شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں ساتویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
ساتویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
________________

*محترم قارئین!* پچھلی قسط میں ہم نے شیعوں کے ایک عقیدے "موجودہ قرآن اصلی نہیں ہے" کی وضاحت کی کوشش کی تھی اور اس کے ضمن میں ہم نے یہ بات بھی بیان کی تھی کہ ان کے اپنے عقیدے کے مطابق "قرآن میں حذف و تحریف کس نے کی"....... اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب موجودہ قرآن اصلی نہیں ہے اور اس میں صرف ایک تہائی آیات ہی درج ہیں، بقیہ دو تہائی آیتوں کو ختم کر دیا گیا تو اصلی قرآن کہاں ہے؟ اور وہ آج تک منظر عام پر کیوں نہیں آیا؟.... تو آج کی اس قسط میں ہم ان شاء اللہ اسی سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے....

*اصلی قرآن کہاں ہے؟*

یہ بات بھی مذہب شیعہ اور شیعی دنیا کے معروف مسلّمات میں سے ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو قرآن مرتب کرایا تھا وہ اس کے بالکل مطابق تھا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور موجودہ قرآن سے مختلف تھا، وہ حضرت علی کے پاس ہی رہا اور ان کے بعد ان کی اولاد میں سے ہونے والے ائمہ کے پاس رہا اور اب اصلی قرآن اس امام کے پاس موجود ہے جو غار میں چھپ گئے تھے اور اب تک وہیں روپوش ہیں، جب وہ ظاہر ہوں گے تو اس اصلی قرآن کو بھی ظاہر کریں گے، اس سے پہلے کوئی بھی اصلی قرآن نہیں دیکھ سکتا....

اب آیئے ان کے اس عقیدے پر ان سے ہی دلیل مانگتے ہیں.... مشہور شیعہ مصنف احمد بن ابی طالب طبرسی (متوفی 588ھ) اپنی کتاب میں لکھتا ہے: "جب امام غائب ظاہر ہوں گے تو ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلحہ اور آپ کی تلوار ہوگی، ان کے پاس ایک رجسٹر ہوگا جس میں قیامت تک کے شیعوں کے نام درج ہوں گے، ان کے پاس " الجامعہ" بھی ہوگا جو کہ ایک رجسٹر ہے جس کی لمبائی ستّر ہاتھ ہے اور اس میں انسانی ضرورت کی ہر چیز کا ذکر ہے نیز ان کے پاس "حفر اکبر" بھی ہوگا جو کہ چمڑے کا ایک برتن ہے جس میں تمام علوم بھرے ہوئے ہیں حتی کہ خراش کی دیت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے اور ان کے پاس مصحف فاطمہ یعنی حضرت فاطمہ علیہا السلام والا قرآن بھی ہوگا"..... (الاحتجاج علی اھل اللجاج للطبرسی، مقدمہ)
(مستفاد از الشیعۃ والسنۃ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ص 102)
بعض شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ حصے کا علم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو تھا کیونکہ بعض اوقات نزول وحی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی موجود ہوتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ آیات جو کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھیں انہوں نے جمع کیں، باقی صحابہ کو ان آیات کا علم نہ تھا اور یوں موجودہ قرآن اصلی نہ ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس والا قرآن اصلی ثابت ہوا.....
غور سے پڑھیں قارئین! کہ کتنی ڈھٹائی سے پوری شیعہ برادری نے صحابہ کرام کی پاکباز جماعت کو مطعون قرار دے دیا اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا صدیق اکبر، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم سمیت چار کے علاوہ تمام صحابہ سے بغض و عناد رکھنے والے کامیاب ہو سکتے ہیں؟

*تحریف قرآن کی چند مثالیں*

دو ذیلی عناوین کی وضاحت کے بعد اب آیئے ان کے اپنے خیال کے مطابق قرآن میں کی جانے والی چند تحریفات کو بھی دیکھ اور سمجھ لیتے ہیں:

1- سورہ أحزاب کی آیت نمبر 71 میں اللہ فرماتا ہے "وَمَن یُطِعِ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَد فَازَ فوزاً عَظِیماً" یعنی جو اللہ اور اس کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی حاصل کر لے گا..... اس آیت کے بارے میں شیعہ کہتے ہیں جیسا کہ اصول کافی میں ابو بصیر کی روایت ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "یہ آیت اس طرح نہیں، بلکہ اس طرح نازل ہوئی تھی "وَمَن یُطِعِ اللہَ وَرَسُولَہُ فی وِلَایَۃِ عَلِیٍّ وَالائمۃ مَن بَعدَہ فَقَد فَازَ فوزاً عَظیماً" یعنی جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے ائمہ کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی حاصل کر لے گا....... مطلب یہ ہوا کہ اس آیت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے ائمہ کی امامت کے بارے میں صراحت کے ساتھ حکم دیا گیا تھا لیکن اس میں سے "في ولاية علي والأئمة من بعده" کے الفاظ نکال دیئے گئے، جو موجودہ قرآن میں نہیں ہے" (اصول کافی ص 262)

2- سورہ نساء کی آیت نمبر 66 میں اللہ فرماتا ہے "وَلو اَنَّھُم فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ لَکَانَ خیراً لَھُم" یعنی جس بات کی نصیحت انہیں کی گئی اگر وہ لوگ اس پر عمل کریں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا............... اس آیت کے سلسلے میں اصول کافی کی ہی ایک روایت ملاحظہ کریں کہ امام باقر فرماتے ہیں "سورہ نساء کی آیت نمبر 66 اس طرح نازل ہوئی تھی "وَلو اَنَّھُم فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ فِي عَلِیٍّ لَکَانَ خیراً لَھُم" یعنی جس بات کی نصیحت انہیں علی کے بارے میں کی گئی ہے اگر وہ لوگ اس پر عمل کریں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا........ مطلب یہ ہے کہ اس آیت کا خاص تعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تھا لیکن اس میں سے "فِی عَلِیٍّ" نکال دیا گیا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہے..... (اصول کافی 267)
(مستفاد از ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت مولانا منظور نعمانی ص 254)

3- محسن الکاشی اپنی تفسیر میں نقل کرتا ہے کہ قرآن کی آیت "یَا اَیُھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الکُفَّارَ وَالمُنَافِقِینَ" (اے نبی! آپ کفار اور منافقین سے جہاد کرو) اہل بیت کی قرات کے مطابق یوں ہے "یَا اَیُھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الکُفَّارَ بِالمُنَافِقِینَ" یعنی اے نبی! آپ کفار سے جہاد کرو منافقین کو ساتھ ملا کر"..... ( تفسیر الصافی للکاشی ج 1 ص 214)...... لا حول ولا قوۃ الا باللہ

(جاری ہے)
تحریف قرآن کا عقیدہ اور اس کی تردید کے متعلق بقیہ باتیں ان شاء اللہ اگلی قسط میں

*+919022045597*

No comments:

Post a Comment