*سوال*
assalam alaikum : ek ahem sawal hai jo aaj kal bahut viral ho raha hai : (jis din nikah hota ha usi din walima jayez hai ya nahin , ager jayez hai to hadees ki roshni main wazeh kijiye ) jazakallah.
*جواب*
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!
آپ کا یہ سوال در اصل اس وقت بیشتر حضرات کا سوال ہے۔ بار ہا بذریعہ فون بھی اس سے متعلق استفسار کیا جا چکا ہے۔
ولیمہ کس وقت کیا جائے؟ یعنی کیا خلوت شرط ہے؟ اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھیں۔
*پہلی بات*
خلوت (دخول) کے بعد کرنا *افضل اور مستحب* ہے۔
اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ اپنا ہر ولیمہ *خلوت* کے بعد ہی کئے ہیں۔
ولیمہ کا خلوت (بعد از دخول) کے بعد مستحب ہونا اہل علم نے درج ذیل حدیث سے استدلال کئے ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: *أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ عَرُوْساً بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، ... وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِيْنَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ٱرْتِفَاعِ النَّهَارِ* .
رسول اللہ ﷺ نے *زینب بنت جحش* رضی اللہ عنہا کے دلہا کی حیثیت سے صبح کی، آپ ﷺ نے اسی رات مدینہ میں ان سے شادی کی تھی، دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کے لئے بلایا۔
( *متفق عليه*: صحيح البخاري: 4797، وصحيح مسلم: 1428، واللفظ له ).
*نوٹ*
امام ابو ابوبکر البیہقی رحمہ اللہ اپنی (( السنن الكبرى )) کی *کتاب الصَّداق* میں اس مذکورہ حدیث کو صحیح بخاری (5170) کے حوالے سے نقل کئے ہیں، اور اس پر باب قائم کئے ہیں: *بابُ وقْتِ الوَليمَةِ*. گویا اس حدیث یہ مسئلہ واضح فرمائے ہیں کہ ولیمہ خلوت کے بعد ہوگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح والی حدیث کی روشنی میں ولیمہ کا وقت خلوت کے بعد ہی مشروع ہے۔ *وقتُ الوليمةِ في حديث زينبَ وصفته تدلُّ على أنَّه عقب الدخول*. ( *الفتاوىٰ الكبرىٰ*: ص ١٤١٦، دار ابن حزم. ط: الأولى- ١٤٣٨ھ ).
*دوسری بات*
اہل علم نے ولیمہ کا وقت خلوت کے بعد ہونا مستحب کہا ہے، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کا عملی طریقہ یہی احادیث سے ملتا ہے۔
مگر درست بات یہی ہے کہ مذکورہ وقت کا اہتمام استحباب کا درجہ رکھتا ہے، وجوب کا نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ولیمہ کا کوئی خاص وقت متعین نہیں فرمائے ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اہل علم کے متعدد اقوال ملتے ہیں کہ ولیمہ کا وقت کونسا ہے؟
نکاح کے فوراً بعد اور خلوت سے پہلے!! یا خلوت کے بعد۔
یا پھر آغازِ نکاح سے لے کر شادی کے آخری وقت تک وسعت ہے کبھی بھی ولیمہ کیا جا سکتا ہے۔
آپ کہتے ہیں:
*وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول أو عقبه، أو موسَّع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول*. پھر مختلف آراء ذکر کرکے ولیمہ کے وقت کو *غیر متعین* ہی بتائے ہیں۔ ( *فتح الباري*: ١١/٥١٩، دار طيبة ).
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی الجامع الصحیح کی (( کتاب النکاح )) میں فرماتے ہیں:
*ولمْ يُوَقِّتِ النبيُّ ﷺ يوماً ولا يومين*. نبی کریم ﷺ ولیمے کے لئے صرف ایک یا دو دن مقرر نہیں فرمائے۔ اس میں بھی وسعت ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے:
*أي لم يجعل للوليمة وقتاً معيّناً يختصُّ به*. (١١/٥٣٩).
*خلاصہ*
اگر نکاح خانی کے ساتھ خلوت کے بعد ولیمہ ہو تو افضل ہے، مستحب ہے، اَولیٰ ہے۔
البتہ نکاح خوانی کے علی الفور (( خلوت سے قبل )) ولیمہ کرنا ہے تو اس میں وسعت ہے۔ مکمل گنجائش ہے۔
دوسرے ہی دن کرنے کو لازمی نہ قرار دیں۔
شادی کے لئے آئے مہمانوں کے لئے بھی سہولت ہوتی ہے۔
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
ولیمہ کا وقت بہت وسیع ہے، نکاح خوانی سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور شادی کے ایام ( کم وبیش تین دن ) تک جائز ہے۔
شیخ کے الفاظ ہیں:
*وقت إقامة وليمة العرس موسع ، يبدأ من عقد النكاح إلى انتهاء أيام العرس* ( الملخص الفقهي: 2/364 ).
وفق الله الجميع للخير
محمد معاذ أبو قحافة
٢ جمادي الأخرى ١٤٤٠ھ ليلة الجمعة
No comments:
Post a Comment