ یُعْجِزُہٗ شَيْئٌ وَلاَ یَتَعَاظَمُہٗ شَیْئٌ‘ أُنْصُرنَا عَلَی اَعْدَائِنَا ھٓؤلآئِ وَغَیْرِھِمْ وَأظْھِرْنَا عَلَیْھِمْ فِیْ عَافِیَۃٍ وَّسَلاَمَۃٍ عَامَّۃٍ عَاجِلًا۔(الأذکار للنوویؒ ص ۳۰۵)
قدیم زمانے سے احسان کرنے والے اللہ! اے وہ ذات کہ جس کا احسان ہر نیکی پر غالب ہے! اے دنیا و آخرت کے مالک! ہمیشہ کے لئے زندہ اور قائم رہنے والے! اے جلال و اکرام والے! اے وہ ذات کہ جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی اور نہ کوئی اس سے عظیم ہو سکتی ہے! ہمارے تمام دشمنوں پر ہماری مدد فرما- جلد پہنچنے والی تمام قسم کی عافیت اور سلامتی کے ساتھ ہمیں ان پر غالب فرما-
۱۸۔ { رَبّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْن } (الاعراف۲۳)
اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور نہ ہی ہم پر رحم فرما یا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے-
۱۹۔ { رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ أَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرَo رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } (الممتحنہ۴‘۵)
اے ہمارے رب! ہم تجھ پر ہی توکل کرتے ہیں‘ تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہمیں پلٹ کر جانا ہے- اے اللہ! ہمیں کافروں کے لئے پرکھ کا ذریعہ نہ بنا اور ہمیں بخش دے- بے شک تو غالب ہے حکمت والا-
۲۰۔ اَللّھُمَّ اِنَّا نَسْألُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالسَّلاَمَۃَ مِنْ کُلِّ إثْمٍ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنّجَاۃَ مِنَ النَّارِ.(الحاکم وصححۃ الذھبي)
اے اللہ ! ہم تیری رحمت کے اسباب کا سوال کرتے ہیں- تیری مغفرت کے سامان‘ ہر گناہ سے سلامتی‘ ہر نیکی سے حصہ‘ جنت کی کامیابی اور جہنم سے نجات کا سوال کرتے ہیں-
۲۱۔ اَللّھُمَّ اِنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ وَ مِنْ دُعَائٍ لاَ یُسْمَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ أعُوْذُبِکَ مِنْ ھٓؤلآئِ الْاَرْبَعِ. (الترمذی وابو داؤد والنسائی)
اے اللہ! میں اس دل سے جو تجھ سے نہ ڈرے‘اس دعا سے جو سنی نہ جائے ‘ اس جی سے جو نہ بھرے اور اس علم سے جو نفع نہ دے- ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں-
۲۲۔ اَللّھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا‘ وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاھْدِنَا سُبُلَ السَّلاَمِ وَنَجّنِاَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّورِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِک لَنَا فِیْ اَسْمَاعِنَا وَاَبْصَارِنَا وَقُلُوْبِنَا وَاَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.
اے اللہ! ہمارے دلوں میں باہمی محبت ڈال دے- ہمارے درمیان اصلاح فرما- ہمیں سلامتی کے راستوں کی ہدایت نصیب فرما‘ ہمیں اندھیروں سے نجات دلا کر روشنی (ہدایت) کی طرف لے آ- ہمیں تمام قسم کے پوشیدہ اور ظاہر بے حیائی کے کاموں سے دور رکھ‘ ہماری سننے اور دیکھنے کی طاقت‘ ہمارے دلوں‘ ہماری بیویوں اور ہماری اولادوں میں برکت عطا فرما- ہمارے اوپر توجہ فرما بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے-
۲۳۔ اَللّھُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَايحُوْلُ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَعَاصِیْکَ وَمِنْ طَاعَتِکَ مَاتُبَلِّغُنَا بَہٖ جَنَّتَکَ وَمِنَ الْیَقِیْنِ مَا تُہَوِّنُ بِہٖ عَلَیْنَا مُصِیْبَاتِ الدُّنْیَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَاَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا اَحْیَیْتَنَا وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَأرَنَا عَلَی مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی مَنْ عَادَانَا وَلاَ تَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِیْ دِیْنِنَا وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَھَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لاَ یَرْحَمُنَا۔(رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن غریب وابن السني والحاکم)
اے اللہ! اپنے ڈرکا ہمیں اتنا وافر حصہ عطا کر دے جو ہمارے اور ہم سے سرزد تیری نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے اور اپنی اطاعت اتنی زیادہ عطا فرما کہ جس کے ساتھ تو ہمیں اپنی جنت میں پہنچا دے اور اتنا یقین دے دے کہ جس سے دنیا کی مصیبتیں ہم پر آسان ہو جائیں- جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمیں اپنے کانوں‘ اپنی آنکھوں اور اپنی طاقت سے فائدہ اٹھانے دے- اسے ہم سے ورثہ میں دے اور جو ہم پر ظلم کرتے ہیں‘ ہمارا غصہ اور انتقام ان پر کر دے‘ اور جو ہم سے دشمنی کرتے ہیں ان پر ہماری مدد فرما‘ ہماری مصیبت کو ہمارے دین میں نہ کرنا اور دنیا کو ہمارے لئے بہت بڑا پریشانی کا سبب اور علم کے ذریعے کمائی کا سبب نہ بنا- ہم پر ایسے لوگوں کو مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کریں-
۲۴۔ اَللّھُمَّ زِدْنَا وَلاَ تَنْقُصْنَا وَاَکْرِمْنَا وَلاَ تُھِنَّا وَاَعْطِنَا وَلاَ تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلاَ تُؤْثِرْ عَلَیْنَا وَاَرْضِنَا وَارْضَ عَنَّا۔(رواہ احمد والترمذي)
اے اللہ! تو ہمیں زیادہ کردے‘ کم نہ کرنا‘ ہمیں معزز کر دے‘ رسوا نہ کرنا- ہمیں عطا کر دے‘ محروم نہ کرنا- ہمیں ترجیح دے‘ ہم پر کسی اور کو غالب کرنے میں ترجیح نہ دے‘ ہمیں راضی رہنے کی توفیق دے اور ہم سے تو راضی ہو جا-
۲۵۔ اَللّھُمَّ مَنْ أرَادَنَا وَأرَادَ الْمُسْلِمِیْنَ بِسُوْئٍ وَشَرٍ فَاجْعَلْ کَیْدَہٗ فِیْ نَحْرِہٖ وَاشْغِلْہُ بِنَفْسِہٖ وَاجْعَل تَدْبِیْرَہٗ تَدْمِیْرًا عَلَیْہِ۔
اے اللہ! جو ہمارے اور مسلمانوں کے متعلق برائی اور شرکا ارادہ رکھے تو اس کے مکرو فریب کو اسی کے خلاف کر دے- اسے اپنے ہی جی میں مشغول کر دے اور اس کی کوشش اور سوچ کو اس کی تباہی کا ذریعہ بنا دے-
۲۶۔ { رَبَّنَا آمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ } (آل عمران ۵۳)
اے ہمارے مالک! ہم اس سب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمایا اور تیرے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی ہم نے تابعداری کی- تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ لے-
۲۷۔ { رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَO وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْن } (یونس ۸۵-۸۶)
اے ہمارے رب! ہمیں ظالم قوم کے ظلم کا نشانہ مت بنائیو اور کافروں کی قوم سے ہمیں اپنی خاص رحمت کے ساتھ نجات دیجیو-
۲۸۔ اَللّھُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنِا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَۃِ۔ (رواہ أحمد)
اے اللہ ! تمام کاموں میں ہمارا انجام بہتر کیجیو- ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے پناہ دیجیو-
۲۹۔ {رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَيْئٍ رَّحْمَۃً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ O رَبَّنَا وَأدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنٍ الّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِھِمْ وَأزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیَّاتِھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُO وَقِھِمُ السَّیِّئَآتِ وَمَنْ تَقِ السَّیِّئَآتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ وَذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ } (سورہ غافر۷-۹)
اے ہمارے رب! تیری رحمت اور علم نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے‘ تو--- جو لوگ توبہ کرتے ہیں اور تیرے راستے پر چلتے ہیں انہیں بخش دے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے- اے ہمارے پروردگار! انہیں بھی اور ان کے آبائو اجداد‘ بیویوں اور اولاد میں سے جو اس کے لائق ہیں ان سب کو بھی اپنے ان ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل فرما کہ جن کا تونے ان سے وعدہ کر رکھا ہے بلا شبہ تو ہی غالب‘ حکمت والا ہے اور (قیامت کے دن) ان کو برائیوں(تکلیفوں) سے بچا دیجیو- کیونکہ اس دن کی تکلیفوںسے جسے تو نے بچا لیا اس پر تونے بڑا رحم کیا اور یہی تو بڑی کامیابی ہے-
۳۰۔ { رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا اِنَّکَ رَؤُفٌ رَحِیْمٌ} (سورۃالحشر۱۰)
اے ہمارے مالک! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت لے جا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے بارے میل(کینہ) مت آنے دیجیو- اے ہمارے پروردگار! بے شک تو بڑی شفقت والا اور مہربان ہے-
۳۱۔ { اَللّھُمَّ آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ } (متفق علیہ)
اے اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا-
۳۲۔ { رَبَّنا۔۔۔۔۔۔

Kya zalzale ya koi aisi gadbad ho namaz k dauran humare ird gird kya hum namaz todh sakte hain us halat me ya jari rakhein?

السُّــــ❓ـــــؤَالُ : ☟

Assalamu alaikum sheikh, mere do sawal hain. 1) Kya zalzale ya koi aisi gadbad ho namaz k dauran humare ird gird kya hum namaz todh sakte hain us halat me ya jari rakhein? 2) Hum namaz ki halat me ho aur humare samne koi kissi ko mar raha ho toh kis tarha se is situation me kaam karein?  jazakAllah khair... 


الجَـــ ✅ ـــوَابُ : ☟

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

آپ کے اس سوال میں تفصیل ہے۔ 

 *پہلی بات* : دوران نماز زلزلہ آ جائے تو اس کا اتمام کیسے کیا جائے گا۔ نسأل الله العافية والسلامة. آپ کا سوال حقیقی ہے یا فرضی نہیں معلوم، مگر اتنی نازک حالت میں نماز کی بابت سوال کرنا یقیناً آپ کے ایمان کی دلیل ہے. لا تخزيك الله يوم القيامة. 

اس سے ملتی جلتی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ میں ہے جس میں آپ نے فرمایا: *أقتلوا الأسودين في الصلاة: الحية والعقرب* .  نماز کے دوران سانپ اور بچھو آ جائیں تو اس کو مارنے کے لئے نماز قطع کر سکتے ہیں۔ 

البتہ حالت نماز میں مارنے سے وہ مر سکتا ہے تو نماز جاری رکھ سکتے ہیں، اگر عمل میں کثرت ہو تو نماز توڑ دیں اور اعادہ کر لیں۔ لا قدّر الله

صحیح بخاری کی كتاب فضائل الصحابة میں عمرو بن میمون جو کہ یمنی ہیں کبار تابعین میں سے ہیں۔ 
وہ کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے، پیچھے سے ابو لؤلؤ فیروز ( عليه لعنة الله المتتالية ) نے آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، جس سے آپ گر پڑے، چند ایک صحابہ بھی شہید ہوئے۔ 
کچھ صحابہ نے نماز توڑ کر اس کو گرفت میں لائے۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر نماز مکمل کئے۔ 

اس طرح ضرورت کے بقدر حرکت جائز ہے اس پر دلائل بہت ہیں۔ 

رہا نماز پڑھ رہے ہیں پیچھے کوئی کسی کو مار رہا ہے!!! 
میں یہ سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ 

آپ لڑکی ہیں اس لئے میں یہ سمجھا شاید آپ نماز پڑھ رہی ہوں اور گھر میں چھوٹے بچے ایک دوسرے کو مار رہے ہوں تو کیا کرنا چاہئے؟ 
آپ نماز سے پہلے بھی انہیں ہوشیار کریں دوران نماز ایک آدھ مرتبہ آواز یا کسی ہلکی تدبیر سے نمٹ لیں۔ 
دوسری بات ہو تو میں سمجھ نہیں سکا۔ 

وفق الله الجميع للخير

📜*محمد معاذ أبو قحافة حفظه الله*
٢٦ ذو الحجة ١٤٣٩ھ الجمعة

Jumah ke khutbe ke dauran kankadi se khela to uska *juma nahi hoga.*

السُّــــ❓ـــــؤَالُ : ☟

AssalamAlaikum WaRahmatullahi WaBarakatuhu

Shaykh sahab kya ye hadees durust h ke Jisne Jumah ke khutbe ke dauran kankadi se khela to uska *juma nahi hoga.*

الجَـــ ✅ ـــوَابُ : ☟

جی ہاں

جمعہ کے آداب سے متعلق ایک حدیث مروی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ اپنی (( الصحیح )) میں لائے ہیں۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ تَوَضَّأ فأحْسَنَ الوُضوءَ ثُمَّ أتَى الجُمُعةَ، فاسْتَمَعَ وأنْصَتَ، غُفِر له ما بينه وبيْنَ الجُمُعةِ وزيادة ثلاثة أيام، *وَمَنْ مَسَّ الحَصَى فَقَدْ لَغَا* ».

اس حدیث کے آخری کلمات میں کہا گیا کہ دوران جمعہ اگر کسی نے کنکر کو چھوئے گا تو اس کا جمعہ فوت ہو جائے گا۔ 

کنکر سے کھیلنا، مطلب کوئی بھی چیز جیسے مسجد کی فرش، قلم، موبائل، وغیرہ کسی بھی چیز میں مشغول ہو جائے اور خطبہ سننے سے غافل رہے تو اس شخص کا جمعہ لغو ہے۔ 

( لغا ) کا مطلب ہے اس شخص کو جمعہ کے جو فضائل اور ثواب ہے وہ سب نہیں ملیں گے۔ دو جمعہ کے درمیان کے گناہ کا معاف ہونا، جلدی آنے پر ثواب وغیرہ سب اس کی اس غفلت کی وجہ سے ختم ہو جاییں گے۔ ممکن ہے صرف ظہر کا ثواب ملے۔ واللہ اعلم۔ 

میں گھر سے باہر ہوں اس لئے مختصراً لکھ دیا ہوں۔ 

وفق الله الجميع للخير

محمد معاذ أبو قحافة
٢٥ جمادي الأولى ١٤٤٠ھ الجمعة

ولیمہ کس وقت کیا جائے؟

*سوال*

assalam alaikum : ek ahem sawal hai jo aaj kal bahut viral ho raha hai : (jis din nikah hota ha usi din walima jayez hai ya nahin , ager jayez hai to hadees ki roshni main wazeh kijiye ) jazakallah.


*جواب*

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

آپ کا یہ سوال در اصل اس وقت بیشتر حضرات کا سوال ہے۔ بار ہا بذریعہ فون بھی اس سے متعلق استفسار کیا جا چکا ہے۔ 

ولیمہ کس وقت کیا جائے؟ یعنی کیا خلوت شرط ہے؟ اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھیں۔ 

*پہلی بات*

خلوت (دخول) کے بعد کرنا *افضل اور مستحب* ہے۔ 
اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ اپنا ہر ولیمہ *خلوت* کے بعد ہی کئے ہیں۔  

ولیمہ کا خلوت (بعد از دخول) کے بعد مستحب ہونا اہل علم نے درج ذیل حدیث سے استدلال کئے ہیں۔ 

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: *أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ عَرُوْساً بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، ... وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِيْنَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ٱرْتِفَاعِ النَّهَارِ* . 
رسول اللہ ﷺ نے *زینب بنت جحش* رضی اللہ عنہا کے دلہا کی حیثیت سے صبح کی، آپ ﷺ نے اسی رات مدینہ میں ان سے شادی کی تھی، دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کے لئے بلایا۔ 
( *متفق عليه*: صحيح البخاري: 4797، وصحيح مسلم: 1428، واللفظ له ).

*نوٹ*

امام ابو ابوبکر البیہقی رحمہ اللہ اپنی (( السنن الكبرى )) کی *کتاب الصَّداق* میں اس مذکورہ حدیث کو صحیح بخاری (5170) کے حوالے سے نقل کئے ہیں، اور اس پر باب قائم کئے ہیں: *بابُ وقْتِ الوَليمَةِ*. گویا اس حدیث یہ مسئلہ واضح فرمائے ہیں کہ ولیمہ خلوت کے بعد ہوگا۔ 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح والی حدیث کی روشنی میں ولیمہ کا وقت خلوت کے بعد ہی مشروع ہے۔ *وقتُ الوليمةِ في حديث زينبَ وصفته تدلُّ على أنَّه عقب الدخول*. ( *الفتاوىٰ الكبرىٰ*: ص ١٤١٦، دار ابن حزم. ط: الأولى- ١٤٣٨ھ ).

*دوسری بات*

اہل علم نے ولیمہ کا وقت خلوت کے بعد ہونا مستحب کہا ہے، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کا عملی طریقہ یہی احادیث سے ملتا ہے۔ 

مگر درست بات یہی ہے کہ مذکورہ وقت کا اہتمام استحباب کا درجہ رکھتا ہے، وجوب کا نہیں۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ولیمہ کا کوئی خاص وقت متعین نہیں فرمائے ہیں۔ 

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 اہل علم  کے متعدد اقوال ملتے ہیں کہ ولیمہ کا وقت کونسا ہے؟ 
نکاح کے فوراً بعد اور خلوت سے پہلے!! یا خلوت کے بعد۔ 
یا پھر آغازِ نکاح سے لے کر شادی کے آخری وقت تک وسعت ہے کبھی بھی ولیمہ کیا جا سکتا ہے۔ 
آپ کہتے ہیں: 
*وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول أو عقبه، أو موسَّع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول*. پھر مختلف آراء ذکر کرکے ولیمہ کے وقت کو *غیر متعین* ہی بتائے ہیں۔ ( *فتح الباري*: ١١/٥١٩، دار طيبة ).

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی الجامع الصحیح کی (( کتاب النکاح )) میں فرماتے ہیں: 
*ولمْ يُوَقِّتِ النبيُّ ﷺ يوماً ولا يومين*. نبی کریم ﷺ ولیمے کے لئے صرف ایک یا دو دن مقرر نہیں فرمائے۔ اس میں بھی وسعت ہے۔ 
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے: 
*أي لم يجعل للوليمة وقتاً معيّناً يختصُّ به*. (١١/٥٣٩).


*خلاصہ*

اگر نکاح خانی کے ساتھ خلوت کے بعد ولیمہ ہو تو افضل ہے، مستحب ہے، اَولیٰ ہے۔ 
البتہ نکاح خوانی کے علی الفور (( خلوت سے قبل )) ولیمہ کرنا ہے تو اس میں وسعت ہے۔ مکمل گنجائش ہے۔ 
دوسرے ہی دن کرنے کو لازمی نہ قرار دیں۔ 
شادی کے لئے آئے مہمانوں کے لئے بھی سہولت ہوتی ہے۔ 

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں: 
ولیمہ کا وقت بہت وسیع ہے، نکاح خوانی سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور شادی کے ایام ( کم وبیش تین دن ) تک جائز ہے۔ 

شیخ کے الفاظ ہیں:
*وقت إقامة وليمة العرس موسع ، يبدأ من عقد النكاح إلى انتهاء أيام العرس*  ( الملخص الفقهي: 2/364 ).

وفق الله الجميع للخير

محمد معاذ أبو قحافة
٢ جمادي الأخرى ١٤٤٠ھ ليلة الجمعة