اگر کسی بات میں اختلاف ہو تو قرآن و حدیث کی طرف لوٹو
قربانی کے چار دن کتاب وسنت کی روشنی میں
قربانی کے چار دن کتاب وسنت کی روشنی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے لغوی اعتبار سے ایام تشریق کا مفہوم دیکھتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(1) چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4؍242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
“وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس”
”ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔
(2)مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
”اس قول ‘یعنی وجہ تسمیہ’ کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔(ایام قربانی: ص 22)
چاردن قربانی کےدلائل قرآن کریم سے
ــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالى نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ : 203)
اور (ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
نیز فرمایا :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : 28)
اور وہ ایام تشریق کےمعلوم دنوں میں اللہ کے دیے ہوئے مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں ۔
یعنی ایام معلومات اور ایام معدودات جو کہ باتفاق امت ایام تشریق ہی ہیں اور جن میں جلدی کے بارہ میں اللہ تعالى فرماتے ہیں وہ دو دن ہیں اور تیسرا دن بھی انہیں میں شامل ہے ‘ ان دنوں میں قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ذبح ونحر کریں اور خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں ۔
اور ایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ اور تیرہ اور ذوالحجہ کی دس تاریخ کو یوم نحر کہا جاتا ہے
الغرض چار دن قربانی کرنا کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے.
احادیث صحیحہ سے دلائل
ــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره، عن رجل من أصحاب النبي ﷺ قد سماه نافع فنسيته، أن النبي ﷺ قال لرجل من غفار: «قُم فأذّن أنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وأنها أيام أكل وشرب أيام مني» زاد سليمان بن موسى وذبح، يقول: أيام ذبح ابن جريج يقوله. (السنن الکبرٰی للبیہقی: 9؍296)
”ایک صحابی سے مروی ہے کہ اللّٰہ کے نبی ﷺ نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ تم کھڑےہو اور اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے اُستاذ سلیمان بن موسیٰ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ذبح کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔(سلسلہ احادیث الصحیحہ: 5؍ 621، رقم: 2476)
(2) امام ابن حبان(م 354ھ) سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )
” اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔”
(3) عن سعید بن المسیب ، مرة عن أبي سعيد ومرة عن أبي هريرة رضي الله عنهما عن النبي ﷺ «أيام التشريق كلها ذبح۔( السنن الکبری للبیہقی: 9؍ 296)
”دو صحابہ ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ اللّٰہ کے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔”
یہ حدیث بھی بالکل صحیح اور اس کی سند بھی متصل ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: 5؍621
صحابہ کرام سے ثبوت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(1) مفسر قرآن عبد اللّٰہ بن عباس :
”عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں . (السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296)
اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے
(2) خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب:
”امام ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291)۔
(3) صحابی رسول جبیر بن مطعم:
”امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک قربانی کے آخری وقت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تشریق کے تینوں دنوں میں قربانی جائز ہے اور یہی بات علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم اور عبد اللّٰہ بن عباس نے بھی کہی ہے۔”(شرح مسلم: 13؍ 111)
(4) صحابی رسول اللّٰہ عبد اللّٰہ بن عمر:
”عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،: دار طیبہ)
تابعین سے ثبوت
ـــــــــــــــــــــــــــــ
(1) امام اہل مکہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ:
امام طحاوی فرماتے ہیں:
. ”امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔”
(احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299)
(2) امام اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:
”حسن بصری رحمہ اللہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔”
(امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89؛ سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح)
(3) امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ :
امام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:
”خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔”(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح)
اس کے علاوہ درج ذیل تابعین سے بھی اہل علم نے چار دن قربانی کا قول نقل کیا ہے:
امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ رحمہم اللہ
(التمہید لابن عبد البر: 23؍ 196؛ شرح النووی علی مسلم: 13؍ 111؛ زاد المعاد لابن القیم: 2؍ 319؛ المحلیٰ لابن حزم: 7؍ 378؛ تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،دارِ طیبہ)
چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
بعض نے امام ابو حنیفہ کی طرف تین دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ مگر واقعۃً امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کتنے دن تھی، اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ سے صحیح سند سے کوئی قول ہمیں نہیں ملا۔
(2)امام شافعی رحمہ اللہ
امام شافعی(م 204ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
‘جب تشریق کے آخری دن یعنی 13؍ ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔”(الام للشافعی: 2؍ 244)
(3)امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
آپ کی طرف تین دن اور چار دن دونوں طرح کے اقوال منسوب ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ(م 774ھ) نے کہا:
”عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر ، ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416؛ الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف للمرداوی: 4؍ 87)
(4)امام مالک رحمہ اللہ
آپ نے تین دن قربانی والا موقف اپنایا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی ہے، غالباً موطا میں آپ نے ابن عمر کے قول کی بنیاد پر یہ موقف اپنایا ہے۔لیکن خود ابن عمر کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن کثیر کے حوالہ سے گذر چکا۔
چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ محدثین ومحققین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
. امام ابن المنذر(م 319ھ) نے کہا:
”قربانی کا وقت عید کا دن اور اس کے بعد تشریق کے تین دن ہیں۔”( الاقناع لابن المنذر: ص 376)
2. امام بیہقی(م 458ھ) نے کہا:
”سلیمان بن موسیٰ (چار دن قربانی) والی حدیث زیادہ مناسب ہے کہ اس کے مطابق موقف اپنایا جائے۔”(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 298)
3. امام ابو الحسن الواحدی(م 468ھ)نے کہا :
”قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔”(تفسیر الوسیط للواحدی: 3؍ 268)
4. امام نووی(م676ھ) نے کہا:
”قربانی کا وقت تشریق کے آخر دن سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گا۔”(روضۃ الطالبین للنووی: 2؍468)
5. شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م 728ھ) نے کہا:
”قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔”(فتاویٰ الکبیر لابن تیمیہ: 5؍ 384)
6. امام ابن قیم(م751ھ) نے کہا:
”اور سیدنا علی نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔”( زاد المعاد: 2؍ 319)
7. امام ابن کثیر(م 774ھ) نے کہا:
”اور اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مذہب ہے اور وہ یہ کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔”( تفسیر ابن کثیر:1؍ 561)
8. امام شوکانی(1250ھ) نے کہا:
”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔”( نیل الاوطار:5؍149)
خلاصۂ بحث
قرآنی آ یات، احادیثِ صحیحہ اور جمہور سلف صالحین سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قربانی کے کل چار دن ہیں۔ جماعت اہل حدیث کا یہی متفقہ موقف ہے۔ علماے ہند کے علاوہ پاکستان وعرب کے معاصر کبار اہل علم نے بھی اسی موقف کی صراحت کی ہے۔مجلس کبار علما ، سعودی عرب کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
ربّ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے، حق بات سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment