سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 62..
جب قریش ترغیب و تحریص اور دھمکی و وعید سے ملی جلی اپنی گفتگو میں ناکام ہوگئے اور ابوجہل کو اپنی رعونت اور ارادہ ٔ قتل میں منہ کی کھانی پڑی تو قریش میں ایک پائیدار حل تک پہنچے کی رغبت بیدار ہوئی تاکہ جس ''مشکل'' میں وہ پڑ گئے تھے اس سے نکل سکیں..
ادھر انہیں یہ یقین بھی نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی باطل پر ہیں بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے وہ لوگ ڈگمگا دینے والے شک میں تھے.. لہٰذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ دین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سودے بازی کی جائے , اسلام اور جاہلیت دونوں بیچ راستے میں ایک دوسرے سے مل جائیں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر اپنی کچھ باتیں مشرکین چھوڑ دیں اور بعض باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چھوڑنے کے لیے کہا جائے.. ان کا خیال تھا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت بر حق ہے تو اس طرح وہ بھی اس حق کو پالیں گے..
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ , ولید بن مغیرہ , امیہ بن خلف اور عاص بن وائل سہمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آگئے.. یہ سب اپنی قوم کے بڑے لوگ تھے.. بولے.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آئیے ! جسے آپ پوجتے ہیں اسے ہم بھی پوجیں اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے آپ بھی پوجیں.. اسی طرح ہم اور آپ اس کام میں مشترک ہوجائیں.. اب اگر آپ کا معبود ہمارے معبود سے بہتر ہے تو ہم اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے اور اگر ہمارا معبود آپ کے معبود سے بہتر ہوا تو آپ اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے.."
اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نازل فرمائی جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو اسے میں نہیں پوج سکتا..
ابن جریر وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا.. "آپ ایک سال ہمارے معبودوں کی پوجا کریں اور ہم ایک سال آپ کے معبود کی پوجا کریں.." اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی..
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ O ﴿٦٤﴾ (۳۹: ۶۴)
"آپ کہہ دیں کہ اے نادانو ! کیا تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کے لیے کہتے ہو.." ( تفسیر ابن جریر طبری)
اللہ تعالیٰ نے اس قطعی اور فیصلہ کن جواب سے اس مضحکہ خیز گفت وشنید کی جڑ کاٹ دی لیکن پھر بھی قریش پورے طور سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے دین سے مزید دست برداری پر آمادگی ظاہر کی.. البتہ یہ شرط لگائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جو تعلیمات لے کر آئے ہیں اس میں کچھ تبدیلی کریں.. چنانچہ انہوں نے کہا.. "اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی میں تبدیلی کردو.."
اللہ نے اس کا جو جواب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا اس کے ذریعہ یہ راستہ بھی کاٹ دیا.. چنانچہ فرمایا..
قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ O ﴿١٥﴾ (۱۰: ۱۵)
"آپ کہہ دیں مجھے اس کا اختیار نہیں کہ میں اس میں خود اپنی طرف سے تبدیلی کروں.. میں تو محض اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے.. میں نے اگر اپنے رب کی نافرمانی کی تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.."
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
No comments:
Post a Comment