سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 19..
پچھلی قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کے بچپن اور پھر قریش مکہ کا سردار بننے کا ذکر کیا گیا.. اس قسط میں ان کی زندگی میں پیش آنے والے دو اھم تاریخی واقعات کا ذکر کیا جاۓ گا جن میں سے ایک واقعہ "عام الفیل" ھے.. جب یمن کا حکمران "ابرھہ بن اشرم" ایک لشکرجرار کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے کی نیت سے مکہ پر چڑھ دوڑا تھا مگر اللہ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اسے عبرت ناک انجام تک دوچار کیا.. (یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سابقہ اقساط میں بیان ھوچکا ھے)
دوسرا اھم واقعہ چاہ زمزم کی ازسرنو کھدائی تھی.. دراصل مدتوں پہلے جب مکہ پر قبیلہ بنو جرھم قابض تھا تو چاہ زمزم پر ملکیتی جھگڑے کی وجہ سے اسے مٹی سے پاٹ دیا گیا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس کنویں کا بظاھر نشان تک باقی نہ رھا..
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت ابوطالب سے سن کر بیان فرماتے ھیں کہ ایک روز جب حضرت عبدالمطلب اپنے حجرے میں سوئے تو انہوں نے خواب دیکھا کہ انہیں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جارہا ہے اور خواب ہی میں انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی جوکہ حرم کعبہ کے اندر عین اس جگہ تھی جہاں "اساف و نائلہ" کے بت نصب تھے..
جب حضرت عبدالمطلب نے قریش مکہ اور دوسرے قبائل مکہ کے آگے اس قصے کا ذکر کیا تو ان کی بات پر کسی نے یقین نہ کیا اور نہ ھی کھدائی کے اس کام میں ان کی کسی نے مدد کی.. اس وقت حضرت عبدالمطلب کے صرف ایک ھی بیٹے "حارث" تھے جن کے ساتھ مل کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا جہاں خواب کے ذریعے رھنمائی ھوئی تھی.. چار دن کے بعد پانی ظاھر ھو گیا اور زم زم کا کنواں مل گیا جس میں سے مسلسل پانی ملنے لگا جو آج تک جاری ھے..
چونکہ یہ کنواں بنیادی طور پر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے قدموں سے جاری ھوا تھا اس لیے قریش کے باقی قبائل نے اس کی ملکیت میں حصہ دار بننا چاھا.. حضرت عبدالمطلب کا خیال تھا کہ زمزم اللہ نے ان کو عطا کیا ھے.. اس جھگڑے کو نمٹانے کے لیے عرب کے دستور کے مطابق کسی باعلم اور دانش مند شخص پر فیصلہ چھوڑا گیا.. قبائل کے مختلف نمائندے جن میں حضرت عبدالمطلب شامل تھے , شام کو روانہ ھوئے تاکہ وہاں کی ایک مشہور کاھنہ (روحانی علوم کی ماھر عورت) سے مشورہ کیا جائے.. اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب لوگ کاھنوں کی بات کو اھمیت دیتے تھے..
یہ چھوٹا سا قافلہ ابھی مکہ سے کچھ ھی دور پہنچا تھا کہ سواۓ حضرت عبدالمطلب کے تمام لوگوں کے پاس موجود پانی ختم ھوگیا اور شدت پیاس سے سب مرنے والے ھوگئے.. باقی قبائل نے ان کو پانی دینے سے انکار کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے ساتھیوں نے کچھ قبریں بھی کھود لیں تاکہ جو پہلے مر جائیں ان کو دوسرے دفنا دیں.. اگلے دن حضرت عبدالمطلب نے فیصلہ کیا کہ موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور سفر جاری رکھنا چاھئیے.. وہ اپنے اونٹ پر بیٹھنے لگے تو اونٹ کا پاؤں زمیں پر ایک جگہ زور سے پڑا اور کچھ زیر زمین پانی نظر آیا.. وہاں ایک چشمہ برآمد ھو گیا جس سے انہوں نے اور دوسرے تمام قبائل نے استفادہ کیا..
یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر سب تسلیم کرنے پر مجبور ھوگئے کہ ضرور کوئی غیبی طاقت حضرت عبدالمطلب کے ساتھ ھے.. اس وقت دوسرے تمام قبائلی نمائندوں نے فیصلہ کیا کہ زم زم کے جھگڑے کا فیصلہ اللہ نے اسی جگہ حضرت عبدالمطلب کے حق میں یہ پانی جاری کرکے کیا ھے اس لیے واپس مکہ جایا جائے..
یہی موقع تھا جب حضرت عبدالمطلب نے نذرمانی کہ اگر اللہ نے انہیں دس لڑکے عطا کیے اور وہ سب کے سب اس عمر کو پہنچے کہ ان کا بچاؤ کر سکیں تو وہ ایک لڑکے کو کعبہ کے پاس قربان کردیں گے..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھااللہ
منقول ؛زبیر احمد حفظہ اللہ
الداعی الی الخیر ؛عبدالستاربدرجی گوگی
No comments:
Post a Comment