سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 10..
درحقیقت مشرکین مکہ و عرب ان بتوں کو معبود حقیقی نہیں مانتے تھے بلکہ وہ اللہ کو ھی واحد معبود حقیقی مانتے تھے.. وہ ان بتوں کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا سفارشی تصور کرتے تھے اور وہ ان بتوں کی تعظیم و عبادت اس اعتقاد کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ ان کو اللہ سے قریب کردیں گے.. دوسرا وہ تصور کرتے تھے کہ ان بتوں کو خدائی صفات میں سے قوتیں اور طاقتیں حاصل ھیں لیکن بہرحال حقیقی رازق و مالک وہ اللہ کو ھی مانتے تھے.. دراصل مشرک ھوتا ھی وھی ھے جو اللہ کو مان کر پھر اس کی ذات , صفات یا عبادت میں کسی اور کو شریک کرے..
ان مشرکانہ عقائد کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرکین مکہ بری طرح سے توھم پرستی کا شکار ھوگئے.. وہ بات بات سے نیک و بد شگون لیتے اور پھر برے شگون سے بچنے کے لیے کاھنوں کی خدمات حاصل کرتے.. اس طرح کاھنوں کا جنتر منتر اور ٹوٹکوں کا کاروبار خوب چمکا ھوا تھا.. کاھن لوگ جنوں بھوتوں کے مطیع ھونے کا دعو'ی کرتے اور لوگوں کو جھوٹی سچی غیب کی خبریں دیتے تھے.. شرک و بت پرستی میں ڈوبے یہ عرب انتہا درجے کے رسوم پرست تھے اور جاھلانہ رسوم و رواج کا ایک طویل سلسلہ ان کے ھاں رائج تھا..
ان کی بت پرستی اور توھم پرستی کی بعض نہائت مضحکہ خیز پہلو بھی مؤرخین نے بیان کیے ھیں مثلا" سفر پر روانہ ھوتے تو ایک پتھر جیب میں ڈال لیتے.. راستے میں اگر کوئی اور اچھا پتھر مل جاتا تو پہلے "خدا" کو جیب سے نکال کر پھینک دیتے اور نئے "خدا" کی پرستش شروع کردیتے..
اگر روانگی کے وقت پتھر ساتھ لینا بھول جاتے تو راستے میں جس منزل پر رکتے تو وھاں سے ھی چار پتھر تلاش کرتے.. تین کا چولہا بناتے اور چوتھے کو معبود بنا لیتے.. اگر کہیں پتھر نہ ملتے تو مٹی اور کنکریوں کا ایک ڈھیر جمع کرکے اس پر بکری کا دودھ بہاتے اور پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ھوجاتے..
ذوق بت پرستی صرف پتھر تک محدود نہ تھا.. لکڑی اور مٹی کے بھی بت بناۓ جاتے.. ایک مرتبہ بنو حنیفہ نے کجھوروں کے ایک ڈھیر کی عبادت شروع کردی.. اسی اثناء میں قحط پڑ گیا.. جب کھانے کو اور کچھ نہ ملا تو سب نے مل کر اپنے "خدا" کو ھی کھا کر ختم کردیا..
یوں خانہ کعبہ جو زمین پر اللہ کا سب سے قدیم اور مقدس ترین گھر ھے مشرکین کے ھاتھوں شرک و گمراھی کا گڑھ بن چکا تھا.. اھل مکہ کے نذدیک سب سے اھم بت لات , منات , عزی' اور ھبل سمیت لگ بھگ تین سو ساٹھ چھوٹے بڑے بت تھے جو حرم کعبہ میں نصب تھے.. عرب ان کی پوجا بھی کرتے اور ان پر قربانیاں بھی پیش کرتے.. حج کے دنوں میں یہ کفر و ضلالت کے مناظر اور بڑھ جاتے جب حج کو آنے والے ننگے ھو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے.. بتوں کے آگے فال نکالنے والے پانسے پھینکے جاتے اور نذریں مانی جاتیں..
غرضیکہ شیطانیت سرزمین عرب پر اپنی انتہا کرچکی تھی اور عرب قوم شرک و گمراھی میں پستی کے جس مقام پر پہنچ چکی تھی اس سے آگے کوئی اور پست مقام نہ تھا.. اب اللہ کی شان رحمانیت کی باری تھی.. چنانچہ انہی مشرکین کے بیچ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرکے شرک و کفر کے بت پر وہ کاری ضرب لگائی کہ روۓ زمین کے چپہ چپہ پر توحید و واحدانیت کے چراغ روشن ھوگئے..
کبھی نہ بجھنے کے لیے !!
اگلی قسط میں ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت سرزمین عرب میں رائج باقی مذاھب کا ایک مختصر تذکرہ کیا جاۓ گا..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھمااللہ
منقول؛ڈاکٹر زبیراحمدحفظہ اللہ
الداعی الی الخیر؛عبدالستار
No comments:
Post a Comment