Kursi par Beth kar Namaz padhna

کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنااور اس کا شرعی حکم:
����������������
اس مختصر مضمون میں نمازیوں کا کرسی پر نماز پڑھنا، خصوصا ًباجماعت نماز کے احکام پر بحث کی گئی ہے۔اس کی غرض و غایت نمازیوں کو نماز کی اصلاح اور اس کے منافی امور سے اجتناب کی رغبت دلانا ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اور شہاد تین کے بعد اہم ترین ہے۔ تمام اعمال کی اصلاح کا دارو مدار اور انحصار نماز کی درستگی پرہے۔اگر نماز درست ہو گی تو باقی تمام اعمال صحیح ہو ں گے۔ اگر نماز درست نہ ہو گی تو باقی تمام اعمال بھی ناقص ہو جائیں گے۔ اس لئے نماز کو اس کے کامل حسن کے ساتھ ادا کرنا اور اس کے تمام ارکان کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرنا عین دین ہے۔آج کل نمازیوں کی کثیر تعداد کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتی ہے اور کوئی مسجد بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ان میں بعض لوگ غیر شعوری طور پر غلطی کاارتکاب کرتے ہیں۔ بسا اوقات نمازی آدمی رکوع تو نہیں کرسکتامگر قیام کی استطاعت رکھتا ہوتا ہے لیکن وہ استطاعت کے باوجود کھڑا نہیں ہوتا جب کہ قیام نماز کا رکن ہے۔ ذیل میں ہم انہی کوتاہیوں اور حالات کو بالتفصیل بیان کریں گے۔

1⃣پہلی صورت:
جو لوگ قیام،رکوع،سجود کی استطاعت موٹاپے یا کسی اور وجہ سے نہیں رکھتے،وہ کرسی پراس کیفیت میں نماز ادا کریں جو ان کےلئے ممکن وآسان ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔"فاتقوا اللہ مااستطعتم"حسب استطاعت اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور اللہ تعالی کافرمان ہے"لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" ۔"اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"
▪افضل عمل یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھ کرنماز ادا کرنے والا امام کے بالکل پیچھے کھڑا نہ ہو تاکہ اگر باوقت ضرورت امام کی نیابت میں امامت کروانا پڑے تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔اور کرسی پر بیٹھنے والا شخص دروس و محاضرات کے موقع پر امام وسامعین کے درمیان حائل بھی نہ ہو۔
▪بہتر یہ ہےکہ ہمیشہ چھوٹی کرسی ہی استعمال کی جائے جو صرف ضرورت کو پورا کرے اور صف بندی میں بھی سہولت رہے۔

2⃣دوسری صورت:
جوشخص قیام اور رکوع تو کرسکتا ہو لیکن سجدہ کی طاقت نہ رکھتا ہو،تو وہ معمول کے مطابق نماز ادا کرےمگر سجدے کے وقت کرسی پر بیٹھ جائےاور بہ قدر طاقت سجدہ کرے۔

3⃣تیسری صورت:
اگر کوئی شخص قیام کی طاقت تو رکھتا ہو مگر رکوع اور سجود کی ہمت نہ پاتاہو تو وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے لیکن رکوع اور سجود کے وقت کرسی پر بیٹھ جائے اور سجدوں میں رکوع کی نسبت زیادہ جھکاؤ ہو۔

4⃣چوتھی صورت:
جو شخص رکوع و سجود کا متحمل تو ہو لیکن قیام میں اسے مشکل پیش آتی ہوتووہ بیٹھ کرنماز ادا کرے،رکوع کرسی کے بغیر اور سجدہ زمین پر کرے۔ اسے چاہئے کہ حسب ضرورت ہی رخصت سے فائدہ اٹھائے۔اور بغیر عذر کے رخصت پر عمل نہ کرے۔رخصت کو ضروت تک محدود رکھے اور بلاوجہ رخصتوں پر عمل نہ کرے۔

5⃣پانچویں صورت:
اگر کوئی شخص قیام اور رکوع میں دقت محسوس کرے لیکن سجدہ بآسانی بجا لا سکتاہو،وہ تمام نماز کرسی پر بیٹھ کرادا کرے لیکن سجدہ زمین پر کرے۔
یاد رہے کہ یہ تمام احکام فرض نماز کے متعلق ہیں،نفل نماز کے متعلق وسعت رکھی گئی ہے۔کہ بندہ جیسے آسانی محسوس کرے نماز ادا کرلے،کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے نفل نماز سواری پر بھی ادا کی ہے۔حدیث نبوی ہے"من صلی قاعدا فلہ نصف اجر القائم"۔۔۔"بیٹھ کر نماز ادا کرنے والےکےلئے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ہے"

6⃣چھٹی صورت:
اگر کوئی شخص قیام ،رکوع اورسجود کی استطاعت تو رکھتا ہے مگر دیگر نمازیوں کی طرح تشہد میں نہیں بیٹھ سکتا تو وہ تشہد کے وقت کرسی پر بیٹھ جائے۔۔

7⃣ساتویں صورت:
اصل صورت تو یہ ہی ہے کہ مریض آدمی زمین پر بیٹھ کر نماز اداکرےلیکن کرسی پر نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔

��نماز میں کرسی کہاں رکھی جائے؟
➖➖➖➖➖➖➖
▪اگر کرسی درمیان صف ہے تو اس کے پچھلے پائے صف کے برابر رکھے جائیں،اور خود بندہ صف سے متقدم ہو تاکہ پچھلے نمازیوں کی صف بندی میں دقت نہ ہو۔

▪اگر کرسی صف کے آخر میں ہے جہاں پیچھے مزید کوئی صف نہ ہو تو اگلے پائے صف کے برابر رکھے جائیں اور نمازی صف میں ہی کھڑا ہو،صف سے متقدم نہ ہو۔

▪جو شخص کرسی پر نماز ادا کرے اس کےلئے جائز نہیں کہ وہ رکوع اور سجود کے وقت تو کرسی کو ہٹا دے اور قیام کی حالت میں پھر اس کو واپس اسی جگہ پر رکھ دے یا اس کے برعکس کرے۔یہ ایک زائد عمل ہے جس کی کوئی ضروت نہیں،نیز کرسی پر بیٹھتے وقت اس کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہے کہ آٰیا وہ بیٹھنے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
کیوں کہ ایک محدود مدت کے بعداشیاء ناکارہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں،اور بعض اوقات جسیم آدمی کے بیٹھنے کی وجہ سےاسکے پائے ٹوٹ جاتےہیں۔جس کی وجہ سے خود اس آدمی اور اس کے اردگرد نمازیوں کو تکلیف پہچنتی ہے۔بعض مخیر حضرات مفاد عامہ کےلئے مسجد میں کرسیاں رکھوا دیتےہیں تو کسی شخص کےلئے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو اپنے لئے خاص کرے۔بلکہ جب مسجد میں آئے تو جو کرسی خالی اور اضافی ہو اس پر نماز ادا کرے۔ایسے ہی اگر کسی شخص نے اپنےلئے کوئی کرسی خرید رکھی ہے تو کسی دوسرے شخص کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ صاحب کرسی کی اجازت کے بغیر اسے استعمال کرے۔

��کرسی پر نماز پڑھتے وقت قابل توجہ امور
➖➖➖➖➖➖
▪یہ بات ذہن نشین رہے کہ کرسی پر نماز اد اکرنے سے خشوع و خضوع میں کمی واقع ہوتی ہے۔کیوں کہ اس حالت میں نمازی ارکان صلوٰۃ کو ان کی مشروع کیفیت میں ادا نہیں کر رہا ہوتا۔اسلئے ضروری ہے کہ اس رخصت سے صرف باوقت ضرورت ہی فائدہ اٹھایا جائے۔دل لگی اور حضور قلب کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رہا جائےاور غفلت کو حتی المقدور قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔
▪کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے اکثر لوگ مریض ہوتے ہیں،ہم اپنے لئے اور ان کےلئے اللہ سے دنیا کی عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کا بہت جلد مسجد میں آنا مناسب نہیں خصوصاً جمعہ کےدن۔کیونکہ میں نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ ایسے لوگ دوران خطبہ نیند کے خراٹے لے رہے ہوتے ہیں۔ مجھے بعض قابل اعتماد لوگوں نے ایسے واقعات بیان کئے ہیں کہ ایک آدمی بہت جلد مسجد میں آیا اور سو گیا۔جب مسجد کے کسی ذمہ دار نے ان کو جگایا اور کہا کہ نماز ہو چکی ہے اور سب لوگ مسجد سے جا چکےہیں تو انہوں نے کہا کہ میں تو نماز کے انتظار میں ہوں۔انہیں بتایا گیا کہ نماز تو بہت پہلے کی ہو چکی ہے لہذا انکی نماز جمعہ فوت ہو گئی ہے۔
▪بعض لوگ جب کسی ایسے کھڑے آدمی کو نماز ادا کرتا دیکھتے ہیں جس کے پیچھے کرسی موجود ہوتو وہ کرسی کو بے مقصد خیال کر کے اس کو وہاں سے ہٹا دیتےہیں۔تو نمازی آدمی اس گمان کے ساتھ کہ رکوع اور سجود میں بیٹھنےلگتا ہے کہ کرسی پیچھے ہی موجود ہے گر جاتاہےاور گرنے کی وجہ سے بعض اوقات اس کا مرض بھی بڑھ جاتاہے۔اس طرح سے ایک تو وہ اپنی نماز توڑ دیتاہےاور دوسرا وہ ناراض ہو کر کرسی ہٹانے والے شخص کو برا بھلا بھی کہتا۔
♻مسئلہ:اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ میز نما چیز کرسی کے آگے رکھ لیتے ہیں،یہ عمل صحیح نہیں ہےسراسر تکلیف ہے جسکا ہمیں حکم نہیں دیا گیاجب کہ نماز میں آدمی سے بغیر کسی تکلف کے حسب استطاعت اور حسب توفیق تقویٰ مطلوب ہے،تقویٰ کا حصول ہی نماز کا اصل مقصد ہے اور یہ ہی اکثر علما کا موقف ہے۔
مسئلہ:ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے بعض بھائی سجدے کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں بچھا دیتےہیں اور پھر ان کے برابر سجدہ کرتے ہیں۔یہ درست عمل نہیں اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود ہے۔

(واللہ اعلم)
بشکریہ ہفت روزہ اہلحدیث۔

����������������

No comments:

Post a Comment