Hind me islam ki aamad

ہند میں اسلام کی آمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہند میں اسلام کی آمد کب ہوئی اس تعلق سے لوگوں میں لاعلمی کافی بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔یہ لاعلمی چند مخصوص نظریات کے حامل لوگوں ،متعصب غیر مسلم مصنفین اور ان کے علاوہ مسلم ناموں والے مصنفین نے بھی جان بوجھ کر پھیلائی ہے۔ یہاں کی اکثریت ہند میں اسلام کی آمد کا سہرا شمال کے سلسلۂ چشتیہ کے ایک مشہور بزرگ سلطان ہندحضرت معین الدین چشتیؒ کے سر باندھتی ہے، اور انہیں ہی شرک سے آزاد کرانے والا مانتی آئی ہے۔ یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ ہم لوگ اُن سب کو فراموش کر دیتے ہیں جنھوں نے حضرت معین الدین چشتی ؒ سے بھی کئی صدی پہلے ہند میں اسلام کی بنیاد رکھی تھی۔ مسلمانوں کی اکثریت آج صرف انہی ایک بزرگ کو اس کا کرتا دھرتا بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ آج حضرت معین الدین چشتی ؒ کا مزار تمام بدعات خرافات کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ وہاں پر نیم برہنہ سیاح عورتیں ، ملک کے بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد، غیر قانونی کاروبار کرنے والے اپنے اوپر کرم بنائے رکھنے کی درخواست لیے چلے آتے ہیں۔ یہی نہیں بالی ووڈکی اداکارائیں اپنی فلمیں جن میں انتہائی فحش گیت اور فحش ناچ ہوتے ہے، شرمناک مناظر ہوتے ہیں انھیں ہٹ کرانے کی دعائیں مانگنے چلی آتیں ہیں۔کیا یہ ا ن عظیم المرتبہ بزرگان کی توہین نہیں ہے جنہوں نے اشاعت اسلام میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا ۔ اولیاء اللہ کی ایسی توہینِ سے اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین حضر ت معین الدین چشتی ؒ کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ افغانستان، عراق سے ہوتے ہوئے لاہور (ہند) پہنچے۔ اس دوران مختلف علوم کی تربیت حاصل کرتے رہے ، لاہور پہنچنے کے بعد تبلیغ و اشاعت دین کے کام میں مصروف ہوگئے ۔ اشاعتِ دین کی خاطر لاہور سے نکل کر اجمیر ( راجستھان ) پہنچے ۔ یہاں آنے پر انھیں پرتھوی راج اور مقامی علمبرداران مشرکین سے تکلیف پہنچنی شروع ہوئی۔ حضرت معین الدین چشتیؒ نے محمد غوری کو ہند میں اپنے ساتھیوں پر ہورہے مظالم کی خبر دی اور حملے کی درخواست کی ۔محمد غوری ایک بار پھر ہند پر حملہ آور ہوئے اس بار انھیں فتح نصیب ہوئی۔ انھوں نے ہند کو فتح کر دلی میں اپنی حکومت (سلطنتِ غلامان) کی بنیاد رکھی ۔ اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو اپنا قائم مقام مقرر کر غور لوٹ گئے۔ حال ہی میں جب رجب المرجب میں حضرت معین الدین چشتی ؒ کا عرس منا یا گیا اس موقع پر ملک کے بڑے بڑے علماء و مشائخ کہلانے والوں نے حضرت معین الدین چشتی ؒ کی تعریف و توصیف میں اسقدر مبالغہ آرائی اور خیانت سے کام لیا کہ دیگر اہل اسلام کی کاوشیں یکسر فراموش بلکہ مسترد قرار دے دی گئیں جو انھوں نے برصغیر میں اسلام کی خاطر کیں۔ ان قربانیوں کا ذکر بھی نہیں کیانہ انھیں یا د کیا گیاجو ہند میں اولین اشاعت اسلام کی خاطر کی گئیں۔ سب کی زبان اور تحریروں میں بس ایک ہی بات پیش کی جارہی تھی کہ ہمارا ایمان صرف اور صرف حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی اکیلی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ جبکہ ہند میں اسلام تو محمد ﷺ کے دور ہی میں آچکا تھا۔ہند میں اسلام کی آمد کو تین تا چار دور کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے ۔ پہلا دور : دور رسالت میں مالابار کے ساحلی علاقے پر قبل اسلام سے ہی عرب تجار آیا کرتے تھے۔ انھیں کی وجہ سے راجہ چیرامن پیروملؓ خدمتِ رسول میں حاضری دے کر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ یہ ہند میں اسلام کی آمد کا اولین واقعہ ہے۔ راجہ چیرامن پیروملؓ کا تعلق بر صغیر کی چیرا سلطنت (کیرالا) سے تھا۔ راجہ چیرامن پیروملؓ (جنھوں نے قبول اسلام کے بعد تا ج الدین نام رکھا ) نے جب دربار رسالت میں جاکر قبول اسلام کیا تب وہ چند صحابہ کے ہمراہ ملک واپس آئے۔ درمیان سفر تاج الدینؓ کا انتقال ہوگیا آپکے ہمراہ آنے والے صحابہ جب ہند پہنچے تب چیرامن ( تاج الدینؓ ) کے ورثا انکے ساتھ کافی عزت کے ساتھ پیش آئے ۔ ان اصحابِ رسول ﷺ کے احوال کے بارے میں نہایت ہے کم معلومات دستیاب ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ تحقیق طلب کام اب بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔اہل علم کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تا ج الدینؓ کے ورثا میں سے بھی ایک بادشاہ فیض رسالت حاصل کرنے کی غرض سے مدینہ تشریف لے گئے تھے ۔ مگر ان کے پہنچنے تک کافی عرصہ بیت چکا تھا اور حضرت عمر کی خلافت کادور چل رہا تھا۔ ان کے ساتھ بھی صحابہ و تابعین کی ایک جماعت ہند (مالابار) تشریف لائی۔ان ہندوستان آنے والوں میں سب سے اہم نام مالک بن دینارؓ (یاد رہے کہ بعض کے نزدیک یہ صحابی ہیں اور اکثریت انہیں تابعی مانتی ہے) کاہے۔ جن کا مزار شریف آج بھی ریاست کیرالہ میں کاسر گوڑ ضلع میں موجود ہے۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ لوگ حضرت معین الدین چشتی ؒ کی مزار پر ہر سال حاضری دے کر خود کو پکا اور سچا مسلمان کہلواتے ہیں مگر ان اصحاب رسولﷺ کے بارے میں علم رکھنا ان کے نزدیک غیر اہم ہے۔ سب سے تکلیف دہ چیز تو یہ ہے کہ معلومات کی ذخائر سمجھی جانے والی کتب بھی ان عظیم اصحاب ( راجہ تاج الدین پیروملؓ)اور مالک بن دینارؓ و دیگر ہند آنے وا لے صحابہؓ کے تذکرے سے خالی ہیں اگر ان کے بارے میں لکھا بھی گیا تو نہایت ہی مختصر۔ بادشاہ چیرامن کے وارثین اصحاب کی اس جماعت کے ساتھ کافی عزت سے پیش آئے اور اپنے والد کے نام پر ایک مسجد بھی تعمیر کرائی جو آج بھی چیرامن پیرومل جمعہ مسجد کے نام سے میتھالہ گاؤں ( کیرالہ )میں موجود ہے۔ ہند میں اسلام کی آمد کے متعلق ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے مگر اسے گمنامی کے پردوں میں دھکیل دیا گیا ۔ یہ واقعہ حضرت عمر کے دور کا ہے۔ تین بھائی (صحابہؓ ) جن کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا۔ جنھوں نے حضرت محمدؐ سے یہ حدیث سنی تھی کہ ہند کے جہاد میں حصہ لینے والا لشکر جنتی ہے، انھوں نے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ہند کا رخ کیا اور ممبئی کے قریب ایک ساحل ( غالباً چیمبور جسے تاریخ میں سِمبورکہا گیا) پر اترے ۔ مقامی لوگوں کی جانب سے مزاحمت کی گئی جس میں صحابہ کو فتح حاصل ہوئی۔ کچھ صحابہؓ نے وہیں رہنے کا فیصلہ کرلیا اور اشاعت دین کی خاطر خود کو وقف کردیا۔ جب بقیہ صحابہؓ کچھ دن قیام کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ گئے ۔جب یہ لوگ حضرت عمر کے دربار میں پہنچے تب حضرت عمرؓ سخت ناراض ہوئے ، کہا کہ اگر ان مسلمانوں کو کچھ ہوجاتا جنھیں تم بنا اجازت اور بناتیاری کے لے گئے تھے تو میں تم سے اس کا بدلہ لیتا۔ سراندیپ ( سری لنکا) میں رہائش پذیر عرب باشندوں نے جب وہاں آنے والے عرب تجار سے اسلام اور عرب کی فتوحات کے بارے میں سنا تو وہ بھی ایمان لے آئے۔ سراندیپ کے یہ تاجر اور وہاں مقیم عرب کے کچھ باشندے جب عرب واپس لوٹ رہے تھے تب انھیں راجہ داہر نے قید کرلیا ۔ یہیں سے برِ صغیر میں اشاعت اسلام کا دوسرا دور جو فتوحات پر مبنی ہے شروع ہوا۔ اس دور میں اسلام خیبر ( افغانستان) تک پہنچ چکا تھا۔ برِصغیر ۰ہند میں اولین اسلامی فاتح حضرت محمد قاسم ؒ ہیں جنھوں نے سندھ تک چڑھائی کی اور سندھ کو اسلام کے نور سے منور کیا۔ دوسرا دور : فتوحات کے ذریعے ۔ تابعین و تبع تابعین کے دور میں محمد بن قاسم ؒ جنکی عمر اس وقت مشکل سے 17 ؍ سال ہوگی اپنے چچا حجاج بن یوسف کے یہاں خلیفہ ولید بن عبدالملک کا ایک اہم مکتوب لے کر آئے تھے۔ اسی وقت حجاج بن یوسف کے پاس راجہ داہر کے قیدی مسلم تجار کا خط پہنچا تھا۔ جیسے ہی محمد بن قاسم ؒ کو راجہ داہر کی زیادتی اور سراندیپ کے تجار پر ہورہے مظالم کی اطلاع ملی۔ محمد بن قاسم ؒ حجاج سے اجازت لے کر دربار خلافت لوٹ گئے۔ اُس وقت مسلم افواج دیگر جنگوں میں مصروف تھیں اس لیے خلیفہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ ابھی ہماری افواج کو رسد کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس لیے نیا جنگی محاذ کھولنا مشکل ہے۔ محمد بن قاسم ؒ خلیفہ کے دربار سے نکل کر عوام میں پہنچے اور انکی غیر ت کو للکارتے ہوئے ہند میں مقید مسلمانوں کی مدد کے لیے انہیں ابھارا۔ اس وقت شہر میں موجود زخمی ، وظیفہ یا ب سپاہی اور دیگر نوجوانان نے انکے ساتھ ہند کے معرکہ میں نکلنے کا قصد کیا۔ یہ لشکر مختلف مقامات سے ہوتا ہواجب خیبر میں حجاج بن یوسف کے پاس پہنچا تب اس کی تعداد 5تا 7 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ حجاج نے اس میں اپنے لشکر سے مزید فوج محمد بن قاسم ؒ کے ہمراہ کی۔ جس وقت یہ لشکر سندھ پہنچا تب اسکی تعداد 17000 ؍ تھی۔ اس لشکر کا مقابلہ راجہ داہر کی فوج سے ہوا جس کی تعداد 50,000 سے بھی زائد تھی ۔ بعض مؤرخین نے 70,000 تو کچھ نے ایک لاکھ بھی لکھی ہے ۔ دوران جنگ مسلم لشکر کے اعلی اخلاق کو دیکھ کر راجہ داہر کی فوج کے کئی سپاہی ، سرداران اور سپہ سالار محمد بن قاسم ؒ کے لشکر میں شامل ہوگئے ۔ جن میں سے سپہ سالار سمیت کئی سپاہی اور سرداران مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ راجہ داہر سے جنگ ہوئی داہر مارا گیا۔ مسلم قیدیوں کو راجہ داہر کے چنگل سے آزاد کیا گیا۔ بد قسمتی سے دربار خلافت میں عین اسی وقت تبدیلی آئی اور سلیمان بن عبدالملک نے خلیفہ کا عہدہ سنبھالا۔ سلیمان نے تخت نشین ہوتے ہی تمام سپہ سالاروں کو واپس طلب کیا۔ محمد بن قاسم ؒ کو بھی واپس بلایا گیا۔ آپ نے خلیفہ کے نئے مقرر کردہ سپہ سالار کو کمان سونپی اور دربار خلافت جانے کے لیے نکل پڑے ۔ لیکن خلیفہ کے عاملوں نے زیادتی کرتے ہوئے خلیفہ سے ملنے سے پہلے ہی راستے میں آپ کو قتل کردیا۔ انا لِلہ و انا الیہ راجعون گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی تقریباً 20بار شمال مغربی ہند پر بار حملے کیے۔ حملے کرتے ہوئے وہ گجرات ( وسط ہند) تک پہنچ گئے۔ وہاں موجود سومنات کا مندر توڑا ۔ فتوحات حاصل کرنے کے باوجود بنا اپنی حکومت قائم کیے وہ غزنی لوٹ گئے۔محمود غزنوی کے حملوں کی وجہ اور سومنات کو ڈھانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ سومنات در اصل یثرب کا بت منات ہی تھا جسے مشرکین بچاتے ہوئے ہند لے آئے تھے۔ سومنات کو توڑنے کا حکم محمود غزنوی کو بذریعے بشارت دیا گیا۔ لیکن اس واقعہ کا پختہ ثبوت کہیں دستیاب نہیں کہ واقعی ایسا کچھ ہوا ہو۔ ہند کی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہاں کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں آپسی چپقلیش چلتی رہتی تھی اسی لیے کچھ راجاؤں نے بڑی ریاستوں کے مظالم سے تنگ آکر محمود غزنوی کو مدد کے لیے پکارا۔ جب محمود غزنوی سومنات تک پہنچے تب انکے لشکر میں مقامی ہندو راجا اور ان کی افواج بھی موجود تھیں۔ بہر حال محمود غزنوی نے لگاتار حملے کرکے شمال مغربی ہند کی بڑی اور مضبوط سلطنتوں کو کافی کمزور کردیا۔ 13 ویں صدی میں سلطان محمد غوری ہند پر حملہ کی کوشش کرچکے تھے مگر ناکام رہے۔ اسی دور میں حضرت معین الدین چشتی ؒ جو لاہور سے آکر اجمیر کے قریب اپنے مریدوں کے ساتھ آباد ہوئے ۔ انہیں ہند کی مشرک عوام اور راجہ پرتھوی اور اسکی فوج سے کافی تکالیف پہنچنے لگی۔ پرتھوی راج چوہان کی فوج حضرت معین الدین چشتی کے دعوت و تبلیغ کے کام میں کا فی مشکلیں کھڑی کرنے لگیں اور جو مقامی باشندے اسلام قبول کرتے انھیں تکالیف پہنچاتی ، جسے ہمارے آج کے علماء مشائخین مبالغہ آرائی کے ساتھ عوامی جلسوں میں بیان کرتے ہیں۔ حضرت معین الدین چشتی ؒ نے محمد غوری کو اپنے اور اپنے ساتھیوں پر ہورہے مظالم سے آگاہ کیا اور ایک بار پھر ہند پر حملے کی دعوت دی ۔ سلطان محمد غوری اس موقع کو اپنے لیے فتح کی خوشخبری سمجھتے ہوئے اجمیر پر حملہ آوار ہوئے ۔اس بار محمد غوری نہ صرف فتح یاب ہوئے بلکہ دلّی میں سلطنتِ غلامان کی بنیاد بھی رکھی۔اس کے بعد وقتاً فوقتاً تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے کوششیں کی جاتیں رہی۔ تیسرا دور: اشاعت و تبلیغ کے ذریعے اسلام کو دلی اور شمالی ہند تک محدود نہ رکھتے ہوئے وسطی و جنوبی ہندتک پھیلانے کا سہرا تغلق خاندان کے بانی محمد بن تغلق کو جاتا ہے۔ جس نے صوفیاء کی جماعت کو بزور خانقاہوں سے نکال کر اپنے ساتھ جنوبی ہند دولت آباد (دیوگری) لے آیا۔ لیکن خانقاہی نظام میں سلطان کی مداخلت صوفیا کو پسند نہ آئی صوفیا کی ایک جماعت نے نہ صرف اسکی مخالفت کی بلکہ باغیانہ انداز بھی اپنایا ۔ اس پر سلطان نے ان پر طاقت کا استعمال بھی کیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن تغلق اپنے ساتھ 1400؍ پالکیوں میں صوفی بزرگان کو اپنے ساتھ لائے اور دکن میں اشاعت اسلام کی بنیاد ڈالی ۔ پتہ نہیں کیوں ہندوستانی فرقہ پرست ماہرینِ تاریخ کے ساتھ مسلم تاریخ دانوں نے بھی اس بادشاہ کو ناتجربہ کار اور نا اہل ہی لکھا ہے۔ جب کہ سلطان کی دوراندیشی کے سبب جلد ہی دکن کی عظیم وجئے نگر سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور وہ سکڑکر کرناٹک اور کیرالا ریاست کے کچھ حصوں تک ہی محدود ہوگئی جسے بعد میں حیدر علی نے ختم کردیا۔ سلطان فتح محمد ٹیپو کی شہادت کے بعد غدار پورنیا اور سرنگاپٹم کی مہارانی نے انگریزوں کی سرپرستی میں اسے دوبار ہ قائم کیا مگر اسکا وجود برائے نام باقی رہا۔ وجئے نگر سلطنت کے خاتمے اور تغلق خاندان کے زوال کے بعد جنوب وسطی ہند میں ایک عظیم مسلم سلطنت( بہمنی سلطنت ) وجود میں آئی جو آگے چل کر 5 مسلم ریاستوں میں تقسیم ہوگئی انہیں میں سے آخری سلطنت آزاد�ئ ہند کے بعد تک رہی اور 17 ستمبر 1948کو حکومت ہند نے پولس ایکشن کی ظالمانہ کارروائی کے ذریعے ہندوستانی وفاق میں شامل کرلیا۔ چوتھا دور : آزادی کے بعد یہ دور اب بھی اپنی آمد کا منتظر ہے ! تقسیم ہند کے بعد اشاعت و تبلیغ اسلام کا کام کافی متاثر ہوا۔ اسلام کے نام پر علحدہ مملکت پاکستان کی بنیاد رکھنے والے پتہ نہیں اسے اب تک مملکت اسلامی کیوں نہیں بنا پائے۔ اب تو اس مملکت کی بقا بھی مشکل نظر آرہی پتہ نہیں آنے والے سالوں میں ہم مملکت اسلامی تو کجا موجودہ پاکستان کو بھی دیکھ پائیں گے یا نہیں۔ اسلامی نظریے کا نام لے کر پاکستان بنانے والے اپنا مقصد حاصل کر پائیں گے یہ اب مشکوک ہی نظر آرہا ہے۔ مگر اس تقسیم نے ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں کی اکثریت اب بھی یہی سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کو ایک مسلم اسٹیٹ دے دیا گیا ہے، مگر ہم لوگ آج بھی ہندو اسٹیٹ سے محروم ہیں۔ ان ہندو اسٹیٹ والوں کاخیا ل ہے کہ مسلم اس ملک میں دوبار ہ تقسیم کرانے کے لیے رک گئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اب جتنے بھی مسلم ہندوستان میں بستے ہیں ان کی بڑے تعداد ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی آبادی سے ہے جنھیں مابعد آزادی ہندوستانی وفاق میں شامل کیا گیا۔ یہاں کی اکثریت آزادی کے بعد انضمام کی گئی ریاستوں سے لا علمی رکھتے ہوئے آج بھی یہاں کے مسلمانوں کوہندو راشٹر میں روڑا مانتی ہے۔ جب سے تقسیم ہند کا نظریہ پیدا ہوا تب سے ہی برِّ صغیر میں فسادات کا نہ روکنے والا سلسلہ چل پڑا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ دیتے ہوئے مقامی آبادی میں اسلامی کی تبلیغ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ ہند میں موجود اسلامی تحریکات نے اس جانب جو پیش قدمی کی ہے اس کی رفتارسست اور اثر بے حد کم ہے جو ہرگز قابل اطمینان نہیں ہے۔ ہند میں موجود ہر مسلم فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ موجودہ سیاسی پارٹیوں میں نمائندگی حاصل کرنے، ریزرویشن ، راشن پانی و دیگر سہولتوں کی مانگ کرنے کے بجائے اعلی تعلیم اور اعلی اقدار کے ذریعے ہندوستانی سماج میں اسلام کو عام کرنے کے لیے اپنے اندر داعیانہ اوصاف پیدا کریں ۔ تبھی ہمارے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم ہند میں دعوت و تبلیغ کے اس نئے دور میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔ ورنہ اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ وہ یہ کام اپنے دوسرے بندوں سے لے اور ہم پر مہلت ختم کی مہر ثبت کردے ۔ اللہ ایسی صورتحال سے بچائے ۔آمین

No comments:

Post a Comment