QURAN KA MUKHTASAR KHULASAH

✍قرآن کا مختصر خلاصہ روزانہ
📖 پہلا پارہ​

اس پارے میں پانچ باتیں ہیں:
1۔اقسام انسان
2۔اعجاز قرآن
3۔قصۂ تخلیقِ حضرت آدم علیہ السلام
4۔احوال بنی اسرائیل
5۔قصۂ حضرت ابراہیم علیہ السلام

1۔اقسام انسان تین ہیں: مومنین ، منافقین اور کافرین۔
مومنین کی پانچ صفات مذکور ہیں:
۱۔ایمان بالغیب ۲۔اقامت صلوۃ ۳۔انفاق ۴۔ایمان بالکتب ۵۔یقین بالآخرۃ
منافقین کی کئی خصلتیں مذکور ہیں: جھوٹ، دھوکا، عدم شعور، قلبی بیماریاں، سفاہت، احکام الٰہی کا استہزائ، فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب
اور کفار کے بارے میں بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ ہے۔

2۔اعجاز قرآن:
جن سورتوں میں قرآن کی عظمت بیان ہوئی ان کے شروع میں حروف مقطعات ہیں یہ بتانے کے لیے کہ انھی حروف سے تمھارا کلام بھی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی، مگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام جیسا کلام بنانے سے عاجز ہو۔

3۔قصۂ حضرت آدم علیہ السلام :
اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانا، فرشتوں کا انسان کو فسادی کہنا، اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السالم کو علم دینا، فرشتوں کا اقرارِ عدم علم کرنا، فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کروانا، شیطان کا انکار کرنا پھر مردود ہوجانا، جنت میں آدم وحواء علیہما السلام کو شیطان کا بہکانا اور پھر انسان کو خلافتِ ارض عطا ہونا۔

4۔احوال بنی اسرئیل:
ان کا کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ کا ان پر لعنت نازل کرنا۔

5۔ قصہّ حضرت ابراہیم علیہ السلام:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کرنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اسے قبول کروانا اور پھر توبہ و استغفار کرنا۔

📖دوسرا پارہ​

اس پارے میں چار باتیں ہیں:
1۔تحویل قبلہ
2۔آیت بر اور ابوابِ بر
3۔قصۂ طاعون
4۔قصۂ طالوت

1۔تحویل قبلہ:
ہجرت مدینہ کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس قبلہ رہا ، آپ ﷺ کی چاہت تھی کہ خانہ کعبہ قبلہ ہو، اللہ تعالیٰ نے آرزو پوری کی اور قبلہ تبدیل ہوگیا۔

2۔آیتِ بر اور ابوابِ بر:
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ ۔۔۔۔ (البقرۃ:۱۷۷۷) یہ آیتِ بر کہلاتی ہے، اس میں تمام احکامات عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق اجمالی طور پر مذکور ہیں، آگے ابواب البر میں تفصیلی طور پر ہیں:
۱۔صفا مروہ کی سعی ۲۔مردار، خون، خنزیرکا گوشت اور جو غیر اللہ تعالیٰ کے نامزد ہو ان کی حرمت ۳۔قصاص ۴۔وصیت ۵۔روزے ۶۔اعتکاف ۷۔حرام کمائی ۸۔قمری تاریخ ۹۔جہاد ۱۰۔حج ۱۱۔انفاق فی سبیل اللہ تعالیٰ ۱۲۔ہجرت ۱۳۔شراب اور جوا ۱۴۔مشرکین سے نکاح ۱۵۔حیض میں جماع ۱۶۔ایلاء ۱۷۔طلاق ۱۸۔عدت ۱۹۔رضاعت ۲۰۔مہر ۲۱۔حلالہ ۲۲۔معتدہ سے پیغامِ نکاح۔

3۔قصۂ طاعون:
کچھ لوگوں پر طاعون کی بیماری آئی، وہ موت کے خوف سے دوسرے شہر چلے گئے، اللہ تعالیٰ نے (دو فرشتوں کو بھیج کر) انھیں موت دی (تاکہ انسانوں کو پتا چل جائے کہ کوئی موت سے بھاگ نہیں سکتا) کچھ عرصے بعد اللہ نے (ایک نبی کے دعا مانگنے پر) انھیں دوبارہ زندگی دے دی۔

4۔قصۂ طالوت:
طالوت کے لشکر نے جالوت کے لشکر کو باوجود کم ہونے کے اللہ تعالیٰ کے حکم سے شکست دے دی.
🌏3

📖تیسرا پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:
1۔بقیہ سورۂ بقرہ
2۔ابتدائے سورۂ آل عمران

(پہلا حصہ) سورۂ بقرہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:
۱۔دو بڑی آیتیں ۲۔دو نبیوں کا ذکر ۳۔صدقہ اور سود

۱۔ دو بڑی آیتیں:
ایک ”آیت الکرسی“ ہے جو فضیلت میں سب سے بڑی ہے، اس میں سترہ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
دوسری ”آیتِ مداینہ“ جو مقدار میں سب سے بڑی ہے اس میں تجارت اور قرض مذکور ہے۔

۲۔ دو نبیوں کا ذکر:
ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مباحثہ اور احیائے موتٰی کے مشاہدے کی دعاء۔
دوسرے عزیر علیہ السلام جنھیں اللہ تعالیٰ نے سوسال تک موت دے کر پھر زندہ کیا۔

۳۔ صدقہ اور سود:
بظاہر صدقے سے مال کم ہوتا ہے اور سود سے بڑھتا ہے، مگر در حقیقت صدقے سے بڑھتا ہے اور سود سے گھٹتا ہے۔

(دوسرا حصہ) سورۂ آل عمران کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:
1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت
2۔اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے
3۔اہل کتاب سے مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ
4۔ انبیائے سابقین سے عہد

1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت
مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں قرآن کی حقانیت اور اہل کتاب سے خطاب ہے۔ سورۂ بقرہ میں اکثر خطاب یہود سے ہے جبکہ آل عمران میں اکثر روئے سخن نصاری کی طرف ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے:
پہلا قصہ جنگ بدر کا ہے، تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو شکست دے دی۔
دوسرا قصہ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس بے موسم پھل کے پائے جانے کا ہے۔
تیسرا قصہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہونے کا ہے۔
چوتھا قصہ حضرت عیسی علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونے، بچپن میں بولنے اور زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا ہے۔

3۔ مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ:
اہل کتاب سے مناظرہ ہوا، پھر مباہلہ ہوا کہ تم اپنے اہل و عیال کو لاؤ، میں اپنے اہل و عیال کو لاتا ہوں، پھر مل کر خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کہ لعنت ہو، وہ تیار نہ ہوئے تو پھر مفاہمہ ہوا، یعنی ایسی بات کی دعوت دی گئی جو سب کو تسلیم ہو اور وہ ہے کلمۂ ”لا الہ الا اللہ“۔

4۔ انبیائے سابقین سے عہد:
انبیائے سابقین سے عہد لیا گیا کہ جب آخری نبی آئے تو تم اس کی بات مانو گے، اس پر ایمان لاؤ گے اور اگر تمھارے بعد آئے تو تمھاری امتیں اس پر ایمان لائیں۔
🌏4

چوتھا پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​
۱۔ بقیہ سورۂ آل عمران
۲۔ ابتدائے سورۂ نساء

(پہلا حصہ) سورۂ آل عمران کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں ہیں:​
1۔ خانہ کعبہ کے فضائل
2۔ باہمی جوڑ
3۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
4۔ تین غزوے
5۔ کامیابی کے چار اصول

1۔ خانہ کعبہ کے فضائل:
یہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے اور اس میں واضح نشانیاں ہیں جیسے: مقام ابراہیم۔ جو حرم میں داخل ہوجائے اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔ 

2۔ باہمی جوڑ:
اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔

3۔ امر بالمعروف اور نہی عن النکر:
یہ بہترین امت ہے کہ لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالی گئی ہے، بھلائی کا حکم کرتی ہے، برائی سے روکتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔

4۔ تین غزوے:
۱۔غزوۂ بدر ۲۔غزوۂ حد ۳۔غزوۂ حمراء الاسد

5۔ کامیابی کے چار اصول:
۱۔صبر ۲۔مصابرہ ۳۔مرابطہ ۴۔تقوی

(دوسرا حصہ) سورۂ نساء کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:​
1۔ یتیموں کا حق: (ان کو ان کا مال حوالے کردیا جائے۔)
2۔ تعدد ازواج: (ایک مرد بیک وقت چار نکاح کرسکتے ہیں بشرط ادائیگیٔ حقوق۔)
3۔ میراث: (اولاد ، ماں باپ ، بیوی ، کلالہ کے حصے بیان ہوئے اس قید کے ساتھ کہ پہلی وصیت ادا کردی جائے۔)
4۔ محرم عورتیں: (مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، رضاعی مائیں، رضاعی بہنیں، ساس، سوتیلی بیٹیاں، بہویں۔)
5
پانچواں پارہ​

اس پارے میں آٹھ باتیں ہیں:​

۱۔ خانہ داری کی تدابیر
۲۔ عدل اور احسان
۳۔ جہاد کی ترغیب
۴۔ منافقین کی مذمت
۵۔ قتل کی سزائیں
۶۔ ہجرت اور صلاۃ الخوف
۷۔ ایک قصہ
۸۔ سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب

۱۔ خانہ داری کی تدابیر:
پہلی ہدایت تو یہ دی گئی کہ مرد سربراہ ہے عورت کا پھر نافرمان بیوی سے متعلق مرد کو تین تدبیریں بتائی گئیں: ایک یہ کہ اس کو وعظ و نصیحت کرے، نہ مانے تو بستر الگ کردے، اگر پھر بھی نہ مانے تو انتہائی اقدام کے طور پر حد میں رہتے ہوئے اس کی پٹائی بھی کرسکتا ہے۔

۲۔ عدل واحسان:
عدل و احسان کا حکم دیا گیا تاکہ اجتماعی زندگی بھی درست ہوجائے۔

۳۔ جہاد کی ترغیب:
جہاد کی ترغیب دی کہ موت سے نہ ڈرو وہ تو گھر بیٹھے بھی آسکتی ہے، نہ جہاد میں نکلنا موت کو یقینی بناتا ہے، نہ گھر میں رہنا زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

۴۔ منافقین کی مذمت:
منافقین کی مذمت کرکے مسلمانوں کو ان سے چوکنا کیا ہے کہ خبردار! یہ لوگ تمھیں بھی اپنی طرح کافر بنانا چاہتے ہیں۔

۵۔ قتل کی سزائیں:
قتل کی سزائیں بیان کرتے ہوئے بڑا سخت لہجہ استعمال ہوا کہ مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلے گا، مراد اس سے جائز سمجھ کر قتل کرنے والا ہے۔

۶۔ ہجرت اور صلاۃ الخوف:
جہاد کی ترغیب دی تھی، اس میں ہجرت بھی کرنی پرتی ہے اور جہاد ار ہجرت میں نماز پڑھتے وقت دشمن کا خوف ہوتا ہے، اس لیے صلاۃ الخوف بیان ہوئی۔

۷۔ ایک قصہ:
ایک شخص جو بظاہر مسلمان مگر در حقیقت منافق تھا اس نے چوری کی اور الزام ایک یہودی پر لگادیا، نبی علیہ السلام تک یہ واقعہ پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی کے خلاف فیصلہ دینے ہی والے تھے کہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ چور وہ مسلمان نما منافق ہے، چنانچہ وہ چور مکہ بھاگا اور کھلا کافر بن گیا۔

۸۔ سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب:
شیطان کی اطاعت سے بچو، وہ گمراہ کن ہے، ابوالانبیاء ابرہیم علیہ السلام کی اتباع کرو، عورتوں کے حقوق ادا کرو، منافقین کے لیے سخت عذاب ہے۔

چھٹا پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ نساء کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ مائدہ کا ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ نساء کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:
۱۔ یہود کی مذمت
۲۔ نصاری کی مذمت
۳۔ میراث

۱۔ یہود کی مذمت:
انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔

۲۔ نصاری کی مذمت:
یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلو کا شکار کر عقیدۂ تثلیث کے حامل ہوگئے۔

۳۔ میراث:
عینی اور علاتی بہنوں کے حصے مذکور ہوئے کہ ایک بیٹی کو نصف ، ایک سے زیادہ کو دو ثلث اور اگر بھائی بھی ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دوگنا ملے گا۔

(دوسرا حصہ) سورۂ مائدہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:
۱۔ اوفوا بالعقود (ہر جائز عہد اور عقد جو تمھارے اور رب کے درمیان ہو یا تمھارے اور انسانوں کے درمیان ہو اسے پورا کرو)
۲۔ حرام چیزیں (بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)
۳۔ طہارت (وضو ، تیمم اور غسل کے مسائل)
۴۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ (قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تھا، قتل اور چوری کے احکامات)
۵۔ یہود و نصاری کی مذمت (یہ لوگ خود کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں، حالانکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی آتا ہے، نبی علیہ السلام کو انکی طرف سے جو سرکشیاں ہوئی ہیں ان پر تسلی دی گئی، مسلمانوں کو ان سے دوستی کرنے سے منع فرمایا گیا اور حضرت داؤد اور عیسٰی علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنتِ خداوندی مذکور ہوئی، پھر آخر میں بتایا کہ یہ تمھارے خطرناک دشمن ہیں)

ساتواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ مائدہ کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ انعام ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ مائدہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:​

۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف
۲۔ حلال وحرام کے چند مسائل
۲۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف:
جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اسے سن کر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔
۲۔ حلال وحرام کے چند مسائل:
۔۔۔ہر چیز خود سے حلال یا حرام نہ بناؤ۔
۔۔۔لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں، البتہ یمین غموس پر کفارہ ہے، یعنی دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا انھیں پہننے کے لیے کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور ان تینوں کے نہ کرسکنے کی صورت میں تین دن روزے رکھنا۔
۔۔۔شراب، جوا، بت اور پانسہ حرام ہیں۔
۔۔۔حالتِ احرام میں محرم تری کا شکار کرسکتا ہے، خشکی کا نہیں۔
۔۔۔حرم میں داخل ہونے والے کے لیے امن ہے۔
۔۔۔چار قسم کے جانور مشرکین نے حرام کر رکھے تھے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔
۲۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام
قیامت کے دن حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے پوچھا جائے گا کہ جب تم نے ہمارا پیغام پہنچایا تو تمھیں کیا جواب دیا گیا؟ اسی سوال و جواب کے تناظر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ اپنے احسانات گنوائیں گے، ان احسانات میں مائدہ والا قصہ بھی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے کہو ہم پر ایسا دسترخوان اتارے جس میں کھانے پینے کی آسمانی نعمتیں ہوں، چناچہ دسترخوان اتارا گیا، ان احسانات کو گنواکر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے اے عیسیٰ! کیا تم نے ان سے کہا تھا کہ تجھے اور تیری ماں کو معبود مانیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے تو پاک ہے، میں نے تو ان سے تیری عبادت کا کہا تھا الی آخرہ۔

(دوسرا حصہ) سورۂ انعام کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں ہیں:​

۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ قیامت

۱۔ توحید:
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور عظمت وکبریائی خوب بیان ہوئی ہے۔
۲۔ رسالت:
نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ہے:
(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام ، (۲)حضرت اسحاق علیہ السلام ، (۳)حضرت یعقوب علیہ السلام ، (۴)حضرت نوح علیہ السلام ، (۵)حضرت داؤد علیہ السلام ، (۶)حضرت سلیمان علیہ السلام ، (۷)حضرت ایوب علیہ السلام ، (۸)حضرت یوسف علیہ السلام ، (۹)حضرت موسٰی علیہ السلام ، (۱۰)حضرت ہارون علیہ السلام ، (۱۱)حضرت زکریا علیہ السلام ، (۱۲)حضرت یحیٰ علیہ السلام ، (۱۳)حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، (۱۴)حضرت الیاس علیہ السلام ، (۱۵)حضرت اسماعیل علیہ السلام ، (۱۶)حضرت یسع علیہ السلام ، (۱۷)حضرت یونس علیہ السلام ، (۱۸)حضرت لوط۔
۳۔ قیامت:
۔۔۔ قیامت کے روز اللہ تمام انسانوں کا جمع کرے گا۔ (آیت:۱۲)
۔۔۔ روزِ قیامت کسی انسان سے عذاب کا ٹلنا اس پر اللہ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ (آیت:۱۶)
۔۔۔ روزِ قیامت مشرکین سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کہاں ہیں تمھارے شرکاء؟ (آیت:۲۲)
۔۔۔ اس روز جہنمی تمنا کریں گے کہ کاش! انھیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ اللہ رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والے بن جائیں۔(آیت:۲۷)
آٹھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ انعام کا بقیہ حصہ
۲۔سورۂ اعراف کا ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ انعام کے بقیہ حصے میں چار باتیں ہیں:
۱۔ تسلی رسول
۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں
۳۔ اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں
۴۔ دس وصیتیں

۱۔ تسلی رسول:
اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ یہ لوگ ضدی ہیں، معجزات کا بے جا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، اگر مردے بھی ان سے باتیں کریں تو یہ پھر بھی ایمان نہ لائیں گے، قرآن کا معجزہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔

۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں:
۱۔ یہ لوگ چوپایوں میں اللہ تعالیٰ کا حصہ اور شرکاء کا حصہ الگ الگ کردیتے، شرکاء کے حصے کو اللہ تعالیٰ کے حصے میں خلط نہ ہونے دیتے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا حصہ شرکاء کے حصے میں مل جاتا تو اسے برا نہ سمجھتے۔ (آیت:۱۳۵)
۲۔ فقر یا عار کے خوف سے بیٹیوں کو قتل کردیتے۔ (آیت:۱۳۶)
۳۔ چوپایوں کی تین قسمیں کر رکھی تھیں: ایک جو ان کے پیشواؤں کے لیے مخصوص، دوسرے وہ جن پر سوار ہونا ممنوع، تیسرے وہ جنھیں غیر اللہ کے نام سے ذبح کرتے تھے۔ (آیت:۱۳۸)
۴۔ چوپائے کے بچے کو عورتوں پر حرام سمجھتے اور اگر وہ بچہ مردہ ہوتا تو عورت اور مرد دونوں کے لیے حلال سمجھتے۔ (آیت:۱۳۹)

۳۔ اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں:
(۱)کھیتیاں (۲)چوپائے

۴۔ دس وصیتیں:
(۱)اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۲)ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۳)اولاد کو قتل نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۴)برائیوں سے اجتناب کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۵)ناحق قتل نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۶)یتیموں کا مال نہ کھایا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۷)ناپ تول پورا کیا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۸)بات کرتے وقت انصاف کو مد نظر رکھا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۹)اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کیا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۱۰)صراط مستقیم ہی کی اتباع کی جائے۔ (آیت:۱۵۳)

(دوسرا حصہ) سورۂ اعراف کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں
۲۔ چار ندائیں
۳۔ جنتی اور جہنمیوں کا مکالمہ
۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل
۵۔ پاتچ قوموں کے قصے

۱۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں:
(۱)قرآن کریم (۲)تمکین فی الارض (۳)انسانوں کی تخلیق (۴)انسان کو مسجود ملائکہ بنایا۔

۲۔ چار ندائیں:
صرف اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار مرتبہ يَا بَنِي آدَمَ کہہ کر پکارا ہے۔ پہلی تین نداؤں میں لباس کا ذکر ہے، اس کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر رد کردیا کہ تمھیں ننگے ہوکر طواف کرنے کو االلہ تعالیٰ نے نہیں کہا جیسا کہ ان کا دعوی تھا۔ چوتھی ندا میں اللہ تعالیٰ نے اتباع رسول کی ترغیب دی ہے۔

۳۔ جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ:
جنتی کہیں گے: ”کیا تمھیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا یقین آگیا؟“، جہنمی اقرار کریں گے، جہنمی کھانا پینا مانگیں گے، مگر جنتی ان سے کہیں گے: ”اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اپنی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔“

۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل:
(۱)بلند وبالا آسمان (۲)وسیع وعریض عرش (۳)رات اور دن کا نظام (۴)چمکتے شمس و قمر اور ستارے (۵)ہوائیں اور بادل (۶)زمین سے نکلنے والی نباتات

۵۔ پانچ قوموں کے قصے:
(۱)قوم نوح (۲)قوم عاد (۳)قوم ثمود (۴)قوم لوط اور (۵)قوم شعیب
ان قصوں کی حکمتیں: (۱)تسلی رسول (۲)اچھوں اور بروں کے انجام بتانا (۳)اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں (۴)رسالت کی دلیل کہ امی ہونے کے باوجود پچھلی قوموں کے قصے بتا رہے ہیں (۵)انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت

نواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ اعراف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ انفال کا ابتدائی حصہ

(۱) سورۂ اعراف کے بقیہ حصے میں چھ باتیں یہ ہیں:​

۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی قصہ
۲۔ عہد الست کا ذکر
۳۔ بلعم بن باعوراء کا قصہ
۴۔ تمام کفار چوپائے کی طرح ہیں
۵۔ قیامت کا علم کسی کو نہیں
۶۔ قرآن کی عظمت

بلعم بن باعوراء کا قصہ:
فتح مصر کے بعد جب بنی اسرئیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو جبارین ڈرگئے اور بلعم بن باعوراء کے پاس آئے کہ کچھ کرو، بلعم کے پاس اسم اعظم تھا، اس نے پہلے تو اس کی مدد سے منع کیا، مگر جب انھوں نے رشوت دی تو یہ بہک گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرئیل کے خلاف بد دعائیہ کلمات کہنے شروع کیے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ وہ کلمات خود اس کے اور قوم جبارین کے خلاف نکلے، اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان نکال کر اس کو کتے کی طرح کردیا۔ فمثله كمثل الكلب

(۲) سورۂ انفال کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں یہ ہیں:​

۱۔ غزوہ بدر اور مال غنیمت کا حکم
۲۔ مومنین کی پانچ صفات
۳۔ چھ بار مومنین سے خطاب

مومنین کی پانچ صفات یہ ہیں:
(۱)خشیت (۲)تلاوت (۳)توکل (۴)نماز (۵)سخاوت (آیت:۲و۳)

چھ بار مومنین سے خطاب:
(۱) آیت: ۱۴ (اے ایمان والو! میدان جنگ میں کفار کے مقابلے سے پیٹھ نہ پھیرنا)
(۲) آیت: ۲۰ (اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)
(۳) آیت: ۲۴ (اے ایمان والو! اللہ اور رسول جب کسی کام کے لیے بلائیں تو ان کا حکم قبول کرو)
(۴) آیت: ۲۷ (اے ایمان والو! نہ اللہ اور رسول سے خیانت کرو نہ اپنی امانتوں میں)
(۵) آیت: ۲۹ (اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھیں ممتاز کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا)
(۶) آیت: ۴۵ (اے ایمان والو! دشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو یاد کرو)

دسواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ انفال کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ توبہ کا ابتدائی حصہ

(۱) سورۂ انفال کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ مال غنیمت کا حکم
۲۔ غزوۂ بدر کے حالات
۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب
۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات
۵۔ ہجرت اور نصرے کے فضائل

۱۔ مال غنیمت کا حکم:
مال غنیمت کا حکم یہ بیان ہوا کہ خمس نبی علیہ السلام آپ کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات:
(۱) کفار مسلمانوں کو اور مسلمان کفار کو تعداد میں کم سمجھے اور ایسا اس لیے ہوا کہ اس جنگ کا ہونا اللہ کے ہاں طے ہوچکا تھا۔
(۲) شیطان مشرکین کے سامنے ان کے اعمال کو مزین کرکے پیش کرتا رہا دوسری طرف مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے۔
(۳) قریش غزوۂ بدر میں ذلیل و خوار ہوئے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب:
(۱) میدان جنگ میں ثابت قدمی۔
(۲) اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے۔
(۳) اختلاف اور لڑائی سے بچ کر رہنا۔
(۴) مقابلے میں نا موافق امور پر صبر۔

۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات:
(۱) دشمنوں سے مقابلے کے لیے مادی، عسکری اور روحانی تینوں اعتبار سے تیاری مکمل رکھیں۔
(۲) اگر کافر صلح کی طرف مائل ہوں تو صلح کرلو۔

۵۔ ہجرت اور نصرت کے فضائل:
(۱) مہاجرین و انصار سچے مومنین ہیں (۲) گناہوں کی مغفرت (۳) رزق کریم کا وعدہ

(۲) سورۂ توبہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں دو باتیں یہ ہیں:

۱۔ مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد
مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براءت کا اعلان ہے، مشرکین کو حج بیت اللہ تعالیٰ سے منع کردیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ قتال کی اجازت دی گئی۔

۲۔ مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز
منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز غزوۂ تبوک بنی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے سپر پاور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر پھل پکے ہوئے تھے، مسلمان سوائے چند کے سب چلے گئے، جبکہ منافقین نے بہانے تراشنے شروع کردیے، پارے کے آخر تک منافقین کی مذمت ہے، یہاں تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی عذر کی وجہ سے اس غزوے میں نہ جاسکے۔

 
گیارھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ یونس مکمل

(۱) سورۂ توبہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:​

۱۔ منافقین کی مذمت
۲۔ مومنین کی نو صفات
۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ

۱۔ منافقین کی مذمت:
اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے نبی کو خبر دے دی، نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا۔

۲۔ مومنین کی نو صفات:
(۱)توبہ کرنے والے (۲)عبادت کرنے والے (۳)حمد کرنے والے (۴)روزہ رکھنے والے (۵)رکوع کرنے والے (۶)سجدہ کرنے والے (۷)نیک کاموں کا حکم کرنے والے (۸)بری باتوں سے منع کرنے والے (۹)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے

۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ:
(۱)حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (۲)حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (۳)حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ
ان تینوں سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔

(۲) سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:​

۱۔ توحید (رازق ، مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللہ ہی ہے۔آیت:۳۱)
۲۔ رسالت (اور اس کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے مذکور ہیں)
۳۔ قیامت (روز قیامت سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱)
۴۔ قرآن کی عظمت (یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱)

حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ:
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے سمندر میں راستے بنادیے۔

حضرت یونس علیہ السلام:
انھی کے نام پر اس سورت کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً یونس آیا ہے اور دو جگہ(سورۂ یونس اور سورۂ قلم میں) اللہ نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں:
ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔
دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔
قصہ:
حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔
بارھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ ہود مکمل (اس کی ابتدائی پانچ آیات گیارھویں پارے میں ہیں)
۲۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ

(۱) سورۂ ہود میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآنِ کریم کی عظمت
۲۔ توحید اور دلائل توحید
۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات
۴۔ قیامت کا تذکرہ

۱۔ قرآن کی عظمت:
(۱) قرآن اپنی آیات، معانی اور مضامین کے اعتبار سے محکم کتاب ہے اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد اور خلل نہیں آسکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض یا تناقض پایا جاتا ہے، اس کے محکم ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تفصیل اور تشریح اس ذات نے کی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے، اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہے اور اسے انسان کے ماضی ، حال ، مستقبل ، اس کی نفسیات ، کمزوریوں اور ضروریات کا بخوبی علم ہے۔
(۲)منکرین قرآن کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔

۲۔ توحید اور دلائل توحید:
ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات ، چوپائے ہوں یا پرندے، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، آسمان اور زمین کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔

۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات:
(۱)حضرت نوح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم ایمان نہیں لائی سوائے چند، انھوں نے اللہ کے حکم سے کشتی بنائی، ایمان والے محفوظ رہے، باقی سب غرق ہوگئے۔
(۲)حضرت ہود علیہ السلام۔۔ ان کی قوم میں سے جو ایمان لے آئے وہ کامیاب ہوئے باقی سب پر (باد صرصر کی صورت میں) اللہ کا عذاب آیا۔
(۳)حضرت صالح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، مگر قوم نے اسے مار ڈالا، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔
(۴)حضرت ابراہیم علیہ السلام۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اللہ نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا اسحاق عطا فرمایا پھر ان کے بیٹے یعقوب ہوئے۔
(۵)حضرت لوط علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، کچھ فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے، ان کی قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔
(۶)حضرت شعیب علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔
(۷)حضرت موسی علیہ السلام۔۔ فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔

ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے، بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

۴۔ قیامت کا تذکرہ:
روزِ قیامت انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی: (۱)بد بخت لوگ (۲)نیک بخت لوگ
بدبختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا جب تک اللہ چاہیں گے۔(حالتِ کفر پر مرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔)
نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔

(۲) سورۂ یوسف میں قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام بالتفصیل ہے:​

تمہید:
تمام انبیائے کرام کے قصے قرآن میں بکھرے ہوئے ہیں، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ پورا کا پورا صرف اسی سورت میں ہے، دوسری سورتوں میں ان کا نام تو آیا ہے، مگر قصہ تھوڑا سا بھی کسی اور سورت میں مذکور نہیں ہے۔
حضررت یوسف علیہ السلام کا قصہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے بہت زیادہ مشابہ ہے، آپ علیہ السلام کے بھی قریشی بھائیوں نے آپ سے حسد کیا، آپ کو مکہ چھوڑ کر جانا پڑا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں رہے آپ علیہ السلام غار ثور میں۔ وہ مصر گئے آپ مدینہ گئے۔ وہ وزیر بنے آپ پہلی اسلامی مملکت کے حاکم بنے۔ بعد میں بھائی ان کے شرمندہ ہوکر آئے، آپ کے سامنے بھی فتح مکہ کے موقع پر سب نے گردن جھکالی۔ انھوں نے کہا: “لاتثریب علیكم الیوم“(آج کے دن سے تم پر کچھ عتاب (و ملامت) نہیں ہے) آپ علیہ السلام نے بھی فرمایا: ”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔

قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیرمعمولی طور پر حسین تھے، ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے والدِ گرامی کو اپنا خواب سنایا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں، ان کے والد نے انھیں منع کیا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا، باپ کی بیٹے سے اس محبت کی وجہ سے بھائی حسد میں مبتلا ہوگئے، وہ اپنے والد کو تفریح کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، وہاں سے ایک قافلہ گزرا، انھوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے آپ نکل آئے، قافلے والوں نے مصر جاکر بیچ دیا، عزیزِ مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا، جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی، اس نے برائی کی دعوت دی، آپ نے اس کی دعوت ٹھکرادی، عزیزِ مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا، قیدخانے میں بھی آپ نے دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے، بادشاہِ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر اور تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں جچ گئے، اس نے آپ کو خزانے، تجارت اور مملکت کا خود مختار وزیر بنادیا، مصر اور گردوپیش میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر آئے، ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انھیں بتایا کہ میں تمھارا بھائی یوسف ہوں، پھر آپ کے والدین بھی مصر آگئے اور سب یہیں آکر آباد ہوگئے۔

بصائر و عبر از قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:
(۱)مصہبت کے بعد راحت ہے۔ (۲)حسد خوفناک بیماری ہے۔ (۳)اچھے اخلاق ہر جگہ کام آتے ہیں۔ (۴)پاکدامنی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ (۵)نامحرم مرد اور عورت کا اختلاط تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے۔ (۶)ایمان کی برکت سے مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔ (۷)معصیت پر مصیبت کو ترجیح دینی چاہیے۔ (۸)داعی جیل میں بھی دعوت دیتا ہے۔ (۹)موضع تہمت سے بچنا چاہیے۔ (۱۰)جو حق پر تھا اس کی سب نے شہادت دی: اللہ تعالیٰ نے، خود حضرت یوسف علیہ السلام نے، عزیز مصر کی بیوی نے، عورتوں نے، عزیزِ مصر کے خاندان کے ایک فرد نے۔

 
تیرھواں پارہ​

اس پارے میں تین حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ رعد مکمل
۳۔ سورۂ ابراہیم مکمل

(۱) سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ:
اس کی تفصیل پچھلے پارے میں مذکور ہوچکی ہے۔

(۲) سورۂ رعد میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآن کی حقانیت
۲۔ توحید
۳۔ قیامت
۴۔ رسالت
۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات

۱۔ قرآن کی حقانیت:
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان کی ابتدا میں عام طور پر قرآن کا ذکر ہوتا ہے، ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللہ انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔
۲۔ توحید:
آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں، ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور موت اور زندگی ، نفع اور نقصان اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔
۳۔ قیامت:
مشرکوں کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت باعثِ تعجب بعث بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا باعث تعجب ہے۔
۴۔ رسالت:
ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی رہنما اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔
۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات:
متقین کی آٹھ صفات: (۱)وفاداری (۲)صلہ رحمی (۳)خوف خدا (۴)خوف آخرت (۵)صبر (۶)نماز کی پابندی (۷)صدقہ (۸)برائی کا بدلہ اچھائی سے
اشقیاء کی تین علامات: (۱)وعدہ خلافی (۲)قطع رحمی (۳)فساد فی الارض

(۳) سورۂ ابراہیم میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ قیامت
۴۔ چند اہم باتیں
۵۔ چھ دعائیں

۱۔ توحید:
تمام آسمانوں اور زمینوں کو اللہ نے بنایا ہے، اسی نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر انسانوں کے لیے زمین سے قسم قسم کے پھل نکالے اور پانی کی سواریوں اور نہروں کو انسانوں کے تابع کردیا اور سورج اور چاند اور رات اور دن کو انسانوں کے کام میں لگادیا، غرض جو کچھ انسانوں نے مانگا اللہ نے عطا کیا، اس کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی گنتی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔
۲۔ رسالت:
اس کے ضمن میں کچھ باتیں یہ ہیں:
۱۔ نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے بتایا گیا ہے کہ سابقہ انبیاء کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے اعراض و انکار اور عداوت و مخالفت کا یہی رویہ اختیار کیا تھا، جو آپ کی قوم اختیار کیے ہوئے ہے۔
۲۔ ہر نبی اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا ہے۔
۳۔ پچھلی قوموں کے مکذبین کے کچھ شبہات کا ذکر کیا گیا ہے: (۱)اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں شک (۲)بشر رسول نہیں ہوسکتا (۳)تقلید آباء۔ ان شبہات کی تردید کی گئی ہے۔
۳۔ قیامت:
کافروں کے لیے جہنم اور مومنین کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا ذکر ہے۔ روزِ قیامت حساب کتاب ہوچکنے کے بعد شیطان گمراہوں سے کہے گا کہ جو وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا اور اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا ، میں نے تم پر زبردستی نہیں کی تھی، تم خود میرے بہکاوے میں آگئے تھے، اب مجھے ملامت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔
۴۔ چند اہم باتیں:
(۱) شکر سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکروں کے لیے اللہ تعالٰی کا سخت عذاب ہے۔
(۲) کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ تیز ہوا آئے اور سب اڑا لے جائے۔
(۳) حق اور ایمان کا کلمہ پاکیزہ درخت کی مانند ہے ، اس کی جڑ بڑی مضبوط اور اس کا پھل بڑا شیریں ہوتا ہے اور باطل اور ضلالت کا کلمہ ناپاک درخت کی مانند ہے ، اس کے لیے قرار بھی نہیں ہوتا اور وہ ہوتا بھی بے ثمر ہے۔
(۴) اللہ تعالیٰ ظالموں کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔
۵۔چھ دعائیں:
حضرت ابرہیم علیہ السلام کی اپنے رب سے چھ دعاؤں کا ذکر ہے:
(۱)امن (۲)بت پرستی سے حفاظت (۳)اقامتِ صلاۃ (۴)دلوں کا میلان (۵)رزق (۶)مغفرت کی درخواست

No comments:

Post a Comment