CHAND KE IKHTILAF MAI UMMAT KA ITTIHAD

بسم اللہ الرحمن الرحیم

*چاند کے اختلاف میں امت کا اتحاد*

*از قلم:*
علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ

*ترجمہ :*
شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

*ناشر :*
www.islamidawah.com

سال رواں  سن 1439ھ  رمضان  کے چاند   سے متعلق  کچھ لوگوں  کو بڑا اشکال  رہا ہے   حتی  کہ ایک  ہی شہر  میں اور ایک  ہی جماعت  کےافراد  اس بارے میں  مختلف  رائے  رکھتے  دکھائی  دے رہے  ہیں،  جہاں لوگوں  کی اکثریت بلکہ  بڑی اکثریت  نے انتیس  شعبان  کی شام  ہلال نو کے ظہور کو قبول کیا اور اسی کی بنیاد  پر روزہ  و تراویح  کا اہتمام  کیا ہے  وہیں  دوسری  طرف  کچھ لوگوں نے  اس کی مخالفت کی اور ماہ شعبان  کے کامل  ہونے کا  اعتبار کیا ،  بنا بریں ان لوگوں نے  عام لوگوں  سے ایک دن بعد میں  روزہ رکھا اور  تراویح   شروع پڑھی ، جس کا اثر  آخری عشرہ  کی راتوں  میں شب  بیداری  پر بھی پڑ رہا ہے  اور خطرہ ہے کہ عید کے موقعہ پر  بھی یہ اختلاف  مزید  وسعت اختیار  کرلے گا ۔

قطع نظر  اس سے کہ 29 شعبان  بروز چہارشنبہ  ہلال نو ظاہر  ہوا کہ نہیں ، پہلا روزہ  جمعرات  کو  ہونا چاہئے یا جمعہ کو ہم اس سلسلے میں گفتگو  نہ کرکے  یہ موضوع  کو چھیڑتے  ہیں کہ ایسےحالات میں  عام لوگوں  کو کیا کرنا  چاہئے  ، نیز  ہم جیسے  چھوٹےطالب علموں کا موقف کیا ہونا چاہئے، کیونکہ یہ مسالہ کسی ایک سال کا نہیں ہے بلکہ روزہ اور عید کے موقعہ پر اکثر ایسے اختلافات رو نما ہوتے ہیں، بلکہ اب تو ایک گروپ ایسا رونما ہوا ہے جو  وحدت نام پر تفرق اور سنت کے نام پر بدعت کو رواج دے رہا ہے،چنانچہ وہ چند افراداپنے روزہ رکھنے کی ابتدا وانتہا اور عید کی نماز کی ادائگی تمام مسلمانوں سے جدا نظر آتے ہیںجبکہ ہمیں سب سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ ایسے اجتماعی امور میں کیا چیز  شریعت کی روح سے موافقت رکھتی ہے اور ہمارے سلف صالحیں کا منہج کیا رہا ہے؟ چنانچہ اس سلسلے میں  اپنی طرف سے کچھ لکھنے  یا کہنے  کے بجائے  ہم ایک  بڑے  عالم  ، محدث شام ،مجتہد  عصر  علامہ  البانی  رحمہ اللہ  کی ایک  عبارت  کا ترجمہ  نقل کرنےپر اکتفا کرتے ہیں ، شاید  کہ ہمارے  بعض جذباتی،ادب خلاف سے عاری اور "ہم چنیں دیگرے نیست" کے مرض میں مبتلا حضرات کو عبرت  حاصل  ہو۔

علامہ  مرحوم  اپنی مشہور  کتاب  الصحیحہ  میں رقم 224  کے تحت ایک حدیث  نقل  کرتے ہیں  ۔

224 - " الصوم يوم تصومون، والفطر يوم تفطرون، والأضحى يوم تضحون ".

روزہ کا دن وہی ہے  جس دن  تم روزہ  رکھو  ، افطار  [عید کا ] دن  وہی ہے  جس دن تم  افطارکرو ۔

سنن ترمذی ،4/37 ، سنن ابن ماجہ :1/509 ، سنن ابو داود :1/366 ، السنن الکبری :4/252 وغیرہ کا حوالہ دیا ہے ، حدیث  کے راوی  حضرت  ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ ہیں  } ۔

علامہ  مرحوم  اس حدیث  کی سند  پر ایک لمبی  بحث  کے بعد  فقہ الحدیث  کے عنوان  کے تحت لکھتے  ہیں :

امام  ترمذی رحمہ اللہ   اس حدیث  کی روایت کے  بعد کہتے ہیں

"بعض  اہل علم  نے اس حدیث  کی تفسیر  اس طرح کی ہے : اس حدیث  کا معنی  یہ ہے کہ روزہ  اور عید  کا معاملہ  جماعت  اور امت کی اکثریت ساتھ  ہے" ۔

اور امام  صنعانی  رحمہ اللہ سبل السلام  2/72 میں لکھتے ہیں  :"اس حدیث  میں اس بات کی دلیل  ہے  کہ  عید  منانے  میں لوگوں کی موافقت کا اعتبار  ہے  اور یہ کہ اگر  کسی شخص واحد  کو چاند  دیکھ کر عید کا ثبوت  ہوجاتا ہے تو بھی  اس کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں  کی  موافقت  کرے اور اس پر واجب ہے کہ نماز [عید]ادا کرنے،  افطار کرنے اور قربانی  کرنے میں  عام  مسلمانوں  کی رائے  کو قبول کرے ۔

یہی معنی  امام ابن القیم  رحمہ اللہ نے تہذیب  السنن  3/214 میں بیان کیا ہے ، چنانچہ  وہ لکھتے ہیں  :اس حدیث میں اس  شخص  کی تردید  ہے جو یہ کہتا  ہے کہ چاند  کی منزلوں  کے حساب  کا جسے علم  ہو اور اسے اپنے  حساب  سے چاند  کے طلوع کا علم ہو جائے تو اس کے لئے  روزہ رکھنا  اور افطار کرنا جائز ہوگا ، لیکن  جن لوگوں  کو اس  علم  نہیں ہوا وہ اس  پر عمل نہ کریں گے  ، اور یہ بھی کہا  گیا ہے کہ  تنہا  چاند دیکھنے  والا جس  کے چاند دیکھنے  کا اعتبار   قاضی نہیں کررہا  ہے تو    جس طرح کہ دیگر تمام لوگوں کے لئے  روزہ  رکھنا نہیں ہے وہ شخص بھی روزہ نہ رکھے گا ۔

نیز امام  ابو الحسن  سندھی  رحمہ اللہ  سنن ترمذی  کے حوالے  سے حضرت  ابو ہریرہ  کی حدیث  نقل کرنے کے بعد   سنن ابن ماجہ  کے حاشیہ  میں لکھتے  ہیں :

بظاہر  اس حدیث  کا معنی  یہ ہے کہ ان معاملات  [ روزہ رکھنے ، عید منانے  ، قربانی  کرنے ]  میں شخصی رائے  کا  کوئی  اعتبار  نہیں ہے  اور اس  معاملے میں لوگوں  سے علاحدگی  اختیار  کرنا جائز نہیں ہے  بلکہ  یہ معاملہ  مسلمانوں  کے امام  اور جماعت  کے سپرد  ہےا ور افراد  پر  امام  اور جماعت  کی اتباع  ضروری ہے  ، لہذا  اگر کوئی  شخص  چاند دیکھ لیتا ہے  اور امام  اس کی گواہی  کو رد  کردیتا ہے تو اس کے حق میں بھی یہ  امور یعنی  روزہ رکھنا ، عید منانا  اور قربانی کرنا ثابت نہ  ہوں گے اور اس بارے  میں اس کے لئے جماعت کی اتباع  واجب ہوگی ۔

علامہ  البانی  رحمہ اللہ آگے  لکھتے ہیں :میں کہتا  ہوں کہ  اس حدیث کا یہی  معنی واضح  اور ظاہر  ہے ، اور اس کی  تائید  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ   کے اس  استدلال  سے بھی ہوتی  ہے  کہ جب مسروق  رحمہ اللہ  نے عرفہ  کا روزہ  اس لئے  نہیں رکھا  کہ کہیں  آج یوم النحر[یوم النحر]   نہ ہو تو مائی  عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے ان کے سامنے واضح  فرمایا کہ ان کی اپنی شخصی  رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہے  بلکہ  ان پر جماعت  کا ساتھ دینا  واجب ہے  ، چنانچہ  حضرت مسروق  بیان کرتے ہیں  کہ ایک بار  عرفہ  کے دن میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی خدمت میں  حاضر ہوا   تو  انہوں نے  کہا : مسروق کو ستو پلاو اور میٹھا زیادہ کردو ، حضرت مسروق  کہتے  ہیں  کہ میں نے  کہا  : آج میں نے روزہ  صرف اس لئے نہیں  رکھا کہ  مجھے ڈر  تھا  کہ کہیں  یہ  یوم النحر [ یعنی  عید الاضحی  کا دن ] نہ ہو ،    مائی  عائشہ رضی اللہ عنہا   نے فرمایا :عید  قربان  کا دن  وہ شمار  ہوگا جس دن لوگ  تمام لوگ  قربانی  کریں اور  عید الفطر  کاد ن  وہ ہوگا  جس دن سارے  لوگ افطار  کریں ۔

علامہ  البانی  رحمہ اللہ  لکھتے  ہیں کہ   میں کہتا ہوں  کہ سیدھی  سادی  اور آسان  شریعت  کی  روح   کے موافق یہی  امر ہے  جس کا  ایک بہت  بڑا مقصد  یہ  بھی ہے  کہ  لوگوں میں  اتفاق  پیدا  ہو  ، ان کی صفیں ایک رہیں   اور  ہر اس انفرادی رائے سے دور رہا جائے   جس سے  ان کی جمعیت  میں اختلاف  پیدا ہو  چنانچہ شریعت  اجتماعی  عبادتوں  جیسے روزہ ، عید اور  باجماعت  نماز جیسی عبادتوں  میں  انفرادی  رائے  کا اعتبار  نہیں کرتی  خواہ  و ہ اپنے  طور پر  حق ہی کیوں  نہ ہو ۔

کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا  کہ صحابہ  رضوان اللہ علیہم  اجمعین  ایک دوسرے  کے پیچھے   نماز پڑھتے  تھے  حالانکہ  ان میں بعض  کا  خیال  یہ تھا کہ عورت کا چھونا ، شرمگاہ کا چھونا اور خون کا نکلنا  ناقض  وضو ہے  اور بعض  صحابہ  ان چیزوں  کو ناقض  وضو نہیں سمجھتے   تھے  ، اسی طرح  ان میں سے  بعض  سفر میں نماز پوری  پڑھتے  تھے اور  بعض قصر  کرکے پڑھتے  تھے ،  ان کا  اس قسم کا اختلاف  ایک  امام کے پیچھے ایک ساتھ ہو کر  نماز پڑھنے اور  اس نماز  کا  اعتبار کرنے  میں مانع  نہ تھا ، کیونکہ  وہ جانتے  تھے کہ شخصی  رایوں  کے اختلاف  کو بنیاد  بنا کر  دین میں گروپ  بندی  بہت ہی بری چیز ہے ، بلکہ  ان میں [ یعنی  صحابہ میں ]  سے  بعض کا معاملہ  تو یہاں  تک پہنچا  ہوا تھا  کہ ایک عام اجتماع  جیسے منی  میں قیام کے موقعہ پر  امام اعظم  کی رائے  کے مخالف رائے  کی مطلق پرواہ  نہ کی اور  مخالف رائے  کلی طور پر  چھوڑ دیا  اس  خوف  سے کہ کہیں  اپنی رائے  پر عمل   کرنے کی  وجہ سے کوئی  شر و فساد  [ یعنی  امت  میں پھوٹ ]  جنم نہ لے  لے ،  چنانچہ  امام ابو  داود  رحمہ اللہ  1/207 روایت  کرتے ہیں کہ  حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  نے منی میں چار  رکعت  نماز پڑھائی  تو حضرت  عبد اللہ  بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے ان پر نکیر  کرتے ہوئے   فرمایا : ہم نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ، حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ اور حضرت عمر   رضی اللہ عنہ  کے ساتھ منی میں   دو رکعت  ہی پڑھتے   رہے  اور حضرت عثمان  رضی  اللہ عنہ  کے ابتدائی دور  خلافت  میں بھی دو ہی  رکعت پڑھتے   رہے اور اب وہ  پوری [ چار رکعت ] پڑھا  رہے ہیں  ، پھر تمہاری راہیں مختلف ہو گئیں  ، مجھے  تو یہ پسند  ہے کہ میری  دو ہی  رکعتیں  جو اللہ  کو مقبول ہوجائیں  وہ چار  رکعتوں  سے بہتر ہیں ،  پھر حضرت عبد اللہ  بن مسعود  نے بھی  چار ہی   رکعت پڑھی  تو  کسی  نے کہا کہ  ایک طرف آپ حضرت  عثمان پر  عیب  لگارہے  ہیں  کہ  انہوں نے  چار رکعت پڑھائی  [ سنت کے خلاف کیا] اور دوسری طرف  آپ خود بھی  چار رکعت پڑھ رہے ہیں  ؟  حضرت  عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا : " الخلاف شر"  اختلاف بری چیز ہے ۔  اس حدیث کی سند  صحیح ہے ۔

نیز امام  احمد : 5/155  رحمہ اللہ  نے حضرت ابو ذر  سے بھی  ایسی  ہی ایک  روایت  نقل کی ہے رضی اللہ عنہم  اجمعین ۔
اس حدیث  اور اس  اثر  پر  ان لوگوں  کو غور کرنا چاہئے  جو اپنی  نمازوں  میں لوگوں  سے جدا نظر  آتے ہیں  اور ائمہ  مساجد  کی اقتداء  نہیں کرتے  ، خاص کر  رمضان  میں وتر  کی نماز  یہ کہتے  ہوئے امام  کے پیچھے  نہیں پڑھتے  کہ ان کا طریقہ  ہمارے  مذہب  کے خلاف  ہے ، اس طرح  بعض  وہ حضرات  جو علم فلک  کا دعوی  کرتے ہیں  اور اپنی رائے  اور اپنے  علم سے کام لیتے  ہوئے مسلمانوں  کی جماعت  سے علاحدگی  کی پرواہ کئے بغیر  روزہ رکھنے اور  افطار کرنے میں تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے   مسلمانوں کی  جماعت  سے الگ تھلگ  رہتے  ہیں  ۔
ان تمام  لوگوں  کوچاہئے کہ  جو   کچھ  علم کی باتیں  ہم نے  لکھیں  اس پر غور کریں  شاید ان کے دلوں  میں جو  جہالت  و گھمنڈ  کا مرض  ہے اس کے لئے اس میں  یہ شفا  کا سامان  ہو ، اور  اپنے مسلمان بھائیوں  کے ساتھ  ایک صف میں کھڑے  ہوجائیں کیونکہ  جماعت پر اللہ تعالی کا ہاتھ  ہے ۔
{سلسلۃ الاحادیث  الصحیحہ  :1/440 تا 445 }

ختم شدہ

Aetekaf

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين
*رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کریں*
*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*  
      اعتکاف عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کا معنی ہوتا ہے رکنا، ٹھہرنا، شریعت کی زبان میں اعتکاف کہتے ہیں اللہ کی عبادت کے مقصد سے اپنے آپ کو مسجد میں روک لینا یعنی مسجد کو لازم پکڑ لینا-
      اعتکاف کا محل مسجد ہے، اس کے علاوہ کسی کے لیے کہیں اعتکاف کرنا جائز نہیں ہے، اعتکاف ایک عظیم عبادت ہے جو مسجد میں کبھی بھی ادا کی جا سکتی ہے،  لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف یہ سب سے اعلی درجے کا ہے، اس کا حکم سنت موکدہ ہے-
      قارئین کرام! اعتکاف کرنے کے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں جیسے لیلۃ القدر کا پالینا، دنیا کے جھمیلوں سے بےفکر ہو کر تلاوت، ذکر، دعا، مناجات، قیام اللیل، توبہ و استغفار، نوافل کا اہتمام، باجماعت نماز پڑھنے کا حسین موقع، آخرت کی تیاری کا بہترین چانس، قرآن زیادہ ختم کرنے کا مناسب ماحول، نفس کی تربیت، دل کی صفائی، زبان کی حفاظت، اعضاء وجوارح پر کنٹرول الغرض پورا دس دن انسانی نفس کی مکمل صفائی ہوتی ہے اور اسے یہ سبق حاصل ہوجاتا ہے کہ زندگی کی گاڑی کیسے چلانی ہے، آخرت کی تیاری کیسے کرنی ہے، اللہ کا حق کیسے ادا کرنا ہے، بندوں کے حقوق اور ان کے تقاضے کیسے پورا کرنا ہے-
      چنانچہ ہماری یہ فکر اور تڑپ ہونی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ رمضان المبارک میں کیسے نیکیوں کا انبار جمع کریں، تو آئیے آج بیس رمضان کی تاریخ ہے، آج غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو جائیے، پھر رات بھر لوگوں کے ساتھ قیام کیجیے، کیوں کہ اکیسویں رات یہ پہلی شب قدر ہے، پھر بعد نماز فجر اپنے معتکف میں داخل ہو جائیے، اور عید کا چاند دکھائی دینے تک مسجد میں پڑے رہیے، خوب جم کر دن ورات صبح وشام عبادت کیجیے، اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے، اپنی بیوی کے لیے، اپنے والدین کے لیے، اپنے گاؤں، ملک، سماج معاشرہ، کنبہ قبیلہ، رشتہ دار، قرابت دار، اعزہ واقارب اور دوست واحباب کی دینی دنیوی اور اخروی کامیابی وکامرانی، فوزوفلاح، خیروبرکت اور عزت وسرخروئی کے حصول کی دعا کیجیے-
        لیکن افسوس اعتکاف کے متعلق آج لوگوں کے اندر کوئی خاص دلچسپی نہیں دیکھی جاتی ہے، دنیا کی ہوس اور مال کی طلب میں ہم اس قدر مشغول ہو گئے کہ آج مسجد میں ہر کس و ناکس اپنے وقت کی تنگ دامنی کا رونا رو رہا ہے، ہم چاہتے ہوئے بھی اعتکاف میں نہیں بیٹھ پا رہے ہیں، ہر لپ پہ یہ شکایت ہے میرے پاس فرصت نہیں ہے کام بہت زیادہ ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کو مشورہ دیتا ہے کہ آپ بیٹھ جاؤ، عجیب تماشہ ہے، نیک کام میں سبقت کرنا چاہیے، رمضان کے آخری میں جم کر عبادت کرنی چاہیے، شب قدر تلاش کرنی چاہیے، مگر ہم صرف ایک دوسرے کو مشورہ دینے کا کام کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو پیارے نبی کی سیرت سے سبق حاصل کرنا چاہیے، آپ کے پاس نو یا دس بیویاں تھیں، بیشمار مشغولیات تھیں، بےانتہا مسائل تھے، بے حساب مصروفیات تھیں، بڑے چیلنجزس تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر سال اعتکاف کیا کرتے تھے، اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا (صحیح بخاری:2044)
       آپ رمضان میں ہر سال اعتکاف کیا کرتے تھے (صحیح بخاری:2026)
       ایک سال مصلحت کے تحت آپ نے عمداً اعتکاف ترک کر دیا تو آپ نے ماہ شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا (صحیح بخاری:2041)
     شب قدر کی تلاش میں آپ نے ایک سال پورے رمضان کا اعتکاف کیا (صحیح مسلم:2828)
      ان ساری روایتوں کا مستفاد یہ ہے کہ اعتکاف آپ کا دائمی عمل ہے، لہذا اس سنت کو عملاً زندہ کرنے کی ضرورت ہے، مگر افسوس آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم اعتکاف اور شب قدر سے کوسوں دور بھاگتے ہیں، رمضان کے آخری عشرے میں مسجدوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، بازار آباد کرتے ہیں، عید کی شاپنگ میں اپنا مال پانی کی طرح بہاتے ہیں، اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں، یقیناً یہ بہت بڑے خسارے کا سودا ہے-
      خلاصہ کلام یہ ہے کہ اعتکاف میں بیٹھنا سنت موکدہ ہے، آپ نے ہر رمضان میں اعتکاف کیا ہے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اعتکاف کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اللہ ہم سب کو اس مبارک عمل کی توفیق عنایت کرے آمین-
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
        *ابوعبداللہ اعظمی محمدی مہسلہ*
  *مقیم حال آبائی گاؤں مصرپور اعظم گڑھ*
05/06/2018

Aetekaf ke AHKAM w masail

اعتکاف کے احکام ومسائل
تحریر : شیخ الحدیث ، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

سوال :کیا اعتکاف عبادت ہے؟
جواب:جی ہاں،بالاجماع عبادت ہے۔
سوال:اعتکاف کا حکم کیا ہے؟
جواب: بالاجماع مسنون ہے۔
سوال :اعتکاف کرنے والے کو کیا کہتے ہیں؟
جواب:معتکف یا عاکف ۔
سوال:اعتکاف کی شروط کیا ہیں؟
جواب:
1نیت
علماء کا اتفاق ہے کہ اعتکاف میں نیت شرط ہے۔
2مسجد
3مسلمان ہونا۔
4عاقل ہونا۔
سوال:کیا اعتکاف کی فضیلت میں احادیث ثابت ہیں؟
جواب: نہیں، ضعیف ہیں۔
سوال: کیا روافض اعتکاف کے قائل ہیں؟
جواب : روافض اس مسجد میں اعتکاف جائز سمجھتے ہیں جس میں نبی کریمﷺ یا ان کے ائمہ نے جمعہ پڑھایا ہو ۔
سوال:کیا اعتکاف مسجد کے ساتھ خاص ہے؟
جواب:جی ہاں۔اجماع ہے کہ اعتکاف کا محل صرف مسجد ہے۔
سوال : کیا مسجد بیٹھنا اعتکاف کا رکن ہے؟
جواب:جی ہاں۔
سوال :کیا ہر مسجد میں اعتکاف ہو سکتا ہے؟
جواب: سلف کا اجماع ہے کہ ہر وہ مسجد جس میں نماز باجماعت ہوتی ہے، اس میں اعتکاف ہو سکتاہے۔
سوال : کیا اعتکاف کے لئے مسجد میں جمعہ ہونا ضروری ہے؟
سوال : لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثہ ،بلحاظ سند کیسی ہے؟
جواب : ضعیف ہے۔
سوال : مسجد حرام میں اعتکاف بیٹھا ہو تو کیا عمرہ کر سکتا ہے؟
جواب: نہیں کرسکتا ۔
سوال: کیا اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے؟
جواب: نہیں، اعتکاف مستقل عبادت ہے، اس میں روزہ شرط نہیں، اعتکا ف رات کو بھی ہوتا ہے، روزہ رات کو نہیں ہوتا۔
سوال :'' لااعتکاف الا بصوم '' کی استنادی حیثیت کیا ہے؟
جواب: ضعیف ہے۔
سوال :اعتکاف کن چیزوں سے باطل ہو جاتا ہے؟
جواب:
1جماع، اجماع ہے کہ جماع سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔
2بغیر ضرورت ہے مسجد سے نکل جانا ۔
3مجنون ہوجانا۔
4حیض و نفاس
5ارتداد۔
سوال: کیا حائضہ اعتکاف بیٹھ سکتی ہے؟
جواب: نہیں بیٹھ سکتی، حائضہ کا مسجد میں داخلہ جائز نہیں ۔
سوال :اگر دوران اعتکاف حیض آجائے تو کیا کرے گی؟
جواب :اعتکاف ترک کر کے،مسجد سے نکل جائے گی۔
سوال:کیا اس صورت میں قضا دے گی؟
جواب:نہیں۔
سوال: کیا غشی سے اعتکا ف ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب : نہیں ٹوٹتا ۔
سوال : جنبی ہو گیا، کیا اعتکاف باقی ہے؟
جواب : جی ہاں! باقی ہے۔
سوال : دوران اعتکاف غسل جنابت کر سکتا ہے؟
جواب : کر سکتا ہے۔
سوال : کیا مستحاضہ اعتکاف بیٹھ سکتی ہے؟
جوا ب : اجماع ہے کہ بیٹھ سکتی ہے۔
سوال : کیا عورت گھر میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے؟
جواب : نہیں بیٹھ سکتی ، اعتکاف مسجد سے خاص عمل ہے۔
سوال :کیا خواتین مدرسہ کی عمارت میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں؟
جواب :نہیں بیٹھ سکتیں۔
سوال : اعتکاف میں ممنوع مباشرت کون سی ہے؟
جواب :اتفاق ہے کہ اس مباشرت سے مراد جماع ہے۔
سوال : کیا عورت حالت اعتکاف میں خوشبو لگا سکتی ہے؟
جواب:لگا سکتی ہے۔
سوال : اعتکاف کب بیٹھے گا؟
جواب :بیسویں روزے کو مغرب سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو، وہ رات عبادت میں گزارے ، نما زفجر کے بعد خیمے میں داخل ہوجائے۔
سوال : کیا اعتکاف میں کسی ضرورت اور عذر کی بنا پر مسجد سے نکل سکتا ہے؟
جواب : نکل سکتا ہے، اس پر اجماع ہے۔
سوال : کیا معتکف پیشاب ،پاخانہ کیلئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے؟
جواب : جا سکتا ہے، اس پر اتفاق ہے۔
سوال : معتکف کے لئے خوشبو کا استعمال جائز ہے؟
جواب : جی ہاں ! جائز ہے۔
سوال : معتکف سے ملاقات کی جاسکتی ہے؟
جواب : جائز ہے۔
سوال : کیا معتکف مسجد میں خریدو فروخت کر سکتا ہے؟
جواب : نہیں کرسکتا۔
سوال : کیا معتکف اذان کہہ سکتا ہے؟
جواب : کہہ سکتا ہے۔
سوال : معتکف کے لئے گھر سے سحر ی وافطاری لانے والا کوئی نہ ہو ،تو کیا خود جا کر لاسکتاہے؟
جواب: لاسکتا ہے۔
سوال : عدت میں ہے، اعتکاف بیٹھ سکتی ہے؟
جواب : نہیں۔
سوال : اعتکاف میں تھی کہ شوہرفوت ہو گیا، کیا کرے گی؟
جواب : اعتکاف پورا کرے، باقی عدت کےایام شوہر کے گھر گزارے۔
سوال : اعتکاف میں تھی طلاق ہو گئی، کیا کرے؟
جواب: اعتکا ف جاری رکھے۔
سوال : کیا عذر کے بغیر اعتکاف توڑ سکتا ہے؟
جواب: توڑ سکتا ہے۔
سوال : کیا عذر کی بنا پر توڑے گئے اعتکاف کی قضا ہے؟
جواب :نہیں۔
سوال : معتکف مسجد کی چھت پر چڑھ گیا، کیا اعتکا ف باقی ہے؟
جواب: جی ہاں !باقی ہے۔
سوال : کیا معتکف مسجد میں وعظ کی مجلس میں شریک ہو سکتا ہے؟
جواب :ہو سکتا ہے۔
سوال : کیا وعظ کرنے یا جمعہ پڑھانے کے لئے دوسری مسجد میں جاسکتا ہے؟
جواب : نہیں جاسکتا۔
سوال : بغیر عذر کے اعتکاف ختم کر دیا ، گناہ گار ہوگا؟
جواب : نہیں ، سنت کی برکت اور اجرو ثواب سے محروم البتہ ہو جائے گا۔
سوال :اعتکاف کے لئے خیمہ لگانا ضروری ہے؟
جواب :ضروری نہیں، مستحب سنت ہے۔
سوال : کیا معتکف چار پائی استعمال کر سکتا ہے؟
جواب : کر سکتا ہے۔
سوال : اعتکاف والی مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا ، کیا دوسری مسجد میں جاسکتا ہے؟
جواب: جاسکتا ہے۔
سوال : بعض لوگ نویت سنۃ الاعتکاف پڑھ کر مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔
جواب : بدعت ہے۔
سوال : اعتکاف میں غسل کیاجاسکتا ہے؟
جواب : کیا جاسکتا ہے۔
سوال : اعتکاف میں سر دھویا جاسکتا ہے؟
جواب : دھویا جاسکتاہے۔
سوال : معتکف مسجد کی کھڑکی یا دروازے سے باہر سر نکال سکتا ہے؟
جواب : نکال سکتا ہے۔
سوال :معتکف مسجد میں نکاح پڑھا سکتا ہے؟
جواب :پڑھا سکتا ہے۔
سوال : بعض لوگ رمضان میں آخری تین دن اعتکاف بیٹھتے ہیں، کیا درست ہے؟
جواب : مسنون نہیں ہے۔
سوال : کیا پورا رمضان اعتکاف بیٹھا جساسکتا ہے؟
جواب : بیٹھا جاسکتا ہے، اس پر اجماع ہے۔
سوال : کیا جھوٹ اور غیبت سے اعتکاف باطل ہو جاتا ہے؟
جوا ب : نہیں ہوتا۔
سوال : معتکف کو کون سے اعمال کرنے چاہئیں۔؟
جواب : اطاعت میں وقت گزارے ، قرآن کی تلاوت کثرت سے کرے، نوافل اور ذکر ودعا میں مشغول رہے، لیلۃ القدر کی تلاش میں رہے، اللہ کی راہ میں خرچ کرے، سحری وافطاری میں دوسرے بھائیوں کی تواضع کرے، غیر ضروی اٹھک بیٹھک اور قیل وقال سے اجتناب کرے۔
سوال : اعتکاف کب ختم ہو تا ہے؟
جواب: جب شوال کا چاند نظر آجائے۔
سوال : کیا عورت کے لئے اعتکاف میں ولی کی اجازت ضروری ہے؟
جواب :جی ہاں!
سوال :دوران اعتکاف فوت ہو گیا، کیا ولی اعتکاف پورا کرے؟
جواب : نہیں۔
سوال : کیا معتکف مسجد میں مریض کی عیادت کر سکتا ہے؟
جواب : کر سکتا ہے۔
سوال : کیا معتکف دینی کتب کا مطالعہ کر سکتا ہے؟
جواب : کر سکتا ہے۔
سوال :اعتکاف سے واپسی پرمعتکف کا استقبال کیا جاتا ہے، اسے پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں، اس سے معانقہ کیا جاتاہے، کیا یہ درست عمل ہے؟
جواب : درست نہیں۔

SHAB-E-QADAR KAISE TALASH KARE

*امسال (2018)شب قدر کیسے تلاش کریں؟*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*تحریر: مقبول احمد سلفی*
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)

ہندوستان کے بہت سارے لوگوں نے باربار یہ سوال پوچھا ہے کہ امسال شب قدر کیسے تلاش کریں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ (2018) کو ہندوستان میں روزہ کی شروعات میں اختلاف واقع ہوا ہے ۔ اکثر لوگوں نے جمعرات سے روزہ شروع کیا ہے جبکہ بعض لوگوں نے ایک دن تاخیر سے روزہ رکھنا شروع کیا ہے ۔ اس تقدیم وتاخیر کی وجہ سے شب قدر کی تعیین کیسے ہوگی اس لئے لوگوں میں کافی بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔جب  مجھ سے بھی بہت سارے لوگوں نے پوچھا تو میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اس بارے میں دلائل کی روشنی جو قوی معلوم ہوتا ہے بیان کردیا جائے ۔ اللہ تعالی مجھے صواب تک پہنچنے کی توفیق دے ۔
امت کا شب قدر کے متعلق سوال کرنا اور اس کی تلاش کے لئے بے چین ہونا بالکل صحیح ہے کیونکہ یہ ایک رات ہزاروں رات پر فضیلت رکھتی ہے ، اس رات کا قیام سابقہ گناہوں کا کفارہ ہے اور اس رات کی خیروبھلائی سے محروم ہونے والا ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہے ۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے پتہ لگاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس رات کو پانے کے لئے کیا کرتے تھے ؟ ہمیں اس بابت رسول اللہ ﷺ کا عملی نمونہ مل جائے تو مذکورہ سوال بھی حل ہوجائے گا چنانہ صحیح بخاری یہ روایت مل جاتی ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَالَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
یہ روایت صاف صاف بتلاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ شب قدر کو پانے کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اول دن سے ہی کمر کس لیتے اور خوب اجتہاد کرتے حتی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يجتهدُ في العشرِ الأواخرِ ، ما لا يجتهدُ في غيرِه .( صحيح مسلم:1175)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت میں ) اتنی محنت کرتے جتنی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
اس حدیث سے واضح طور پرمعلوم ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ کا اجتہاد دو عشروں کے بالمقابل آخری عشرہ میں زیادہ ہوا کرتا تھا اس کی وجہ اس میں موجود شب قدر اور اس کی بھلائی کا حصول تھا۔
اب سنت رسول نے یہ بات طے کردی کہ کسی کو شب قدر تلاش کرنی ہو توعبادت کے لئے آخری عشرہ مکمل طور پر شب بیداری کرے ، اللہ کی توفیق سے اسے وہ رات نصیب ہوجائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے بعد چوں چرا کی حاجت ہی نہیں رہ جاتی کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَ‌سُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(الاحزاب:21)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں ۔
شب قدر کے متعلق علماء کے چالیس اقوال ہیں ان میں ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ آخری عشرہ میں ہے ، بعض نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک کہا ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، من العشرِ الأواخرِ من رمضانَ .(صحيح البخاري:2017)
ترجمہ: لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
بعض علماء نے ستائیس کی رات کو شب قدر کہا ہے ۔ بہر کیف اس سلسلے میں متعد اقوال ہیں جب رسول اللہ ﷺ کی عملی سنت کو پکڑتےہیں تو سارے اقوال اس میں جمع ہوجاتے ہیں اور اس بابت جو امسال لوگوں کا اختلاف ہے وہ بھی مٹ جاتا ہے ۔ اس لئے میرے نزدیک دلائل کی روشنی میں یہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان والے شب قدر کے لئے مکمل آخری عشرہ میں شب بیداری کریں ، زیادہ سے زیادہ اجربھی نصیب ہوگا اور اللہ کی رحمت سے وہ رات ہمیں نصیب ہوجائے گی ۔
بطور خاص اہل علم سے اپیل کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے ! اس مسئلہ کو اختلافی بناکر امت میں بے چینی نہ پیدا کی جائے ، آخری عشرہ مکمل شب بیداری کا ہے اس عمل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کریں اور خود بھی اس سنت پر عمل کریں ۔ تقریر وتحریر کے ذریعہ کافی پکار لگائی جاتی ہے مگر عملی زندگی میں بہت سناٹا ہے ۔ اس بات کو ہمیں محسوس کرکے عملی زندگی کو آباد کرنا ہوگا۔
اللہ تعالی ہم سب کو شب قدر اور اس کی برکات وحسنات سے نوازے اور امت کو اختلاف وانتشار سے بچائے۔ آمین
_____________________
*ہماری نشریات سے واقف ہونے کے لئے فیس بک ، ٹویٹر، گوگل پلس اور ذاتی بلاگ فالو کریں۔*