Na balig Bachche ki imamat

احناف ميڈيا سے ايک پوسٹر ديكہنے كوملا جس ميں يہ بتايا گيا ہے کہ نا بالغ بچے كى امامت صحيح نہيں ہے.
******************************
Ahnaf Media Servicesاحناف میڈیا سروسز
15 October 2013 at 19:27
*************
بجواب نا بالغ بچے کی امامت جائز ہے.
الجواب بعون الوهاب
من جانب:اہلحديث ميڈيا جموں وكشمير.                     كتبہ/حافظ ابوزهيرمحمد يوسف بٹ خريج جامعہ ملک سعود، كلية التربية ، دراسات اسلاميہ ، الفقه واصوله.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمدلله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحابته ، أمّابعد!
مختصرجواب
نا بالغ (سمجه دار) بچہ  لوگوں كى امامت كرسكتا ہے.
وہ بچہ جو نماز كو سمجھتا ہو اس كى امامت صحيح ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے، بعض ادلہ پيش خدمت ہيں:
دليل نمبر1:حديث ابو  مسعود الأنصاري  رضى الله عنه:"يؤمُّ القومَ أقرؤُهُم لِكِتابِ اللَّهِ فإن كانوا في القراءةِ سواءً ، فأعلمُهُم بالسُّنَّةِ ، فإن كانوا في السُّنَّةِ سواءً ، فأقدمُهُم هجرةً فإن كانوا في الهجرةِ سواءً ، فأكبرُهُم سنًّا ولا يُؤَمُّ الرَّجلُ في سلطانِهِ ، ولا يُجلَسُ علَى تَكْرمتِهِ في بيتِهِ إلَّا بإذنِهِ ".[ صحيح مسلم 673 ، صحيح النسائي 779 ، صحيح ابن حبان نمبر: 2133  ،  صحيح الترمذي 235  ، صحيح الجامع 8011 ، مجموع الفتاوى 3/286 ، البدر المنير لابن المقلن 4/453 ، معالم السنن 1/144  ، عارضة الأحوذي لابن العربي 1/290 ، سنن أبي داود 582 ، صحيح أبي داود 582  ، تنزيه الشريعة ل ابن عراق الكناني 2/103 ،  صحيح ابن ماجه 807].
ترجمہ:" حضرت ابومسعود الانصارى بيان كرتے ہيں کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمايا:
"کہقوم كى امامت وہ كرائے جو ان ميں سے كتاب اللہ كا زيادہ قارى ہو اور قرآت ميں قديم ہو، اور وہ قرآت ميں برابر ہوں تو پھر ان كى امامت وہ كرائے جس نے پہلے ہجرت كى ہو، اور اگر وہ ہجرت ميں برابر ہوں تو پھر ان ميں سے زيادہ عمر والا شخص امامت كروائے..."
خلاصہ يہ ہوا كہ احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں كہ امامت كا زيادہ حقدار وہ شخص ہے جو كتاب اللہ كا زيادہ قارى ہو اور نماز كے مسائل كو سمجھنے والا ہو.
اس حديث كے مطابق وہ بچہ جوقرآن كا حافظ ہو امامت كرسكتا ہے كيونكہ  يہ حديث بالغ  اورنابالغ (بچہ)سب كے لئے ہے يعنى اس حديث ميں بالغ اورنابالغ سب ہى داخل ہيں اسلئے کہ حديث عام ہے، اوردوسرى حديث ميں اس كى تائيد موجودہے کہ عهد نبى عليہ السلام ميں بچہ نے امامت كرائى ہے اوروہ حديث صحيح ہے.
حديث ابو سعيد الخدرى رضى الله عنه:
"إذا كانوا ثلاثة فليؤمهم أحدهم، وأحقُّهم بالإمامةِ أقرؤهم"[ صحيح مسلم  نمبر: 672 ، صحيح النسائي 839  ، وايضا: 781 ،  المحلى لابن حزم 5/48، ذخيرة الحفاظ 1/268 ، صحيح الجامع 773 ، المهذب  للإمام الذهبي2/1053  ، تنزيه الشريعة ل ابن عراق الكناني 2/103  ، ذخيرة الحفاظ  ل ابن القيسراني 1/308 ، ميزان الاعتدال للذهبي 3/174].
صحت حديث:يہ حديث صحيح ہے.
نبى علىہ السلام نے فرماياكہ
دليل نمبر2:عن أبي قِلابَة ، عن عَمرِو بن سَلِمة ، قال: قال لي أبو قِلابةَ: ألَا تَلْقاهُ فتسألَه؟ قال: فلقيتُه فسألتُه، فقال: كنَّا بماءٍ ممرَّ الناسِ، وكان يمرُّ بنا الركبانُ فنَسألهم: ما للناسِ، ما للناسِ؟ ما هذا الرَّجُل؟ فيقولون: يَزعُمُ أنَّ اللهَ أَرْسلَه، أوْحَى إليه، أو: أَوْحَى اللهُ بكذا، فكنتُ أحفظُ ذلك الكلامَ، وكأنَّما يقرُّ في صدْري، وكانتِ العربُ تَلوَّمُ  بإسلامِهم الفتحَ، فيقولون: اتركُوه وقومَه، فإنَّه إنْ ظهَرَ عليهم فهو نبيٌّ صادِق، فلمَّا كانتْ وقعةُ أهلِ الفتحِ، بادَرَ كلُّ قومٍ بإسلامِهم، وبدَرَ أَبي قَومِي بإسلامِهم، فلمَّا قدِم قال: جِئتُكم واللهِ من عندِ النبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّمَ حقًّا؛ فقال:" صَلُّوا صلاةَ كذا في حِينِ كذا، وصلُّوا صلاةَ كذا في حِين كذا، فإذا حضرتِ الصَّلاةُ فليؤذِّنْ أحدُكم، ولْيؤمَّكم أكثرُكم قرآنًا" ، فنظروا فلمْ يكُنْ أحدٌ أكثرَ قرآنًا منِّي؛ لِمَا كنتُ أتلقَّى من الركبان، فقدَّموني بين أيديهم، وأنا ابنُ ستٍّ، أو سَبعِ سِنينَ.[تخريج الحديث مع صحته: [1]صحيح البخاري  نمبر: 4302 في كتاب المغازي، باب مقام النبي -صلى الله عليه وسلم- بمكة زمن الفتح. ، وايضا: 818 ، وايضا: 685 ، وايضا: 628  ، [2]صحيح مسلم 404  ، [3]صحيح النسائي 635  ، [4]تخريج مشكاة المصابيح 1084 ، [5]صحيح ابن حبان 1872  ، وايضا: 2131، [6]المحلى لابن حزم 3/123 ، اسناده في غاية الصحة ، وايضا: 4/218].
صحت حديث: يہ حديث صحيح  ہے.
ترجمہ: اس حديث میں ہے کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو جب وہ چھ ياسات(6/7)كا تها تو  عمرو بن سلمہ نے لوگوں كى امامت  امامت کروائی.
چنانچہ يہ اس بات كى دليل ہے كہ تميز كرنے والے بچے كے ليے امامت كروانى جائز ہے، اگر يہ جائز نہ ہوتى تو اس كے انكار ميں وحى نازل ہو جاتى.[انظر: احكام الامامۃ والائتمام فى الصلاۃ تاليف عبد المحسن المنيف].
مختصرتبصرہ: چنانچہ اگر آپ كا بيٹا نماز كى شروط اور اركان اور واجبات كو پورا كرتا ہے تو اس كے ليے آپ كى امامت كرانے ميں كوئى حرج نہيں.
امام ابن حزم رحمہ الله فرماتے ہيں کہ جن لوگوں نے عمرو بن سلمہ كوامامت كے لئے بڑہايا وہ سب صحابى تهے، اوراسكى كسى نے مخالفت نہيں كى.كمافي الفتح ونيل الأوطار 1091].
بچے كى امامت جائزہے اوراسكے پيچہے بالغ كى نماز پڑہنا جائزہے.
1 ــ شوافع كا مذهب يہى  ہے کہ سمجھدار بچے كى امامت جائز ہے.[المجموع  للنووي 4/248 ، مغني المحتاج للخطيب الشيريني1/240].
2 ــ امام احمد كى ايک راويت کے مطابق کہ بچہ كى امامت صحيح ہے.[الإنصاف للمرداوي2/187].
3 ــ امام نووى رحمہ الله فرماتے ہيں کہ بہت سے علماء اس بات كے قائل ہيں کہ بچہ بالغ لوگوں كى  امامت كرسكتا ہے، امام  ابن منذر رحمہ الله نے حسن بصرى ، اسحاق بن راہويہ اورابوثورکے بارے ميں ذكركياہے کہ وہ  سمجھ داربچہ كى امامت كوجائز كهتے ہيں.[المجموع4/249].
4 ــ علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ سمجھ دار بچہ كى جائزہےجب اس سے نماز كا علم ہو.[الاقناع 1/113].
5 ــ امام شوكانى رحمہ الله فرماتے ہيں کہ حديث عام ہے اس كے تحت بچہ بہى آتاہےيعنى بچہ اوربالغ دونوں ہى اس عموم ميں شامل ہے ، جو اس كا انكاركرتے ہيں تو انكوچاہئے کہ دليل پيش كريں.[السيل الجرار1/152].
6 ــ امام صنعانى رحمہ الله فرماتے ہيں کہ عہد نبى كے اس واقعہ  ميں اس بات كى دليل ملتى ہے کہ بچہ كى امامت جائزہے نماز اسلام كے اہم ركن ہے اگربچہ كى امامت صحيح نہ ہوتى تواس بارے ميں وحى نازل ہوتى كہ بچہ كى امامت صحيح نہيں ہے.[سبل السلام1/370 ــ 371].
7 ــ علامہ ابن باز رحمہ الله فرماتے ہيں کہ بچہ كى امامت جب وہ سات سال يااسے زيادہ عمروالاہوجائز ہےاوروہ نمازپڑہناجانتاہو.[مجموع فتاوى ابن باز30/166].
8 ــ علامہ ابن عثيمن رحمہ الله فرماتے ہيں کہ بالغ كى بچہ كے پيچہے نماز پڑہناجائزيعنى اسك نماز صحيح ہے.[الشرح الممتع4/225].
9 ــ فتاوى لجنہ دائمہ ميں کہ سمجھداربچہ كى امامت كرنا جائز ہے.[ فتاوى لجنہ دائمہ مجموع اولى7/393].
10 ــ علامہ ابن عثيمن رحمہ الله مزيد فرماتے ہيں بچہ كى خود كى نماز صحيح ہے تودوسروں كى امامت كرنا بہى صحيح ہے.[مجموع فتاوى ورسائل العثيمن15/144].
11 ــ فتاوى نورعلى الدرب ميں ہے کہ حديث ابومسعودانصارى عموم پردلالت كرتى ہے بالغ اوربچہ دونوں اس ميں شامل ہيں.[فتاوى نورعلى الدرب11/455].
12 ــ امام يحيى رحمہ الله بہى سمجہ داربچے كى امامت كوجائزقرارديتے ہيں.[ نيل الأوطار باب ما جاء في إمامة الصبي 3/ حاشيہ نمبر1].
13 ــ علامہ ابن حجرعسقلانى رحمہ الله فرماتے ہيں کہ بچہ امامت كرسكتا ہے جيساكہ حسن بصر ، امام شافعى ، اوراسحاق رحمهم الله كى رائے ہے، امام مالک ، اور امام ثور رحمها الله بچہ كى امامت كو مكروہ کہتے ہيں، اور امام  ابوحنيفہ  اور امام احمد سے اس بارے ميں دو روايتيں منقول ہيں يعنى انكے نزديک بچہ كى امامت مكروہ ہے، ليكن مشهوران دونوں کے نزديک يہ ہے نوافل ميں بچہ كى امامت كرناجائز ہے.[فتح الباري2/186 الأم ، للإمام الشافعي193/1].
اورامام شافعى رحمہ الله نے حديث عمرو بن سلمہ كومدنظرركہ کراس كو راجح قرارديا ہے کہ بچہ كى امامت كرنا صحيح ہے كيونكہ يہ حديث اس بات كى واضح اورصريح دليل ہے کہ بچہ كى امامت كرناصحيح ہے.[المجموع للإمام النووي  رحمه الله 4/131].
14 ــ امام ابن عثيمن رحمہ الله ايک اورجگہ فرماتے ہيں کہ بچہ كى امامت فرائض اورنوافل دونوں ميں صحيح ہے، جيساكہ حديث عمرو بن سلمہ اس پردلال كرتى ہے.[فتاوى ورسائل ابن عثيمين15 / 81].
15 ــ امام بخارى رحمہ الله نے اپنى صحيح ميں باندہا ہے(باب: إمامة العبد والمولى) كہ حضرت عائشہ رضى الله عنها كواپنا ايک غلام ذكوان مصحف سے ديكہ کرامامت كراتا تها، اوراس حديث ميں "والغلام الذي لم يحتلم"كا بہى ذكرموجودہے، اوريہ حديث"يؤمهم أقرؤهم لكتاب الله" كے تحت آئيں گے.[ ذكره البخاري قبل الحديث 692].
16 ــ علامہ ابن عابدين حنفى فرماتے ہيں کہ بچہ کے خطبہ پڑہنے کے بارے ميں علماء نے اختلاف كيا ہے، وہ بچہ جو سمجھ دارہواكثراہل علم جواز کے قائل ہيں.[ حاشية ابن عابدين2 / 176].
17 ــ امام احمد رحمہ الله كى ايک صحيح روايت كے مطابق بہى بچہ بالغ لوگوں كى امامت كرسكتا ہے،  يعنى نا بالغ بچہ فرائض اورنوافل دونوں ميں امامت كرسكتا ہے، دليل حديث عمروبن سلمہ كى حديث جوگذرگئ ہے.  [الروايتين والوجهين1/ 173 ، الإنصاف2/ 266].
18 ــ امام قرطبى رحمہ الله بہى نا بالغ بچے كى امامت كوجائزکہتے ہيں.[أحكام القرآن" 1/353 . قال هناك:" إمامة الصغير جائزة إذا كان قارئا"].
19 ــ أشهب بن عبد العزيز القيسي المالكى  بيان كرتے ہيں کہ امام مالک رحمہ نے فرمايا کہ كوئى حرج نہيں کہ بچہ رمضان ميں نماز تراويح كى امامت كرے.[البيان و التحصيل1/396].
20 ــ ابن عبد الحكم المصري المالكي رحمہ الله نے رمضان ميں عورتوں كوگہروں ميں بچہ كى امامت كرنے كا فتوى دياتها.[ اختلاف قول مالك وأصحابه" ص 114].
21 ــ امام شوكانى رحمہ الله حديث عمرو بن سلمہ رضى الله عنہ كوذكركرنے کے بعد لكهتے ہيں کہ"فقدموني) اس ميں  بچہ كى امامت كاجواز ہے.[ نيل الأوطا
ما جاء في إمامة الصبي بعد ذكرحديث عمروبن سلمة رضى الله عنه برقم: 1091].
امام شوكانى رحمہ الله آکے فرماتے ہيں کہ عمرو بن سلمہ رضى الله عنه مشهورصحابى تهے.[ نيل الأوطار
22 ــ موسوعة فقهية كويتية ميں ہے کہ متميز(سمجہ داربچے كى امامت جمهورفقهاء كے نزديک پانچوں نمازوں ميں جائزہے.[ موسوعة فقهية كويتية 7/255].
23  ــ زاد المستقنع ميں ہے کہ غيرمميزبچہ كى امامت تمام سلف صالحين كے نزديک صحيح نہيں ہے، البتہ متميز،سمجھ داربچہ كى  امامت صحيح ہے، اس صورت ميں جب وہ قوم ميں سب سے زيادہ قرآن كاجاننے والاہويہ رائے امام شافعى اورامام اصحاب احمد بن حنبل كا ہے، اوردوسرى ميں امام احمد كاقول بہى يہى ہے.[ دروس زاد المستنقع رقم 50  ، كتاب الصلا ، ولا تصح خلف فاسق ككافر ولا امرأة وخنثى للرجال ولا صبي ببالغ  لم يراجع من قبل الشيخ ].    احناف كے  پوسٹرميں کچہ  اعتراضات  موجود ہيں انكے مختصرجوابات:
پہلااعتراض کہ يہ عمرو بن سلمہ والى حديث" الإِمَامُ ضَامِنٌ" كے خلاف ہے.
جواب:يہ حديث اس حديث كے خلاف نہيں ہے كيونكہ اگرايسا ہوتا توصحابہ كرام ايسا نہيں کرتے ، كيونكہ عمرو بن سلمہ رضى الله  کے پيچہے نماز پڑہنے والے سب کے سے صحابہ كرام تهے، اوريہ واقعہ اس وقت پيش آيا جبکہ نبى آخرالزمان ﷺ بقيد وحيات تهےيعنى زمانہ وحى ميں يہ واقعہ پيش آيا صحابہ تمام كےتمام عدول ہيں ہميں انكى عدالت ميں كوئى شک نہيں ہے، يعنى اگربچہ كى امامت غيرصحيح ہوتى تو ضروراس بارے ميں كوئى وحى نازل ہوتى لہذا حديث" الإِمَامُ ضَامِنٌ" اسكے مخالف نہيں ہے ، اوراس حديث كى تائيد بخارى اس حديث سے بہى ہوتى ہے جس ہے کہ ايک غلام حضرت عائشہ رضى الله عنها كى نماز پڑہاياكرتاتها، جيساكہ اوپرگذرگيا.
دوسرى توجيہ يہ  ہوسكتى ہے کہ اگرمان لياجائے کہ بچہ پرنمازفرض نہيں كيونكہ حديث"رفع القلم" کہ تين شخص مرفوع القلم ہيں اوراس ميں ايک بچہ بہى ہے اسلئے اس پرنماز فرض ہى نہيں لہذامانعين كى يہ استدلال ہے کہ جب اس پرنمازفرض ہى نہيں تو اس كى امامت صحيح كيسے ہوسكتى ہے، اس كا جواب اہل علم نے يہ دياہے کہ اگرچہ اس پرنمازفرض نہيں ليكن اسكى نمازہوجائے گى اوراسکے حق ميں وه نفل ہوگى تو اگركوئى امام نفل كى نيت سے نماز پڑہے اوراسكے پيچہے فرض پڑہنے والوں كى نماز بہى صحيح ہے، جيسے علامہ ابن عثيمن رحمہ الله نےفرماياہے کہ بچہ پرنمازفرض نہيں لہذا اسكے حق ميں وہ نمازنفل شمارہوگى ، اسكے باوجوداس كى امامت كوصحيح قراردياگيااوروہ بہى اس زمانے ميں جب وحى كا زمانہ مستمرتها.[الشرح الممتع4/257].
اورنفل پڑہنے والے کے پيچہے فرض پڑہنے والوں كے پيچہے صحيح ہے.اس پرائمہ اربعہ كااتفاق ہے.[الهداية شرح البداية للمرغيناني1/59 ، تبين الحقائقوحاشية الشلبي1/141 ، المجموع للنووي4/271 ، مغني المحتاج1/253 ، المحلي لابن حزم3/140 ، الانصاف للمرداوي2/195 ، كشاف القناع للبهوتى1/484].
اوراس پراجماع بيان كياگياہے.[الاستذكار2/170].
ابن عربى نے كہاہے کہ نفل پڑہنے والے کےپيچہے فرض نمازپڑہناجائزہے.[احكام القرآن لابن العربي4/223].
اب اگرنفل پڑہنے والے کے پيچہے فرض نمازجائزہےتوسمجھ داربچہ اسكے پيچہے بہى نمازپڑہناجائزہےجيساکہ عمرو بن سلمہ اوربخارى نے جوباب باندهاہے جس ميں امام بخارى نے اس بچہ كاذكركياجوحضرت عائشہ رضى الله عنها كونمازپڑہاياكرتاتها.
دوسرا اعتراض يہ ہے کہ وه صحابہ کاخود كااجتهاد تها.
جواب:پہلا جواب يہ ہے کہ وه تمام كے تمام صحابہ تهے.دوسراجواب يہ ہے کہ امام حزم نے فرماياکہ كسى صحابى نے اس كى مخالفت كى.[المحلى 4/218].
جب كسى صحابى نے كوئى مخالفت نہيں كى تو يہ اس بات كى دليل ہے کہ صحابہ كااس پراجماع تها کہ بچہ كى امامت صحيح ہے.

اورايک قول كے مطابق جوابوحنيفہ رحمہ الله منقول ہے کہ بچہ كى امامت نفل ميں جائز ہے تو اسى قاعدے كومد نظرركھکرعلماء نے دونوں ہى صورتوں ميں اسکےپيچہے نماز پڑہنے كوجوازقراردياہے.
جولوگ بچہ  كى امامت كوغيرصحيح قرارديتے ہيں انكى  ايک دليل يہ حديث ابن عباس ہے:
" عن عكرمة ، عن ابن عباس قال : " لا يؤم الغلام حتى يحتلم وليؤذن لكم خياركم ".[تخريج حديث مع صحته:[1] المهذب  للذهبي3/1155 ، امام ذهبى فرماتے ہيں کہ اس ميں ابن أبي يحيى راوى ضعيف ہے، فتح الباري لابن رجب 4/171 ، إسناده فيه مقال ، فتح الباري لابن حجر 2/217  ، إسناده ضعيف ، شرح ثلاثيات المسند  ل لسفاريني الحنبلي 2/892  ، إسناده ضعيف ، إرواء الغليل  نمبر: 532 ، لم أقف على إسنادهما ، المحلى لابن حزم 9/331  ، لا يصح ، إرواء الغليل 2/313  ، رواه عبد الرزاق مرفوعا بإسناد ضعيف].
صحت حديث:يہ حديث ضعيف ہےاور ضعيف حديث قابل حجت نہيں ہے.
اوريہ حديث عائشہ رضى الله عنها كے بہى معارض ہے، اورحديث عمرو بن سلمہ بلكل صحيح حديث ہے، اسلئے ضعيف حديث سے استدلال كرنا صحيح نہيں ہے.
مانعين كى دوسرى دليل حديث علي بن أبي طالب رضى الله عنه:  
"لا تُقدِّموا صبيانِكم ولا سفهاءَكم في صلاتِكم فإنهم وفدُكم إلى اللهِ تعالى"[ تنقيح تحقيق التعليق 2/17  ، لا يصح ولا يعرف له إسناد صحيح بل روي بعضه بإسناد مظلم ، تنقيح التحقيق للذهبي 1/255، وقال الذهبي: لم يصح، نقيح تحقيق التعليق 2/17  ، قال  المزي: في إسناده غير واحد من المجهولين ، الشرح الممتع 4/225  ، لا أصل له].
تيسرى دليل: روى عن ابن عباس وابن مسعود - رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا – "من قولهما أنه لا تصح إمامة الصبي حتى يحتلم"[ الإرواء 2/313 ، قال الشيخ الألباني لم أقف على إسنادهما ، ولا وجدت من تكلم عليهما إلاَّ أن أثر ابن عباس رواه عبد الرزاق مرفوعاً بإسناد ضعيف، يعنى البانى صاحب نے کہاکہ يہ اثرضعيف ہے].
اوريہ عائشہ رضى الله عنها كے قول كے خلاف ہے کہ سمجہ داربچہ كى امامت صحيح ہے.[المجموع 4/250].
چہوتى دليل: أن الإمامة حالة كمال، والصبي ليس من أهل الكمال فلا يؤم الرجال كالمرأة"
يعنى بچہ اہل كمال ميں سے نہيں ہے اسلئے اسكى امامت صحيح نہيں ہے.
جواب: عہد نبوى ميں متميز نابالغ بچے نے امامت كرائى جيساكہ حديث عمرو بن سلمہ ميں ہے اوريہ  بلكل صحيح ہے، ليكن عورت كے بارے ميں توسنت سے صريح دليل موجودہے کہ عورت مردوں كى امامت نہيں كرسكتى.[ المغني 3/33، أدلة منع المرأة من إمامة الرجال ].
يعنى چهوٹے نابالغ سمجه داربـے كى امامت اس صورت ميں جائزہے جب وہ لوگوں ميں سب سے زيادہ قرآن جاننے والاہواورمتميز(سمجه دار، نماز كے عمومى مسائل جانتاہو جيسا كہ صحابى عمروبن سلمہ رضى الله عنہ نے بيان كياكہ ميں قوم ميں سب سے زيادہ قرآن جاننے والا تها، تو انهوں نے مجهے امامت كے لئے آگے بڑہايا،اورميں نے ان كى امامت كى ، اورظاهر حديث كے مطابق كہ امامت وہ كرے جوزيادہ قرآن جاننے والاہوتو ظاهر سى بات ہے اسى پراس علاقہ كاصحابہ كرام نے عمل كيا اوراس صحابى عمروبن سلمہ رضى الله عنہ كوامام بنايااورصحابہ ميں سے كسى نے اس پركوئى نكيرنهيں  فرمائى، جيساكہ علامہ ابن حزم نے بيان كياہے.
ايک اوراعتراض: نیز اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ جس چادر میں نماز پڑھاتے تھے وہ موصلہ (پیوند کار) تھی اور اس میں پھٹن تھی جس کی وجہ سے ان کا سرین کھل جاتا تھا.
جواب:اہل الرأئے كى اكثرعادت ہے کہ جوحديث انكے مسلک حنفى كے خلاف ہو اس حديث ميں كوئى نہ كوئى (قدح) عيب نكالتے ہيں تويہاں بہى مقلدين نے اس سے پرہيزنہيں كيا،خيراس كا جواب يہ ہے کہ ايک دوسرى حديث ہے اس ميں يہ کہ جب مردنمازپڑہتے توعورتوں  كوحكم ديا جاتا کہ تم اپنے سروں كو نہ اٹہاؤيہاں تک مردپورى طرح بيٹھ نہ جائيں وہ اسلئے تاکہ  مردوں کے تہبند کہيں کہل نہ جائيں"من ضيق الإزار"
حديث كے الفاظ يہ ہيں"إنَّ الرِّجالَ كانوا يصلُّونَ عاقدي أزرِهم ويقالُ للنِّساءِ لا ترفعنَ رءوسكنَّ حتَّى يستويَ الرِّجالُ جلوسًا"[ صحيح البخاري  362  ، نيل الأوطار 3/203 ، ثابت ،  صحيح النسائي 765 ، صحيح ، وأيضا: 1215 ، صحيح ابن حبان 2301 ، صحيح مسلم 441  ، المحلى  4/198 ، في غاية الصحة ، سنن أبي داود 630 ، صحيح أبي داود 630  ].
صحت حديث: حديث صحيح ہے.
خلاصة الكلام:مذكورہ ادلہ واہل علم كى آراء سے يہ معلوم ہوا کہ جب بچہ متميز، اورزيادہ قرآن جاننے والاہوتو اس صورت ميں ہى متميزبچہ كى امامت جائزہے ورنہ نہيں جيساکہ عمرو بن سلمہ کى حديث سے بلكل صاف معلوم ہوتاہے. والله أعلم بالصواب.
الله تعالى سے دعاء ہے کہ وہ ہميں حق سمجہنے اوراس پرعمل پيراہونے كى توفيق عطا فرمائے.
بتاريخ27/12/2015 ميلادى

Sunnat aur hadees me farq

سنت اور حدیث میں فرق
سنت کے لغوی معنی طریقہ یا راستہ کے ہیں (النھایہ فی غریب الحدیث جلد ٢ص٣٦٨)اور جبکہ حدیث کو لغت میں جدت کے معنی میں لیا جانا اور حدیث کو لغت میں کسی کلام یا کوئی بات بھی کہا جاتا ہے ۔(السنة قبل التدوین ص٢٠)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :اللہ نزل احسن الحدیث (الزمر آیت ٢٣)
اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل کی ہے ۔
حدیث کے معنی اصطلاح میں ہر اس قول ،فعل ،تقریر اور صفت کو کہتے ہیں جس کی نسبت حضورۖ کی طرف کی جاتی ہو ۔
(اصطلاح الحدیث کی تعریف وتشریح اذ ڈاکٹر محمود الطحان)
محدثین کے نزدیک سنت کی بھی اصطلاحی تعریف یہی ہے جو حدیث کی بیان ہوئی ہے (ارشاد الفحول للشوکانی مع تحقیق صبحی بن حلاق)
ڈاکٹر صبحی صالح فرماتے ہیں اگر ہم محدثین بالعموم اور متاخرین محدثین بالخصوص کی غالب رائے پر عمل کریں تو ہم حدیث وسنت کے الفاظ کو مترادف ومساوی پائیں گے یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاتے ہیں اور ان دونوںکا مفہوم کسی قول فعل تقریر یا صفت کو سرورکائنات ۖ کی جانب منسوب کرنا ہے البتہ اگر حدیث وسنت کے الفاظ کو ان اصول تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت نکھر سامنے آتی ہے کہ ان دونوں کے استعمال میں لغت واصطلاح کے پیش نظر کچھ دقیق سا فرق بھی پایا جاتا ہے (علوم الحدیث ومصطلحہ للصبحی الصالح ۔ص١١٣)
اگر حدیث وسنت کے لفظ کا انفرادی طور پر استعمال کیا جائے تو سنت سے مراد حدیث اور حدیث سے مراد سنت ہوتی ہے ۔
ابن اثیر فرماتے ہیں ']یقال فی ادلة الشرع الکتاب والسنة ،ای القرآن والحدیث ''شرعی دلائل میں کہا جاتا ہے کہ قرآن وسنت تو اس سے
مراد ہوتا ہے قرآن وحدیث ''(النھایہ فی غریب الحدیث ،ص٣٦٨)
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سنت سے مراد وہ عمل ہے جو صدر اوّل(پچھلے انبیاء سے چلا آرہا ہو ۔اور اگر غامدی صاحب کے مبادی سنت کا کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو انکی سنت سے مراد بھی کچھ اسی طرح ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ سنت کی اسی تعریف کو مان لیا جائے تو بھی حدیث اور سنت میں زیادہ فرق نہیں آتا۔کیونکہ ہمیں کس طرح معلوم ہوگا کہ کہ یہ عمل صدر اوّل سے چلا آرہا ہے ؟ تو اس کا معقول جواب یہی ہوسکتا ہے کہ اس کی معرفت ہمیں حدیث ہی کے ذریعے ہوگی اور صدر اوّل کے اسی عمل کو تسلیم کیا جائے گا جس پر نبی ۖ نے عمل کیا ہو یاعمل کرنے کا حکم دیا ہو ۔اور یہ بھی ہمیں حدیث سے معلو ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''لکل جعلنا منکم شرعة ومنھا جا''(المائدہ ۔آیت ٤٨)
''ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری نے ابن عباس کا قول ذکر کیا ہے:قال ابن عباس شرعة ومنھاجا ،سبیلا وسنة ۔
(صحیح بخاری مع فتح کتاب الایمان جلد١ ص٦٣)
ابن عباس فرماتے ہیں ''شرعة سے مراد سبیل (راستہ)اور منھا جا ''سے مراد سنت ہے اس وقل کو امام بکاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے لیکن امام ابن حجر نے اس روایت کو تغلیق التعلیق میں ذکر کیا ہے اور موصول بنایا ہے حافظ ابن حجر اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ''ھذا حدیث صحیح ''یہ حدیث صحیح ہے (تغلیق التعلیق جلد٢ ص٢٥)
یہ ان اصحابی رسول کی تفسیر ہے جن کے لئے رسول ۖ نے خاص دعا کی تھی کہ اللہ ان کی دین کی سمجھ دے اور قرآن کی تاویل (تفسیر )علم عطا فرما ۔
لہٰذا یہ بات یہاں پر بھی عیاں ہوتی کہ تمام انبیاء کا دین ایک ہے لیکن ان کے فروع شریعت اور انکی سنت (طریقہ کار) مختلف ہے تو اصل سنت وہی ہے جس پر نبی ۖ نے عمل کیا ہو چاہے اس پر پچھلے انبیاء کا عمل رہا ہو یا نہ رہا ہو ۔اور نبی ۖ کے افعال واعمال یا تقریر یا آپ کی کوئی سی بھی صفت کی معرفت حدیث سے ہی ہوتی ہو اگرچہ حدیث اور سنت میں لغوی اعتبار سے فرق ہے لیکن اصطلاح میں یہ ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے کے باہم معنی میں استعمال ہوتے ہیں لہٰذا حدیث ہی سنت ہے اور سنت ہی حدیث ہے۔
اللہ سے دعا سے کہ وہ ہمیں صحیح دین کی سمجھ دے

AZAN KE FAZAIL

Bismillahirrahmanirraheem

Hazrat Abu Saeed Khudri Razi Allahu Anhu riwayat karte hai k Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Jab tum bhaid bakriyo mein ho ya daihaat mein to namaz k liye azaan do aur apni aawaaz buland karo kyunki muazzin ki aawaaz ko jinnaat insaan aur jo jo cheez sunti hai wo qayamat k din uske liye gawahi degi". (Sahih Bukhari Kitabul Azaan Hadees no. 609)

Nabi E Akram Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Muazzin k liye sawaab hai us shaks k sawaab k barabar jisne (azaan sun kar) namaz padhi". (Nasayi 2:31, 646 Kitabul Azaan, ise Munzari ne jaid kaha hai)

Mafhoom ye hua k muazzin ki awaaz sun kar jitne aadmi masjid mein aa kar namaz padhengey, un sabko apni apni namaz ka poora sawaab milega magar muazzin tamaam namaziyo k sawab k barabar mazeed ajar payega, kyunki usne unko namaz ki taraf bulaya tha.

Hazrat Muawiyah Razi Allahu Anhu se riwayat hai k mene Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam se suna "Qayamat k din azaan dene walo ki gardaney lambi hongi (Yaani Allah ka naam buland karne ki wajah se wo numaaya hongey)". (Sahih Muslim Kitabus Salaat Hadees no. 387)

Hazrat Abu Hurairah Razi Allahu Anhu se riwayat hai k Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Jab namaz k liye azaan di jaati hai to shaitan peeth phair kar bhaag jata hai, jab azaan khatam ho jati hai to phir aa jata hai aur namazi k dil mein waswasa daalta hai, fala fala baat yaad kar yaha tak k aadmi ko pata nahi chalta k usne kis qadar namaz padhi". (Sahih Bukhari Kitabul Azaan Hadees no. 608, Sahih Muslim Kitabus Salaat Hadees no. 389)

Hazrat Uqba bin Aamir Razi Allahu Anhu se riwayat hai k Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Tumhara parwardigaar bakriya charaane wale par tajjub karta hai jo pahaad ki chooti par reh kar azaan deta hai aur namaz padhta hai" Allah ta'ala farmata hai "Mere bande ko dekho jo namaz k liye azaan deta hai aur iqamat kehta hai aur mujhse darta hai mene usko baksh diya aur jannat mein dakhil kiya". (Abu Dawood Kitabus Salatus Safar Hadees no. 1203, ise Ibne Hibban ne Sahih kaha)

AZAN KE BAAD KI DUWAYE

Bismillahirrahmanirraheem

1. Hazrat Abdullah bin Umar bin Aas Razi Allahu Anhu riwayat karte hai k Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Jab tum muazzin (ki aawaaz) suno to tum muazzin ko jawab do aur jab azaan khatam ho jaye to phir mujh par darood bhejo pas jo mujh par ek baar darood bhejta hai Allah us par das baar rahmat bhejta hai". (Sahih Muslim Kitabus Salaat Hadees no. 384)

Pas sab musalman mardo aur aurato ko chahiye k jab muazzin azaan khatam kare to ek baar darood shareef padh le

"ALLAHUMMA SALLI ALA MUHAMMADIN WA ALA AALI MUHAMMADIN KAMA SAL'LAITA ALA IBRAHEEMA WA ALA AALI IBRAHEEMA INNAKA HAMEEDUM MAJEED, ALLAHUMMA BAARIK ALA MUHAMMADIN WA ALA AALI MUHAMMADIN KAMA BAARAKTA ALA IBRAHEEMA WA ALA AALI IBRAHEEMA INNAKA HAMEEDUM MAJEED" "Ya Allah rahmat bhej Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam aur aal e Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam par jese rahmat bheji tooney Ibraheem Alaihis Salaam aur aal e Ibraheem Alaihis Salaam par beshak to tareef kiya gaya, buzurgi wala hai, Ya Allah barkat bhej Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam aur aal e Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam par jese barkat bheji tooney Ibraheem Alaihis Salaam aur aal e Ibraheem Alaihis Salaam par beshak to tareef kiya gaya, buzurgi wala hai". (Sahih Bukhari Kitabul Ahadeesul Anbiya Hadees no. 3370, Sahih Muslim Hadees no. 406)

2. Hazrat Jabir Razi Allahu Anhu riwayat karte hai k Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Jo shaks (azaan ka jawab de aur phir) azaan khatam hoone par ye dua padhey uske liye qayamat k din meri shifa'at wajib ho jati hai:

"ALLAHUMMA RABBA HAZIHID DAAWATIT TAMMATI WAS SALATIL QA'IMATI AATI MUHAMMADAL WASEELATA WAL FAZEELATA WAB ASAHU MAQAMAN MAHMOODAL LAZI WA ATTAH" "Is poori pukaar (azaan) k aur (qayamat tak) qayam rehne wali namaz k rabb! Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam ko waseela aur buzurgi ata farma aur unhey Maqaam e Mahmood mein pahuncha jiska tooney unse waada kiya hai". (Sahih Bukhari Kitabul Azaan Hadees no. 614)

WASEELA KI TASHREEH

Waseela k mutalliq khud Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Tehqeeq waseela bahisht mein ek darja hai jo sirf ek bandey k layak hai aur mein ummeed rakhta hu k wo bandah mein hi hu, pas jisne (azaan ki dua padh kar) Allah se mere liye waseela maanga uske liye (meri) shifa'at wajib ho gayi". (Sahih Muslim Kitabus Salaat Hadees no. 384)

Nabi Rahmat Sallallahu Alaihi Wa Sallam k irshad se maloom hua k waseela bahisht mein ek buland wa bala darje ka naam hai.

DUA E AZAAN MEIN IZAAFA

Masnoon dua e azaan mein baaz loogo ne chand alfaaz badha rakkhey hai aur wo alfaaz murawajjah kutub e namaz mein bhi mojood hai, dua e masnoon k jumla (WAL FAZEELA) k baad (WAD DARAJATAR RAFEEAH) ki ziyadati karte hai aur aagey (WA ATTAHU) k khalis doodh mein (WAR ZUKNA SHAFA ATAHU YAUMAL QIYAAMAH) ka paani mila rakkha hai aur phir aakhir mein masnoon dua k andar (YA ARHAMAR RAHIMEEN) ki amaizish hai afsoos! Kya Nabi Sallallahu Alaihi Wa Sallam ki dua mein ye khamiya reh gayi thi jo baad k loogo ne apne izaafey se poori ki hai? musalmano ko Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam k farman paak mein kami ya baishi karne k tasawwur se kaanp uthna chahiye, Nabi E Akram Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne raat ko ba-wuzu ho kar sooney se pehle padhne k liye ek dua batlaayi, Hazrat Bara bin Aazib Razi Allahu Anhu ne padh kar sunaayi to (BI NABEEYIKA) ki jagah (BI RASOOLIKA) yaani nabi ki jagah rasool kaha, to Nabi E Rahmat Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya k mere bataye hue lafz Nabi ko Rasool se mat badlo balke (BI NABEEYIKA) hi kaho. (Sahih Bukhari Kitabul Wuzu Hadees no. 247, Sahih Muslim Kibuz Zikr wa Dua Hadees no. 2710)

Is se maloom hua k masnoon duwaye aur wird tofeeqi (Allah ki taraf se) hai aur unki haisiyat ibadat ki hai lihaza unme kami baishi jayez nahi lihaza (kisi qareena ya daleel k bagair) mutakallim k saigey ko jama k saigey se badalna durust nahi hai uski bajaaye behtar ye hai k mutakallim ka saiga hi bola jaye albatta niyat mein ye rakkha jaye k mein yahi dua fala fala k haqq mein bhi kar raha hu, neez masnoon duwaon k hoote hue khud-saakhta arbi duwaon wazeefo aur daroodo ka iltazaam karna durust nahi hai aur agar unke kuch alfaaz shirk, kufr ya bida'at par mushtamil ho to is soorat mein unka padhna qatai tour par haraam ho jata hai lekin afsoos k jahil loog rozana pabandi k saath darood e taaj, darood e lakhi aur darood e hazaari wagairah ki "Tilawat" karte hai, Allah hum sabko hidayat de. Aaameen

3. Hazrat Saad bin Abi Waqaas Razi Allahu Anhu riwayat karte hai k Rasool Allah Sallallahu Alaihi Wa Sallam ne farmaya "Jo shaks muazzin (ki azaan) sun kar ye dua padhey to uske gunah baksh diye jayengey, Dua ye hai:

"ASH'HADU AN LAA ILAHA ILLALLAHU WAHDAHU LA SHAREEKA LAHU WA ANNA MUHAMMADAN ABDUHU WA RASOOLUHU RAZEETU BILLAHI RABBAU WA BI MUHAMMADIR RASOOLAU WA BIL ISLAAMI DEENAN" "Mein gawahi deta hu k Allah k siwa koi (saccha) mabood nahi wo ek hai uska koi shareek nahi aur tehqeeq Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam uske bandey aur rasool hai, mein Allah k rabb hoone aur Muhammad Sallallahu Alaihi Wa Sallam k rasool hoone aur islam k deen hoone par raazi hu". (Sahih Muslim Kitabus Salaat Hadees no. 386)

SAHABA AUR MOHDDISIN KA AHLE HADITH HONA

"Main duniya me pehla AHLE HADITH hoon"

Hz. Abu Huraira RA

(Tazkiratul Huffaz part 1 pg 34)

" Hamesha haq par rahne waali jamaat agar AHLE HADITH nahi hai to phir main nahi jaanta ki wah kaun hai??"

Imam Ahmad bin Hambal (Sharf Ashabul Hadith)

" Jis jamat ke baare me huzoor (saw) ne farmaya wah hamesha haq par rahegi us se muraad AHLE HADITH jamaat hai"

(Ameer-ul-Momineen fil hadith Hz. Imam Bukhari rh)

" Farishte aasmaan ke pahredaar hain aur AHLE HADITH zameen ke"

( Imam Sufiyan Suri rh 'Sharf Ashabul hadith)

"AHLE HADITH musalmano me aise hain jaise Ahle-Islam tamaam mazhab me"

Sheikh-ul-islam Imam Ibne Taymiyyah ra .....' Naqzul Mantik pg 33'

" Aiy allah! Mujhe qayamat ke din AHLE HADITH ki jamaat me karna"

Hz. Khwaja Sayyed Moinuddin Hasan Chishti Ajmeri rh.

(Tazkira tus Salihin part 3 pg 249)

Hazrat-e-Abu hurairah rz jo mashoor sahabi hai, unhonay apnay aap ko AHLE-HADEES kaha hai dekhiye "Ashaab" jild 4 , page 204 , aur Padhoo "Tazkirat-ul-Hifaz" jild 1 , page 29 , aur padhoo "Tawarikhi Bagdad", jild 9 , page 467..... ALLAHU AKBAR..

Abu Huraira r.a par hamara sub kurbaan...

HZ ABDULLAH BIN ABBAS (RA) KO AHLE-HADEES KAHA gaya hai jo mashoor tareen sahabi hain...

{Dakho " TAVARIKH I BAGADAD", Page 227 , JILD 3. }....

ALLAH U AKBAR...

 Dawat-e-Haqq Quran Aur Hadees Manhaj-e-Salaf.