Hindu rashtr

[26/01 10:17 AM] aqisaiyed: معروف بھارتی مؤرخ گیا نیندر پانڈے نے شری ابھے کمار دوبے کی تالیف کردہ ہندی کتاب ۔سامپر دایکتا کے ستروت(فرقہ واریت کے مآخذ )1993میں شایع اپنے مضمون ۔ہم میں سے ہندو کون ہیں ۔میں لکھا ہے کہ’ہندو راشٹر‘اصطلاح کی تاریخ 1920کے دہے سے قبل کہیں نظر نہیں آتی ۔ اس اصطلاح کا اولین استعمال سوامی شردھا نند کی کتاب ۔ہندو سنگھٹن :سیویر آف دی ڈائینگ ریس(ہندو تنظیم
ایک قریب ا لمرگ نسل کی محافظ )1924میں ملتا ہے ۔ان سے قبل کے برہمن مصلحین بال گنگا دھر تلک اور سوامی دیا نند سرسوتی کی تحریریں بھی اس سے خالی ہیں ۔ ہاں اس کے بعد دامودر ونایک ساورکر اور ایم ایس گول والکر کی تحریروں میں یہ اصطلاح مزید وضاحتوں کے ساتھ نظر آتی ہے ۔ لفظ ہندو راشٹر کا یہ تصور کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے سب سے پہلے سوامی شردھا نند کی مذکورہ کتاب ہی میں نظر آتاہے ۔ ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ لفظ ہندو ۔ ہندی ،سنسکرت یا پالی نہیں فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے متعدد معانی میں سے ایک سیاہ،کالے رنگ والا بھی ہیں ۔خواجہ حافظ شیرازی کی ایک غزل کا مشہور مصرع ہے کہ :بخال ِ ہندووش بخشم سمر قند و بخارا را یعنی میں نے اس کے سیاہ تل پر سمر قند و بخا را بخش دیے۔سوامی شردھا نند کو اپنے پیشرو اور بعد میں آنے والے برہمن مفکرین اور مصلحین کی طرح یہ فکرستارہی تھی کہ جو کام مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں نہیں کیا تھا وہ انگریزوں نے اپنے ساٹھ ستر سال کے دور حکومت میں کر دکھایا تھا کہ شودروں اور اچھوتوں پر ہزاروں سال سے بند تعلیم کے دروازے انہوں نے کھول دیے تھے اور اس بیداری کا پہلا نتیجہ یہ ہواتھا کہ دلتوں نے برہمنی دھرم کی بیڑیوں کو توڑ کر اسلام اور عیسائیت کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا ۔دلتوں میں بابا صاحب اَمبیڈکر ،جیوتی با پھولے اور راما سوامی پیریار وغیرہ مصلحین کے فروغ کا سہرا ،اَنگریزوں کی اِسی فراخدلی کے سر ہے! اِن برہمن مصلحین کی پریشانی کا سب سے بڑا سبب بابا صاحب امبیڈکر تھے جنہوں نے 13اکتوبر 1935کو یہ تاریخی اعلان کیا کہ’’میں ہندو دھرم میں پیدا ہوا تھا یہ میرے بس کی بات نہیں تھی لیکن میں ہندو رہتے ہوئے نہیں مروں گا ،یہ میرے بس کی بات ہے ۔ ۔پھر انہوں نے 31 مئی 1936کو بمبئی میں مہار دلت پریشد بلا کر اپنے دلت بھائیوں کو تفصیل سے یہ بتایا کہ انہیں کیوں اپنا مذہب تبدیل کرنا ہے ۔ انہوں نے یہ تقریر مراٹھی میں کی تھی لیکن اب ہندی اردو اور انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں اس تاریخی تقریر کے ترجمے موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ۔۔(دلتوں پر ہونے والے )یہ مظالم ایک سماج پر دوسرے سماج کے ذریعے ہونے والے مظالم اور نا انصافیوں کا معاملہ ہیںیہ صرف ایک انسان پر دوسرے انسان کے ذریعے ڈھائے جانے والے مظالم یا نا انصافیوں کا معاملہ نہیں ۔ یہ ایک طبقے پر دوسرے طبقے کی جانب سے ہونے والے ظلم ،زبردستی ،نا انصافی،استحصال اور استیصال کا سوال ہے ۔ دلتوں پر یہ ظلم ہندو دھرم کے نام نہاد اعلی ذات والے کرتے ہیں ۔ اس لیے نہیں کہ دلت ان کا کچھ بگاڑ رہے ہیں بلکہ اس لیے کہ دلتوں پر ظلم کرنا وہ اپنا مذہبی حق سمجھتے ہیں جو ان کے (منو اسمرتی جیسے ) دھرم گرنتھوں نے انہیں دے رکھا ہے ۔ دلتوں کو اگر اس ظلم سے نجات حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے انہیں قوت حاصل کرنا ضروری ہے‘‘۔ بابا صاحب امبیڈکر نے اپنی اس مشہور تقریر میں کہا کہ’’ہندو دھرم ہمارے پوروجوں کا دھرم نہیں ان پر زبر دستی تھوپی گئی غلامی تھی۔ اِس غلامی سے نجات کے لیے ضروری قوت اُن کے پاس نہیں تھی لیکن آج ہمارے پاس وہ قوت ہے اب ہم غلامی کی ان زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں لہذا اگر آپ کو انسانیت سے محبت ہے ،اگر آپ سماج میں برابری سے جینے کا حق چاہتے ہیں ،اگر آپ زندگی میں کامیابی اور آزادی چاہتے ہیں تواس کا واحد حل یہی ہے کہ آپ اپنا مذہب تبدیل کر لیجیے ‘‘۔
اس کے بعد بابا صاحب امبیڈکر نے اپنی تقریر میں عیسائیت ،اسلام اور سکھ مذاہب کا تفصیلی موازنہ پیش کیااور یہ ثابت کیا کہ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو دلتوں کو ان کے تمام انسانی حقوق واپس دلا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے بعد کے بیس برسوں میں کیا کچھ ہوا اور ان پر کس کس طرح کے دباؤ پڑے اس کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے ۔بالآ خر 14 اکتوبر 1956کو اپنے ہزاروں پیرووں کے ساتھ انہوں نے ہندو دھرم سے ناطہ توڑ کر بودھ دھرم اختیار کر لیا ۔حالانکہ اگر وہ مسلمان ہو گئے ہوتے اور تبدیلی مذہب میں انہوں نے اتنا زیادہ وقت نہ لیا ہوتا اور ملک کی آزادی سے قبل ہی اپنے تمام ماننے والوں کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہوتا تو اول تو اُن کے ساتھ ہزاروں نہیں ، لاکھوں بلکہ کروڑوں دلت مسلمان ہو گئے ہوتے اوردوسرے یہ کہ آج حالات یکسر مختلف ہوتے ‘‘ ۔ آج بھی مسلمانوں کے لیے کرنے کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ اپنی تمام انفرادی اور اجتماعی غلطیو ں کا اعتراف کرتے ہوئے ا
[26/01 10:23 AM] aqisaiyed: اللہ سے استغفار کریں اور باہمی نفاق و افتراق کو چھوڑ کر متحد ہو جائیں ،قرآنی حکم کے مطابق حصول قوت کریں کہ ۔عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار ِ بے بنیاد ! اور صرف اپنے لیے جینے کے بجائے تمام مستضعفین فی ا لا رض کے فلاح و بہبود کے لیے جئیں ،خود بھی سچ بولیں ، سچوں کے ساتھ رہیں اور موت کا خوف دل سے نکال دیں کہ سچے ہونے کا قرآنی معیار یہ ہے کہ وہ موت کی تمنا کرتے ہیں ،موت سے ڈرتے نہیں اگر ہم یہ سب کرتے ہیں تو اللہ کی مدد پھر ہمارے شامل حال ہو سکتی ہے ورنہ وہ غنی ہے، وہ جس سے چاہے اپنے کام لے سکتا ہے -دنیا کو تو بہر حال ظلم و دہشت کی انتہا تک پہنچ کرکامل انصاف اور دائمی امن کی طرف پلٹنا ہے ۔اور دنیا کے تمام جھوٹوں ،منافقوں خود غرضوں اور ظالموں کو بہت جلد معلوم ہو جانے والا ہے کہ انہوں نے کتنی بری کمائی کی ہے ۔و سیعلمو ا ا لذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔!
(بصیرت فیچرس)

No comments:

Post a Comment