حرام روزی کی تباہ کاریاں
مادہ پرستی کی دوڑ میں انسان حلال وحرام کا خیال کیے بنا زیادہ سے زیادہ مال ودولت اور عیش وآرام حاصل کرنا چاہتا ہے ۔کم وبیش یہی حالت اس ملت کے افراد کی بھی نظرآتی ہے جو اس بات پر ایمان اور یقین رکھتی ہے کہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ہے اور اپنی زندگی کا حساب احکم الحاکمین خدا کو دینا ہے۔ اسلام کو ماننے والی یہ امت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی نظر آتی ہے کہ اسلام نے بغیر کسی ابہام اور اجمال کے بڑے واضح انداز میں حرام روزی کی مذمت کی ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے نتائج بدسے آگاہ کر دیا ہے ۔اس کے با وجود بہت سے لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔اس کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دنیا میں ملت اسلامیہ کو جن سنگین حالات کا سامنا ہے وہ ان حالات کے دوسرے اسباب تو تلاش کرتی ہے مگر اس کا ذہن اس طرف نہیں جاتا اور اگر جاتا بھی ہے تو کم ہی جاتا ہے کہ کہیں ہماری بدحالی ،رسوائی و ذلت کی ایک وجہ ہماری حرام روزی تو نہیں ہے ۔اللہ نے قرآن مجید میں بغیر کسی تمہید کے صاف صاف خبردار کردیا ہے –
وَیْْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ۔ الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ۔وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ۔ أَلَا یَظُنُّ أُولَءِکَ أَنَّہُم مَّبْعُوثُونَ۔ (سورۃ المطففین :آیات :۱۔۴)
ترجمہ: ’’تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے، جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں ۔کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن (قیامت کے دن )یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں ‘‘۔
یہ آیات کریمہ صرف ترازو سے تولنے ناپنے والی اشیاء کے بارے میں خبر دار نہیں کررہی ہیں بلکہ ہر اس معاملے میں متنبہ کر رہی ہیں جن میں دو افراد یا دو پارٹیوں کے درمیان لین دین کا معاملہ ہو رہا ہو۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ناپ تول میں کمی کرنے ،لوگوں کے ساتھ نا انصافی کرنے ،لوگوں کا حق مارنے اور حرام طریقے سے روزی کمانے کی نہ صرف سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے بلکہ صاف طور پر اس حقیقت سے خبردار کیا ہے کہ ایسا رویہ دنیا میں بے برکتی اور فساد کا ذریعہ بنتا ہے اور آخرت میں خدا کی پکڑ اور اس کے عذاب کا باعث بھی بنے گا ۔سورہ ہود میں تفصیل سے فرمایا :
وَإِلَی مَدْیَنَ أَخَاہُمْ شُعَیْْباً قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَہٍ غَیْْرُہُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِنِّیَ أَرَاکُم بِخَیْْرٍ وَإِنِّیَ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ۔ وَیَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْن۔ (آیات: ۸۴۔۸۵)
ترجمہ: ’’ہم نے (اللہ نے )مدین بستی کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا ۔اس نے کہا :اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرو ،اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو ،آج میں تمہیں اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا ،جس کا عذاب سب کو گھیرلے گا۔ اے لوگوں !ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیز وں میں گھاٹا نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘‘
ان آیات کریمہ پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ یہاں بات صرف ان چیزوں ہی کے بارے میں نہیں فرمائی جا رہی ہے جو ل تول کر یا ناپ کر لی اور دی جاتی ہیں ۔بلکہ ان کا صاف منشا یہ ہے کہ لوگوں یا اداروں کے ساتھ ہمارا جو معاملہ بھی طے ہو اس میں کسی فریق کی حق تلفی نہ ہو ۔ان آیات کے دائرے میں ملازمین بھی آجاتے ہیں اور کا ریگر و مزدور بھی ۔وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو اپنی فنی اور قانونی خدمات دیتے ہیں اور وہ بھی جو تجارت اور کاروبار کرتے ہیں ۔ان آیات میں صاف طور پر واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ طریقہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا و آخرت کی آفات ومصائب کا آنا لازمی ہے
اللہ تعالی نے سورہ نساء میں صاف طور پر فرمایا ہے کہ مسلمانو!ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر نہ کھاؤ۔ ایسا کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔یہ رویہ دنیا میں تو مہلک ہوتا ہی ہے آخرت میں عذاب جہنم کی وجہ بھی بنے گا ۔
قرآن پاک کی ہدایات کی روشنی میں نبی رحمت حضرت محمد ؐ نے حرام روزی اور اس کوحاصل کرنے کے مختلف طریقوں کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے تاکہ اپنے پیغمبر ؐ سے عشق و محبت کا دعوی کرنے والی یہ امت ہوش کے ناخن لے اور اپنے محبوب پیغمبر کی باتوں اور ہدایتوں کا احترام کرے ۔اللہ نے اپنے پیغمبر ؐ کے متعلق ایک اصولی بات یہ فرما دی ہے کہ ’’رسول جو کچھ تمہیں دے اسے پکڑ لو اور جس چیز سے تمہیں روکے اس سے رک جاؤ ۔‘‘اسی ہدایت کی روشنی میں اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا، ’’میری امت کا ہر فرد جنت میں جائے گا سوائے اس کے جو انکار کرے ‘‘۔ پوچھا گیا آپ کا انکار کون کرے گا ؟فرمایا ،جو میری اطاعت کرے گا جنت میں داخل ہوگا اور جومیری نافرمانی کرے گا مانو اس نے انکار کر دیا ۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ پوری زندگی میں نبی ؐ کی ہدایات کی پیروی لازمی ہے ۔ہم یہاں حرام روزی سے بچنے کے سلسلے میں آپ ؐ کی کچھ ہدایتوں کا تذکرہ کریں گے ۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ’’ اللہ کے رسول ؐ نے ہمیں کاروبار اور تجارت میں دھوکہ دینے سے منع فرمایا ہے، نیز ناقص اور خراب مال بیچنے سے بھی روک دیا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۲۲۵۰)
ایک بار پیارے نبی ؐ بازار تشریف لے گئے۔ وہاں آپ ؐ نے اناج کا ایک ڈھیر دیکھا ۔آپؐ نے اس ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر کچھ غلہ اٹھایا ۔آپ ؐ نے دیکھا کہ اندر کا غلہ گیلا ہے ۔آپ ؐ نے دوکاندار سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟۔اس نے کہا کہ بارش میں اناج بھیگ گیا تھا ،میں نے گیلا اناج نیچے کر دیا اور سوکھا اوپر۔ پیارے نبی ؐ نے اس بات کو سخت ناپسند کیا اور فرمایا کہ ’’جو اس طرح کی دھوکہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ۲۳۰۳)
آج ہمارے کتنے ہی مسلمان تاجر نبی ؐ کی اس ہدایت کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اپنے دین و ایمان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔یہ سب حرکتیں کر کے بھی ہم مسلمان بنے ہوئے ہیں ۔نہ ہمارے ایمان پر کوئی آنچ آتی ہے اور نہ ہماری مسلمانیت پر ۔
نبی ؐ نے ایک بار مسلمانوں سے فرمایا کہ ’’کاروبار اور تجارت میں قسم نہ کھایاکرو ۔اس لئے کہ ایسا کرنے سے برکت ختم ہوجاتی ہے ۔‘‘(ابن ماجہ ۲۲۸۶)
ایک بار تو آپ ؐ نے دھوکہ دینے کے لئے قسم کھا کر مال بیچنے والوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی کہ ’’حشر کے دن اللہ تعالی ایسے شخص سے نہ بات کرے گا اور نہ اس کی طرف نظرالتفات فرمائے گا۔ ایسے شخص کی نہ مغفرت ہوگی اور نہ وہ جنت میں داخل ہوگا ۔‘‘(صحیح مسلم)
نا جائز اور حرام مال کی تباہ کاری اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیں ۔ایک بار نبی ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے اور اس نے اس سلسلے میں جو حکم اپنے پیغمبر وں کو دیا ہے وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے ۔پیغمبر وں سے اس نے فرمایا ،اے پیغمبرو! تم پاک ،حلال غذا کھاؤ اور عمل صالح کرو ۔اس نے(خدا نے) اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے ایمان والو تم ہمارے رزق میں سے حلال و طیب کھاؤ ،اور حرام سے بچو۔
اس کے بعد نبی ؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کر کے کسی مقدس مقام پر اس حال میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم و کپڑوں پر غبار ہے(یعنی خوب مشقت اور تکلیف اٹھا کر وہاں پہنچتا ہے۔) اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتا ہے: اے میرے رب ،اے میرے رب (مگر اس کی دعا قبول نہیں ہوتی )،اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے ،اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور حرام غذا سے وہ پلا بڑھا ہے ۔نبی ؐ نے فرمایا کہ اس شخص کی دعا کیسے قبول ہوگی ۔
آج ہماری مساجد میں اور دینی اجتماعات میں خوب لمبی لمبی دعائیں مسلمانوں کی خوش حالی کے لیے مانگی جاتی ہیں ۔مگر بے سود ،ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔نبی ؐ رحمت نے ہمیں پہلے ہی اس سے آگاہ کر دیا ہے ۔مگر ہمیں اپنے نبی ؐپر اعتماد کب ہے ؟۔
نبی ؐ نے تجارت کی بڑی افادیت اورفضیلت بیان فرمائی ہے اور اسے بہت برکت والی چیز بنایا ہے۔ لیکن آپ ؐ نے ان تاجروں کو آخرت کی پکڑ سے خبردار کرادیا ہے جو اپنی تجارت میں جھوٹ ،فریب ،دھوکہ اور خدا کی نافرمانی سے پرہیز نہیں کرتے اور منافع کمانے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس رویہ سے نہ ان کی نماز یں انہیں باز رکھتی ہیں اور نہ روزے ۔فرمایا: ’’قیامت کے روز تاجروں کا حشر فاجروں کے ساتھ ہوگا۔ سوائے ان تاجروں کے جنہوں نے تقوی اختیار کیا،پورا حق ادا کیا اور سچائی کا معاملہ کیا ‘‘۔(سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ، مسند امام دارمی)
اس کے برعکس آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’امانت دار سچے تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے ‘‘۔
ناپ تول میں گڑ بڑی اور معاملات میں دھوکہ دہی نہ صرف آخرت میں سزا کا موجب ہے بلکہ اس کی وجہ سے دنیا میں بھی تباہی آتی ہے ۔حضرت شعیب کی قوم اسی خرابی کے سبب ہلاک کی گئی ۔حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبی ؐ نے ناپنے تولنے والوں سے فرمایا: ’’تمہارے پاس دو کام ایسے ہیں (یعنی ناپنے اور تولنے کے کام )جن میں گڑ بڑی کے سبب تم سے پہلے کی قومیں ہلاک ہو چکی ہیں ‘‘۔(سنن ترمذی)
ہم مسلمانوں کو اپنی پریشانی ،تباہی اور بربادی کا جائزہ لیتے وقت اس سبب پر بھی غور کرنا چاہئے ۔
پیارے نبی ؐ نے فرمایا :
’’جس شخص نے اپنی (جھوٹی)قسم کے ذریعے سے کسی مسلمان کا حق غصب کر لیا، اللہ نے اس کے لئے جہنم کی آگ واجب کردی اور جنت اس پر حرام کردی ۔‘‘ (اس پر )ایک شخص نے پوچھا اگر چہ وہ کوئی معمولی چیز ہو (جسے غصب کیا ہے )نبی ؐ نے فرمایا: ’’اگر چہ وہ پیلو کے پیڑ کی ایک لکڑی (مسواک )ہی کیوں نہ ہو ‘‘۔(صحیح مسلم )
ایک دوسرے موقع پر نبی ؐ نے فرمایا :
’’جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین ناجائز طریقے سے غصب کرتا ہے، قیامت کے روز اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ۔‘‘
بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج نہ جانے کتنے ہی لوگ ہیں جو دوسروں کی زمینوں اور جائدادپر ناجائز قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور ان کو اپنے اس جرم کی سنگینی کا بالکل احساس نہیں۔
کسی دوسرے کی چیز ،زمین یا جائداد وغیرہ کوکسی آفیسر یا جج وغیرہ کو رشوت دے کر اپنے نام کرالینا یہ بھی نہایت گھناؤنی اور مہلک حرکت ہے ۔اسی لئے نبی ؐ نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔(سنن ابو داؤد ،سنن ابن ماجہ )
سودی لین دین کے ذریعے جو آمدنی ہوتی ہے اس کی بھی قرآن و حدیث میں سخت مذمت بیان ہوئی ہے نبی ؐ نے تو سود لینے ،سود دینے ،سودی معاملے میں کسی بھی طرح تعاون کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
جس پر اللہ کے نبی ؐ لعنت فرمادیں اسے دنیا و آخرت میں رسوائی اور ہلاکت سے کون بچا سکتا ہے !
عام طور پر حرام طریقے سے مال و دولت حاصل کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ آدمی کے بال بچے آرام سے زندگی گزاریں۔اور یہ اس لئے کہ انہیں ان سے بڑی محبت ہوتی ہے ۔مگر وہ نہیں جانتے کہ ان کی محبت میں وہ جو غلط حرکت کر رہے ہیں اس سے دراصل وہ اپنے بال بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔نبی ؐ نے فرمایا ،‘‘جس جسم کی پرورش حرام مال سے ہوئی وہ جنت میں داخل نہ ہو سکے گا ۔‘‘(بیہقی فی شعیب الایمان )
قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ حرام روزی کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں ۔آج چاہے وہ اسے محسوس نہ کریں لیکن کل قیامت کے دن انہیں اس کا احساس ہو گا ۔
ان تعلیمات کا اثر تھا کہ ہمارے اسلاف نے اس بات کی بھر پور کوشش کی کہ حرام کا لقمہ نہ ان کے شکم میں جانے پائے اور نہ ان کے بال بچوں کے پیٹ میں۔
ایک بار حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے ایک ساتھی کی دی ہوئی کوئی چیز کھالی ۔مگر جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ یہ چیز ناجائز اور حرام طریقے سے حاصل کی گئی ہے تو انہوں نے حلق میں انگلی ڈال کر اسے قے کر کے باہر نکال دیا۔
اسی طرح ہمارے ایک اسلامی خلیفہ نے دیکھا کہ ان کا ایک بچہ سرکاری بیت المال سے ایک پھل اٹھا کر کھا رہا ہے ،انہوں نے فوراً اس سے وہ پھل چھین لیا اور اپنے اہل خانہ کو متنبہ کیا کہ اس طرح بیت المال کی چیز استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنا ہے ۔
روزی کے بارے میں حرام و حلال کا ہی لحاظ تھا تب ہی تو ان حضرات نے دنیا میں نہ صرف عزت پائی بلکہ اسلام کا بول بالا کیا ۔یہ حضرات اپنے کاروبار کے سلسلے میں جس جگہ یا جس ملک میں بھی گئے وہا ں کے باشندے ان کی ایمانداری کو دیکھ اس قدر متأثر ہوئے کہ دین رحمت، اسلام کی آغوش میں آگئے۔ اگر دعوتی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ اسلام کے فروغ اور اشاعت میں ان ایماندار مسلم تاجروں کا بڑا اہم رول رہا ہے ۔خود ہمارے ملک ہندوستان میں بھی انہیں مسلم تاجروں کی ایمانداری اور کردار سے متأثر ہوکر یہاں کے باشندوں نے اسلام قبول کیا ۔
اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ جو لوگ کاروبار اور اکتساب معاش میں حرام اور ناجائز طریقے اختیار کرتے ہیں وہ نہ صرف دنیا و آخرت میں اپنی اور اپنے بچوں کی تباہی کا سامان کرتے ہیں بلکہ بندگان خدا کی ہدایت کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ بنتے ہیں ۔
نسیم غازی فلاحی، سکریٹری اسلامک ساہتیہ ٹرسٹ، دہلی، موبائیل نمبر: 9213134150
No comments:
Post a Comment