رضوان اللہ فیضی
جامعہ دارالہدیٰ یوسف پور
قوم یہود کے جرائم پر قرآن پاک نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ، قرآن نے ان کے مشہور جرائم کی جو فہرست مرتب کی ہے اس میں نبیوں کی تکذیب اور ان کا قتل بھی شامل ہے ، حرام خوری ، سودی کاروبار ، جنگ کی آگ بھڑکانا ، آسمانی کتابوں میں تحریف کرنا یہودیوں کی خاص پہچان بتائی گئی ہے ، یہودی قوم اپنے انھیں جرائم کی وجہ سے اللہ کی لعنت اور اس کے دائمی غضب کی مستحق بن گئی ،
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
"ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوٓاْ إِلَّا بِحَبْلٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَحَبْلٍۢ مِّنَ ٱلنَّاسِ وَبَآءُو بِغَضَبٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُواْ يَكْفُرُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَيَقْتُلُونَ ٱلْأَنۢبِيَآءَ بِغَيْرِ حَقٍّۢ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَواْ وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ" ، (آل عمران 112)
’’یہ جہاں بھی پائے گئے، ان پر ذلت کی مار پڑی۔ کہیں اللہ کی یا انسانوں کی حفاظت میں انہیں (عارضی) پناہ مل گئی تو اور بات ہے۔ (دائمی طور پر) یہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ہیں اور محتاجی اور مغلوبی ان پر مسلط کردی گئی ہے کیونکہ یہ اللہ کے احکام کا انکار کرتے تھے، نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، اللہ کے نافرمان اور باغی تھے ۔‘‘ (آل عمران۔۱۱۲)
یہ ہے قوم یہود کی وہ تقدیر جو کتاب اللہ میں مسطور ہے ، تمام دنیا کی ایٹمی اور سوپر پاور طاقتیں ایک ساتھ مل کر بھی اس تقدیر کو بدلنا چاہیں تو اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتی ہیں ۔
ایک سوال یہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر مغضوب اور لعنت زدہ ہونے کے باوجود یہودی آج اتنے طاقتور کیسے نظر آتے ہیں کہ پورا عالم اسلام ان کے سامنے بظاہر بے بس اور لاچار دکھائی دیتا ہے ، ان کے پاس مضبوط فوجی قوت ہے اور ریاست کے بھی مالک ہیں ؟ یہ سوال ہر اس شخص کو الجھن کا شکار بناتا ہے جو یہود کے جرائم کو جانتا ہے اور اس قوم کے مغضوب علیہ ہونے پر یقین رکھتا ہے ۔
اس سوال کا جواب سورہ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی دے دیا ہے (إِلَّا بِحَبْلٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَحَبْلٍۢ مِّنَ ٱلنَّاسِ) یعنی قوم یہود کا وجود دو ہی صورتوں میں باقی رہ سکتا ہے
١- پہلی صورت یہ ہے کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں
٢- دوسری صورت یہ ہے کہ انھیں لوگوں کی پناہ حاصل ہو جائے
یہ جاننے سے پہلے کہ قوم یہود کو فی الحال کس طرح کی پناہ حاصل ہے ، یہ جان لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی چند شکلیں کیا ہیں ؟
١- اللہ کے دین کو قبول کر کے اللہ کے منقاد وفرمانبردار بن جائیں اسی کو (بحبل من اللہ) سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ایک دوسری آیت میں کتاب اللہ کو اللہ کی رسی کہا گیا ہے (واعتصموا بحبل اللہ)
٢- جزیہ کی رقم دے کر جان و مال کا تحفظ کر لیں جیسا کہ اسلامی خلافتوں کے عہد میں ذمی بن کر انھوں نے اللہ کی پناہ حاصل کی تھی ۔
٣- کسی بڑے جھٹکے کے بعد خدا کی طرف سے سدھرنے اور اصلاح قبول کرنے کا ایک عارضی موقع دے کر ان پر احسان کر دیا جائے ، اس کی مثال سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں موجود ہے جب بابل کے فرمانروا نے ان پر چڑھائی کی اور غلام بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر بابل لے گیا تو چالیس سال تک غلامی کی ذلت سہنے کے بعد اللہ تعالٰی نے دوبارہ ان کے دن لوٹا دیئے اور نہ صرف غلامی سے آزادی دلائی بلکہ مال واسباب اور نفری قوت میں بھی اضافہ فرما دیا تھا جو کسی بھی قوم کے وجود و بقا کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔(ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ ٱلْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَٰكُم بِأَمْوَٰلٍۢ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَٰكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا)
(حبل من اللہ) کی مذکورہ پہلی دو شکلوں کا تو سرے سے کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ یہود نے نہ تو اللہ کے دین کو قبول کیا ہے اور نہ ہی جزیہ کی کوئی صورت موجود ہے ، رہی تیسری شکل تو اس کا بھی امکان موجود نہیں ہے کیونکہ اس طرح کا موقع انھیں اس وقت ملا کرتا تھا جب دنیا میں امت مسلمہ کی حیثیت سے صرف وہی قوم تھی لہذا اسے سدھرنے اور نعمت اسلام کو سنبھالنے کا موقع ملتا رہا ، نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کے بعد یہودیوں نے آخری پیغمبر سے عداوت کا راستہ اختیار کیا اور اس طرح وہ خود ہی امت مسلمہ کی صف سے خارج ہو گئے۔
قرآن مجید میں یہودیوں کے لئے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی دوسری صورت یہ بتائی گئی ہے کہ انھیں دوسری قوموں کی پشت پناہی حاصل ہو جائے آج یہود کو جو طاقت حاصل ہے وہ اسی دوسری صورت کا نتیجہ ہے ، دنیا جانتی ہے کہ ریاست اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی ملی ہوئی ہے اگر دیگر اقوام کی حمایت ( حبل من الناس) ختم ہو جائے تو ریاست اسرائیل کو اپنا وجود باقی رکھ پانا مشکل ہو جائے گا ۔
یہود فطری طور پر ایک چالاک قوم ہے یہ قوم مستقبل کی ہمیشہ پلالنگ کرتی ہے اس کی ایک مثال دیکھ لیں کہ قرب قیامت کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ انکا آخری فیصلہ کن معرکہ ہوگا اس وقت مسلمانوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ انھیں خوب ذلیل کرے گا یہاں تک کہ تمام شجر و حجر انکے خلاف مخبری کریں گے سوائے شجر غرقد کے ( تفصیلات احادیث میں درج ہیں) یہ قرب قیامت کی بات ہے لیکن آج ہی سے تمام یہودی غرقد کا درخت کثرت سے لگا رہے ہیں بلکہ ریاست اسرائیل اس کے لئے اچھا خاصا بجٹ مختص کرتی ہے ،
ماضی میں اس قوم نے تقریباً دوہزار سال تک عیسائی بادشاہوں کی طرف سے عتاب جھیلا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کے قاتل یہی لوگ ہیں (حالانکہ پیغمبر عیسیٰ نہ مقتول ہوئے تھے نہ مصلوب بلکہ انھیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا) تاہم معاملہ ان پر مشتبہ کردیا گیا تھا (ولکن شبه لھم) ہوا یہ تھا کہ جب یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو بذریعہ وحی عیسیٰ کو پہلے ہی اطلاع مل گئی اور خدا کا پلان سمجھا دیا گیا کہ پیغمبر کو زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا جائے گا اور ایک حواری کو عیسیٰ کی شکل دے دی جائے گی لوگ اسی کو عیسیٰ سمجھ کر قتل کر دیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا ،
یہودیوں نے سمجھا کہ ہم نے عیسیٰ کو سولی پر چڑھا دیا اور عیسائی دنیا نے مانا کہ ان کے پیغمبر کے قاتل یہودی ہیں ، اس واقعے کے بعد طویل عرصے تک عیسائی دنیا نے یہودیوں کو سزا دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور یہودی قوم دنیا بھر میں صدیوں تک ماری ماری پھرتی رہی ،
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھانا ہی تھا تو یہ کام سب کی آنکھوں کے سامنے علی رؤوس الاشھاد کیوں نہیں ہوا اور کیوں معاملے کو مشتبہ کرنے کے لئے ایک حواری کو عیسیٰ کی شکل دے کر شہید ہونے دیا گیا ؟ آخر اس میں کونسی خدائی حکمت کارفرما نظر آتی ہے ؟
جب ہم عیسائی بادشاہوں کی طرف سے یہودیوں پر ہونے والے بدترین اور ذلت آمیز سلوک پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس بات کا صحیح جواب بڑی آسانی سے مل جاتا ہے کہ خدا کی مرضی یہ تھی کہ عیسائی دنیا کے ہاتھوں سے یہودیوں کو ذلیل کیا جاتا رہے چنانچہ صدیوں تک یہودیوں پر ذلت کی مار پڑتی رہی ،
اگر رفع عیسیٰ کا واقعہ سب کے سامنے تختۂ دار سے براہ راست عمل میں آیا ہوتا اور عیسائیوں نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کا مشاہدہ کیا ہوتا کہ ہمارے پیغمبر کو باعزت طریقے سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ہے تو عیسائیت کے دل میں یہودیت کے خلاف اتنی نفرت کی آگ نہیں سلگتی اور ان پر اتنا غصہ نہیں پیدا ہوتا جتنا کہ سولی پر عیسیٰ کے ہم شکل کو چڑھانے کے بعد پیدا ہوا ، چنانچہ رفع عیسیٰ کے واقعے کے بعد روم کے بادشاہ نے فلسطین پر ( خدائی حکمت کے تحت) چڑھائی کی اور یہودی قوم کو روئی کی طرح دھن ڈالا جس کا تذکرہ سورہ اسراء کی ابتدائی آیات میں ہوا ہے ۔
قوم یہود کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے تاریخ کے مختلف ادوار میں در در بھٹکنے اور خانہ بدوشی کی ذلت سہنے کے باوجود بھی یہ قوم اب تک زندہ ہے اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ قانون الہی کے تحت بعض چیزوں کو بطور عبرت باقی رکھا جاتا ہے مثلا فرعون کی لاش اور معذب قوموں کے بعض آثار وغیرہ
لیکن ایک وجہ اور بھی ہے جس کی طرف بعض اہل علم نے اشارہ کیا ہے کہ یہود کا تعلق نسل اسحاق سے ہے اور عربوں کا اسماعیل سے ، جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو "غلام علیم " کہکر دی گئی جبکہ اسماعیل کی بشارت"غلام حلیم " کے لفظ کے ساتھ آئی ، عرب دنیا اسماعیل کی نسل سے تعلق رکھتی ہے اس لئے اس میں حلم و بردباری کا عنصر غالب ہے جبکہ نسل اسحاق ( بنی اسرائیل) فطری طور پر علم و چالاکی میں شہرت پانے والی قوم سے معروف و مشہور ہے ، چنانچہ انھوں ( یہود) نے عیسائیت کو قابو میں کرنے کے لئے طویل المیعاد منصوبے تیار کئے ، سب سے پہلے انھوں نے عیسائی مذہبی کتاب میں حاشیہ وغیرہ لگوا کر عیسائی نسلوں کا برین واش کیا اور یہودیت کے تئیں نرم گوشہ پیدا کیا ، عیسائیوں کے اندر عریانیت وفحاشی کو فروغ دیکر مذہبی خیالات کو کمزور کیا اور میڈیا کی طاقت استعمال کرتے ہوئے جمہوریت اور انسانی حقوق کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا ، یہ سیلاب اتنا تیز تھا کہ اس کے بہاؤ میں عیسائی بادشاہوں کا تخت و تاج بہ گیا ، عیسائی دنیا کو نظریاتی دنگل میں اتار کر عیسائیت کو فرقوں میں تقسیم کر کے آپس میں خوب لڑایا اور جانی دشمن بنا دیا ، لینن اور مارکس جیسے ان کے بعض مفکرین نے الحاد و دہریت کا صور اتنی شدت سے پھونکا کہ آدھی عیسائی دنیا کو اشتراکیت کے عفریت نے نگل لیا ، دنیا کو دو عظیم جنگوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور دونوں ہی جنگ عظیم کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ سامنے آیا ، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان جنگ عظیم کے اصل محرک یہی تھے ، ہٹلر کی فوج میں اعلی عہدوں پر رہتے ہوئے برٹش حکومت کی خوب مدد کی ، جرمن فوج کو ردی گولہ بارود سپلائی کرتے رہے جس سے برٹش حکومت کا نقصان کم ہوا جبکہ برطانیہ کو جرمن فوج کی حساس فوجی ٹھکانوں کا پتہ دیتے رہے جس کی وجہ سے جرمنی کو تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ، بعد میں ہٹلر پر جب یہ راز کھلا تو اس نے یہودیوں کے قتل عام کے حکم نامے پر دستخط کر دیا ، مشہور ہے کہ ساٹھ لاکھ یہودی قتل کر دیئے گئے اس طرح یہودیوں پر خدا کی طرف سے ذلت ورسوائی کی تاریخ ایک بار پھر دہرا دی گئی جس کو دنیا ہولوکاسٹ کے نام سے جانتی ہے ، برٹش حکومت کے ساتھ وفاداری کا صلہ انھیں ( یہود) یہ ملا کہ حکومت برطانیہ نے اپنے عالمی اثرات کو بروئے کار لاتے ہوئے یہودیوں کے لئے قومی وطن بنانے کا اعلان کیا یہ یہود کی برطانیہ سے وفاداری کا وہ انعام تھا جو برطانیہ نے جرمنی کے ساتھ غداری کرنے کے عوض یہودیوں کو تحفے میں پیش کیا تھا اسی تحفے کا نام ریاست اسرائیل ہے ۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی سلطنت عثمانیہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی تھی اور برطانیہ کے لئے فلسطین پر قبضہ کرنے کی راہ کی تمام رکاوٹیں ختم ہو چکی تھیں لیکن دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی شکست کے بعد جب ہولوکاسٹ کا واقعہ پیش آیا تو یہودی ریاست کے قیام کے لئے دنیا بھر میں ہمدردی سمیٹنے کا موقع ملا 29 نومبر، 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا اور اسی اقوام متحدہ نے 14 مئی ، 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا ، اس اعلان کے بعد فلسطین دو لخت ہو گیا ، اقوام متحدہ نے 55 فیصد رقبہ یہودیوں کو دیا اور 45 فیصد رقبہ فلسطینیوں کے حصے میں آیا ، یہ تھا اقوام متحدہ کا پہلا انصاف ،
15 مئی، 1948ء کو یعنی قیام اسرائیل کے اعلان کے اگلے روز کئی ہمسایہ عرب ممالک نے اسرائیل پر ایک ساتھ حملہ کر دیا۔ بعد کے برسوں میں بھی کئی بار اسرائیل کے ہمسایہ ممالک اس پر حملہ کر چکے ہیں لیکن ہر بار اسرائیل فاتح رہا اور عربوں کے حصے میں شکست آئی ،
اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر لکھ رکھا ہے کہ " اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں" دریائے نیل سے دریائے فرات تک کی زمین کو یہودی اپنی میراث کی زمین کہتے ہیں اور بزور طاقت اس پر قبضہ کر لینے کو وہ اپنا جائز حق مانتے ہیں ، یہودیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے حساب سے پورا شام ، لبنان ، اردن ، عراق اور آدھا سعودی عرب بشمول مدینہ منورہ یہود کے نشانے پر ہے جس پر قبضہ کرنا یہودی منصوبے میں شامل ہے ( لا قدر اللہ) یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے بعد ہی سے مسلسل قبضہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اب تک 80 فیصد سے زائد فلسطینی رقبے پر قبضہ کرلیا ہے اور مزید کرتا چلا جا رہا ہے ۔
عربوں کے عین قلب میں اسرائیل کو بسا کر عیسائی دنیا نے ایک تیر سے دو شکار کیا ہے ایک طرف تو انہوں نے صلیبی جنگوں میں اپنی ہزیمت کا انتقام لیا ہے اور دوسری طرف مشرق وسطی میں اپنا مضبوط فوجی بیس (اسرائیل) قائم کر کے عرب اور اسلامی دنیا کو خوفزدہ رکھتے ہیں اس صورت حال میں عربوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونا فطری تھا چنانچہ عربوں میں جدید اسلحوں کی خریداری کی دوڑ شروع ہوئی اور اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ پہلے اپنے رشتے استوار کریں اس طرح عرب دنیا عملاً امریکہ اور یورپ کے لئے اسلحے کی تجارت کی ایک بہت بڑی منڈی بن گئی ۔
عرب دنیا کے لئے ایک بڑا درد سر ایران ہے یہ بھی اسرائیل کی طرح توسیع پسندانہ خیالات رکھتا ہے اور مختلف خطوں میں مسلح گروپس کو پرموٹ کرتا رہتا ہے ، عربوں کے اوپر گریٹر اسرائیل کا خوف پہلے سے ہے ہی ، ایران کے توسیع پسندانہ عزائم بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہیں ، اس کو سمجھنے کے لئے تھوڑا ماضی کی طرف چلتے ہیں ، کہانی شروع ہوتی ہے ایران عراق جنگ سے اور ختم ہوتی ہے عراق کے شیعہ اسٹیٹ بن جانے پر ، درمیان میں امریکہ کی انٹری اور بے تحاشا بمباری سے صرف شیعیت کو فروغ حاصل ہوا ، بعض نادانوں کو اب بھی یقین ہے کہ ایران سے امریکہ و اسرائیل کی ٹھنی ہوئی ہے ، سیاست دنیا کا سب سے ٹف گیم ہے ، جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا ہے اور جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں ۔
اس وقت ایران دنیا کے نقشے پر موجود تین اہم ممالک (عراق ، لبنان ، شام) پر بالواسطہ کنٹرول حاصل کرچکا ہے ، حوثی باغیوں کے ذریعہ یمن کو بھی زیرِ کنٹرول لانے کی کوشش کر چکا ہے لیکن سعودی عرب کی مداخلت سے فی الحال کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، عرب بہاریہ ( فسادیہ) کے پیچھے بھی درپردہ ایران ہی تھا ، فلسطین میں حماس کو فکری و عسکری خوراک پہنچا رہا ہے ، اخوان ، ترکی ، اور قطر کے ساتھ اس کے سیاسی و نظریاتی روابط ہیں ، ان حالات میں تحریکی اور انقلابی سوچ رکھنے والے لوگ جب عربوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے سامنے بزدلی دکھارہے ہیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے ۔
عرب اسرائیل جنگ کے بعد ہی سے عربوں کے سمجھ میں آگیا تھا کہ اسرائیل کو شکست دے پانا مشکل ہے لہذا انہوں نے ہمیشہ بات چیت کے ذریعے پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کی ، اس کے علاوہ فی الحال اسلامی دنیا کے پاس کوئی آپشن بھی نہیں ہے ، اس دوران فلسطین کی طرف سے مختلف مزاحمتی گروپ نے اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا جو اب تک جاری ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جھڑپ اسرائیل کو مزید قبضہ کرنے اور فلسطینی جانوں کو تلف کرنے کا جواز ( موقع) عطا کردیتی ہے اسرائیل نے فلسطین کے مزاحمت کاروں کو بھی بڑی چالاکی سے تقسیم کر کے کمزور بنا دیا ہے ، حماس اپنے آقا ایران کا آلۂ کار ہے اور اسی کے اشاروں پر رول پلے کررہا ہے ، ایران اور ترکی کے خفیہ روابط اسرائیل کے ساتھ اب ڈھکے چھپے نہیں ہے ، لاکھوں یہودی آج بھی ایران میں عزت کی روزی کھا رہے ہیں ، دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں بسایا جارہا ہے لیکن ایران میں مقیم یہودی ایران سے ہجرت نہیں کررہے ہیں ، آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اگر ایران اسرائیل میں واقعی دشمنی ہوتی تو یہ ایرانی یہود سب سے پہلے بھاگ کھڑے ہوتے ، لیکن پردے کے پیچھے کی سچائی کچھ اور ہے ، اس تناظر میں ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے ہنگامے کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ وہ محض ایک ڈرامہ ہے ، اسرائیل اور امریکہ کی مرضی کے بغیر ایران کا جوہری پروگرام ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ۔
یہ مضمون خاصا طویل ہو گیا ، مقصد یہ بتانا تھا کہ غاصب صہیونی ریاست کا مقابلہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام طویل المیعاد منصوبے کا محتاج ہے جس کے لئے پہلے مناسب تیاری کی ضرورت ہے ، عربوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ بھی ہے اسی لئے وہ مسلح جدو جہد کی کھل کر حمایت نہیں کررہے ہیں ، ناقص بند وبست کے ساتھ آگ میں کود جانے کا نام جہاد ہرگز نہیں ہے اس کے لئے مناسب لفظ خودکشی ہے جو اس وقت بعض مزاحمت کاروں کی طرف سے ہو رہی ہے ، جہاں تک بات اسرائیل کی ہے تو جیسا کہ مضمون کے آغاز میں بتایا جا چکا ہے کہ یہود ایک مغضوب قوم ہے ان شاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ یہ قوم جلد اپنے انجام بد سے دوچار ہو گی ، اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان بہت پہلے جاری ہو چکا ہے اور اس پر ہمارا کامل ایمان ہے
" وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ " (اعراف /167)
تمہارے رب نے اعلان کردیا ہے کہ وہ یہودیوں کے مد مقابل قیامت تک ایسے لوگوں کو کھڑا کرتا رہے گا جو انھیں بد ترین سزا دیں گے کیونکہ وہ (ظالموں کو) جلد پکڑتا بھی ہے اور (مومنوں کو) زیادہ معاف بھی کرتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment