Sirate nabi 23 to 24

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 23..

حافظ ابو نعیم اپنی کتاب "دلائل النبوۃ" میں عبدالرحمان بن ابی سعید کے حوالے سے بیان کرتے ھیں کہ ایک روز عبدالرحمان ابی سعید بنی اشہل میں ٹھہرے ھوۓ تھے.. انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی کوئی خبر نہ تھی مگر اگلے روز جب وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ قبیلہ حرب میں مقام ھدنہ پہنچے تو انہوں نے یوشع نام کے ایک یہودی عالم کو کہتے سنا.. "میں دیکھ رھا ھوں کہ "احمد" نام کا ایک نبی مکہ میں پیدا ھونے والا ھے.."

یہ سن کر بنی اشہل کے ایک شخص خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے یوشع سے کہا.. "تو مذاق تو نہیں کر رھا..؟ اچھا بتا کہ اس نبی کے اوصاف کیا ھوں گے..؟"

یوشع بولا.. "اس کا ظہور حرم کی طرف سے ھوگا.. اس کا قد نہ چھوٹا ھوگا نہ بہت طویل.. اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ھوں گے.. لباس کے ساتھ اس کے سر پر عمامہ ھوگا.."

جب خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے اپنے قبیلے میں واپس جاکر یوشع یہودی کی زبان سے سنی ھوئی یہ باتیں سنائیں تو اس کے قبیلے والے یک زبان ھوکر بولے.. "تم ایک یوشع کی بات کرتے ھو.. کل سے یثرب (مدینہ) کے تمام یہودی یہی باتیں کررھے ھیں.."

اس کے علاوہ مالک بن سنان بتاتے ھیں کہ وہ اس روز اپنے گھر سے اتفاقا" قبیلہ بنو قریظہ (یہودی قبیلہ) میں چلے گئے.. انہوں نے وھاں دیکھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ھیں اور ان کا ایک عالم " زبیر بن باطا" کہ رھا ھے.. "آسمان پر ایک سرخ ستارہ نمودار ھوا ھے اور ایسا ستارہ صرف اس وقت نمودار ھوتا ھے جب کہیں کوئی نبی پیدا ھوتا ھے.. آج جو نبی پیدا ھوا ھے اس کا نام احمد ھے جو آخری نبی کا نام ھے اور وہ ھجرت کرکے یہیں آۓ گا.."

یاد رھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تمام مذاھب کی مذھبی کتابوں میں پیش گوئیاں موجود ھیں جن کے مطابق آپ کا نام مبارک تورات و انجیل میں "احمد" آیا ھے..

جب مدت بعد کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زبیر بن باطا کی یہ باتیں بیان کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اگر زبیر بن باطا اپنی زندگی میں مسلمان ھوجاتا تو اس کی ساری قوم ایمان لے آتی کیونکہ وہ بھی اس کا اتباع کرتی.."

ابو نعیم چند دوسرے ثقہ راویوں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتے ھیں کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کا کہنا تھا کہ سرخ ستارہ صرف دنیا کے آخری نبی کی ولادت پر طلوع ھوگا.. اس کا نام احمد ھوگا اور وہ ھجرت کرکے یثرب (مدینہ) آۓ گا.. ھمارے لیے اس کی اطاعت لازم ھے..

مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ھجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وھی یہودی جو اپنی مذھبی کتابوں کی پیشگوئیوں پر کہ ان کا نجات دھندہ نبی عرب میں ظہور پذیر ھوگا اور وہ فلسطین سے اسی انتظار میں یہاں مدینہ آباد ھوگئے تھے , صرف اس حسد کی بنا پر کہ نبی آخرالزماں ان کی قوم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسمائیل میں کیوں پیداھوا , نہ صرف اپنے قول سے پھر گئے بلکہ جانتے بوجھتے اپنے کفر پر بھی قائم رھے..

ان واقعات کے علاوہ چند اور عجیب ترین واقعات ولادت مبارکہ کے وقت شہنشاہ ایران "کسر'ی" کے محل میں پیش آۓ جب وھاں زلزلہ آیا اور نہ صرف محل کے چودہ کنگرے گرگئے بلکہ ایک ھزار سال سے روشن شاھی آتش کدے کی آگ بھی یکدم بجھ گئی جبکہ بحیرہ ساوہ جوش کھا کر خشک ھوگیا.. یہ تمام واقعات اگلی قسط میں بیان کیے جائیں گے..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن .

@@@@@@@###$##$$$$$$$$##$$

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 22..

یہاں ان چند محیر العقول واقعات کا ذکر ضروری ھے جو آپ کی ولادت مبارکہ سے کچھ پہلے اور وقت ولادت پیش آۓ.. اس ضمن میں ایک وہ واقعہ ھے جب نیم بیداری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے حضرت آمنہ دردزہ میں مبتلا تھیں' آپ فرماتی ھیں کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس نے تمام مشرق و مغرب کو روشن کردیا.. اس کے ساتھ ھی انہیں وضع حمل کی تکلیف سے نجات مل گئی.. اس کے بعد وہ نور سمٹ کر ان کے قریب آیا اور انہیں ایسا محسوس ھوا جیسے اس مجسم نور نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی جو حضرت آمنہ نے اپنے ھاتھ میں لے لی اور اس کے بعد اس نور نے اپنا رخ آسمان کی طرف کرلیا..

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ھیں کہ حضرت آمنہ کے وضع حمل کے وقت وہ وھاں موجود تھیں اور انہوں نے وھاں سواۓ نور کے کچھ اور نہ دیکھا اور باھر ستارے زمین کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ گویا زمین پر گرنے والے ھوں..

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت قابلہ (دائی) کی خدمات سرانجام دے رھی تھیں.. ان کا بیان ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے بطن سے ان کے ھاتھ میں آۓ تو نومولود کے جسم سے ایسا نور طلوع ھوا کہ جس سے سارا حجرہ اور اس کے در و دیوار چمک اٹھے..

اس ضمن میں ایک یہودی کا واقعہ عجیب و غریب ھے.. ھشام بن عروہ اپنے والد اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاھرہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کرتے ھیں کہ ایک یہودی مکہ میں رہ کر تجارت کرتا تھا.. جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ھوئی اس روز اس نے ایک مجلس میں قریش سے پوچھا.. "کیا تمہیں معلوم ھے کہ کل رات تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان بچہ پیدا ھوا ھے..؟"

وہ بولے.. "نہیں تو.." دریافت کرنے پر معلوم ھوا کہ حضرت آمنہ بنت وھب کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کے ھاں ایک بچہ پیدا ھوا ھے.. اس یہودی نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے وھاں چل کر وہ بچہ دکھاؤ..

یہودی کی اس درخواست پر وہ لوگ اسے حضرت عبدالمطلب کے مکان تک لے گئے.. جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس یہودی کے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روۓ مبارک چاند سے زیادہ روشن ھے.. یہ نور نبوت تھا جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے اور پیشانی سے ظاھر ھورھے تھے.. دوسری طرف جب یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کھول کر دیکھی اور اس کی نظر جب شانوں کے درمیان ایک مسّہ (مہر نبوت ___ جس میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار تھی) پر پڑی تو بے ھوش ھوکر گرگیا.. جب اسے ھوش آیا تو قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا.. "ارے تجھے کیا ھوا ..؟"

وہ یہودی رو رو کر کہنے لگا.. "آج ھم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم میں منتقل ھوگیا.."

پھر جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے قریش کو اس نعمت کی مبارک دی اور کہا کہ تمھاری سطوت کی اب یہ خبر مشرق تا مغرب پھیل جاۓ گی..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

@@@@@@@@##########$$$$$$$$////

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 24..

سابقہ قسط میں حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی وفات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت پیش آنے والے چند غیر معمولی واقعات بیان کیے گئے.. اس قسط میں ایسا ھی ایک غیر معمولی واقعہ جو شہنشاہ ایران کے محل میں پیش آیا , بیان کیا جاۓ گا..

حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن سہل الخرائطی اپنی کتاب "ھواتف الجان" میں مختلف حوالوں سے بیان کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ایران کے مشھور بادشاہ "نوشیرواں" کے ایوان میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے ایوان کے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گرپڑے..

اگر بات یہاں تک ھی محدود رھتی تو اسے ایک حادثہ سمجھ کر توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا مگر اس زلزلہ کے ساتھ چند اور بہت ھی غیر معمولی اور چونکا دینے والی باتیں بھی ظہور پذیر ھوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ شاھی آتشکدے میں پچھلے ھزار سال سے روشن آگ بھی بنا کسی وجہ کے ٹھنڈی پڑگئی..ایک ھزار سال میں ایسا کبھی نہ ھوا تھا کہ اس مقدس آتشکدے کی آگ بجھی ھو.. دوسری طرف بحیرہ ساوہ بھی حیران کن طور پر جوش (کھا کر ابلنے) والا ھوگیا..

نوشیرواں یہ تمام واقعات دیکھ کر چونک گیا.. اس نے اپنے مشیر "موبذان" کو بلا کر یہ سب واقعات سناۓ اور اس کی راۓ طلب کی..

موبذان نے نوشیرواں کو بتایا کہ کل رات اس نے بھی ایک عجیب خواب دیکھا ھے کہ عرب کی طرف سے انسانوں کے غول کے غول اونٹوں پر سوار فارس (ایران) کی طرف امڈے آرھے ھیں اور انہوں نے دریاۓ دجلہ کو بھی عبور کرلیا ھے..

نوشیرواں جو پہلے ھی ان واقعات کی وجہ سے گہری سوچ میں تھا , یہ خواب سن کر پریشان ھوگیا.. اس نے موبذان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی..

موبذان نے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سارے واقعات اور پھر یہ خواب معمولی نہیں ھیں تو بہتر ھے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک تعبیر جاننے کے لیے کسی عالم سے رابطہ کرلینا چاھیے.. چنانچہ نوشیرواں نے موبذان کے مشورہ پر ایک خط لکھ کر یمن میں اپنے نائب السلطنت حاکم "نعمان بن منذر" کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ فورا" اس کی خدمت میں حاضر ھو اور اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کو لاۓ جو بڑا عالم ھو اور نوشیرواں کے تمام سوالوں کے جواب دے سکے..

کسر'ی ایران (ایران کے بادشاہ کا لقب کسر'ی ھوتا تھا جیسے روم کے حکمران "قیصر" اور مصر کے حکمران "فرعون" کہلاتے تھے) کا یہ شاھی فرمان ملتے ھی نممان بن منذر فورا" نوشیرواں کی خدمت میں حاضر ھوگیا اور کسر'ی کے حسب الحکم ایک بہت بڑے عیسائی عالم شخص "عبدالمسیح بن عمرو بن حیان بن نفیلہ غسانی" کو بھی ساتھ لے آیا..

نوشیرواں نے عبدالمسیح بن عمرو کو تمام واقعات اور موبذان کا خواب سنایا اور پھر انکی تعبیر پوچھی.. عبدالمسیح بن عمرو نے جواب دیا کہ اگر حضور چاھیں تو ان واقعات اور خواب کے بارے میں اپنا خیال ظاھر کرسکتا ھوں لیکن میری گزارش ھے کہ اس کے بارے میں میرے ماموں "سطیح" سے جو شام میں قیصر روم کی طرف سے نائب السلطنت ھیں , دریافت کیا جاۓ کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ علم والے ھیں اور کہانت کے فن میں بھی طاق ھیں اور اس بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکتے ھیں..

نوشیرواں کو عبدالمسیح کی بات پسند آئی اور اس نے اپنے کچھ آدمی اس کے ساتھ کرکے اسے اس کے ماموں سطیح کے پاس شام بھیج دیا..

عبدالمسیح بن عمرو شام کے دارالحکومت دمشق اپنے ماموں سطیح کے دربار میں پہنچا جہاں وہ اپنی ذریں مسند پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا.. عبدالمسیح نے اسے سارے واقعات اور خواب سنا کر کہا کہ وہ شہنشاہ فارس نوشیرواں کی طرف سے آیا ھے اور نوشیرواں کی خواھش پر ان کی تعبیر جاننا چاھتا ھے..

عبدالمسیح کی باتیں سن کر سطیح چپ ھو گیا اور کسی نہائت گہری سوچ میں ڈوب گیا.. عبدالمسیح نے جب کوئی جواب نہ پایا تو یہ سمجھ کر کہ سطیح نے اسکی بات کو کوئی اھمیت نہیں دی ھے شکایتا" چند اشعار پڑھے جن میں سطیح کے عدم التفات کا گلہ کیا..

سطیح اشعار سن کر اپنے استغراق سے باھر آیا اور کہا.. "جو واقعات تم نے بیان کیے ھیں اگر وہ صحیح ھیں اور جو خواب موبذان نے دیکھا ھے وہ اس نے صحیح طور پر بیان کیا ھے تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف کسر'ی ایران کے ھاتھ سے سلطنت چھن جاۓ گی بلکہ یہ شام جس پر میں آج کل قیصرروم کی طرف سے حاکم بنا بیٹھا ھوں یہ بھی انہی عرب ناقہ (اونٹ) سواروں کے قبضے میں چلا جاۓ گا جنہیں موبذان نے خواب میں دریاۓ دجلہ عبور کرتے دیکھا ھے.."

جب عبدالمسیح نے اپنے ماموں سطیح کا جواب نوشیرواں کو فارس واپس آ کر سنایا تو نوشیرواں نے کہا کہ ابھی تو میری اولاد میں کئی پشتوں تک حکمرانی چلے گی اس کے بعد جو ھوگا دیکھا جاۓ گا..

بہرکیف تاریخ بتاتی ھے کہ کچھ عرصہ بعد سطیح کی پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ھوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے آخری آیام سے فارس و روم کے خلاف جو فوج کشی شروع ھوئی وہ بلآخر تیسرے خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی' عنہ کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور نہ صرف ایران کی تین ھزار ایک سو چونسٹھ سال سے جاری شہنشائیت کو مجاھدیں اسلام نے اپنے گھوڑوں کی سموں تلے روند دیا بلکہ سرزمین شام پر بھی اسلامی علم لہرا دیا گیا..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھمااللہ
منقول ؛ ڈاکٹرزبیراحمد حفظہ اللہ
الداعی الی الخیر ؛ عبدالستاربدرجی گوگی

No comments:

Post a Comment