Al Walaa walbarah


اسلامی عقیدہ کا اہم پہلو الوَلاء والبراء

وَلاء کے معنی بیان کرتے ہوئے امام راغبؒ نے فرمایاہے کہ ’ولائ‘ کے اصل معنی
’’دو یا دو سے زیادہ چیزوں کااس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ آئے جو ان میں سے نہ ہو۔ پھر یہ لفظ استعارہ کے طور پر قرب کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے، خواہ وہ قرب بلحاظ مکان ہو یا بلحاظِ نسب، یا بلحاظِ دین اور دوستی و نصرت کے ہو، یا بلحاظِ اعتقاد کے۔ ‘‘ (المفردات،ص۵۵۵)
اسی سے لفظ ’ولی‘ ہے جس کی ضد ’عدوّ‘ (دشمن) ہے اور اسی سے ’الموالات‘ اور ’المواسات‘ ہے جس کے معنی میں تقرب، دوستی، تعاون، مدد، صلح، اور غم خواری کا مفہوم پایا جاتاہے۔
وَلاء کے مقابلے میں بَراء ہے جس کے اصل معنی:کسی ناپسندیدہ اور مکروہ امر سے نجات حاصل کرنا کے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتاہے:
براء تُ من المرض’’میں تندرست ہوگیا، میں نے بیماری سے نجات پائی۔‘‘
اوریوں بھی کہا جاتا ہے:
براء تُ من فلان یعنی ’’میں فلاں سے بیزارہوں۔‘‘
گویا’ولائ‘ میں موالات ہے اور ’برائ‘ میں انقطاع اور بیزاری مراد ہے اور یہ دونوں حقیقۃً ’محبت‘ اور’بُغض‘کے تابع ہیں اور یہی دونوں ایمان کی بنیادی صفات ہیں۔ رسول اللہﷺ کاارشاد ہے :
’’من أحبّ ﷲ وأبغض ﷲ وأعطٰی ﷲ ومنع ﷲ فقد استکمل الإیمان‘‘
’’ جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے دشمنی ،اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے نہ دیا تحقیق اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحۃ:۳۸۰)
حضرت عبد اللہ بن عبا سؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’أوثق عری الإیمان،الموالاۃ في اﷲ والمعاداۃ في اﷲ والحب في اﷲ والبغض في اﷲ‘‘ (الطبراني؛ السلسلۃ الصحیحۃ : ۱۷۲۸)
’’ ایمان کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی ہو،اللہ کے لیے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ کے لیے بغض ہو۔‘‘
اللہ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ کے انبیاے کرام اوران کے اطاعت گزاروں سے محبت کی جائے اسی طرح اللہ اور اس کے انبیاے کرام کے دشمنوں سے دشمنی اورعداوت رکھی جائے اور ان کے نافرمانوں سے علیٰ حسب الدرجات بغض رکھاجائے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ نے فرمایا ہے:
’’علی المؤمن أن یعادي في اﷲ ویوالي في اﷲ فإن کان ھناک مؤمن فعلیہ أن یوالیہ، وإن ظلمہ، فإن الظلم لایقطع الموالاۃ الإیمانیۃ وإذا اجتمع في الرجل الواحد خیر وشر وفجور، وطاعۃ ومعصیۃ، وسنۃ وبدعۃ استحق من الموالاۃ والثواب بقدر ما فیہ من الخیر، واستحق من المعاداۃ والعقاب بحسب ما فیہ من الشر‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۲؍۲۰۸، ۲۰۹)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر مؤمنوں اور کافروں کے مابین موالات کی نفی کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
٭
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَإنَّہُ مِنْھُمْ} (المائدۃ:۵۱)
’’اے ایمان والو! یہود اور نصاری کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا۔‘‘
٭
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤمِنِیْنَ}
’’ اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ۔‘‘ (النسائ: ۱۴۴)
٭
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَائَ} [الممتحنۃ:۱]
’’مؤمنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لیے نکلے ہو تومیرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔‘‘
٭
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا اٰبَائَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَائَ اِنِ اسْتَحَبُّوْا الْکُفْرَ عَلَی الِایْمَانِ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُؤلٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ} (التوبہ:۲۳)
’’اے اہل ایمان! اگر تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھواور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں۔‘‘
٭
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِنَ الَّذِیْنَ أوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَائَ وَاتَّقُوْا اﷲَ إنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ} (المائدۃ: ۵۷)
اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو۔‘‘
اس موضوع کی اور بھی آیاتِ مبارکہ ہیں مگر یہاں استیعاب مقصود نہیں۔ اس اہم حکم نافرمانی کے نتیجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ
{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ إلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ} (الانفال:۷۳)
’’اور جو لوگ کافر ہیں

No comments:

Post a Comment