اسلام و علیکم
دعائے قنوت وترميں كوع كے بعد ياركوع سے پہلے احاديث صحيحہ اورآثارصحابہ كى روشنى ميں
اس بارے ميں دوطرح كے دلائل ملتے ہیں
نمبر1:كوع سے پہلے:يعنى دعاء قنوت كامقام سورہ فاتحہ اورسوره پڑہنے كے بعدركوع جانے سے پہلے ہے. اب انكے دلائل ملاحظه فرمائے:
[1] حضرت ابي بن كعب رضى اللہ عنہ فرماتے ہيں كہ نبى صلى الله عليہ وسلم ركوع جانےسے پہلے دعاء قنوت پڑہاكرتے تہے.[ابن ماجه حديث نمبر:1182.دارقطنى2/31.بيهقى3/41.ارواء الغليل2/167وصححه الباني.زادالمعاد1/334.].
[2] حضرت حسن بيان كرتے ہيں كہ مجہے نبى صلى الله عليہ وسلم نے دعاء قنوت سكہلائى كہ وتراداكرتے وقت قراءت سے فارغ ہواجاؤں تودعاء قنوت پڑہوں.[كتاب التوحيدلابن منده2/91].
[3] حضرت ابن مسعودفرماتے ہيں كہ ميں نے ايک رات الله كے رسول صلى الله عليہ وسلم كے پاس گذاراى توميں نے ديكہا كہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے ركوع سے قبل دعاء قنوت پڑہى.[دارقطنى2/32].
[4] حضرت ابن عباس فرماتے ہيں كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے تيں وتراداكئے اورركوع سے پہلے دعاء قنوت پڑہا.[بيهقى3/91] فائده:يه روايت مختلف فيہ ہےبس بطورتائيدواستشہادپيش كى گئى ہے.
[5]عاصم الاحول كہتے ہيں کہ ميں حضرت انس سے نمازميں قنوت كے بارے دريافت كيا توآپ نے فرمايا كہ ركوع سے پہلے ہےپہرميں نے كہا كہ فلاں شخص آپ سے بيان كرتاہے كہ قنوت ركوع كے بعدہےتوآپ نے كہا كه اس نے غلط كہا ہے ـ نبى صلى الله عليہ وسلم نے ركوع سے پہلے صرف ايک ماه قنوت فرمائى ہے ـ يہ اسوقت ہواجب مشركين نے وعدہ خلافى كرتے ہوئے سترقراء كوشہيد كردياتہا توآپ صلى الله عليہ وسلم نے صرف ايک ماه ان پربد دعاءفرمائى.[بخارى شريف].
آثـــــارصــحـــابـــــہ
[1] صحابہ ميں حضرت ابن عمر،على،ابن مسعو،ابوموسى اشعرى،انس بن مالک، براء بن عازب، ابن عباس رضى اللہ عنہم اسى طرح تابعين وغيره ميں سے عمربن عبد العزيز،عبيده، حميده الطويل اورابن ابى ليلى كے بارے ميں ثابت ہے كہ يہ سب قنوت قبل ازركوع پڑہنے كے قائل تہے.[ الكتاب: الجوهر النقي على سنن البيهقي3/41].
[1] حضرت ابن عمرنے ركوع سے پہلےدعاء قنوت پڑہى.[زادالمعادمع تحقيقه1/332وصححه].
[2] ابن مسعودہررات ركوع سے پہلے قنوت كرتے تہے.[ رواه ابن أبي شيبة في المصنف 2/302حديث نمبر6983إسناده صحيح 2/166وهذا سند جيد ،امام البانى نے كہ اس سند كى جيدهے وهو على شرط مسلم].
ابوبكرابن ابى شيبه اس روايت كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ يہى بات ہمارے نزديک معتبرہے.
[2] امام ابوحنيفه ، سفيات ثورى، ابن مبارک ، اوراسحاق بن راہويہ كايہى مذہب تہا.
نمبر2:دعاء قنوت ركوع كے بعد بہى ثابت ہے
امام بخارى نے اپنى صحيح ميں باب باندہا ہے(باب القنوت قبل الركوع وبعده) يعنى ركوع سے پہلے اورركوع كے بعد قنوت كابيان.
اس باب كے تحت امام بخارى نے چاراحاديث ذكركئے ہيں جن سے دعاء قنوت دونوں جگہ پڑہنا ثابت ہوتاہےـ قنوت نازلہ جواجتماعى مصائب كے وقت دعائيں كى جاتى ہيں ان ميں صحيح بخارى ومسلم سميت تمام كتب احاديث ميں ركوع كے بعددعاء قنوت ثابت ہے.[ارواء الغليل2/160،164].
[1] حضرت حسن فرماتے ہيں کہ نبى صلى الله عليه نے مجہے وترميں پڑہى جانى والى دعاء سكہلائى جس كو ميں اس وقت پڑہا كروں جب ميں ركوع سے سراٹہاؤں اور اس ركعت كے سجدوں کے سواكچہ باقى نہ بچاہو.[حاكم/3/173.بيهقى3/38،39.ارواء الغليل2/168].
علامہ البانى اس روايت كے متعلق فرماتے ہيں كہ يہ الفاظ ثبوت كے لحاظ سے محل نظرہے.[ارواء الغليل2/177].
[2] حافظ ابن حجرعسقلانى رحمہ الله تعالى لكہتے ہيں کہ ميں نے حافظ ابوبكراحمدبن حسين الاصفهانى كى مستخرج للحاكم كا دوسراجزءخودپڑہاہے يہ روايت وہاں اس سند كے ساتہ موجودہے ليكن الفاظ اسكے برعكس ہيں وہاں كے الفاظ يہ ہيں:
"أن اقول في الوترقبل الركوع"[التلخيص الحبير2/249].
حضرت حسن كہتے ہيں کہ ميں دعاء قنوت وترميں ركوع سے پہلے پڑہوں.
[3] حضرت انس رضى اللہ عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى الله عليہ وسلم ركوع كے بعددعاء قنوت پڑہاكرتے تہےاسى طرح حضرت ابوبكرصديق اورعمررضى الله عنہما كى خلافت ميں بہى ركوع كے بعد قنوت پڑہى جاتى تہى پہرجب حضرت عثمان كى خلافت آئى تو انہوں نے ركوع سے پہلے قنوت پڑہنا شروع كردياتاكہ لوگ مل جائيں.[تحفة الاحوذى2/566.نيل الاطار2/45.امام عراقى نے اس سندكوجيدكہاہے].
اس روايت ميں وتركے متعلق دعاء قنوت كى تشريح نہيں ہے.
يہ روايت تقريباسات طرق سے مروى ہے بيشترطرق ميں {صلاة الصبح،صلاة الفجر،صلاة الغداة}کے الفاظ ہيں جس كاواضح مطلب يہ كہ يہ نماز فجرسے متعلق ہے، جيساكہ ابن ماجہ ميں موجودہے:
"سئل عن القنوت في صلوة الصبح"[ابن ماجه حديث نمبر:1183].
آپ رضى الله عنہ سے نماز فجرميں قنوت كے متعلق سوال ہواتوآپ رضى الله عنہ نے مذكوره جواب ديا.
علماء سلف صالحين كى مختلف آرء
قنوت وتركے متعلق محدثين وفقہاءكے مختلف آراء ہيں ملاحظہ فرمائے:
[1] حافظ ابن حجرفرماتے ہيں:
"قنوت وترميں نبى صلى الله عليہ وسلم سے صحيح طورپريہى ثابت ہے کہ ركوع سے پہلے ہے البتہ صحابہ كرام رضوان الله عليہم اجمعين كا عمل اس سے كچہ مختلف ہے بظاہريہ معلوم ہوتا ہے كہ اس قسم كا اختلاف اپنے اندرجوازكاپہلو ركہتاہے يعنى دونوں ہى طريقے جائزہيں".[فتح البارى لابن حجر2/491].
[2] علامہ عبدرالرحمان مبارکپورى لكہتے ہيں
”وترميں قنوت ركوع سے پہلے اورركوع كے بعددونوں طرح جائز ہے ـ ميرے نزديک بہتريہ ہے كہ ركوع كے بعد كى جائے".[تحفة الاحوذى1/243].
[3] علامہ عبيدالله رحمانى فرماتے ہيں:
"قنوت دونوں طرح جائزہےـ البتہ ميرے نزديک بہتريہ ہے كہ ركوع سے قبل كياجائے، كيونكہ اس كے متعلق زياده احاديث منقول ہيں"[مرعاة المفاتيح3/214].
[4] علامه البانى فرماتے ہيں:
"نبى صلى الله عليہ وسلم جب كبہى وترميں دعاء قنوت پڑہتے توركوع سے پہلے قنوت فرماتے".
اسى طرح لكہتے ہيں:
صحابہ كرام رضى الله عنہم سے پايہ ثبوت كے ساتہ جوصحيح بات منقول ہے وه يہ کہ وترميں دعاء قنوت ركوع سے پہلے پڑہى جائے".[ارواء الغليل2/162.صفة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم ص نمبر:179جديدطبع],
البتہ اگردعاء قنوت كوقنوت نازلہ كى شكل دى دے جائے توركوع كے بعد جوازكى گنجائش ہے كيونكہ ايساكرناصحابہ كرام سے ثابت ہے.
مختصريہ كہ ركوع سے پہلے ياركوع كے بعد دونوں جگہوں ميں سے جہاں جہاں بہى كوئى دعاء قنوت پڑہ لے توجائزہے ليكن ركوع سے پہلے زياده بہترہےجيساكہ ابن حجرعسقلانى لكہتے ہيں کہ حضرت انس رضى الله عنہ سے قنوت كے بارے ميں جتنى روايات آئى ہيں ان تمام روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ قنوت نازلہ توبلاخلاف ركوع كے بعدہهے اوربغيرحاجت كے جوعام دعائے قنوت وترميں ہے وه ركوع سے پہلے ہى صحيح ہے اگرچہ صحابہ كرام كا اس بارے ميں اختلاف ہے.[فتح البارى2/491].
فائده: بہرحال قنوت وتر دونوں ہى طرح پڑہنا ثابت ہے اس ميں اختلافى نوعيت پيداكرنا اچہى بات نہبيں الله تعالى سے دعاء ہے كہ وه تمام مسلمانوں كواختلافات سے بچائے اورآپس ميں اتحاد واتفاق كى توفيق عطافرمائےآمين. هذاماعندي الله
منقول
أقرب الى السنة ركوع سے قبل ہى هے اور قنوت نہ پڑھنے سے بھی نماز درست ہے کیونکہ اکثر روايت ميں قنوت كا ذكر نہیں ہے اور جسكو دعا ياد نهيں اسكو ياد كرنى چاهيے
ايسے ہى دعائے قنوت كيوقت ہاتھ اٹهانے اور نہ اٹهانے كا احاديث ميں كوئی ذكر نهيں ہے جبكہ دعا قنوت كيوقت رفع اليدين كر كے دوباره ہاتھ باندهنے كا بهى كوئی ثبوت نهيں یے
وتر 1- 3- 5- 7 عدد ميں جو دل چاهے پڑہ سكتا هىے تين ركعت وتر پڑهنے هوں تو دو ركعت كے بعد تشهد نہ پڑھے بلكه دو ركعت كى بعد کهڑا ہو جائے يا دو ركعت كے بعد سلام پهرے اور تيسرى ركعت عليحدہ پڑہے
اسى طرح كسى بهى دعا ميں دعا كى بعد چہرے پر ہاتھ پهرنا ثابت نهيں
والله اعلم
JaZa KALLAH Khaira
No comments:
Post a Comment