ILM KI FAZILAT AUR AHMIYAT

" علم کی فضیلت اہمیت اور فوائد" ​ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے19 -ربیع الثانی-1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں " علم کی فضیلت اہمیت اور فوائد" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس کے اہم نکات یہ تھے: ٭ مخلوقات کو پیدا کرنے کا مقصد ٭ علم کی قدر و منزلت ٭ علم کی ضرورت کھانے پینے سے بھی زیادہ ٭ قرآن کریم کی پہلی آیت ہی "علم" ٭ اللہ تعالی کی صفت "علیم" ٭ پیغام رسالت "علم" ٭ آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر برتری بھی علم کی بنا پر ملی ٭ تمام انبیا کو علم سے نوازا گیا ٭ علما کو انبیا سے ملنے والی وراثت ٭ علم کی وجہ سے فضیلت پانے والے لوگ ٭ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ٭ قرآنی امثال سمجھنا صرف اہل علم کا طرۂِ امتیاز ٭ علمی مجالس کی فضیلت ٭ حصول علم بھی جہاد میں شامل ہے ٭ دو قابل رشک شخصیات ٭ بغاوت علم سے دوری کا نتیجہ ٭ تر و تازگی کیلیے نبوی دعا ٭ آسمانوں پر کسے عظیم کہا جائے گا؟ ٭ افضل ترین علم کون سا ہے؟ ٭ حصول علم کا قرآنی منہج ٭ علمائے کرام کا احترام و وقار ٭ علما ہی اللہ تعالی کے اولیا ہیں۔ پہلا خطبہ:​ ​ یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔ حمد و صلاۃ کے بعد: اللہ کے بندو! تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے ، تقوی الہی نورِ بصیرت ہے اور اسی سے احیائے قلب و ضمیر ہوگا۔ مسلمانو! ​ ٭ صرف اللہ تعالی کی عبادت ہی لوگوں کو پیدا کرنے اور انہیں احکامات صادر کرنے کا مقصد ہے، اسی کیلیے رسولوں کو بھیجا گیا، کتابیں نازل کی گئیں، مخلوقات کیلیے شرف، سعادت مندی، کامیابی و کامرانی اسی میں ہے، بلکہ اللہ تعالی کے ہاں لوگوں کی درجہ بندی عبادت گزاری کے مطابق ہی ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے: { إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} یقیناً اللہ تعالی کے ہاں وہی مکرم ہے جو زیادہ متقی ہے۔ [الحجرات : 13] ​ الله تعالی كا ایک فضل و کرم یہ ہے کہ اس نے مخلوق کیلیے عبادت میں لذت پیدا کرنے اور عبادت کے ذریعے لوگوں کے درجات بلند کرنے کیلیے عبادات میں تنوع رکھا ہے، دین میں ایک عبادت ایسی ہے جو دیگر تمام عبادات سے مقدم ہے، دیگر عبادات کی تصحیح اسی پر محصور ہے، یہ عبادت بجا لانے والا کامران ہوگا، جبکہ اس میں کوتاہی برتنے والا پشیمان ہوگا، اللہ تعالی نے یہ عبادت سر انجام دینے والوں کی تعریف بیان کی، اس عبادت کی وجہ سے بہت سی مخلوق کو فضیلت بخشی، یہ عبادت انسان کو اپنے رب سے ملاتی ہے، اور زندگی کے گوشوں کو منوّر کرتی ہے، معاملہ معیشت کا ہو یا آخرت کا اسی طرح انسان کمال و بحال اسی وقت ہوگا جب یہ عبادت ادا ہو، اللہ تعالی کی بندگی کیلیے اس جیسی کوئی عبادت نہیں، اسی کے ذریعے معرفت و عبادتِ الہی ہوگی، حمد و ثنا اور ذکر الہی ممکن ہوگا، خالق و مخلوق کے حقوق معلوم ہونگے، حلال و حرام ، حق و باطل، صحیح و غلط، مفید و غیر مفید ، اچھے اور برے میں امتیاز کیا جا سکے گا، یہ عبادت تنہائی کی ساتھی اور خلوت کی رفیق ہے، غفلت کے وقت متنبہ کرتی ہے، اسے حاصل کرنا خود ایک عبادت ہے، اسے پھیلانا قربتِ الہی، اپنے چاہنے والوں کیلیے زینت اور باعث امان ہے، قلب و بصیرت کو منور کرتی ہے، ذہن و ضمیر کو مضبوط بناتی ہے، اسے اپنانے والے اہل زمین کیلیے آسمان کے تاروں کی مانند ہیں، چنانچہ انہی سے رہنمائی لی جاتی ہے، یہی عبادت مخلوقات کیلیے باعث حسن و جمال ہے، امت کیلیے قلعہ اور ذرہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر وہ نہ ہوں تو دین کا نام و نشان ہی مٹ جائے، اسی عبادت میں امت کی بہتری اور ترقی ، لوگوں کیلیے استقامت و تزکیہ ، انسانیت کی ہدایت و سعادت مندی، نسلوں کا تحفظ اور سلامتی پنہاں ہے، اس کی ضرورت تمام ضرورتوں سے زیادہ ہے، اس کے بغیر صرف تباہی اور بربادی ہے، امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "لوگوں کو علم کی کھانے پینے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ کھانے پینے کی ضرورت دن میں ایک یا دو مرتبہ ہوتی ہے، لیکن علم کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے" ​ ٭ ہماری امت ہی علم کی بنیاد پر قائم ہوئی چنانچہ سب سے پہلی آیت ہی حصولِ علم کی ترغیب کیلیے نازل کی گئی: {اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیں جس نے پیدا کیا ہے۔ [العلق : 1] ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی مبارک آیات نازل ہوئیں، اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر پہلی رحمت اور نعمت تھیں" ​ ٭ اللہ تعالی نے اپنا ایک نام "العلیم" بھی رکھا، اپنے آپ کو علم سے موصوف کیا، بلکہ اپنی مخلوق کو اپنا تعارف بھی اسی صفت سے کرواتے ہوئے فرمایا: {اَلَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ } [رب وہی ہے]جس نے قلم کے ذریعے علم دیا[4] اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو اسے معلوم نہیں تھا۔ [العلق : 4 - 5] ​ پیغامِ رسالت علم و عمل کا نام ہے، اس لیے پیغامِ رسالت کا نصف حصہ علم پر مشتمل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ} وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت -یعنی علم -اور دین حق -یعنی عمل صالح -کیساتھ بھیجا۔ [التوبہ: 33] انسان اور انسانی دل کیلیے حُبِّ الہی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، اور یہ صرف علم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ ​ ٭ علم ہی وہ حکمت ہے جسے اللہ تعالی جتنی چاہے عطا فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} وہ جسے چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے، اور جسے حکمت دے دی جائے تو اسے بہت سی خیر نواز دی گئی، اور نصیحت صرف عقل والے ہی پکڑتے ہیں [البقرة : 269] ​ ٭ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو علم دیکر احسان جتایا اور پھر علم کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری عیاں فرمائی: {وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} ​ اور آدم [علیہ السلام] کو تمام چیزوں کے نام بتلائے، پھر انہی چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم [اپنی بات میں]سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ [البقرة : 31] ​ اللہ تعالی نے انبیائے کرام، رسولوں اور دیگر جسے چاہا انہیں علم کیلیے مختص فرمایا، چنانچہ فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کو علم رکھنے والے بچے یعنی اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی ۔ ​ ٭ یوسف علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا} ​ وہ جس وقت بھر پور جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا [يوسف : 22] پھر یہی فضلیت یوسف علیہ السلام نے اپنے بارے میں بھی ذکر کی: {إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ} میں یقیناً حفاظت کرنے والا اور جاننے والا ہوں۔[يوسف : 55] ​ ٭ موسی علیہ السلام پر بھی علم دے کر کرم کیا گیا : {وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا} وہ جس وقت کڑیل جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا [القصص : 14] ​ ٭ داود اور سلیمان علیہما السلام کے بارے میں فرمایا: {وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا} اور ہم نے ہر ایک کو علم و حکمت سے نوازا [الأنبياء : 79] ​ ٭ عیسی علیہ السلام کو اسی نعمت کی یاد دہانی بھی کروائی: ​ {اُذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ} ​ عیسیٰ! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا ، جب میں نے روح القدس سے تمہاری مدد کی کہ تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے یکساں کلام کرتا تھاو اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات اور انجیل سکھلائی [المائدة : 110] ​ ٭ سیدنا خضر کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا ایسا علم تھا جو کسی اور کے پاس نہیں تھا اسی فضیلت کے باعث اولو العزم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر بھی سفر کر کے ان کے پاس جا پہنچتے ہیں: {فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا} ​ وہاں [موسی اور ان کے ساتھی]نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے [خضر]کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا، اور اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا [الكهف : 65] ​ ٭ سلیمان علیہ السلام کے فوجیوں میں سے جس کے پاس سب سے زیادہ علم تھا وہی طاقتور تھا: {قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ} ​ جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ [سلیمان علیہ السلام سے]کہنے لگا کہ آپ کے پلک جھپکانے سے بھی پہلے میں اس [تختِ سبا] کو آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ۔ [النمل : 40]

No comments:

Post a Comment