Khutba

بسم الله الرحمن الرحيم

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 26 شوال   1435 کا خطبہ جمعہ  بعنوان " لوگوں میں صلح کروانا، اور سانحہ پشاور کی مذمت" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے  اصلاح اور مصالحت کی مفہوم ذکر کرتے ہوئے معاشرے کے مختلف طبقات میں اسکی ضرورت اور اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اسکے فوائد ذکر کئے، اور دوسرے خطبہ میں پرزور سانحہ پشاور کی مذمت کرتے ہوئے کہا: یہ المناک عمل سنگلاخ پہاڑ بھی نہیں کرسکتے۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی سب کا مالک، حق ، اور ہر چیز واضح کرنیوالا ہے، چاہے  مجرمین  کو اچھا نہ بھی لگے وہ اپنے کلمات کے ذریعے حق  کو غالب ، اور باطل کو مغلوب  کردیتا ہے ،  اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں  وہ یکتا ہے ، وہی اولین و آخرین سب کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول  محمد ، آپکی اولاد اور متقی صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے پسندیدہ اعمال  پر عمل اور حرام کردہ اعمال  سے دور رہ کر تقوی الہی اختیار کرو، متقی   تمام بھلائیوں  کیساتھ با مراد  ، اور خواہشات کے پیرو کار نامراد   ہونگے۔

مسلمانو!

یہ بات سمجھ لو ! اللہ کے ہاں محبوب ترین چیز اپنی  اصلاح اور دوسروں میں مصالحت کروانا ہے، اپنی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ خود کو وحی کے مطابق بنایا جائے، جو کہ تزکیہ و طہارتِ نفس کا باعث ہے، اور دوسروں میں  مصالحت یہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی دِگر گوں صورت حال کو درست کیا جائے، یا دو افراد یا دو گروپوں کے درمیان شرعی تقاضوں کے مطابق خراب تعلقات کو درست کیا جائے، چنانچہ دوسروں میں مصالحت متنفر دلوں کو قریب  ، متصادم آراء میں ہم آہنگی، اور اصلاح  کی غرض سے ثواب کی امید کرتے ہوئے حکمت و بصیرت کیساتھ واجب حقوق کی ادائیگی کرنے کا نام ہے۔

ناراض افراد  میں صلح کروانا  جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ، اور عام و خاص فتنوں  سے امان ،  اور ہر لحاظ سے مفید  ہے، اس  کے ذریعے شدید ضرر رساں اشیا  کا خاتمہ کیا جاتا سکتا ہے۔

اور مصالحت قائم کرنے سے شیطان کیلئے انسان  میں داخل ہونے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

فرد یا قوم  میں سے کسی کی تاریخ پرکھنے والا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ناراض افراد میں صلح نہ کروانے کی وجہ سے انکی زندگیوں میں نقصانات  کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا،  جبکہ باہمی صلح کی وجہ سے بہت سے نقصانات اور فتنے  دھول کی طرح اُڑگئے۔

بہت سے بڑے بڑے سانحے  چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں، اسی لئے ناراض لوگوں میں صلح کروانا اسلام کے عظیم مقاصد اور بہترین تعلیمات میں شامل ہے، فرمان باری تعالی ہے: { فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ}تم اللہ سے ڈرو، اور اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت  کرتے ہوئے آپس میں ناراض افراد  کی صلح کرواؤ۔[الأنفال : 1]

اور ناراض افراد میں صلح کروانے کی فضیلت  کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (کیا میں تمہیں [نفلی] نماز، روزہ، اور صدقہ سے بھی افضل درجات کے بارے میں نہ بتلاؤں؟ ) تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟   تو آپ نے فرمایا: (ناراض لوگوں میں صلح کروانا، کیونکہ باہمی ناچاقی  ہی "حالقہ" ہے)ابو داود، اور ترمذی نے اسے صحیح کہتے ہوئے ابو درداء رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ : "حالقہ" سے مراد یہ نہیں کہ سر کے بال مونڈ دیتی ہے، بلکہ دین کا صفایا کر دیتی ہے۔

فرمان باری تعالی ہے: {لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا} انکی بہت سی خفیہ باتوں میں کوئی خیر کی بات نہیں ہوتی، الّا کہ کوئی شخص صدقہ، نیکی، اور لوگوں کے مابین صلح کروانے کا حکم دے، جو شخص یہ کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کریگا، ہم جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازیں گے[النساء : 114]

ایسے ہی فرمایا : {وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ} اور جو لوگ کتاب پر مضبوطی سے کاربند ہوکر نمازیں قائم کرتے ہیں، [انکا صلہ یہ ہے کہ ]بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرینگے [الأعراف : 170]

ایک مقام پر فرمایا: {وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ} اصلاح کرو، اور فسادیوں کے راستے پر مت چلو[الأعراف : 142]

ایک جگہ اور فرمایا:  {يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} اے بنی آدم! اگر تمہارے پاس تمہی میں سے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کریں تو [انکی بات سننے کے بعد]جس شخص نے تقوی اختیار کیا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں  گے ۔[الأعراف : 35]

ایسے ہی فرمایا: {وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} اور ہم رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ لوگوں کو بشارت دیں اور ڈرائیں، چنانچہ جو کوئی ایمان لے آیا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے [الأنعام : 48]

میاں بیوی کے اختلافات  میں صلح ایسی بنیاد پر ہوگی جو دونوں کے حقوق کی ضامن ہو، فرمان الہی ہے: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا} اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی  تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ،  اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے گا،  اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے [النساء : 35]

اسی بارے میں یہ بھی فرمایا: {وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ } اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند سے بدسلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو اگر میاں بیوی آپس میں  سمجھوتہ کرلیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور صلح  بہرحال بہتر ہے۔[النساء : 128]

میاں بیوی کے درمیان صلح کی وجہ سے خاندان  کا وجود کٹنے پھٹنے سے محفوظ رہتا ہے، جسکی وجہ سے خاندانی  دیکھ بھال قائم رہتی ہے، اور میاں بیوی  کے تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں، اور اولاد کو  والدین کے متحد ہونے کی وجہ سے پر امن، اور مستحکم  تربیت گاہ میسر ہوتی ہے، ہر قسم کے انحراف سے محفوظ رہتے  ہوئے، والدین کی شفقت  حاصل کرتے ہیں اور اچھی تربیت پاتے ہیں۔

اور اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا  طول پکڑ جائے، اور کوئی صلح نہ کروائے تو خاندان سلامت نہیں رہتا، بچے بگڑ جاتے ہیں، اور طلاق کے بعد رشتہ داروں کے تعلقات میں دراڑیں پڑ جانے کی وجہ سے زندگی میں انہیں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور میاں بیوی دونوں نقصان اٹھاتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ: "شیطان  اپنے لشکروں کو کہتا ہے کہ: "آج تم میں سے کس نے مسلمان  کو گمراہ کیا ہے؟ میں اسے قریب کر کے تاج پہناؤں گا!  تو ایک آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے اپنے والدین کی نافرمانی کر لی" تو شیطان کہتا ہے: "ہو سکتا  وہ صلح کر لے"  دوسرا  آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے  چوری کر لی" تو شیطان کہتا ہے: "ممکن ہے وہ بھی توبہ کرلے" تیسرا آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ وہ زنا کر بیٹھا" تو شیطان کہتا ہے: "ہوسکتا ہے یہ بھی توبہ کر لے" ایک اور آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے  اپنی بیوی کو طلاق ہی دے دی"  تو اب کی بار ابلیس کہتا ہے کہ : "توں ہے تا ج کا مستحق!!" تو اسے اپنے قریب کرکے  تاج پہناتا ہے"مسلم

مصالحت  آپس میں ناراض رشتہ داروں کے درمیان بھی ضروری ہے، تاکہ صلہ رحمی قائم دائم رہے، اور قطع تعلقی  نہ ہو، کیونکہ صلہ رحمی باعث خیر و برکت ، اور جنت میں داخلے کا سبب ہے، اس کی وجہ سے دینی، دنیاوی بھلائیاں اور عمر میں برکت  حاصل ہوتی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (رشتہ داری عرش سے چمٹ کر کہتی ہے: جو مجھے جوڑے  گا اللہ اسے جوڑ دیگا، اور جو مجھے توڑے گا اللہ اسے توڑ دے گا)بخاری و مسلم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:  (جو شخص  یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اسکے رزق میں فراخی اور عمر میں درازی فرمائے تو وہ صلہ رحمی کرے)بخاری

عمرو بن سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (رشتہ داری جوڑنا مالی ثروت، خاندانی محبت، اور عمر میں طوالت کا باعث ہے)طبرانی، یہ حدیث صحیح ہے۔

بالکل اس کے برعکس  قطع رحمی، دنیا و آخرت میں بد بختی اور شر کا باعث ہے، چنانچہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:( قطع رحمی کرنے والا شخص جنت میں نہیں جائے گا) بخاری و مسلم

ابو بکرہ  رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بغاوت اور قطع رحمی  سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جسکی سزا دنیا میں اللہ کی طرف سے جلد از جلد دی جاسکتی ہو،  اور آخرت  میں بھی اسکے بدلے میں عذاب ہو )ابو داود، اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔

اس لئے آپس میں ناراض رشتہ داروں کے درمیان صلح کراونا عظیم نیکیوں میں سے ہے۔

مصالحت پڑوسی کیساتھ بھی ضروری ہے تا کہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ پڑوسی کا  حق ادا ہوسکے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (مجھے جبریل اتنی دیر تک پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث بھی بنائے گا)بخاری  و مسلم

دو آپس میں لڑنے والے مسلمانوں کے درمیان بھی صلح کروائی جائے، فرمان الہی ہے: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} بلاشبہ مؤمن آپس میں بھائی ، بھائی ہیں، تو تم اپنے بھائیوں کے مابین صلح کرواؤ، اور اللہ سے ڈرو، تا کہ تم پر رحم کیا جاسکے[الحجرات : 10]

اے مسلم!

لوگوں کے مابین مصالحت  مت ترک کرنا، اس میں بہت ہی خیر ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے صحابہ کرام کے درمیان صلح کروایا کرتے تھے، اور اس کام کیل

No comments:

Post a Comment