Hairat Angez
Tahkiki KhabarNama
Padh Kar Dang Rah Jane Wali Baat
Kala Hazrat Ahmad Raza Khan Asli Shia Thaa
ا👇🏻👁👇🏻👁👇🏻👁👇🏻👁👇🏻ا
كالا حضرت احمد رضا خان كى حكيقت
من جنيب احمد بهائ سلفى
جس وقت
نادر شاہ ایرانی نے
ہندوستان کی سنی حکومت کو
تباہ کرنے اور سنی مسلمانوں کو شہید کرنے
کا پروگرام بنایا تھا۔
اس وقت ہندوستان میں
مغلیہ خاندان کے ایک سنی
حکمران روشن اختر ملقب بہ محمد شاہ
(المتوفٰی ۱۱۶۱ھ/۱۷۴۸ئ) کی حکومت تھی۔
نادر شاہ کی یہ
ایرانی شیعہ فوج
دو لاکھ سواروں اور
پیادہ سپاہیوں اور پانچ
ہزار توپوں پر مشتمل تھی۔ (۲)
ا👇🏻👁👁👇🏻👁👁👇🏻👁👁👇🏻
مولانا
احمد رضا خان
بریلوی کا خاندان بھی
اس شیعہ رافضی ایرانی فوج
میں شامل تھا۔ اس کا ثبوت ملاحظہ ہو۔
ثبوت نمبر۱:
ابو المنصور حافظ
محمد انور صاحب قادری
ایم اے لکھتے ہیں آپ کے جد اعلیٰ
حضرت محمد سعید خان کا تعلق قندھار کے
باوقار قبیلے بڑہیچ کے پٹھانوں سے تھا، نادر شاہ نے
جس وقت مغلیہ خاندان کے حکمران محمد شاہ رنگیلا
پر حملہ کیا۔ تو ۱۷۳۹ء میں یہ بھی ہمراہ آئے۔
شروع میں
ان کا قیام لاہور میں رہا۔
لاہور کا شیش محل ان ہی کی
جاگیر میں تھا۔ بعد میں دہلی چلے آئے۔ (۳)
(۱) (دیکھئے مقدمہ مناظرہ
نادرہ ما بین سنی و شیعہ ص۳ ملخصاً)
(۲) (دیکھئے اسلامی تاریخ پاکستان
و ہند ج۲ ص۲۰۶ ہدایت اﷲ خان چودھری)
(۳) (دیکھئے اعلیٰ حضرت
مولانا احمد رضا خان ص۱۲)
ثبوت نمبر۲:
مولانا ظفر الدین صاحب لکھتے ہیں: ’’
عالی جاہ شجاعت
جنگ بہادر جناب مستغنی
عن القاب شاہ سعید اﷲ خان صاحب
قندھاری بزمانہ سلطان محمد شاہ، نادر شاہ
کے ہمراہ دہلی آئے۔ اور منصب شش ہزاری پر فائز ہوئے۔
ان کو سلطان والا شان کے یہاں سے بہت سے مواضعات
جو زیرین ریاست رامپور میں معانی علی الدوام پر ملے
تھے۔ یہ مواضعات ان کی اولاد کے پاس اب موجود نہیں ان کا ایک شیش محل لاہور میں تھا۔ جس کا ابھی تک کچھ اثر باقی ہے۔ (۱)
برادران اسلام:
اس معتبر ثبوت سے
معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت
بریلوی کا خاندان نادر شاہ ایرانی
کی شیعہ ایرانی فوج میں شامل تھا
اور لڑائی کے لیے آیا تھا۔ چنانچہ لاہور کے
شیش محل پر غاصبانہ قبضہ بھی جما لیا تھا۔
مگر نادر شاہ نے اپنی رافضی ایرانی فوج کو حکم دیا
کہ لاہور چھوڑ کر دہلی پر حملہ کریں۔ تو ایرانی فوج نے اپنے مذہبی حکمران کا حکم تسلیم کرتے ہوئے لاہور
چھوڑ کر دہلی پہنچے۔ چنانچہ جیسا کہ آپ پڑھ چکے
ہیں کہ
اعلیٰ حضرت
بریلوی کے جد اعلیٰ بھی
نادر شاہ کے ہمراہ دہلی پہنچے۔
اور علماء ہند کا شان دار ماضی ج۲ ص۳۴
میں ہے کہ نادر شاہ کا قتل عام ذیقعدہ ۱۱۵۱ھ
فروری ۱۷۳۸ء میں ہوا۔ سو چند گھنٹوں میں یعنی
صبح سے دوپہر تک شہر دہلی مردہ لاشوں سے پٹ گیا
مقتولین کی تعداد آٹھ ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک بیان کی
گئی ہے۔ اور سیر المتاخرین والے نے رافضی ہونے کے
باوجود لکھا ہے کہ مردہ لاشوں میں بدبو پھیل گئی اور
راستے مسدود ہو گئے تو بغیر تمیز مسلم و کافر کے
سب لاشوں کے جلانے کا حکم نادر شاہ نے دے دیا تو
سب مردہ لاشوں کو جلا دیا گیا۔ (ملخصاً)
(۱) (حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۳)
پھر نادر شاہ کے
معاہدے کے بارے میں
ہدایت اﷲ خان چودھری لکھتا ہے۔ ’’
معاہدے کی رو سے یہ قرار پایا کہ نادر شاہ
پچاس لاکھ روپے بطور تاوان وصول کر کے فوراً
واپس چلا جائے گا۔ اور مطلوبہ رقم مختلف اقساط
سے اسے ادا کر دی جائے گی۔
آخری قسط اسے ایران جاتے ہوئے
دریائے سندھ کو پار کرتے ہی پیش کر دی جائے گی۔
لیکن نظام الملک کے دشمن سعادت خان گورنر اودھ نے
نادر شاہ کو مطلوبہ رقم میں اضافہ کر دینے پر رضا مند کر لیا۔
نادر شاہ نے تاوان کی
رقم بیس کروڑ روپے مقرر کی۔
اور نظام الملک کو لکھا کہ مغل شاہ کو
دوبارہ اس کے حضور پیش ہو۔
محمد شاہ جوں ہی نادر شاہ کو ملنے
کے لیے ایرانی لشکر میں پہنچا اسے گرفتار
کر لیا گیا۔
شہنشاہ کی قید کے ساتھ ہی
تمام ہندوستانی سلطنت کے قفل کو
کھولنے والی کنجی اب نادر شاہ کے ہاتھ تھی۔ (۱)
قارئین کرام! نادر شاہ
ایرانی تو واپس چلا گیا،
مگر اعلیٰ حضرت بریلوی کے
جد اعلیٰ سعید اﷲ خان قندھاری
واپس اپنے ملک نہ گئے بلکہ یہاں ہندوستان
میں اقامت پذیر ہو گئے بلکہ محمد شاہ کے معتمد
خاص ہو گئے۔ اور منصب شش ہزاری پر فائز ہوئے۔
اور بہت سے مواضعات جو زیرین ریاست رام پور میں
تھے۔ انہیں ہمیشہ کے لیے عطا کئے گئے جیسا کہ بحوالہ
گزر چکا ہے۔
پھر سعید اﷲ خان کے لڑکے
سعادت یار خان تو محمد شاہ کے
وزیر بن گئے۔ اور بہت سی زمین ضلع بدایوں
میں انہیں ہمیشہ کے لیے عطا کر دی گئی۔ جس سے
ان کی نسل در نسل مستفید ہوتی رہی۔ (۲)
اب قابل غور یہ بات ہے کہ
قندھار کے مسافر محمد شاہ کے
منظور نظر کیسے ہو گئے دو باتیں سمجھ آتی ہیں
ان میں سے ایک ضرور ہو گی۔
(۱) (اسلامی تاریخ پاکستان و ہند ج۲ ص۲۰۷)
(۲) (حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۳، ۱۴)
1… نادر شاہ کے
چونکہ ہمراہ آئے تھے
اس لیے اس نے محمد شاہ کو
کہا ہو کہ یہ میرے معتمد ہیں ان کو
بڑے عہدے دے کر اپنے پاس رکھو تاکہ
میرے اور تمہارے درمیان یہ ایجنٹی کا کام
کرتے رہیں۔
2… یا یہ کہ
یہ حضرت اپنی
قابلیت کی بنا پر محمد
شاہ کے منظور نظر ہو گئے اور
محمد شاہ کا منظور نظر و انعامات
کا مستحق وہ شخص ہوتا تھا جو کہ اس
کی رنگ رلیوں کے لیے سامان تعیش مہیا کرتا تھا۔
ہدایت اﷲ خان
چودھری لکھتا ہے: وہ
رنگ رلیوں ہی میں مستغرق رہتا
اسی واسطے اسے محمد شاہ رنگیلا کہا جاتا ہے۔
اس کے عہد میں
اکثر صوبے مغلیہ سلطنت
سے آزاد ہو گئے۔ اور مغلیہ سلطنت
کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ ۱۷۳۹ء میں نادر شاہ نے
حملہ کر کے سلطنت کو بالکل ہی تباہ کر ڈالا،
علی وردی خان بنگال میں
سعادت علی خان اودھ میں اور
نظام الملک دکن میں خود مختار بن بیٹھے۔ (۱)
اور ماہنامہ الرشید
دار العلوم دیوبند نمبر ص۳۹۸
میں ہے۔ عالمگیر کے پوتے جہاںدار شاہ نے
تحت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنی ایک
منظور نظر طوائف کے بھائی کو دہلی کا افسر مقرر کیا۔
پھر جہاندار شاہ کے
پڑپوتے محمد شاہ رنگیلے نے
تو کمال ہی کر دیا۔ اس نیلال قلعہ
کے اندر حوضوں میں شراب بھروائی۔
يه تهى
كالا حضرت کے
باپ دادا رنغيلون كى داستان
شیعہ وه كام نا كرپاتا
جو كالا حضرت نے سونى بنكر كيا
ا👆🏻👁👁👆🏻👁👁👆🏻👁👁👆🏻ا
احمد بهائ سلفى
No comments:
Post a Comment