سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 61..
ان دونوں بطلِ جلیل یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے مسلمان ہوجانے کے بعد ظلم وطغیان کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور مسلمانوں کو جور وستم کا تختۂ مشق بنانے کے لیے مشرکین پر جو بدمستی چھائی تھی اس کی جگہ سوجھ بوجھ نے لینی شروع کی.. چنانچہ دانشوران کفر نے "دارالندہ" میں تمام سرداروں کو جمع کرکے مشورہ کیا جس میں طے ہوا کہ سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے راست گفتگو کریں.. اس کے بعد ایک دن سورج ڈوبنے کے بعد کعبہ کی پشت پر جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا بھیجا..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیر کی توقع لیے ہوئے جلدی سے تشریف لائے.. جب ان کے درمیان بیٹھ چکے تو انہوں نے ویسی ہی باتیں کہیں جیسی عتبہ نے کہی تھیں اور وہی پیشکش کی جو عتبہ نے کی تھی.. شاید ان کا خیال رہا ہو کہ ممکن ہے تنہا عتبہ کے پیشکش کرنے سے آپ کو پورا اطمینان نہ ہوا ہو , اس لیے جب سارے رؤساء مل کر اس پیشکش کو دہرائیں گے تو اطمینان ہوجائے گا اور آپ اسے قبول کر لیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا..
"میرے ساتھ وہ بات نہیں جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں.. میں آپ لوگوں کے پاس جو کچھ لے کر آیا ہوں وہ اس لیے نہیں لے کر آیا ہوں کہ مجھے آپ کا مال مطلوب ہے یا آپ کے اندر شرف مطلوب ہے یا آپ پر حکمرانی مطلوب ہے.. نہیں بلکہ مجھے اللہ نے آپ کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے.. مجھ پر اپنی کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو خوشخبری دوں اور ڈراؤں.. لہٰذا میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور آپ لوگوں کو نصیحت کردی.. اب اگر آپ لوگ میری لائی ہوئی بات قبول کرتے ہیں تو یہ دنیا اور آخرت میں آپ کا نصیب ہے اور اگر رد کرتے ہیں تو میں اللہ کے امر کا انتظار کروں گا.. یہاں تک کہ وہ میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ فرمادے.."
اس جواب کے بعد انہوں نے ایک دوسرا پہلو بدلا.. کہنے لگے.. "آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ہمارے پاس سے ان پہاڑوں کو ہٹا کر کھلا ہوا میدان بنادے او راس میں ندیاں جاری کردے اور ہمارے مُردوں بالخصوص قصی بن کلاب کو زندہ کر لائے.. اگر وہ آپ کی تصدیق کردیں تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس بات کا بھی وہی جواب دیا..
اس کے انہوں نے ایک تیسر اپہلو بدلا.. کہنے لگے.. "آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ایک فرشتہ بھیج دے جو آپ کی تصدیق کرے اور جس سے ہم آپ کے بارے میں مراجعہ بھی کرسکیں اور یہ بھی سوال کریں کہ آپ کے لیے باغات ہوں , خزانے ہوں اور سونے چاندی کے محل ہوں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کا بھی وہی جواب دیا..
اس کے بعد انہوں نے ایک چوتھا پہلو بدلا.. کہنے لگے.. "اچھا تو آپ ہم پر عذاب ہی لادیجیے اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرادیجیے جیسا کہ آپ کہتے ہیں اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اس کا اختیار اللہ کو ہے.. وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے.."
انہوں نے کہا.. "کیا آپ کے رب کو معلوم نہ تھا کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھیں گے , آپ سے سوال وجواب کریں گے اور آپ سے مطالبے کریں گے کہ وہ سکھا دیتا کہ آپ ہمیں کیا جواب دیں گے اور اگر ہم نے آپ کی بات نہ مانی تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا..؟"پھر اخیر میں انہوں نے سخت دھمکی دی اور کہنے لگے.. "سن لو ! جوکچھ کر چکے ہو اس کے بعد ہم تمہیں یوں ہی نہیں چھوڑیں گے بلکہ یا تو تمہیں مٹادیں گے یا خود مٹ جائیں گے.."
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ گئے اور اپنے گھر واپس آگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غم وافسوس تھا کہ جو توقع آپ نے باندھ رکھی وہ پوری نہ ہوئی..
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے پاس سے اٹھ کر واپس تشریف لے گئے تو ابوجہل نے انہیں مخاطب کر کے پورے غرور وتکبر کے ساتھ کہا.. "برادران قریش ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے دین کی عیب چینی , ہمارے آباء واجداد کی بدگوئی , ہماری عقلوں کی تخفیف اور ہمارے معبودوں کی تذلیل سے باز نہیں آتا.. اس لیے میں اللہ سے عہد کررہا ہوں کہ ایک بہت بھاری اور بمشکل اٹھنے والاپتھر لے کر بیٹھوں گا اور جب وہ سجدہ کرے گا تو اس پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا.. اب اس کے بعد چاہے آپ لوگ مجھ کو بے یارومددگار چھوڑ دیں چاہے میری حفاظت کریں اور بنوعبد مناف بھی اس کے بعد جو جی چاہے کریں.."
لوگوں نے کہا.. "نہیں واللہ ! ہم تمہیں کبھی کسی معاملے میں بے یارو مدد گار نہیں چھوڑ سکتے.. تم جو کرنا چاہو کر گزرو.." چنانچہ صبح ہوئی تو ابوجہل ویسا ہی ایک پتھر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھ گیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب دستور تشریف لائے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے.. قریش بھی اپنی اپنی مجلسوں میں آچکے تھے اور ابو جہل کی کاروائی دیکھنے کے منتظر تھے..
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو ابوجہل نے پتھر اٹھایا , پھر آپ کی جانب بڑھا لیکن جب قریب پہنچا تو شکست خوردہ حالت میں واپس بھاگا.. اس کا رنگ فق تھا اور اس قدر مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر چپک کر رہ گئے تھے.. وہ بمشکل ہاتھ سے پتھر پھینک سکا.. ادھر قریش کے کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس آئے اور کہنے لگے.. "ابوالحکم ! تمہیں کیا ہوگیا ہے..؟"
اس نے کہا.. "میں نے رات جو بات کہی تھی وہی کرنے جارہا تھا لیکن جب اس کے قریب پہنچا تو ایک اونٹ آڑے آگیا.. واللہ ! میں نے کبھی کسی اونٹ کی ویسی کھوپڑی , ویسی گردن اور ویسے دانت دیکھے ہی نہیں.. وہ مجھے کھا جانا چاہتا تھا.."
ابن اسحاق کہتے ہیں.. مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ جبریل علیہ السلام تھے.. اگر ابوجہل قریب آتا تو اسے ادھر پکڑتے.."
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
No comments:
Post a Comment