سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 32..
حضرت عبدالمطلب کی وفات کا واقعہ ایک اور لحاظ سے بھی بہت اھمیت کا حامل ھے.. قصی بن کلاب نے جملہ امور ریاست آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد "عبدمناف" کے حوالے کیے تھے جو کہ بعدازاں ان کے بیٹے اور آپ کے پردادا حضرت ھاشم کے حصہ میں آۓ.. دوسری طرف حضرت ھاشم کے ھی دور میں خانہ کعبہ کی تولیت کے زیادہ تر حقوق بھی حضرت ھاشم نے حاصل کرلیے اور ان سے یہ تمام اختیارات حضرت عبدالمطلب کو بھی وراثتا" حاصل ھوۓ.. ان کی حیثیت اپنے والد حضرت ھاشم کی طرح مکہ کے سردار کی تھی لیکن ان کی وفات نے دفعتا" بنو ھاشم کے اس رتبہ امتیاز کو گھٹا دیا اور کئی دھائیوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیاوی اعتبار سے خاندان بنوامیہ خاندان بنو ھاشم پر غالب آگیا اور مکہ کی مسند ریاست پر "حرب" متمکن ھوا جو "امیہ" کا نامور فرزند تھا.. حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ انہی حرب بن امیہ کے بیٹے تھے اور حرب کے بعد مکہ کے سردار اور سپہ سالار بنے.. حرب بن امیہ نے ریاست اور تولیت خانہ کعبہ کے جملہ اختیارات اپنے قبضہ میں کرلیے اور صرف "سقایہ" یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت ھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس باقی رھی جو حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے..
حضرت عبدالمطلب کے مختلف ازواج سے دس بیٹے تھے جن میں سے آنحضرت کے والد حضرت عبداللہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی' عنہ کے والد جناب ابو طالب ماں کی طرف سے سگے بھائی تھے.. اس لیے حضرت عبدالمطلب نے آپ کو حضرت ابوطالب کے ھی آغوش تربیت میں دے دیا.. اس کے علاوہ حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنی بیٹیوں یعنی آپ کی پھوپھیوں اروی' , امیمہ , برہ , صفیہ , عاتکہ اور ام حکیم البیضاء کو بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش اور خیال رکھنے کی وصیت کی..
حضرت ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر لے آئے.. ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش میں انہوں نے بڑی دلجمعی سے حصہ لیا.. حضرت ابوطالب بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور مرتے دم تک آپ کے سر پر کسی مضبوط سائبان کی طرح سایہ کیے رکھا.. ان کی محبت اس درجہ بڑھی ھوئی تھی کہ آپ کے مقابلہ میں اپنی سگی اولاد کی بھی پرواہ نہ کرتے اور حضرت عبدالمطلب کی طرح ھر وقت آپ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے..
حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے اس لئے بڑی عُسرت اور تنگدستی سے گزر بسر ہوتی تھی.. باوجود کم سِنی کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے گھر کی یہ حالت دیکھی تو کام کاج کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا.. لوگوں کی بکریوں کو اُجرت پر چراتے اور بکریوں کو مکہ کی ایک پہاڑی "اجیاد" کے قریب "اریقط" نامی مقام پر لے جایا کرتے اور اس سے جو کچھ اجرت ملتی وہ اپنے چچا کو دیتے.. عرب میں بکریاں چرانا کوئی معیوب کام نہ تھا.. بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چرایا کرتے تھے اور یہ ان بچوں کے لیے کوئی کام نہیں بلکہ ایک مشغلہ کی حیثیت رکھتا تھا اور عرب طرز معاشرت کا جائزہ لیا جاۓ تو اسے باآسانی سمجھا جاسکتا ھے..
زمانہ رسالت میں آپ اس سادہ اور پرلطف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے.. ایک مرتبہ آپ صحابہ کرام کے ساتھ اسی جنگل میں تشریف لے گئے.. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اراک (پیلو کے درخت) کے پھل چُن رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "جو سیاہ ہو گیا وہ لے لو کہ وہی سب سے اچھا ہوتا ہے.." اس پر صحابہ نے عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ بھی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے.." فرمایا.. "ہاں ! کوئی پیغمبر ایسا نہیں گزرا جس نے بھیڑ بکریاں نہ چرائی ہوں.."
دس بارہ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مشغلہ جاری رہا..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھمااللہ
منقول ؛ ڈاکٹرزبیر احمدحفظہ اللہ
الداعی الی الخیر؛عبدالستار بدرجی گوگی
No comments:
Post a Comment