QURBANI KE AHKAM

*قربانی کے احکام ومسائل*
 
*✍✍✍تحریر:معاذ دانش*

اللہ نے قربانی کو اپنے اس فرمان کے ساتھ مشروع کیا ہے "وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ [الحج :36]
"قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر ہے".

*قربانی کا حکم*

قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے استطاعت کے باوجود اس کا ترک کرنا مکروہ ہے.

*قربانی کی حکمت*

اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرنے اور عید کے ان ایام میں نادار لوگوں پر کشائش کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے درمیان محبوب شیئ کے خرچ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی غرض سے قربانی کو مشروع کیا ہے.

*قربانی کےجانور*

شریعت نے نرومادہ کے ساتھ تین قسم کے جانور
1_اونٹ
2_گائے
3_غنم(دنبہ بھیڑ اور بکری)کو مشروع رکھا ہے.
فرمان الہی ہے :وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا  الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ}[الحج: 28]
اور ( قربانی کے ) مقررہ دنوں کے اندر ﷲ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر ( ذبح کے وقت ) ﷲ کے نام کا ذکر کریں ، پس تم اس میں سے خود ( بھی ) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو ( بھی ) کھلاؤ".
قرآن کریم نے "الانعام" کی وضاحت کرتے ہوئے ابل(اونٹ)بقر(گائے)معز(بکری)ضأن(بہیڑ)چار قسم کے جانوروں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے مذکر ومؤنث کو ملا کر "ثمانية أزواج"(جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ )کہا ہے.

*قربانی کے شروط*

1_محدود وقت میں ہو (جو کہ صلاۃ عید سے فراغت کے بعد سے تیرہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے)
2_بہیمۃ الانعام (اونٹ گائے بکری بھیڑ)میں سے ہو
3_قربانی کا جانور حدیث میں مذکور چار مخصوص عیوب سے محفوظ ہو {جس کا ذکر آگے آئے گا}
4_اپنی ملکیت ہو
5_قربانی کا جانور مسنہ (دانتا)ہو

*مسنہ (دانتا)*

مسنہ کہتے ہیں وہ جانور جس کےسامنے کے دودھ کے دو دانت گر چکے ہوں اورعموما یہ تبہی گرتے ہیں جب ان کی جگہ دو چوڑے دانت نکل آتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب درج ذیل عمر کو پہونچ جائےخواہ وہ نر ہو یا مادہ.

*بکری*

بکری ایک سال مکمل کرکے دوسرے میں داخل ہو جائے.

*بہیڑ*

ایک سال مکمل کرکے دوسرے میں داخل ہوجائے.
*گائے*

دو سال مکمل کرکے تیسرے میں داخل ہو جائے

*اونٹ*

پانچ سال مکمل کرکے چھٹے سال میں داخل ہو جائے.
پس اگر کوئی شخص صلاۃ عید کے بعد سے لے کے تیرہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے کے درمیان دن ورات کے کسی بہی حصے میں قربانی کرتا ہے تو وقت کے لحاظ سے اس کی قربانی درست ہوگی اور اگر صلاۃ عید سے کچھ پہلے یا تیرہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے کے بعد کرتا ہے تو وقت کے لحاظ سے اس کی قربانی درست وصحیح نہ ہوگی
اسی طرح اگر کوئی شخص بہیمۃ الانعام (اونٹ گائے بکری بھیڑ) کے علاوہ گھوڑے ہرن یا اس جیسے دیگر جائز جانور کی قربانی کرتا ہے تو درست نہیں ہوگا کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے اور عبادت بلا دلیل جائز نہیں آپ نے فرمایا :" مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ".[صحيح مسلم :1718]
اسی طرح بہیمۃ الانعام کے لئے جو عمر متعین کیا ہے اس عمر سے اگر تھوڑا بہی کم ہواتو عمر  کے لحاظ سے اس کی قربانی غیر معتبر ہوگی.

*اگر مسنہ (دانتا)جانور میسر نہ ہو تو چھ ماہ کا دنبہ/بھیڑ کافی ہوگا*

اگر دانتا جانور میسر نہ ہو تو چھ ماہ کا دنبہ یا بھیڑ ہی کافی ہوگا آپ نے فرمایا: " لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً ، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ ".[صحیح مسلم :1963]
دو دانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو ہاں اگر دشواری پیش آجائے تو دنبہ/بھیڑ کا جذعہ ہی ذبح کرلو.

*بھیڑ کا جذعہ*

جو چھ ماہ مکمل کرکے ساتویں ماہ میں داخل ہو جائے.

*قربانی کے جانور کن عیوب سے پاک ہوں؟*

قربانی کے جانور قوی وصحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ چار ظاہری عیوب سے پاک ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" لَا يَجُوزُ مِنَ الضَّحَايَا : الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي ".[سنن النسائي:4371]
چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے
1_کانا بہینگا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو.
2_بیمار جس کی بیماری واضح ہو.
3_لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو.
4_نہایت کمزور جانور جس جس میں گودا نہ ہو.
البتہ اگر حدیث نبوی میں ذکر کردہ عیوب سے کمتر عیب جانور میں پایا جاتا ہے تو وہ کفایت کرجائے گا کیونکہ ایک روایت میں آپ نے فرمایا چار اور اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اسے (چار) شمار کیا جو کی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان عیوب کے سوا دوسرے عیوب جو اس سے کمتر ہوں وہ کفایت کرجائیں گے لیکن انسان کے لئے بہتر ہے کہ وہ کامل ترین صحت مند جانور قربان کرے.

*جو شخص قربانی کا ارادہ کرے اسے چاہئے کہ ناخن اور بال سے باز رہے*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  " إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعَرِهِ، وَأَظْفَارِهِ ".جب تم قربانی کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بال اور ناخن (کاٹنے)سے بچے.
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ناخن سے باز رہنے کا معنی یہ ہے کہ وہ ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی توڑے
اور بالوں سے بچنے کا مفہوم  یہ ہے کہ وہ بال مونڈے نہ ہلکے کرے نہ نوچے اور نہ ہی جلا کر اسے ختم کرے"{شرح النووی 138/13}
البتہ اگر کوئی شخص سہوا یا عمدا بال یا ناخن تراش لیا ہو تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے تاہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے اسے توبہ واستغفار کرنا چاہئے.

*مقیم کی طرح مسافر کے لئے بہی قربانی کرنا مسنون ہے*

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْبَعِيرِ عَشَرَة.
"ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا".
مذکورہ بالا حدیث میں صراحت کے ساتھ حالت سفر میں صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے.

*قربانی میں مشارکت*

اونٹ اور گائے (نرومادہ)میں مشارکت جائز ہے اونٹ میں دس اور گائے میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں.
جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَكْنَا فِي الْجَزُورِ عَنْ عَشَرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَقَرَةِ عَنْ سَبْعَةٍ [ابن ماجه:3131صحيح]
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اتنے میں عید الاضحی آ گئی، تو ہم اونٹ میں دس آدمی، اور گائے میں سات آدمی شریک ہو گئے

*قربانی کو احسن طریقے سے ذبح کرنا*

قربانی کو جس قدر ممکن ہو احسن طریقے سے ذبح کیا جائے اور اسے آرام پہونچایا جائے فرمان نبوی ہے
" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ ".[صحيح مسلم :1955]
"بلا شبہ اللہ تعالی نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض ٹھرایا ہے لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو تم میں سے ایک اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہونچائے".

*ذبح میں احسان کا مفہوم*

ذبح میں احسان کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی کرے اسے ذبح کے لئے گھسیٹتے ہوئے نہ لائے آلہ کو تیز کرلے اسے قبلہ کی طرف متوجہ کرے تسمیہ پڑھے اسے ذبح کرتے ہوئے اللہ سے تقرب کی نیت رکھے دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح نہ کرے ذبح کے بعد اس قدر چھوڑے رکھے کہ وہ بالکل ٹھنڈا ہوجائے

*ذبیحہ کو آرام پہونچانے کا مفہوم*

ذبیحہ کو آرام پہونچانے کا مفہوم یہ ہے کہ ذبح سے قبل پانی پلائے نرمی کے ساتھ ذبح کی جگہ لائے اور بلا مشقت نرمی سے لٹائے پوری قوت کے ساتھ تیزی سے دھار دار آلہ سے ذبح کرے تاکہ جلد از جلد روح نکل جائے اور جانور تکلیف سے آرام پائے.

*کن لوگوں کا ذبیحہ حلال ہے*

ازروئے کتاب وسنت مسلم اور اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اس کے علاوہ کسی کا ذبیحہ حلال نہیں ہے
مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے خواہ وہ مذکر ہو یا مؤنث عادل ہو یا فاسق پاک ہو یا ناپاک.
رہی بات کتابی (جو یہود و نصاری کی طرف منسوب ہو) کی تو اس کا ذبیحہ حلال ہے اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے ؕ وَ طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ ۪ وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ۫[المائدة:5]اوراہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے.

*مسلم وکتابی کے سوا کسی قصائی کا ذبیحہ حلال نہیں*

مسلم وکتابی کے علاوہ کسی قصائی کا ذبیحہ حلال نہیں ہے اس لئے وہ علاقے جہاں قصائی سے ذبح کرایا جاتا ہو وہاں کسی مسلم قصائی ہی کا انتخاب کرنا چاہئے اگر نہ مل سکے تو کسی کتابی کو تلاش کرنا چاہئے کیونکہ ان کے علاوہ دیگر غیر مسلم قصائی یا افراد کا ذبیحہ شریعت میں حلال نہیں ہے.

*جانور کون ذبح کرے*

مختلف دلائل (بخاری :5558,مسلم:1218)کی روشنی میں اپنی قربانی خود ذبح کرنا مستحب اور کسی دوسرے کو ذبح کرنے میں اپنا نائب بنانا جائز ہے.

*کیا عورت ذبح کر سکتی ہے؟*

عورت قربانی کے جانور ذبح کرسکتی ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے "باب من ضحية غيره "کے تحت ذکر کیا ہے"وَأَمَرَ أَبُو مُوسَى بَنَاتِهِ أَنْ يُضَحِّينَ بِأَيْدِيهِنَّ".کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں.

*قربانی کی دعا*

مسنون طریقہ یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت "بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ،[صحیح بخاری:5565]پڑھے.
یا "بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وعن اهل بيتي[سنن ابي داؤد:2810صحيح]
یا "بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ فلان وآل فلان"[صحيح مسلم:1967]کہے.
مذکورہ بالا ساری دعائیں مختلف موقعے سے آپ سے ثابت ہیں.

*قربانی کے گوشت کا مصرف*

کتاب وسنت کی رو سے قربانی کے گوشت میں سے خود بہی کہائے اور فقیروں محتاجوں کو بہی کھلائے کوئی پابندی نہیں کہ کس قدر خود کھائے اور کتنا فقیروں کو دے البتہ اسے فروخت نہ کرے فرمان الہی ہے
"فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ ".[الحج:36]
اسے(خود بھی)کھاؤاور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال  کرنے والوں کو بھی کھلاؤ".
شروع میں آپ نے مصلحت کے تحت گوشت کی ذخیرہ اندوزی سے منع کیا تہا تاہم جب اس کی ضرورت نہ رہی تو آپ نے ذخیرہ اندوزی کی اجازت دے دی فرمان نبوی ہے:"فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَأَطْعِمُوا، وَادَّخِرُوا "[سنن ترمذی:1510صحیح]
"سو اب جتنا چاہو خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور  ( گوشت )  جمع کر کے رکھو“.
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کھانے والے گوشت کی مقدار متعین نہیں قربانی کرنے والا شخص جس قدر چاہے اس میں سے کھائے خواہ وہ مقدار زیادہ ہو البتہ اس بات کا خیال رکھے کہ اس قدر تناول نہ کرے کہ اطعموا (کھلاؤ) والی بات ہی ختم ہوجائے.[نیل الاوطار: 22/5]

*کیا غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے*

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے.فرمان الہی ہے
"فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ ".[الحج:36]
اسے(خود بھی)کھاؤاور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال  کرنے والوں کو بھی کھلاؤ"
.
*قربانی کی کھال کا مصرف*

قربانی کی کھال کا بہی وہی مصرف ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے کیونکہ وہ بہی اسی کا ایک حصہ ہے خواہ اسے خود ہی استعمال کرے مثلا چٹائی مصلی چمڑے کا تھیلا ڈول یا مشکیزہ وغیرہ بنا لے یا صدقہ کردے یا دوست واحباب کو ہدیہ کردے.

*‏‏‏‏‏قصائی کو قربانی میں سے بطور اجرت کچھ نہیں دینا چاہئے*

قصائی کو قربانی میں سے بطور اجرت کچھ نہیں دیا جائے گا البتہ قربانی کے علاوہ علحدہ طور پر جو اجرت ہو دیا جاسکتا ہے علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا"". [صحيح بخاري:1717]
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کریں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی ہر چیز گوشت چمڑے اور جھول خیرات کر دیں اور قصائی کی مزدوری اس میں سے نہ دیں.

*حاملہ (گابھن)جانور کی قربانی*

حاملہ (گابھن)جانور کی قربانی صحیح ودرست ہے اس میں کوئی حرج نہیں
‏‏‏‏‏‏
*خصی جانور کی قربانی*

خصی جانور کی قربانی جائز ودرست ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی ہے

*غیر خصی جانور کی قربانی*

غیر خصی جانور کی قربانی بہی جائز ودرست ہے اور آپ کے عمل سے بہی ثابت ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں َ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِكَبْشٍ أَقْرَنَ فَحِيلٍ يَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَأْكُلُ فِي سَوَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ.[سنن ابوداؤد:2796صحیح]
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینگ دار غیر خصی مینڈھے کی قربانی کرتے تھے جو دیکھتا تھا سیاہی میں اور کھاتا تھا سیاہی میں اور چلتا تھا سیاہی میں  ( یعنی آنکھ کے اردگرد ) ، نیز منہ اور پاؤں سب سیاہ تھے۔

*بھینس کی قربانی*

قربانی کےلئے وہی جانور مشروع ہیں جن پر "بهيمة الأنعام "کا اطلاق ہوتا ہے جن میں اونٹ گائے بھیڑ بکری شامل ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے انہیں جانوروں کی قربانی کا قولی وعملی ثبوت ملتا ہے لہذا بھینس کو محض بقر کی جنس قرار دیتے ہوئے اسے قربانی کے جواز کی دلیل قرار دینا _واللہ اعلم _درست نہیں ہے.

*ھندوستان کے بعض علاقوں میں گائے کی قربانی کا مسئلہ*

شریعت میں گائے کی قربانی کا واضح ثبوت موجود ہے شرعی نقطہ نظر سے اس میں کوئی حرج نہیں بعض لوگ گائے کے گوشت میں بیماری والی احادیث پیش کرکے اس سے احتراز کی تلقین کرتے ہیں تاہم وہ ساری روایات ضعیف ہیں البتہ ملک کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس سے احتراز کرنا بہتر ہے کیونکہ یہ جانور ایک خاص مذہب کے نزدیک مقدس سمجھی جاتی ہے جسے ذبح کرنا ان کی تکلیف کا باعث ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں مختلف قسم کے فتنہ وفساد رونما ہوتے ہیں لہذا مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ حالات کے ساز گار ہونے تک اس سے پرہیز کیا جائے اس سے نہ تو دینی حمیت میں کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی قوانین اسلام کی خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ گائے کا ذبح کرنا محض حلال اور مباح کی حیثیت رکھتا ہے نہ ہی وہ واجبات کے درجے میں ہے اور نہ ہی مستحبات کے بلکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کا شکار حلال ہے اب اگر کوئی شکار کرتا ہے تو قابل مدح نہیں اور اگر شکار نہیں کرتا ہے تو قابل مذمت نہیں.

*ذبیحہ کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کا حکم*

قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا
یا تو مردہ ہوگا
یا زندہ ہوگا
اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا کہانا حلال ہوگا اس کی ماں کا ذبح کرنا بچے کے ذبح کرنے سے کفایت کرے گا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَنِينِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏   كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُسَدَّدٌ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَنْحَرُ النَّاقَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَذْبَحُ الْبَقَرَةَ وَالشَّاةَ فَنَجِدُ فِي بَطْنِهَا الْجَنِينَ أَنُلْقِيهِ أَمْ نَأْكُلُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ فَإِنَّ ذَكَاتَهُ ذَكَاةُ أُمِّهِ.[ابوداؤد :2827حسن لغیرہ]
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اگر چاہو تو اسے کھا لو۔ مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے" ۔پیٹ میں موجود بچے کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے
اگر وہ زندہ ہے تو اسے ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ اب وہ مستقل ایک جان کی حیثیت رکھتا ہے.
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :"إن كان حيا فلا بد من زكوته لانه نفس أخرى" [المغنی :13/310]
"اگر وہ زندہ نکلے تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان ہے".

*ایک جانور اہل خانہ کے لئے کافی ہے*

بهيمة الأنعام (اونٹ گائے بھیڑ بکری) میں سے کوئی بہی ایک جانور اہل خانہ کے پورے افراد کے لئے کافی ہوگا اگرچہ اہل خانہ کی تعداد سو سے بہی زائد ہو اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد صحابہ کرام کا عمل رہا ہے چنانچہ ابو ایوب انصاری رضی عنہ فرماتے ہیں"كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى".[سنن ترمذی: 1505صحيح]
"عہد نبوی میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری قربان کرتا تہا وہ اسے کھاتے تہے کھلاتے تہے حتی کہ لوگوں نے تکبر شروع کردیا تو اس طرح ہوگیا جو آج تم دیکھ رہے ہو".

*اہل خانہ سے مراد*

اہل خانہ سے مراد وہ تمام افراد جن کا چولہا ایک ہو اور قربانی دینے والا ان سب کے خرچ کا ذمہ دار ہو.

*قربانی سے متعلق ضعیف و من گھڑت روایات*

1⃣ عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ ؟ فَقَالَ    ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ   ،‏‏‏‏ فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْقِلُ،‏‏‏‏ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ،‏‏‏‏
جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے[سنن ترمذی:1506ضعیف]
2⃣ ‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ .[سنن ابن ماجه:3127ضعيف جدا]
زید بن ارقم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی  لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  بھیڑ میں  ( بھی )  ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے.
3⃣ عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏  مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا، ‏‏‏‏‏‏أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَظْلَافِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْعَارِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا .[سنن ابن ماجه:3126ضعيف]
عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  یوم النحر  ( دسویں ذی الحجہ )  کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں سمیت  ( جوں کا توں )  آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام پیدا کر لیتا ہے، پس اپنے دل کو قربانی سے خوش کرو.
4⃣ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي [سنن ترمذي :1507ضعيف]
ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور آپ  ( ہر سال )  قربانی کرتے رہے۔
5⃣ عَنْ حَنَشٍ قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا هَذَا ؟ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ.[سنن ابي داؤد :2790ضعيف]
حنش بن المعتمر سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟  ( یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں )  تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے  ( بھی )  قربانی کرتا ہوں۔
اللہ رب العالمین ہم سب کو طریقہ نبوی کے مطابق قربانی کرنے کی توفیق بخشے آمین

No comments:

Post a Comment