Eide milad par 11 sawal uska jawab

🔮🕯⛓♦♦⛓🕯🔮

*⁉::: اہل بدعت کی گیارہ باتیں (سوالات ، اعتراضات ) اور اُن کے جوابات :::*

*🌻مجموعہ داعیان اسلام*

▪▫🌼▪▫

آج کل اسطرح کے اور بھی کچھ سوالات گردش کر رہے ہیں,
تاکہ کسی طرح جھوٹ کو سچ  بنا کر عوام کو  دین کے نام پہ دھوکہ دیا جائے اور اپنی پیٹ پوجا کا سلسلہ جاری رکھا جائے,
......

*💬اسی سے متعلقہ چند سوالات کے جوابات پیش خدمت ہیں,*

*🕯بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم*

*🌼الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمدٌ  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ، و مَن أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ مَسلکہِ ، و قد خِسَرَ مَن أَبتدعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ،*

شروع *اللہ* کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،

اکیلے *اللہ* کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں۔
*محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم،* اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن *صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم* کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن *صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم* کی راہ پر چلا،
اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے *اللہ* کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،

*▫السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،*

کِسی بھائی نے ایک تصویری مراسلہ ارسال کیا ، جس  کا عنوان ہے """گیارہ باتیں  جن کا جواب کسی مفتی کے پاس نہیں  """اِس تصویری مراسلے میں  اھل بدعت کی طرف سے  جو کچھ لکھا گیا وہ من و عن نقل کر رہا ہوں ،
اور پھر اِن شاء اللہ اُس کا جواب پیش کرتا ہوں ،
اُس تصویری مراسلے میں لکھا ہے :::

*گیارہ باتیں  جن کا جواب کسی مفتی کے پاس نہیں:*

*::: 1⃣ :::*  ہر سال جشن سعودیہ منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 2⃣ :::* ہر سال غسل کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 3⃣ :::*  ہر سال غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 4⃣ :::*  غلاف کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 5⃣ :::* مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجد کی اذان ہوتی ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 6⃣ :::*  مدارس میں ختم بخاری شریف ہوتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 7⃣  :::* *سیرت النبی ﷺ* کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*:::  8⃣  :::*  ہر سال تبلیغی اجماع ہوتا ہے اور چلے لگائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*:::  9⃣ :::* *صحابہ کرام علیہم الرضوان* کے  وصال کے ایام منائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 🔟 :::* جشن دیو بند و اہلحدیث منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::: 1⃣1⃣ :::* ذکر *میلاد ِ مصطفے ﷺ* منانے کا کسی صحابی، ائمہ  یا محدث نے منع کیا ہو  اسکا بھی کوئی ثبوت نہیں ۔
لیکن جیسے ہی *میلاد النبی ﷺ* منانے کی بات آ جائے تو سارے نام نہاد دِین کے ٹھیکیدار مفتے کھڑے ہو جاتے ہیں  اور شرک و بدعت کا شور آلاپنا شروع کر دیتے ہیں ۔

*آخر کیوں ⁉*

*::: پہلی بات:-*

*1⃣:::* ہر سال جشن سعودیہ منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی  ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*

سعودیہ کا ، یا کسی ملک کا  اپنے ملک کے بننے کا ، یا ملک سے متعلق کسی اور معاملے کا جشن منانا دُنیاوی معاملات میں سے ہے ،دِین سے متعلق نہیں ، اس لیے اِسے بدعت نہیں کہا جاتا ،

*🚫لیکن عُلماء حق کِسی بھی قِسم کی سالگرہ منانے کو جائز قرار نہیں دیتے کیونکہ  یہ کافروں کی مشابہت ہے ،*

خواہ وہ کِسی خوشی والے کام کے سے متعلق ہو، یا کِسی دُکھ والے کام سے، مُسلمانوں میں صدیوں تک سالگرہ نامی جیسی کوئی  خُرافات نہیں پائی جاتی تھیں۔
▫▪🌼▪▫

*::: دُوسری  بات*

*2⃣ :::* ہر سال غسل کعبہ ہوتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*

غسل کعبہ  کی اصل قران کریم میں مذکور ،
*إِبراہیم   اور إِسماعیل علیہما  السلام کو دیا گیا یہ حکم شریف ہے کہ،* 

*🕋وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ  :::*

اور ہم نے  إِبراہیم اور إِسماعیل کو پابند کیا کہ تم دونوں میرے گھر (کعبہ ) کو پاکیزہ کرو ، طواف کرنے والوں  کے  لیے اور قیام کرنے والوں کے لیے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے
*سُورت البقرہ 2/آیت 125،*

*اور صِرف إِبراہیم علیہ السلام کے ذِکر کے ساتھ یہ فرمایا کہ*

*🔮وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ:::*

اور میرے گھر (کعبہ ) کو پاکیزہ کرو ، طواف کرنے والوں  کے  لیے اور قیام کرنے والوں کے لیے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے
*سُورت الحج 22/آیت 26،*

*🌊::: رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی فتح مکہ کے دِن کعبہ شریفہ کی دیوراوں کو پانی سے دھویا   :::*

*💬::::::    اسامہ  بن زید رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ:*

*دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الكعبة فرأى صُورًا فدَعَا بدَلوٍ مِن ماءٍ فأتيته به فضَربَ بهِ الصُّورِ ويقول قاتل الله قوماً يُصوِرون ما لا يَخلقُون :::*

میں (فتح مکہ کے موقع پر ) کعبہ میں *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* کے پاس داخل ہوا ، (اُسی وقت ) *رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم* نے  وہاں(کعبہ  کی دیوراوں پر بنی ہوئی) تصویریں دیکھیں تو پانی کا برتن (بالٹی ، ڈول وغیرہ ) لانے  کا حکم فرمایا ، تو میں  لے کر حاضر ہوا،  تو *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم* نے پانی اُن تصاویر پر ڈال کر اُنہیں مٹایا ، اور اِرشاد فرمایا ، اللہ اُن لوگوں کو ھلاک کرے جو اُن چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں جو چیزوں اُن لوگوں نے تخلیق (ہی) نہیں کِیں
*سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 996،*

*📃مختصر طور پر یہ واقعہ """اخبار مکۃ للفاکھی /ذكر الْأُمُور الَّتِي صنعها رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَعْبَة""" میں بھی مروی ہے ،*

اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ کعبہ شریفہ کو حسی ، اور معنوی ہر قسم کی ناپاکی، گندگی وغیرہ سے صاف کرنا ، پانی کے ساتھ دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے ثابت ہے ،

*:::::: 🕯 مزید  گواہی کے طور پر یہ    بھی  ملاحظہ فرمایے  ::::::*

*::::::   عبداللہ ابن عمر رضی اللہ  عنہما سے روایت ہے کہ:*

*🔘ثُمَّ أَمَرَ (رُسولُ اللَّہ صَلی اللَّہُ عَلیہِ وعَلی آلہِ وسلَّم ) بِلاَلاً ، فَرَقَيَ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ ، فَأَذَّنَ بِالصَّلاَةِ ، وَقَامَ الْمُسْلِمُونَ فَتَجَرَّدُوا فِي الأُزُرِ ، وَأَخَذُوا الدِّلاَءَ ، وَارْتَجَزُوا عَلَى زَمْزَمَ يَغْسِلُونَ الْكَعْبَةَ ، ظَهْرَهَا وَبَطْنَهَا ، فَلَمْ يَدَعُوا أَثَرًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلاَّ مَحَوْهُ ، أَوْ غَسَلُوهُ.:::*

(پھر فتح مکہ کے دِن ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  بلال رضی اللہ  عنہ ُ  کو حکم دِیا ( کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر  نماز کے لیے اذان کہیں )  تو بلال  کعبہ کی چھت پر ) چڑھے اور نماز کے لیے اذان دی،  تو ،  مُسلمانوں نے (اپنے اوپری کپڑے اتار دیے اور صِرف ) اپنے  تہہ بند وغیرہ میں ملبوس  رہ کر ،  پانی کے برتن  لے کر زمزم پر ٹوٹ پڑے اور (زمزم  لا لا کر) کعبہ کو باہر اور اندر سے  دھویا، اور مشرکین کے اثرات میں کوئی ایسا اثر نہیں چھوڑا جسے مِٹا نہ دِیا  ، دھو نہ دِیا ہو
*مصنف ابن ابی شیبہ/کتاب المغازی/باب 34حدیث فتح مکہ ،*

اپنی باتوں کے جوابات نہ پانے والے صاحبان کو یہ مسئلہ تو معلوم ہو گا ہی کہ ،

*💯جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے ہوا ہو ، اور اُس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم نے منع نہ فرمایا ہو تو وہ  کام سو فیصد جائز اور دُرُست ہوتا ہے، سُنّت شریفہ  میں قُبولیت یافتہ ہوتا ہے ،*

*🕋اِس کے بعد آتے ہیں، کعبہ شریفہ کو خُوشبُو  لگانے، اور خُوشبُو والے پانی سے دھونے کی طرف ،*

*▫::::::  إمام محمد بن عبداللہ الازرقی رحمہُ اللہ متوفی   250 ہجری*
نے اپنی  کتاب "اخبار مکہ/

*💬ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ "*

میں اپنی سند سے *اُم المؤ منین عائشہ رضی اللہ عنہا* کا یہ قول نقل کیا ہے کہ

*🔘طَيِّبُوا الْبَيْتَ، فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ تَطْهِيرِهِ:::*
  (اللہ کے ) گھر یعنی کعبہ کو خُوشبُو  دار کیا کرو ، کیونکہ ایسا کرنا اُس کو پاکیزہ کرنے  میں سے ہے  ،

*🕯اور یہ بھی کہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:*

*أُطَيِّبُ الْكَعْبَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُهْدِيَ إِلَيْهَا ذَهَبًا وَفِضَّةً :::*
  کعبہ کو خُوشبُو لگانا مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں کعبہ کے لیے سونا اور چاندی ہدیہ کروں،

*🌼اور  عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ بھی مذکورہ ہے کہ:*

*کانَ يُجَمِّرُ الْكَعْبَةَ كُلَّ يَوْمٍ بِرَطْلٍ مِنْ مُجْمَرٍ، وَيُجَمِّرُ الْكَعْبَةَ كُلَّ يَوْمِ جُمُعَةٍ بِرَطْلَيْنِ مِنْ مُجْمَرٍ :::*
   وہ کعبہ کو ہر روز ایک رطل (خُوشبُو ) سُلگا کر خُوشبُو دار کیا کرتے تھے ، اور ہر جمعہ کے دِن کعبہ کو دو رطل (خُوشبُو) سُلگا  کر خُوشبُو دار کیا کرتے تھے ،

*💬::::::  اِسی باب میں   أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں  یہ بھی مذکور ہے کہ*

*كَانَ مُعَاوِيَةُ أَوَّلَ مَنْ طَيِّبَ الْكَعْبَةَ بِالْخَلُوقِ وَالْمُجْمَرِ، وَأَجْرَى الزَّيْتَ لِقَنَادِيلِ الْمَسْجِدِ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ:::*

*🕯سب سے پہلے أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ نے خَلوق ( زعفران اور دیگر خُوشبُو دار چیزوں کے مجموعے ) اور (دیگر )سلگائی جانے والی خُوشبُو کے ذریعے کعبہ شریفہ کو (باقاعدہ سرکاری سطح پر )  خُوشُبو دار کیا ،*

اور مسجد الحرام  کی قندیلوں کے لیے  بیت المال میں سے  تیل جاری کیا،

*یہ لیجیے ،‼*

الحمد للہ ، کعبہ شریفہ کو غُسل دینا، قرآن و صحیح سُنّت شریفہ سے بھی ثابت ہے،  اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول اور فعل سے بھی ،

*💯بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے تو غسل دینے کے عِلاوہ خُوشبُو لگانا بھی  ثابت ہے ،*

اِس میں سال میں ایک ، دو  ، یا دس بار کی کوئی قید نہیں ، جسے *اللہ تعالیٰ* یہ شرف جتنا چاہے  عطاء فرمائے ،
پس جو کوئی کعبہ شریفہ کو غسل دینے کو قرآن و حدیث میں ثبوت کے بغیر کہتا ہے وہ  یا تو جاھل ہے، یا پھر ایسا دروغ گو  متعصب  جو اپنے مذھب و مسلک کی تائید میں غلط بیانی کرتا  ہے ۔

▫▪🌼▪▫

*::: تیسری بات 3⃣ :::*

  ہر سال غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتاہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*

اس سوال کا معاملہ بھی پہلے والے سوال کی طرح ہی ہے ، یعنی، سوال یا تو جہالت  پر مبنی ہے یا جانتے بوجھتے ہوئے گمراہی پھیلانے اور اپنی بنائی اور پھیلائی ہوئی بدعات کو تحفظ دینے کی مذموم کوشش ہے ،
کعبہ شریفہ پر غلاف چڑھانا، کعبہ شریفہ  کو کپڑوں سے ڈھانپنا ، قبل از اسلام سے چلتا آ رہا تھا ،

*🕋اور بعد از اِسلام ، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اِس روایت کو برقرار رکھا، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے خُلفاء راشدین ، اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے  بھی اِس پر عمل جاری رکھا ،*

کعبہ شریفہ پر غِلاف چڑھانے کی بہت سی  ایسی روایت میسر ہیں  جن میں  یہ  خبر ملتی ہے کہ  *رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم* نے، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کعبہ شریفہ پر کپڑے ڈالے ، غِلاف چڑھائے  ، اِن میں کچھ روایات صحیح ہیں  اور کچھ ضعیف ، جو کہ صحیح کی گواہ کے طور پر قابل ذِکر ہیں ، ملاحظہ فرمایے  :::

*::::::    فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:*

*💬وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ* :::
بلکہ یہ تو وہ دِن ہے جِس دِن میں اللہ نے کعبہ کو عظمت عطاء فرمائی اور جِس دِن کعبہ کو لباس پہنایا  جاتا ہے
*صحیح بخاری /حدیث /4280کتاب المغازی /باب  48  أَيْنَ رَكَزَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ،*

*::::::   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چچا جان ، عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ:*

*🔘كَسَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فِي حَجَّتِهِ الْحُبُرَاتِ:::*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں (اللہ کے) گھر کعبہ شریفہ  کو حُبرات  کا  لباس پہنایا
*مسند الحارث /کتاب الحج/باب کسوۃ الکعبہ،*

*▫لیث بن ابی سلیم رحمہُ اللہ  کا کہنا ہے کہ:*

*🌼كَانَ كِسْوَةَ الْكَعْبَةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْأَقْطَاعُ وَالْمُسُوحُ :::*
نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دَور میں کعبہ کا غِلاف أقطاع اور مسوح کا ہوا کرتا تھا۔
*مصنف ابن ابی شیبہ /کتاب الحج /باب فِي الْبَيْتِ مَا كَانَتْ كِسْوَتُهُ،*
*أقطاع ، اور مسوح* دو مختلف کپڑوں کے نام ہیں۔

*::::::   نافع رحمہُ اللہ  مولیٰ ابن عمر  رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ:*
 
*🔮كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْسُو بُدْنَهُ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ الْقَبَاطِيَّ وَالْحِبَرَةَ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ أَلْبَسَهَا إِيَّاهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ نَزَعَهَا، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا إِلَى شَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ فَنَاطَهَا عَلَى الْكَعْبَةِ:::*
جب  (عبداللہ) ابن عمر (رضی اللہ عنہما حج کے )احرام کا اِرداہ کرتے تو اپنے قربانی کے جانور پر  قباطی اور حِبرہ (نامی کپڑے  ) لگا دیتے ، اور  عرفات والے دِن وہ کپڑے اُسے پہنا دیتے ، اور قربانی والے دِن وہ کپڑے اتار دیتے اور پھر شیبہ بن عثمان (رضی اللہ عنہ ُ جو کہ کعبہ کے منتظمین تھے ) کو وہ کپڑے بھیج دیتے  تو شیبہ بن عثمان وہ کپڑے کعبہ پر لٹکا دیتے
*اخبار مکہ للأزرقی /ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ "،*
"اخبار مکہ للفاکھی /ذِكْرُ ما يجوز ان تكسى به الكعبة من الثياب ،
ڈاکٹر عبدالملک دھیش نے ، أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه  میں اس روایت کو صحیح قرار دِیا ہے "

الحمد للہ یہ بھی جواب بھی پورا ہوا، اور واضح ہوا کہ کعبہ شریفہ کو لباس پہنانا ،

*🕋غِلاف چڑھانا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سُنّت شریفہ میں موجود ہے ،*

  پس جو کوئی اِس کام کو سُنّت کے مُطابق نہیں جانتا ، نہیں سمجھتا ، تو جیسا کہ پہلے کہا، وہ شخص یا تو جاھل ہے یا پھر اپنے مذھب و مسلک کی تائید میں حق پوشی کر رہا ہے ۔

▫▪🌼▪▫

*::: چوتھی بات 4⃣ ::::*

غلاف کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*

اِس کام کے بارے میں عُلماء کا اختلاف ہے جِس میں سے صحیح یہ ہے کہ صرف کعبہ شریفہ کے غِلاف پر آیات مُبارکہ لکھنا ، لیکن سونے چاندی سے نہیں بلکہ عام مواد سے جائز ہے

*▫کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:*

*💖وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ:::*
  اور جو کوئی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ادب کرنے والی چیزوں اور مُقامات کی تعظیم کرتا ہے تو ایسا کرنا یقیناً دِلوں کے تقوے  کا ثبوت ہے
*سُورت  الحج (22)/آیت 32،*

کعبہ شریفہ، شعائر اللہ میں سے اول و افضل ترین ہے ، پس اُس کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کے غِلاف پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہی  کلام ، یعنی قران کریم کی آیات شریفہ لکھی جانا دُرست ہے ،

*🔘بشرطیکہ:*

اُنہیں لکھنے میں کوئی اسراف ، یعنی فضول خرچی نہ کی جائے ، لہذا ، سونے چاندی اور دیگر قیمتی مواد کا اِستعمال نہیں کیا جانا چاہیے ، عام مواد  سے لکھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔

▫▪🌼▪▫

*::: پانچویں بات 5⃣ :::*

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجد کی اذان ہوتی ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*

تہجد کی اذان نام کی تو کوئی چیز نہیں ہے ، یہاں غالباً فجر کی پہلے اذان کو تہجد کی اذان کہا  گیا ہے ، اور یہی اذان مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور سعودی عرب کے کئی دیگر شہروں میں دی جاتی ہے ،  اور فجر کی اِس  پہلی اذان کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے میسر ہے ، ملاحظہ فرمایے :::

*▫عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ  عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:*

*♦لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ - أَوْ أَحَدًا مِنْكُمْ - أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِهِ ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ - أَوْ يُنَادِى - بِلَيْلٍ ، لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ :::*
تم میں سے کوئی  بھی بلال کی اذان پر اپنی سحری کو نہ روکے ،بلال تو (فجر کے وقت سے پہلے )  رات میں تم میں سے سوئے ہوئے کو آگاہ خبر دار کرنے کے لیے ،اذان دیتا ہے (یا فرمایا ) پکار لگاتا ہے اور اِس لیے کہ  تم لوگوں میں قیام (اللیل) کرنے والا (سحری ) کی طرف واپس  آئے۔
*صحیح بخاری /حدیث /621کتاب  الأذان /باب 13  الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ ، ایک دو لفظ کے فرق کے ساتھ  صحیح مُسلم  /حدیث /2593کتاب  الصیام /باب 8  ،*

*🔮امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:*

*إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ:::*
  بلال  تو (فجر سے پہلے) رات میں اذان دیتا ہے ، لہذا  تم لوگ اُس وقت تک (سحری) کھاتے پیتے رہو جن تک کہ (عبداللہ) ابن أُم مکتوم اذان نہ دے۔
*صحیح بخاری /حدیث /623کتاب  الأذان /باب 13  الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ ، ایک لفظ کے فرق کے ساتھ  صحیح مُسلم  /حدیث /2588کتاب  الصیام /باب 8  ،*

لیجیے الحمد للہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے دور مُبارک میں ، اور یقیناً اُن  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی اجازت سے  فجر کی دو اذانوں کا ثبوت مہیا ہے ، اب اگر  کوئی شخص اِن احادیث کا عِلم ہی نہیں رکھتا اور بلا عِلم سوال ، و اعتراضات کرتا ہے تو اِس کا وبال اُسی پر ہے ،  اور اگر اُسے اِس کا  علم ہے  ، اور جانتے بوجھتے ہوئے فجر کی پہلی اذان کو تہجد کی اذان کا نام دے کر بات کو بدلنے کی،  حق چھپانے کی کوشش میں ہے،  تو یہ  لا عِلمی میں کی گئی کوشش سے بُرا اور بڑا وبال ہے ،

*🌼کسی نے بہت خُوب کہا ہے کہ :::*
*اِن کُنتَ لا تدری فتلک المُصیبۃ   :::*
*و اِن کُنتَ تدری فالمُصیبۃ أعظم*

اگر تُم نہیں جانتے تو یہ ہی مُصیبت ہے  ::: اور اگر تُم جانتے ہو تو یہ اُس سے بڑی مُصیبت ہے

▫▪🌼▪▫

*:::  چَھٹی بات 6⃣ :::*

مدارس میں ختم بخاری شریف ہوتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*

   سائل یا معترض کو ایسی بات  کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا کہ صحیح  بخاری  قرآن کریم  کے نزول ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وفات کے کتنے سال بعد لکھی گئی تھی ؟؟؟

*تو اِس کتاب کی تعلیم سے متعلق کسی معاملے ، یا کسی محفل کا کوئی ثبوت قران و حدیث میں سے کہاں ملے گا  ⁉*

اور  یہ بھی کہ اِس بات ، سوال ، یا اعتراض میں صحیح بخاری کا ذِکر ہی کیوں ، مدرسوں اور اُن کے نظام اور ان کے تعلیمی نصاب سب ہی کچھ اِس کی زد میں آتے ہیں ،

*بہرحال ،  اِس مذکور بالا بات یا سوال میں  بات یا سوال کرنے والے کی ختم بخاری شریف سے کیا مُراد ہے⁉*

اِس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ؟؟؟
اگر تو اِس سے مُراد مدارس میں  تدریسی نصاب میں سے  صحیح بخاری  کی تعلیم مکمل ہونے پر اُس تعلیم سے متعلق کوئی محفل منعقد کرنا ہے تو اُس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ وہ اُسی دینی تعلیم سے متعلق ہے ،
▫▪🌼▪▫

*:::  ساتویں  بات7⃣  :::*

سیرت النبی ﷺ کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*
 
سیرت النبی  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام پر ہونے والے اجتماعات کا معاملہ بھی ہر ایک اجتماع  کے منعقد کیے جانے کے سبب  اور اُس میں  ہونے والے کاموں کے مطابق ہی فرداً فرداً  سمجھا جا سکتا ہے ،

*⛓مثلا:*
ً اگر کوئی اجتماع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیدائش کی خوشی  کی نسبت سے، یا کِسی خاص دِین یا خاص وقت کی  کسی نسبت  سے  منعقد کیا جاتا ہے تو وہ بدعت ہے ،

*اور اگر‼*

  کوئی اجتماع کسی خاص نسبت کے بجائے محض سیرت شریفہ کے بیان کے لیے منعقد کیا جاتا ہے اور اس میں صِرف صحیح ثابت شدہ سیرت مُبارکہ ہی بیان کی جاتی ہے اور کوئی جھوٹی ، غیر ثابت شدہ  قصہ گوئی نہیں کی جاتی ، کوئی خود ساختہ من گھڑت عبادت یا عمل نہیں کیے جاتے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرت کی تعلیم دینا بھی دِین میں مطلوب و مقصود ہے ،

*::::::    اللہ عزّ و جلّ نےاِرشاد  فرمایا ہے:*

*💬لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ:::*
یقیناً تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول (کی زندگی مُبارک) میں سب سے بہترین نمونہ ہے
*سُورت الاحزاب 33/آیت 21،*

*::::::   اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے:*

*🔘مَن أَطَاعَنِی دَخل الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی:::*
جو میری بات پر عمل کرے گا وہ جنّت میں داخل ہو گا اور جو میری بات نہیں مانے گا وہ اِنکار کرنے والا ہے۔
*صحیح البُخاری/کتاب الأعتصام بالکتاب و السُنۃ /باب 2 کی حدیث5،*

*::::::   اِس کے عِلاوہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ بھی اعلان کروا دِیا:*

*♦لا یؤمِنُ أحدُکُم حَتیٰ  یِکُونُ  ھواہُ  تَبعاً  لِمَا  جِئتُ  بِہِ:::*
تُم سے کوئی اُس وقت تک اِیمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اُسکی خواہشات میری ساتھ آئی ہوئی چیز (یعنی کتاب اللہ اور سُنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)کے مُطابق نہ ہوں جائیں
*شرح السُنّہ،اِمام بغوی رحمہُ اللہ ، امام النووی رحمہُ اللہ """الاربعین"""میں کہایہ حدیث صحیح ہے اور ہم نے اسے"""الحجۃ"""میں نقل کیا ہے،*

*♦::::::   اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی  اِرشاد فرمایا ہے کہ*

*فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِى فَلَيْسَ مِنَّی:::*
لہذا جِس نے میری سُنّت سے منہ ُ پھیرا وہ مجھ  میں سے نہیں ۔
*صحیح بخاری حدیث/5063 کتاب النکاح/پہلا باب ، صحیح مُسلم /حدیث/3469کتاب النکاح/پہلا باب ،*
  
اِس معنی اور مفہوم کی اور بھی کئی صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ ہیں ،
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  سیرت شریفہ ،  جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اقوال مُبارکہ یعنی حدیث شریف ، اور افعال مُبارکہ یعنی سُنّت شریفہ شامل ہیں ،   اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دِن رات کے معمولات کی خبریں ہیں ،

*اُسے سیکھے بغیر اُمت  اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے أسوہ حسنہ کو کس طرح سیکھ سکتی ہے ⁉*

*اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی أطاعت اور نافرمانی کا فرق کیسے سمجھ سکتی ہے⁉*

لہذا اُمت کو اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرت  سکھانا قران و حدیث سے خارج نہیں ، بس سیرت کے نام پر صحیح سیرت ہی سکھائی جائے ،خود ساختہ بدعات ، اور جھوٹے غیر ثابت شدہ روایات ، اور قصے کہانیاں نہ سنائی جائیں ۔

▫▪🌼▪▫

*:::  آٹھویں  بات 8⃣ :::*

  ہر سال تبلیغی اجماع ہوتا ہے اور چلے لگائے جاتے ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*

جی ، تبلیغی اجتماع اور اس کے چِلّے ، اور اُس کےعِلاوہ بھی تمام تر چِلّے دِین میں کوئی دلیل نہیں رکھتے ، اِن سب کاموں سے باز رہنا چاہیے ۔

▫▪🌼▪▫

*:::  نویں   بات 9⃣ :::*

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے  وصال کے ایام منائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*
 
یہ بھی دُرست ہے ، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ، بلکہ کِسی بھی ہستی کے یوم پیدائش یا یوم وفات کو منانے کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ،

*🚫یہ سب بدعات ہیں اِن  سے بہر صُورت باز  ہی  رہنا  چاہیے ۔*

▫▪🌼▪▫

*::: دسویں   بات 🔟 :::* جشن دیو بند و اہلحدیث منایا جاتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔

*::::: جواب  :::::*
 
اِس جشن بازی کی بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ، اس سے کیا مُراد ہے ؟؟؟

اگر تو یہ جشن کسی جماعت ، کسی گروہ ، کسی مدرسے کی سالگرہ کے طور پر منائے جاتے ہیں تو غلط ہیں ، مزید بات اسی وقت کی جا سکتی ہے جب ان کی تفصیل بتائی جائے ۔

▫▪🌼▫▪

*::: گیارہویں بات  1⃣1⃣ :::*

ذکر *میلاد ِ مصطفے ﷺ* منانے کا کسی صحابی، ائمہ  یا محدث نے منع کیا ہو  اسکا بھی کوئی ثبوت نہیں ۔

*لیکن‼*

جیسے ہی *میلاد النبی ﷺ* منانے کی بات آ جائے تو سارے نام نہاد دِین کے ٹھیکیدار مفتے کھڑے ہو جاتے ہیں  اور شرک و بدعت کا شور آلاپنا شروع کر دیتے ہیں ۔ آخر کیوں ؟

*::::: جواب  :::::*
  
کیا  ہی بھونڈی ، بے تکی بات ہے ، ارے صاحب منع تو تب کرتے جب اُن کے زمانے میں یہ  میلاد ہوتی ، یہ بات ، یا سوال ، یا اعتراض تو اُلٹا میلاد منانے والوں پر حُجت ہے ،

*♦اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین ، أئمہ محدثین و فقہا کرام رحمہم اللہ جمعیاً کے زمانوں میں بھی یہ میلاد نہیں ہوتی تھی ،*
پس  کسی شک و شبہے کے بغیر یہ بدعت ہے،

*♦گیارہویں بات کے آخر میں بھی سوال یا اعتراض کرنے والے نے  بالکل غلط بات کہی ہے ، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منع کرنے والے مُفتے نہیں  ہیں ،*

بلکہ مُفتے تو  وہ ہیں جو میلاد کے نام پر لوگوں کے پیسے بٹورتے ہیں اور اپنے پیٹ ، جیبیں اور گھر بھرتے ہیں ، اور اپنے نام  و القابات کی نمود کے لیے لوگوں کا مال استعمال کرتے ہیں ، اور  اپنے ساتھ ساتھ  لوگوں کی آخرت تباہ کرتے ہیں ۔   

*▫و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ*

▬▬▬▬▬▬🔘⚪🔘▬▬▬▬▬▬

Jashne eide milad ki haqiqat

┄┅─═══🔮🏮🔮═══─┅┄
▪▫▪▫▪

_*🎊🎉جشــن عــیــد مــیلاد النــبــی کــی حــقیـقــت*_

_*✍مــقــبول احــمــد ســلفــی*_

*_🔮مجـــــمـــــوعــــــہ داعیـــــان اســــــــلام_*

▪▫▪▫▪
┄┅─═══🔮🏮🔮═══─┅┄            

*✨دنیا میں نبی ﷺ کی آمد باعث رحمت ،*
*آپ کی بعثت باعث تسکین و راحت*
*اور آپ کی رسالت و نبوت باعث نجات و کامیابی ہے ۔*

ہمیں آپ کی ولادت مبارکہ پہ بیحد فرحت و انبساط ہے ۔
ہم آپ ﷺ سے بیحد محبت کرتے ہیں ۔ کائنات کی ہر چیز سے زیادہ بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں ۔

*🔺اس بات پہ ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ سے محبت ایمان کا حصہ اور ہمارے اوپر محبت رسول ﷺ فرض و واجب ہے ،اس فرض میں کوتاہی کرنے والا ایمان کی حلاوت سے محروم اور محبت رسول ﷺ کی چاشنی سے کوسوں دور ہے ۔*

وہ آدمی مومن نہیں ہوسکتا جب تک دنیا کی ہر چیز سے زیادہ نبی ﷺ سے محبت نہ کرے ۔

*✨آپ ﷺ کا فرمان ہے :*

*لا يؤمنُ أحدُكم حتى أكونَ أحبَّ إليه من ولدِه ووالدِه والنَّاسِ أجمعينَ*
*صحيح مسلم:44*

ترجمہ: کوئی شخص اس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے بال بچے، والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔

*💖یہاں محبت کی تھوڑی وضاحت ہو جائے:*

کہ مختلف قسم کے افراد سے محبت کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے ۔
والدین سے محبت کا طریقہ الگ ہے ،
اولاد سے اظہار محبت مختلف ہے،
بیوی سے محبت برتنے کا انداز جداگانہ ہے ،
اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا انداز و طریقہ الگ ہے۔
محبت رسول کا مطلب اتباع رسول اور محبت سنت رسول اللہ ہے جو قرآن کی مذکورہ آیت سے ظاہر ہے ۔

*🔮اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے :*

*قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ*
*آل عمران:31*
ترجمہ: (اے نبی!) کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے۔

*💖اللہ کی محبت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی جائے اور رسول اللہ کی اطاعت و پیروی نہ صرف اللہ کی محبت ہے بلکہ نبی کی محبت بھی ہے ۔*

آل عمران کی اگلی آیت میں اتباع رسول سے منہ موڑنے والے کو ایسا کافر کہا ہے جس سے اللہ محبت نہیں کرتا۔

*🏮فرمان الہی ہے :*

*قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ*
*آل عمران:32*
ترجمہ: (اے نبی!) کہہ دو اللہ اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر وہ منہ پھیریں تو بے شک اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔

اور حدیث رسول سے بھی پتہ چلتا ہے کہ سنت رسول سے محبت نبی ﷺ سے محبت ہے ۔

*✨نبی ﷺ کا فرمان ہے :*

*من أحبَّ سنَّتي فقد أحبَّني ومن أحبَّني كانَ معي في الجنَّةِ*
*مشكوة*
ترجمہ: جس نے میری سنت سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔

*🔅٭ اس حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مشکوۃ کے مقدمہ میں حسن کہا ہے ۔* *تخريج مشكاة المصابيح:1/136*

یہی بات محبت رسول کے تقاضے سے بھی معلوم ہوتی ہے ،

*💖آپ ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے:*

کہ آپ کا احترام کیا جائے،
آپ سے قلبی محبت کی جائے،
آپ کی اطاعت اور آپ کی اتباع کی جائے ،
آپ پر درود پڑھا جائے ،
امہات المومنین، آل بیت ، صحابہ کرام اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے محبت کی جائے اور بدعت و ضلالت سے دور رہا جائے۔

*💖آپ سے محبت کی نشانی ہے کہ آپ کی سنت سے محبت کریں ،*

آپ کی سنت کا علم حاصل کریں، آپ کی سنت پر عمل پیراہوں اور آپ کی سنت کو پھیلائیں ۔

*✨خلاصہ کلام یہ ہے:*

محبت رسول ﷺ کا حقیقی معیار اطاعت رسول اور اتباع رسول ہے جو بغیر اطاعت رسول کے محبت کا دعوی کرتا ہے وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے ۔

*▫اس کا نقشہ ایک عربی شعر میں بہترین انداز میں کھینچا گیا ہے ۔*

*💕لو کان حبک صادقا لاطعتہ*
*ان المحب لمن یحب مطیع*

*شعر کا ترجمہ:*
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اسکی اطاعت کرتے
کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے۔

شرک و بدعت اور تصوف میں غرق نام نہاد بعض مسلمانوں نے محبت رسول کا ڈھونگ رچا کر جشن عید میلاد النبی ﷺ کو امت اسلامیہ میں اس طرح سے رواج دیا ہے.کہ سادہ لوح عوام انہیں ہی اصل محب رسول سمجھتے ہیں.

*🔺جبکہ یہ دین میں نئی ایجاد اور محبت رسول کے نام پر عداوت رسول کا چور دروازہ ہے ۔*

جشن عید میلاد النبی چار کلموں پر مشتمل سیکڑوں شرکیہ و بدعیہ اعمال کو اپنے اندر سموئے ہوا ہے ۔

*▫پہلے چند وجوہ سے اس جشن کا رد ملاحظہ کریں ۔*

1⃣ اسلام میں دو ہی سالانہ عیدیں ہیں جن کی تعیین محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہے ،یہ جشن عید میلاد النبی اسلامی عید میں اضافہ ہے جو بدعت میں شمار ہوگا۔

2⃣اسلام میں کسی کے جنم دن منانے کا تصور ہی نہیں ہے ، نبی ﷺ کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں ، بیٹے پیدا ہوئے مگر کسی پہ جشن ولادت نہیں منایا ،نہ ہی منانے کا حکم دیا۔

*🔺آپ ﷺ اپنی ولادت باسعادت پہ بھی کسی سال ماہ ربیع الاول میں جشن ولادت نہیں منایا، نہ ہی کسی کو منانے کا حکم دیا جبکہ متعدد بار آپ کی زندگی میں ماہ ربیع الاول آیا۔*

اور نہ اپنے طور پر ہی سہی کسی صحابی نے ،تابعی یا تبع تابعی نے اسے منایا جو اس بات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ جشن عید میلاد النبی غیر مسنون اور بدعت سیئہ ہے ۔

3⃣یہ بات باتفاق رائے متعین ہے کہ آپ ﷺ کی وفات بارہ ربیع الاول کو ہوئی.

*📆مگر تاریخ پیدائش میں اہل علم اور اہل سیر کے درمیان اختلاف ہے ۔*

کسی نے دو، کسی نے آٹھ ، کسی نے دس، کسی نے بارہ ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول بتایا ہے ۔
زیادہ مشہور اقوال میں سے 9 اور 12 ربیع الاول ہے ۔

*▪اگر 9/ ربیع الاول کو تاریخ پیدائش مانتے ہیں تو بارہ کو جشن عید میلاد منانا ایک طرح کا سخریہ اور کھلواڑ مانا جائے گا اور اگر 12/ ربیع الاول کو مانتے ہیں تو یہ دن تاریخ وفات بھی ہے ۔*

*✍طاہرالقادری بریلوی نے لکھا ہے:*

بارہ ربیع الاول کو صحابہ غمگین رہا کرتے مگر یہ پیٹ کے پجاری 12/ربیع الاول کو جشن مناتے ہیں اور حلوے پوڑی سے شیطانی پیٹ بھرتے ہیں۔ کیا یہی ہے محبت رسول اور محبت صحابہ؟

*آپ اپنے اوپر قیاس کر کے دیکھ لیں:‼*

کہ اگر 12/ربیع الاول آپ کے والد صاحب پیدا ہوئے ہوں اور اسی دن وفات بھی پاجائیں.

*تو آپ یوم وفات منائیں گے یا یوم ولادت ⁉*

اپنا معاملہ ہو تو بات جلدی اور زیادہ سمجھ میں آتی ہے ۔

4⃣ دنیا والے جنم دن زندہ لوگوں کا مناتے ہیں کیونکہ مرنے کے بعد تو نہ ختم ہونے والا غم لاحق ہوتا ہے کوئی کیسے جنم دن منائے گا۔ زندہ رہتے ہوئے یوم پیدائش منانا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ انسان کو مزید ایک سال ملنے پر خوشی ہوتی ہے گوکہ یہ بھی اسلام کی نظر میں جائز نہیں ہے میں صرف عقلی بات کر رہا ہوں ۔

*💔یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ نبی ﷺ کی وفات پانے پہ جشن میلاد منایا جائے جبکہ امت کو آپ کے جانے کا بہت بڑا غم ہے ،*

خصوصا آج کے شرک و بدعت اور شر و فساد سے پر زمانے میں آپ کی جدائی کا غم وہی محسوس کر سکتا ہے.

*🔺جس کے دل میں نبی سے سچی محبت ہوگی اورآپ کی وفات پہ وہی خوشی منائے گا جو شیطان کا چیلا ہوگا۔*

5⃣ آپ ﷺ کی تاریخ ولادت میں شدید اختلاف اس بات کا غماز ہے کہ پہلے زمانوں میں آپ کی تاریخ پیدائش پہ جشن نہیں منایا گیا، اگر آپ کا یوم ولادت منایا گیا ہوتا تو امت کو آپ کی تاریخ پیدائش کا بخوبی علم ہوتا۔

*📃جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے:*

کہ ساتویں صدی ہجری میں 625 ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی اور موصل کے قریبی شہر اربل کے گورنر ملک مظفر ابو سعید کوکبوری نے ایجاد کیا ۔

*🔺یہ فضول خرچ اور بداخلاق بادشاہ تھا اور ناچ گانے کا رسیا تھا۔ اس کے زمانے کے (ایک کذاب ،جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا جسے معلوم تھا کہ بادشاہ میلاد النبی کا دلدادہ ہے ) ابو الخطاب بن دحیہ نامی شخص نے بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے میلاد پہ کتاب لکھی جس کا نام ہے "التنویر فی مولد البشیر النذیر" ۔*

جب کذاب مصنف نے اس کتاب کو شاہ اربل پر پیش کیا تو اس نے ابن دحیہ کو ایک ہزار سونے کا دینار انعام میں دیا جو 375 تولہ سونا بنتا ہے۔ یہ گورنر بہت طمطراق اور فضول خرچی کے ساتھ عید میلاد مناتا تھا اور اس میں اپنی سلطنت کے سارے لوگوں کو بلاتا تھا جس کی وجہ سے ساری سلطنت میں یہ بدعت رواج پاگئی ۔

*🔺اس زمانے کے میلادی جشن عید میلاد النبی پہ مختلف قسم کے اسباب و عوامل بیان کرتے ہیں جنہیں ان کے رد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔*

1⃣ کہا جاتا ہے کہ ہر سال جشن عید میلاد منانے سے محبت رسول میں اضافہ ہوتا ہے. حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے نبی پاک کا ذکر دنیا میں سب سے زیادہ بلند کیا ہے ۔

*✨اللہ کا فرمان ہے :*

*و رفعنا لک ذکر۔*
اے نبی ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا ہے
.
*🔮جب آپ کا ذکر اذان، نماز، تلاوت، درس قرآن، درس حدیث،  علمی مذاکرہ اور بیانات کے ذریعہ ہر آن ہوتا رہتا ہے تو ذکر کے لئے سال میں صرف ایک دن متعین کرنا حب رسول نہیں ہے بلکہ حب رسول کے نام پہ دھوکہ ہے ۔*

2⃣ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اس جشن کے ذریعہ نبی کے اوصاف اور نسب کا جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ایک مسلمان کے لئےنبی کی زندگی میں نمونہ ہے اس لئے ہمیشہ آپ کے سنن اور اوصاف کو جاننا ہے تاکہ ان اوصاف کے ہم بھی حامل بنیں جو اوصاف و نسب کے جاننے کے لئے سال میں ایک دن متعین کرتے ہیں. ان کے پاس جشن میلاد سے دنیاوی غرض تو ہوگی مگر دینی غرض نہ ہوگی اور جب دینی غرض نہ ہو تو حب رسول کا دعوی کیسا؟

3⃣ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دن ذکر کرنے، تلاوت کرنے ، درود پڑھنے ، اظہار محبت کرنے اور صدقات و خیرات کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ سارے جشن عید میلاد منانے کے جھوٹے بہانے ہیں ، ان سے صرف دنیاوی غرض ہے ، میں نے اوپر بھی کہا کہ نبی ﷺ کی ذات گرامی ایک مومن کے لئے نمونہ ہے ۔

*⚡ایک مومن ہونے کی حیثیت سے ہمیں سدا آپ کا ذکر کرنا چاہئے، آپ پر درود پڑھنا چاہئے، آپ سے اور آپ کی سنت سے محبت کا اظہار کرنا چاہئے اور فقراء و مساکین میں صدقات و خیرات عام کرنا چاہئے ۔*

ان کار خیر کے لئے سال کا ایک دن متعین کرنا جہاں دین میں نئی ایجاد (بدعت) ہے وہیں دین سے بے اعتنائی ، بے توجہی ، لاپرواہی اور رسول کی اطاعت میں خیانت ہے ۔

*🔺اسی طرح میلادی حضرات قرآن و حدیث کے نصوص سے الٹا پلٹا مطلب نکالتے ہیں، انہیں توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں جس سے عوام کو دھوکہ ہو جاتا ہے ۔*

یہاں ان کے ذکر کا موقع نہیں ہے ،تاہم آپ کو ایک قاعدہ بتا دیتا ہوں جس سے میلادی دلائل کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

*📍جاء الحق بریلویوں کی معتبر کتاب ہے ، اس کے مصنف احمد یارخاں نعیمی میلاد کے متعلق لکھتے ہیں:*

*لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ*
*جاء الحق : ١/٢٣٦*
ترجمہ: میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔

گویا جشن عید میلاد النبی نہ تو نبی ﷺ کے زمانے میں تھا، نہ ہی صحابہ کرام کے زمانے میں تھا اور نہ ہی تابعین و تبع تابعین کے زمانوں میں تھا ۔

*✍یہی مصنف اپنی اسی کتاب کے صفحہ 204 پر بدعت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:*

"وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو کہ حضور علیہ الصلاة والسلام کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے"۔

بریلوی مصنف کے ان دونوں عبارتوں کا خلاصہ اور مطلب یہ ہوا کہ خیر القرون میں جشن میلاد نہیں منایا جاتا تھا، یہ نبی کے بعد کی ایجاد ہے اس وجہ سے بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت و گمراہی ہے جو جہنم میں لے جائے گی ۔

*⚡نبی ﷺ کا فرمان ہے :*

*وَكلَّ محدثةٍ بدعةٌ وَكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ*
*صحيح النسائي:1577*
ترجمہ: اور ہر نئی ایجاد بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

*اس میلاد میں انجام دئے جانے والے شرکیہ و بدعیہ امور کو بھی دیکھیں کہ ان کا اسلام سے اور محبت رسول سے کیا واسطہ ہے ⁉*

روضہ رسول کی شبیہ بنانا،
شرکیہ نعتیں،
اشعار اور قوالیاں گانا،
نبی کوحاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ رکھنا
اور اس عقیدے سے مجلس میں قیام کرنا،
چراغاں کرنا
اور اس پہ ہزاروں روپئے صرف کرنا،
جھنڈیاں لگانا،
نعلین شریفین کی تصویر بنانا،
اس پہ محمد ﷺ کا نام لکھنا،
عورت و مرد کا باہم اختلاط،
ناچ گانا،
باجاگاجا،
ڈھول تماشہ ،
آتش بازی،
بےہودہ حرکتیں ،
ناجائز کھیل کود،
مشعل بردار جلوس وغیرہ

*کون سا اسلام ہے اور کیا یہ محبت رسول ہے⁉*

یہاں عمل کی قبولیت کے متعلق معیار بھی جان لیں تاکہ اس معیار پر جشن عید میلاد النبی کو پرکھ کر دیکھ سکیں۔

*🌀اللہ کے یہاں عمل کی قبولیت کے لئے تیں شرائط ہیں ۔*

*🔅پہلی شرط :*

عمل میں اخلاص پایا جائے ۔ جشن عید میلاد میں اخلاص کا فقدان ہے ،یہ صرف دنیا کو دکھانے کے لئے ایک قسم کی نوٹنکی ہے ، اس میں شرک و کفر کا انجام دینا اپنی جگہ ۔

*🔅دوسری شرط :*

عقیدہ توحید کا پایا جانا۔ میلادیوں کا عقیدہ ہے نبی وفات نہیں پائے ہیں وہ حاضر و ناظر ہیں ،
آپ ﷺ کو عالم الغیب مانتے ہیں،
آپ کو حاجت روا سمجھتے ہیں ،
ان کے علاوہ بہت سے کفریہ و شرکیہ عقائد ان کے یہاں پائے جاتے ہیں۔

*🔅تیسری شرط :*

عمل کا سنت کے مطابق ہونا۔ جشن عید میلاد النبی سنت کی مخالفت ہے کیونکہ سنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

*📃کلام آخر:*

یہ ہوا کہ جشن عید میلادالنبی منانا بدعت مروجہ ہے جو 625 ہجری میں ایجاد کی گئی ۔
اس میں حب رسول کی کوئی بات نہیں پائی جاتی ہے ،

*🔺یہ حب رسول کے نام پر سراسر دھوکہ ، فراڈ، دنیاطلبی، بدعات اور سیئات کوفروغ دینا ہے ۔*

*✨اللہ تعالی ہم سب کو محبت رسول کے اس جھوٹے دعوے اور جھوٹے دعویداروں سے بچائے ۔*
آمین

*•❀•┈•▪🌹▫🌹▪🌹▫•┈•❀*

*_🔖 پـــیـــشـــکـــش_*

*_🔮 ابـــو ســـعـــد_*
*_شـــیـــخ حــافــظ عـبــــد الــقیـــوم_*

*_📲ایـــڈ ہـــونے کـــے لـــیے رابـــطـــہ نـــمـــبـــر_*